1980's
Jihad In Afghanistan, 1990's Bloody Civil War In Algeria, Bloody Civil War Of The
Century In Syria, The Removal Of Gaddafi, New Opening For Jihad And Civil Wars
France Under Attack: Irresponsible World Leaders Are Responsible For All Of This
مجیب خان
Nice, France |
Victims of Algerian Civil War |
Algerians Suffering During Their Brutal Civil War |
Nice, France |
Former French President, Nicolas Sarkozy |
گزشتہ
نومبر میں پیرس میں دہشت گردی کے بعد فرانس بھر میں تقریباً 6 ہزار لوگوں کو حراست
میں لیا گیا تھا۔ 3 ہزار کو پوچھ گچھ کے بعد چھوڑ دیا گیا تھا۔ 100 کے قریب لوگوں کو
سزائیں ہوئی تھیں۔ فرانس میں ایک بہت بڑی تعداد میں شمالی افریقہ کے ملکوں سے تعلق
رکھنے والی مسلم آبادی ہے۔ جو فرانس کی سابق نوآبادیات تھے۔ اور اب کئی دہائیوں سے
فرانس میں آباد ہیں اور ان کی دوسری اور تیسری نسلیں فرانس میں پیدا ہوئی ہیں۔
فرانس کے کلچر میں انہوں نے پرورش پائی ہے۔ گزشتہ نومبر میں جنہوں نے پیرس میں
دہشت گردی کی تھی۔ ان کا تعلق مراکش سے تھا۔ لیکن فرانس میں پیدا ہوۓ تھے۔ اور Nice میں
جس نے دہشت گردی کی ہے وہ تونس میں پیدا ہوا تھا۔ لیکن فرانس کا شہری تھا۔ فرانس میں
دہشت گردی کے واقعات میں 5 فیصد داعش کا تعلق ہو سکتا ہے۔ لیکن 100 فیصد داعش
فرانس میں ملوث نہیں ہے۔ اب تک فرانس کی حکومت کی تحقیقات کے مطابق Nice میں
دہشت گردی میں داعش کا کوئی ہاتھ نہیں ہے۔ ٹرک ڈرائیور کے کمپیوٹر اور فون ریکارڈ
سے بھی ایسے کوئی شواہد نہیں ملے ہیں۔ یہ
شخص جنونی مذہبی بھی نہیں تھا۔ اس کے کچھ گھریلو مسائل تھے۔ اور ذہنی مریض تھا۔
لیکن پھر اس نے فرانس کے لوگوں کے خلاف یہ دہشت گردی کیوں کی تھی؟
بہت
سے ذہنوں با لخصوص فرانس کے لوگوں کے ذہنوں میں یہ سوال ہے کہ آخر فرانس مسلسل
دہشت گردی کی زد میں کیوں ہے؟ ان حالات سے مایوس ہو کر فرانس کے لوگ اب یہ کہنے لگے
ہیں کہ انہیں ایک طویل عرصہ اس دہشت گردی کے ساتھ رہنا ہو گا۔ لیکن انہیں دہشت
گردی کے خوفزدہ حالات میں کیوں رہنا ہو گا؟ یہ حالات انہوں نے اپنے لئے پیدا نہیں
کیے ہیں۔ یہ حالات ان کے لیڈروں نے انہیں دئیے ہیں۔ اس کے ذمہ دار ان کے لیڈر ہیں۔
جنہوں نے اپنے عوام سے کبھی سچ نہیں بولا ہے۔ فرانس کے عوام کو اپنے سابق Flamboyant صدر
نکولس سرکو زی کا گھراؤ کرنا چاہیے۔ اور
اس سے یہ سوال کرنا چاہیے کہ اس نے کیا سوچ کر شمالی افریقہ میں لیبیا کو عدم
استحکام کیا تھا؟ کیا اس کے دور رس Consequences کے بارے میں غور
کیا تھا؟ یا گلی کے بچوں کی طرح اچھلتے کودتے بستی میں گھر کو آگ لگا کر بھاگ گیے
تھے اور اب Village کے
لوگ اس آگ کے شعلوں کا سامنا کر رہے ہیں۔ یہ دیکھ کر عقل تسلیم نہیں کرتی ہے کہ
واقعی کیا یہ دنیا کے ذمہ دار لیڈر ہیں؟
یہ
لیڈر خود اپنے گھروں میں دہشت گردی لاۓ ہیں۔ اور دنیا کو بھی دہشت گردی دے رہے
ہیں۔ فرانس اس وقت جن دہشت گردوں کے حملوں کی زد میں ہے۔ حقیقت میں داعش سے ان کا
تعلق نہیں ہے۔ یہ فرانس کی سابق کالونیوں الجیریا، تونس اور مراکش سے ہیں اور سب
فرانس کے شہری ہیں۔ اور فرانس میں ان کی خاصی بڑی تعداد ہے۔ لیبیا میں جب تک صدر
کرنل معمر قدافی اقتدار میں تھے۔ وہ فرانس کے لئے فرنٹ لائن سیکورٹی تھے۔ برطانیہ
میں 2007 میں دہشت گردی کے کئی واقعات ہوۓ تھے۔ اسی اثنا میں اسپین اٹلی اور یونان
میں بھی ایسے ہی کئی واقعات ہو چکے تھے۔ لیکن فرانس ایسے واقعات سے بچا ہوا تھا۔
جب فرانس نے برطانیہ اور امریکہ کے ساتھ مل کر صدر معمر قدافی کے خلاف کاروائی کی
