Friday, July 1, 2016

Every Civil And Military Government Of The Last 26 Years In Pakistan Has Been Serious In Having Good Relations With India

Every Civil And Military Government Of The Last 26 Years In Pakistan Has Been Serious In Having Good Relations With India
Pakistan Has Given India The “Most Favorite Nation State” Status   
But Inside Pakistan The Separatists And Terrorists Were “The Most Favorite”, For India 
Now India Has To Show It’s Greatness

مجیب خان






      پاکستان کے ساتھ تعلقات کے سلسلے میں وزیر اعظم نریندر مودی بھی ایسا نظر آ رہا کہ اب اسی راستہ پر آ گیے ہیں کہ جس پر ان سے پہلے ان کے پیشرو تھے۔ وزیر اعظم نریندر مودی نے ایک بھارتی نشریاتی ادارے سے انٹرویو میں کہا ہے کہ پہلی بات یہ ہے کہ پاکستان میں کس سے بات کی جاۓ۔ ایک منتخب حکومت کے ساتھ پاکستان میں دوسری قوتیں بھی کام کر رہی ہیں۔ لیکن ان کی حکومت کے صرف ایک منتخب جمہوری حکومت کے ساتھ رابطہ ہیں۔ اوران رابطوں کے لئے ہماری کوشش جاری ہیں۔ اور جو مذاکرات کی ٹیبل پر آنا چاہتے ہیں۔ ان سے ٹیبل پر بیٹھ کر کام کیا جاۓ گا۔ اور جو سرحد پر مقابلہ کرنا چاہتے ہیں ان سے سرحد پر بھر پور طاقت سے مقابلہ کیا جاۓ گا۔ وزیر اعظم مودی کی ان باتوں سے ان کی سوچ کی اصل تصویر سامنے آ جاتی ہے۔ اور وہ بھی سابق وزراۓ اعظم کی طرح اب War or Peace میں بھٹکتے نظر آ رہے ہیں۔ ان کی سمجھ میں نہیں آ رہا کہ انہیں War or Peace میں سے کس کا انتخاب کرنا ہے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ بھارت دنیا کی ایک بڑی جمہوریت ہے۔ لیکن پاکستان کے لئے اس کے رہنماؤں کا Behavior جمہوری نہیں ہے۔ یہ طاقت کی زبان اس طرح استعمال کرتے ہیں کہ جیسے کو ئی مطلق العنان  اپنی باغی رعایا سے بات کرتا ہے۔ پاکستان اگر ایٹمی طاقت نہیں ہوتا تو بھارت ضرور War کا انتخاب کرتا۔ لیکن پاکستان ایٹمی طاقت ہونے کی وجہ سے بھارت War سے دو قدم پیچھے ہٹ کر پاکستان کے ساتھ دو قدم آگے بڑھ کر Peace کے لئے باتیں کرنے لگتا ہے۔ اور پھر دو قدم پیچھے ہٹ کر دھمکیاں دینے لگتا ہے۔ اس انٹرویو میں وزیر اعظم مودی نے دہشت گردی کے حوالے سے زیادہ بات نہیں کی تھی۔ نہ ہی ممباۓ کا کوئی ذکر کیا تھا۔ اور نہ ہی پٹھان کوٹ واقعہ پر کوئی بات کی تھی۔ وزیر اعظم مودی نے کہا کہ ان کی مسلسل کوشش ہیں جیسے وہ لاہور گیے تھے اور پاکستان کے وزیر اعظم کو دہلی آنے کی دعوت دی تھی۔ یہ ایسے فیصلے تھے کہ انہیں دہشت گردی کے بارے میں بھارت کے موقف پر دنیا کو آ مادہ کرنے کی ضرورت نہیں تھی۔ لیکن یہ وزیر اعظم مودی کی وضاحت تھی۔ جبکہ اصل حقیقت یہ تھی کہ پاکستان نے را کے ایجنٹ پکڑے تھے۔ جو پاکستان میں دہشت گردی کے واقعات میں ملوث تھے۔ ان سے تحقیقات کے دوران حیرت انگیز انکشافات ہوۓ تھے۔ اور پاکستان نے ان انکشافات کے ثبوت پر ایک تفصیلی رپورٹ اقوام متحدہ کے سیکرٹیری جنرل کو دی تھی۔ ۔ اس کے علاوہ اقوام متحدہ کے اہم اراکین کو بھی یہ رپورٹ دی تھی۔ اس لئے وزیر اعظم مودی نے دہشت گردی کے حوالے سے پاکستان کے بارے میں زیادہ کوئی بات نہیں کی تھی۔
