Wednesday, July 27, 2016

Erdogan’s Nuclear Coup Against The Military Coup

Erdogan’s Nuclear Coup Against The Military Coup
Turkey Is Becoming An Islamic State From A Secular State, In The Midst Of The War Against The Islamic State

مجیب خان
Turkish President Erdogan

Failed Turkey Coup Plottors

Police Arresting Those Accused Of Being Involved In The Failed Coup

Pro-Erdogan Supporters

        امریکہ کی قیادت میں ISIS) ("اسلامی ریاست" کے خلاف اتحادیوں کی جنگ کی یہ ایک بڑی کامیابی ہے کہ ترکی  سیکولر ریاست سے اسلامی ریاست بن رہا ہے۔ اور ترکی کو اسلامی ریاست بنانے کے خلاف فوجی انقلاب بھی اب ناکام ہو گیا ہے۔ با ظاہر فوجی انقلاب کا مقصد ترکی کے سیکولر آئین کو بحال رکھنے کے اقدام میں تھا۔ ترکی کے آئین کی حفاظت فوج کے فرائض میں شامل ہے۔ اس آئین نے ترکی کو استحکام دیا ہے۔ ترکی کو ایک مہذب معاشرہ بنایا ہے۔ جس کی وجہ سے ترکی کو مغربی طاقتوں کے کلب میں ایک با وقار مقام ملا ہے۔ اور اس آئین میں ترکی کے لوگوں کو اقتصادی اور معاشرتی خوشحالی ملی ہے۔ سلطنت عثمانیہ کے بعد پہلی مرتبہ ترکی کو اسلامی دنیا میں قیادت کا مقام ملا تھا۔ ترکی نے یہ سب ایک سیکولر آئین میں حاصل کیا تھا۔ سیکولر آئین کا مطلب یہ نہیں تھا کہ ترکی میں لوگ خدا پر ایمان نہیں رکھتے تھے۔ اور انہیں اپنے مذہبی فرائض ادا کرنے کی اجازت  نہیں تھی۔ ایک سیکولر آئین نے ترکی کے لوگوں کو اچھا اور با اخلاق مسلمان بنایا ہے۔ جبکہ جن اسلامی ملکوں کے آئین اسلامی ہیں۔ ترکی کے مسلمان ان ملکوں کے مسلمانوں کے مقابلے میں زیادہ پر امن اور مہذب ہیں۔ اور معاشرتی طور پر بھی ترکی ان ملکوں کے مقابلے میں بہت بہتر اسلامی معاشرہ ہے۔ لیکن ترکی سیکولر ریاست سے اب اسلامی ریاست بننے جا رہا ہے۔ اور یہ تشویش کی بات ہے۔
      صدر طیب اردو گان ترکی کو اب بدل رہے ہیں۔ اس کا سیکو لر نظام بدل رہے ہیں۔ اس کی لبرل سیاست میں تبدیلیاں لا رہے ہیں۔ ترکی کو ایک مذہبی قدامت پسند معاشرہ بنا رہے ہیں۔ ترکی کی خارجہ پالیسی میں تبدیلیاں کر رہے ہیں۔ خطہ کے سیاسی اختلافات اور تنازعوں میں ترکی کا رول تبدیل ہو رہا ہے۔ ان تبدیلیوں کے عمل میں ترکی خطرناک حد تک عدم استحکام ہو رہا ہے۔ صدر طیب اردو گان 2003 سے 2014 تک ترکی کے وزیر اعظم تھے۔ اور ان 11 برسوں میں صدر اردو گان نے ترکی کی سیاست میں اپنی مذہبی نظریاتی بنیادیں خاصی مستحکم کر لی ہیں۔ اور 2014 میں اردو گان ترکی کے صدر منتخب ہو گیے تھے۔ صدر بننے کے بعد اردو گان حکومت نے گزشتہ دو سال میں علاقائی انتشار کے سلسلے میں جو سیاسی فیصلے کیے ہیں۔ وہ ترکی کے استحکام، سلامتی اور مفاد میں تباہی کا سبب بنے ہیں۔ سابق صدر عبداللہ گل کے دور میں جس میں طیب اردو گان وزیر اعظم تھے۔ ترکی نے بہت مثبت فیصلے کیے تھے۔ خطہ کی جنگوں اور تنازعوں میں اتحادی بن کر ترکی کو Controversial نہیں بنایا تھا۔ عراق پر حملہ کی ترکی نے مخالفت کی تھی۔ اور اس جنگ میں امریکہ سے تعاون کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ ترکی میں نیٹو کے فوجی اڈوں کو عراق کے خلاف استعمال کرنے کی اجازت نہیں دی تھی۔ اسلامی دنیا میں ترکی کے ان فیصلوں کو خاصا سراہا یا گیا تھا۔ ترکی کی ایران اور شام کے ساتھ قریبی تعلقات کو فروغ دینے کی پالیسی علاقائی امن اور استحکام کے مفاد میں تھی۔ یہ بہت درست فیصلے تھے۔ اور سب کے فائدے میں تھی۔
      صدر اردو گان نے پھر 180 ڈگری سے یوٹرن لیا اورایران اور شام کے ساتھ قریبی اتحاد کی پالیسی تبدیل کر کے سعودی عرب کی ایران اور شام کے خلاف پالیسی کو گلے لگا لیا تھا۔ حالانکہ ایران اور شام ترکی کے انتہائی اہم ہمسایہ تھے۔ ترکی کی سرحدیں ان ملکوں کے ساتھ ملتی تھیں۔ عراق ایک افسوسناک خانہ جنگی اور خطرناک عدم استحکام میں گہرا ہوا تھا۔ اور یہ بھی ترکی کی سرحد پر تھا۔ اب ترکی شام اور عراق کی خانہ جنگی اور عدم استحکام کے دباؤ میں آ گیا تھا۔ اس خطہ کی سیاست میں سعودی عرب کا رول بڑا Dubious اور Controversial رہا ہے۔ سعودی پالیسیوں نے اس خطہ میں امن کو اتنا فروغ نہیں دیا ہے کہ جتنا جنگوں کو فروغ دینے میں مدد کی ہے۔ دنیا ابھی تک یہ نہیں سمجھ سکی ہے کہ سعودی عرب کو شام سے اچانک یہ دشمنی کیسے ہوئی ہے کہ انہوں نے شام کو تباہ و برباد کرنے میں کھربوں ڈالر لگا دئیے ہیں۔ اسلامی حکمرانوں کی ان نفرتوں کے نتیجے میں دو لاکھ بےگناہ شامی ہلاک ہو گیے ہیں۔ حالانکہ 2010 میں مرحوم شاہ عبداللہ صدر بشر السد کے ساتھ ہاتھوں میں ہاتھ ڈالے چل رہے تھے۔ صدر اردو گان ایک جمہوری ملک کے صدر تھے۔ ترکی سعودی عرب سے زیادہ یورپی یونین کے قریب تھا۔ اور ترکی کو یورپی یونین کی رکنیت دینے کے مسئلہ پر ان کے مذاکرات بھی جاری ہیں۔ پھر صدر اردو گان نے سعودی عرب کی شام سے دشمنی میں اتحاد میں شامل ہونا کیسے قبول کر لیا تھا؟ بڑے دکھ کی بات ہے کہ سعودی شاہ حرمین شریفین ہیں۔ انہیں تو مسلمانوں کے ساتھ جنگوں، نفرتوں اور دشمنیوں سے دور رہنا چاہیے تھا۔ بلکہ مسلمانوں کے درمیان نفرتیں اور دشمنیاں ختم کرانا ان کا مقدس مشن ہونا چاہیے تھا۔
      ایک درست راستہ چھوڑ کر غلط راستہ پر جانے کا ترکی کو خاصا تلخ تجربہ ہوا ہے۔ ترکی کی سرحد پر ایک طرف عراق میں اور دوسری طرف شام میں عدم استحکام ہے اور خانہ جنگی ہو رہی ہے۔ بلاشبہ ان حالات سے ترکی بھی متاثر ہو گا۔ ترکی کی سیکورٹی کے لئے نئے خطرے پیدا ہو گیے ہیں۔ امن سے سیکورٹی آتی ہے۔ سیکورٹی سے امن نہیں آتا ہے۔ سرحدوں پر جب امن ہو گا۔ ملک کی سیکورٹی کے لئے بھی کوئی خطرہ نہیں ہو گا۔ اور جب سرحدوں پر امن نہیں ہو گا ملک کی سیکورٹی کے لئے بھی خطرے پیدا ہوں گے۔ سرد جنگ میں امریکہ اور مغربی یورپ کے ملکوں نے سوویت یونین اور مشرقی یورپ کے ساتھ سرحدوں پر امن رکھا تھا۔ اور اس امن کی وجہ سے مغربی اور مشرقی یورپ میں سیکورٹی کے لئے خطرے پیدا نہیں ہوۓ تھے۔ صدر اردو گان کا شام کی خانہ جنگی میں سعودی عرب کے ساتھ شامل ہو کر باغیوں کی حمایت کرنے کا فیصلہ ترکی کے لئے Suicidal Blunder ثابت ہوا ہے۔ اردو گان حکومت کے یہ فیصلے ترکی کو بھی عدم استحکام کی طرف لے جا رہے تھے۔ دہشت گردی ترکی کے شہروں میں پہنچ گئی تھی۔ سینکڑوں کی تعداد میں لوگ اس دہشت گردی کے نتیجے میں ہلاک ہو گیے تھے۔ عراق میں 13 سال سے خانہ جنگی کے حالات تھے لیکن ان حالات نے ترکی کو عدم  استحکام نہیں کیا تھا۔ لیکن شام میں پانچ سال سے جاری خانہ جنگی نے ترکی کے استحکام کی بنیادیں ہلا دی ہیں۔ انقرہ اور استنبول میں دہشت گردی کے خوفناک واقعات کا ترکی کے لوگوں نے کبھی تصور نہیں کیا ہو گا۔ ترکی میں یہ واقعات کبھی نہیں ہوتے اگر صدر اردو گان اس قدر مذہبی نظریاتی نہیں ہوتے اور ترکی کے سیکولر آئین کی سوچ کے مطابق علاقائی سیاست میں ملوث ہونے کے فیصلے کرتے تو شاید ترکی کو اس فوجی انقلاب کا بھی سامنا نہیں ہوتا۔ صدر اردو گان کی طرح پاکستان میں جنرل ضیا الحق بھی انتہائی مذہبی نظریاتی تھے۔ اور انہوں نے افغانستان کی داخلی سیاست میں ملوث ہونے کا فیصلہ کیا تھا۔ پاکستانی قوم ابھی تک ان کے فیصلوں کو بھگت رہی ہے۔ جنرل ضیا الحق فوج سے تھے لیکن ان کے خلاف بھی فوجی انقلاب کی شورش ہوئی تھی۔ انہوں نے بھی فوج اور دوسرے اداروں میں Purges کیا تھا۔
      شام کی داخلی خانہ جنگی میں ملوث ہونے کا فیصلہ کرنے سے پہلے اردو گان حکومت کو 1980 کے عشرے میں پاکستان کے علاقائی سیاست میں فیصلوں کا مطالعہ کرنا چاہیے تھا پھر ان کے نتائج دیکھتے اور اس کے بعد ترکی کے ارد گرد کے حالات کا جائزہ لیتے تو انہیں شاید بڑی مماثلت نظر آتی۔ ترکی کی سرحد پر عراق میں خانہ جنگی ہو رہی  تھی۔ اور پاکستان کی سرحد پر بھارت میں ہندو مسلم فسادات اور کشمیر میں خانہ جنگی ہو رہی تھی۔ جبکہ شام میں حکومت کے خلاف خانہ جنگی انتہا پر پہنچ رہی تھی۔ شام سے لاکھوں مہاجرین ترکی میں آ رہے تھے۔ پاکستان کی سرحد پر افغانستان میں ماسکو نواز حکومت کے خلاف شورش ہو رہی تھی۔ اور ہزاروں کی تعداد میں افغان پاکستان میں آ رہے تھے۔ مذہبی نظریاتی لیڈر خواہ ان کا تعلق کسی بھی مذہب سے ہو سیاسی فیصلے بڑی تنگ نظری سے کرتے ہیں۔ صدر اردو گان ایک ایسے ملک کے صدر تھے جس کا آئین سیکولر تھا۔ لیکن کیونکہ وہ خود مذہبی نظریاتی تھے لہذا انہوں نے شام میں ایک سیکولر حکومت کے خلاف مذہبی انتہا پسندوں کی حمایت کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔ اردو گان حکومت کے ان فیصلوں کے نتیجے میں ترکی کو بھاری نقصانات کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ حکومت شام میں باغیوں کی حمایت کر رہی تھی۔ اور ترکی کے کرد باغی بن گیے تھے۔ اور اپنے لئے آزادی کا مطالبہ کرنے لگے تھے۔ شام کے مسئلہ پر روس کے ساتھ ترکی کے تعلقات خراب ہو گیے تھے۔ روس نے ترکی پر اقتصادی بندشیں لگا دی تھیں۔ جس کے نتیجے میں ترکی کی روس کے ساتھ کھربوں ڈالر کی تجارت ختم ہو گئی تھی۔ جرمن پارلیمنٹ نے آرمنیا میں نسل کشی میں ترکی کا رول تسلیم کرنے کی قرارداد منظور کر لی تھی۔ ترکی میں دہشت گردوں کے حملوں کے باوجود نیٹو ترکی کی مدد کے لئے نہیں آیا تھا۔
Ankara Rocked by A Second Terror Attack
      لیکن پھر صدر اردو گان کو جلد اپنی غلط پالیسیوں کا احساس ہو گیا تھا۔ انہوں نے روس کے ساتھ تعلقات بحال کرنے کے لئے اس سے معافی مانگی تھی۔ اور دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات دوبارہ سابق سطح پر لانے کا اعلان کیا تھا۔ ایران کے صدر حسن روحانی کے ساتھ دونوں ملکوں میں تجارت کو فروغ دینے کا معاہدہ کیا تھا۔ اور اپنے خطہ میں Zero Enemy پالیسی اختیار کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔ یہ فیصلے اردو گان حکومت نے بھاری جانی، اقتصادی اور سیاسی نقصانات ہونے کے بعد کیے تھے۔ اصولوں کا تقاضہ یہ تھا کہ صدر اردو گان کو استنبول ایرپورٹ دہشت گردی کے واقعہ کے بعد مستعفی ہو جانا چاہیے تھا۔ فوج شاید پھر انہیں اقتدار سے ہٹانے نہیں آتی۔ جب حکومت قوم کے مفاد میں غلط فیصلے کر رہی تھی تو پھر فوج کو بھی قوم کی سلامتی کے مفاد میں حکومت کو اقتدار سے ہٹانے کے لئے غلط فیصلہ کرنا پڑا تھا۔ اور اب صدر طیب اردو گان ترکی کے جنرل ضیا الحق بن گیے ہیں۔ انہوں نے حکومت کے تمام اداروں میں Purges  شروع کر دیا ہے۔ سب سے پہلے انہوں نے عدلیہ کے تمام ججوں کو برطرف کر دیا تھا۔ اس کے بعد بڑے پیمانے پر فوج میں برطرفیاں اور گرفتاریاں شروع کر دی ہیں۔ انٹیلی جنس اداروں میں بھی چھانٹیاں کی جا رہی ہیں۔ صحافیوں کو حراست میں لیا جا رہا۔ اخبارات کے خلاف کاروائیاں کی جا رہی ہیں۔ اگر ترکی میں فوجی انقلاب کامیاب ہو جاتا تو فوجی حکومت پھر یہ تمام اقدامات کرتی جو اس وقت اردو گان حکومت کر رہی ہے۔ اور اب خدشہ یہ ہے کہ جس طرح جنرل ضیاالحق نے فوج، انٹیلی جنس اداروں، تعلیمی اداروں، عدلیہ اور نشر اشاعت کے اداروں میں اسلامی نظریاتی لوگوں کی بھرتیاں کی تھیں۔ اردو گان حکومت بھی اب ایسا ہی کرنے جا رہی ہے؟ اس صورت میں ترکی کا نیٹو میں کیا مستقبل ہو گا؟ ترکی کے یورپی یونین کے ساتھ تعلقات کی نوعیت کیا ہو گی؟ اور صدر اردو گان کتنا عرصہ Survive کر سکے گے؟  یہ سوالات ہیں جن کے جواب آنے والے دنوں میں سامنے آئیں گے۔                

No comments:

Post a Comment