     وزیر اعظم مودی کو یہ اچانک خیال کیسے آیا تھا کہ پاکستان میں جمہوری حکومت ہے اور دوسرے طاقتور ایکٹر بھی ہیں۔ اور اب کس سے بات کی جاۓ۔ پاکستان میں کسی بھارت نواز پنڈت نے انہیں یہ غلط  رپورٹ دی ہے۔ وزیر اعظم مودی کو اپنا ریکارڈ درست کرنے کے لئے کہ پاکستان میں سیاسی اور غیر سیاسی تمام ایکٹر بھارت کے ساتھ تعلقات استوار کرنے کی کوششوں میں برابر کے شریک ہیں۔ اور یہ سب مختلف دور میں مختلف بھارتی حکومتوں سے مذاکرات کرتے رہے ہیں۔ ان سب کی کوشش سنجیدہ تھیں۔ لیکن ان کی کوششوں کے جواب میں بھارتی حکومتوں کا رویہ غیر سنجیدہ تھا۔ جس کے نتیجے میں بھارت نے برصغیر کو نہ War اور نہ Peace  کے حالات میں لٹکا رکھا تھا۔ پھر یہ کہ پاکستان کی فوج بھارت کے ساتھ تعلقات استوار کرنے کی کوششوں کو سبوتاژ نہیں کر رہی تھی کہ جس طرح بھارت میں انتہا پسند ہندو بھارت میں حکومت کی پاکستان کے ساتھ تنازعوں کے حل کی کوششوں کو سبوتاژ کر رہے تھے۔ اور حکومت ان کے خوف سے کوئی فیصلہ نہیں کر پا رہی تھی۔
      صدر جنرل پرویز مشرف جن کا تعلق پاکستان میں طاقتور ایکٹروں سے تھا۔ اور فوج کے کمانڈر انچیف تھے۔ امن کا کشکول لے کر وزیر اعظم اٹل بہاری وا جپائی کے پاس دہلی گیے تھے۔ اور پھر آگرہ میں وزیر اعظم وا جپائی سے صدر جنرل پرویز مشرف نے کئی گھنٹے ملاقات کی تھی۔ اس ملاقات میں دونوں ملکوں میں سمجھوتہ  یقینی نظر آ رہا تھا۔ لیکن پھر آخری لمحہ وزیر اعظم وا جپائی نے اپنا ذہن تبدیل کر لیا تھا۔ اور صدر جنرل مشرف کی یہ کوششیں ناکام ہو گئی تھیں۔ پھر وزیر اعظم من موہن سنگھ کے ساتھ  بھی صدر مشرف نے اپنی یہ کوششیں جاری رکھی تھیں۔ وزیر اعظم موہن سنگھ کے قریبی حلقوں کے مطابق صدر جنرل مشرف کے ساتھ سمجھوتہ کی دستاویز دستخط کے لئے تیار کر لی گئی تھیں۔ لیکن پاکستان میں مشرف حکومت کے خلاف مہم شروع ہو گئی تھی۔ اور یہ سمجھوتہ نہیں ہو سکا تھا۔
     پیپلز پارٹی کے برسراقتدار آنے کے بعد بھارت صدر مشرف کے ساتھ جس سمجھوتے پر دستخط کرنے جا رہا تھا۔ پیپلز پارٹی کی حکومت سے اسے عملی جا مہ پہنا سکتا تھا جو ایک جمہوری منتخب حکومت تھی۔ لیکن پھر پاکستان کو دہشت گردی کے خلاف بش چینی کی جنگ میں پاکستان کو دھنستا دیکھ کر بھارت نے اپنی ایک نئی حکمت عملی پر کام شروع کر دیا تھا۔ بھارت کی کوشش پاکستان کو اس جنگ میں پھنسا کر رکھنا تھا۔ اور بش چینی انتظامیہ اس جنگ میں پاکستان کو مصروف رکھنے کے لئے Do more  کیے جا رہی تھی۔ بش چینی انتظامیہ اور بھارت دونوں مل کر پاکستان کو عدم استحکام کی طرف دھکیل رہے تھے۔ بھارت کے لئے پاکستان کی ایٹمی افادیت ختم کرنے اور اسے  کمزور کا  یہ سنہری موقعہ تھا۔ بھارت نے 16 سال اس طرح گھسیٹ لئے تھے۔ پاکستان ان مسائل میں گھیرا ہوا تھا۔ بھارت پاکستان کو مصروف ر کھے ہوۓ تھا۔ اور مقبوضہ کشمیر میں باغیوں کے خلاف بھارتی فوج دھنسی ہوئی تھی۔ پاکستان کو ان حالات میں دیکھنے کے باوجود بھارتی حکومت بڑی ڈھٹائی سے کشمیر میں جو کچھ ہو رہا تھا۔ اس کا الزام بھی پاکستان کے سر تھونپ رہی تھی۔ اس سارے عرصہ بھارت نے اپنے طور پر مقبوضہ کشمیر کا کوئی حل نہیں ڈھونڈا تھا۔ پاکستان کو تباہ کرنے میں شاید بھارت  نے مقبوضہ کشمیر کا حل دیکھا تھا۔ 26 سال سے پاکستان کی مختلف حکومتیں بھارت سے تعلقات استوار کرنے کی کوششیں کر رہی تھیں۔ اور 16 سال سے بھارت کا یہ Behavior تھا۔ بھارت نے کبھی اپنے Greatness ہونے کے ثبوت نہیں دئیے تھے۔ وزیر اعظم مودی کے نزدیک Greatness یہ تھی کہ وہ میاں نواز شریف کا گھر دیکھنے لاہور آۓ تھے۔ اور نواز شریف کو اپنی حلف وفا داری کی تقریب میں شرکت کرنے کی دعوت دی تھی۔ لہذا دنیا ایک آواز میں بھارت کے رول کی تعریف کر رہی ہے۔ اور پاکستان کو اس کا جواب دینا مشکل  ہو رہا ہے۔ جیسا کہ وزیر اعظم مودی نے یہ کہا ہے۔
     جو دنیا آج بھارت کے رول کی تعریف کر رہی ہے وہ ہی دنیا پاکستان کے رول کی بھی تعریف کرتی تھی۔ لہذا اس دنیا کی کوئی اخلاقی ساکھ نہیں ہے۔ یہ مفاد پرست اور خود غرض دنیا ہے۔ بھارتی فوج کی کشمیر میں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں اور سعودی عرب کو انسانی حقوق کونسل کی صدارت دینے کی بھی دنیا مذمت کر رہی ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ بھارت کس عینک سے کون سی دنیا دیکھ رہا ہے۔ پاکستان 10 سال سے اپنے داخلی مسائل میں الجھا ہوا تھا۔ لیکن اس عرصہ میں بھارت نے مقبوضہ کشمیر کے لوگوں کے لئے کیا تھا؟ بھارت کے رہنماؤں کو معلوم ہے کہ کشمیر68 سال سے ایک مسئلہ ہے۔ کشمیریوں کی تیسری اور چوتھی نسل بھی اب خود مختاری چاہتی ہے۔ بھارتی فوج کی بربریت کشمیریوں کے مطالبہ کا حل نہیں ہے۔ اور نہ ہی پاکستان کو الزام دینے کی سیاست سے مسائل ہوں گے۔
     گزشتہ 26 سال سے پاکستان میں سول اور فوجی حکومتوں نے بھارت کے ساتھ تعلقات استوار کرنے میں مخلص کوششیں کی ہیں۔ بھارت کو Most Favorite Nation کا درجہ بھی دیا تھا۔ پاکستان نے بھارت کے ساتھ تجارت کے لئے اپنی سرحدیں کھول دی تھیں۔ لیکن بھارت نے پاکستان کی اس خیرسگالی کا ناجائز استعمال کرنا شروع کر دیا تھا۔ بھارت نے پاکستان میں علیحدگی پسندوں اور دہشت گردوں کو  پسندیدہ ہونے کا درجہ دیا تھا۔ اور ان کے ساتھ تجارت شروع کر دی تھی۔ بھارت پاکستان کی سرحدوں کو پاکستان  میں انتشار پھیلانے کے لئے استعمال کرنے لگا تھا۔ اور پھر یہ انتظار کر رہا تھا کہ یہ ریاست کب گرتی ہے۔ وزیر اعظم من موہن سنگھ کے دس سال صرف اس انتظار میں گزر گیے تھے۔ دنیا کا کونسا ملک اس Behavior کو برداشت کرے گا؟ اور اسے Most Favorite Nation کا درجہ بھی دے گا۔        
    

No comments:

Post a Comment