تھی اور ان کا اقتدار ختم کر دیا۔ اس کے بعد شمالی افریقہ میں فرانس کی سابق کالونیوں
میں اسلامی انتہا پسندوں کا جیسے پنڈو رہ با کس کھل گیا تھا۔ اور اصل آزادی لیبیا
کے لوگوں کو نہیں بلکہ انہیں دلائی گئی تھی۔ اسلامی ریاست کے قیام کے لئے اصل
تحریک شمالی افریقہ با لخصوص الجیریا میں 90 کے عشرے سے جاری تھی۔ داعش ایک جعلی
اور فراڈ تنظیم ہے جو امریکہ کے Military Industrial Complex کے مفاد میں
کام کر رہی ہے۔ اسی ہفتہ امریکہ نے تقریباً 8 سو ملین ڈالر کے بم متحدہ عرب امارات
کو فروخت کیے ہیں۔ الجیریا کی آزادی کے بعد 26 دسمبر 1991 میں الجیریا میں پہلے
انتخابات ہوۓ تھے۔ جس میں Islamic
Salvation Front کے پہلے راؤنڈ میں 118
امیدوار منتخب ہو گیے تھے۔ جبکہ National Liberation Front کے صرف 16
امیدوار کامیاب ہوۓ تھے۔ اور FIS کی
13 جنوری 1992 میں دوسرے راؤنڈ میں بھاری اکثریت سے کامیابی بہت واضح نظر آ رہی
تھی۔ FIS نے ابھی سے حکومت کو دھمکیاں دینا شروع کر دی
تھیں۔ اسے غیر محب وطن، فرانس کی پٹھو اور کر پٹ ہو نے کے الزام دئیے جا رہے تھے۔
11 جنوری 1992 میں فوج نے انتخابی عمل ملتوی کر دیا اور صدر Bendjedid سے مستعفی ہو جانے کا اصرار کیا تھا۔ اور الجیریا کی تحریک آزادی کے سپہ
سالار محمد Boudiafکو جو جلاوطن تھے۔
انہیں واپس بلا کر الجیریا کا صدر بنا دیا تھا۔ لیکن چند ہی ماہ میں 29 جون 1992
میں ان کے ایک محافظ نے انہیں قتل کر دیا تھا۔ 1995 میں قاتل کو خفیہ عدالتی کاروائی
کے بعد موت کی سزا سنائی گئی تھی۔ لیکن اس کی سزا پر عملدرامد نہیں ہو سکا تھا۔
اسلامک فرنٹ (FIS)
پارٹی کے ہزاروں کارکنوں کو گرفتار کیا گیا تھا۔ فوجی ذرائع کے مطابق تقریباً پانچ
ہزار لوگوں کو گرفتار کیا گیا تھا۔ اس فوجی انقلاب کا مقصد صرف اسلامک فرنٹ کو
الجیریا کے پہلے جمہوری انتخاب میں حکومت میں آنے سے روکنا تھا۔ فرانس کی خفیہ ایجنسی
الجیریا کی انٹیلی جنس کے ساتھ مل کر یہ کاروائیاں کر رہی تھی۔ 1992 میں الجیریا میں
انتہائی خوفناک خانہ جنگی شروع ہو گئی تھی۔ اس خانہ جنگی میں 2 لاکھ الجیرین مارے
گیے تھے۔ جبکہ 15 ہزار افراد لا پتہ ہو
گیے تھے۔
مارچ
1993 میں فرانسیسی بولنے والے یونیورسٹیوں کے ماہر تعلیم، دانشوروں، مصنف، صحافی
اور میڈیکل ڈاکٹروں کو قتل کیا جا رہا تھا۔ شہروں کے غریب نوجوان جو اس جہاد میں
شامل ہو رہے تھے۔ ان کی نظروں میں فرانسیسی بولنے والے دانشوروں کا امیج نفرت سے
وابستہ تھا۔ مسلح اسلامی تحریک بہت منظم اور ایک مکمل تنظیم تھی۔ جو ایک طویل
المدت جہاد کی حامی تھی۔ یہ ریاست اور اس کے نمائندوں کو ٹارگٹ کر رہے تھے۔ علی بن
حاج جیل سے مسلح اسلامی تحریک کی حمایت میں فتوی جاری کر رہے تھے۔ Said Mekhloufi
جنہوں نے افغان جہاد میں حصہ لیا تھا۔ ایک سابق سپاہی اور FIS کی سیکورٹی کے
سابق سربراہ تھے۔ فروری 1992 میں انہوں نے اسلامی ریاست (Movement for an Islamic State) کی
تحریک کی بنیاد رکھی تھی۔ اس وقت Francois Mitterrand فرانس میں صدر تھے۔
الجیریا کی خانہ جنگی میں فرانس کا رول خفیہ تھا۔ لیکن الجیریا کی فوج کا رول سب
کے سامنے تھا۔ 90 کے عشرے میں ایک انتخابی عمل کے ذریعہ اگر الجیریا میں اسلامسٹ
کو اقتدار میں آنے سے نہیں روکا جاتا تو الجیریا اور شمالی افریقہ کے نوجوانوں کے
ذہنوں میں 90 کے عشرے میں الجیریا میں خونی خانہ جنگی میں فرانس کا رول نہیں ہوتا۔
جس میں دو لاکھ لوگ مارے گیے تھے۔ اور 15 ہزار ابھی تک لا پتہ ہیں۔ اس وقت اسلامسٹ
کو اقتدار میں آنے سے روکنے کی جنگجو نہ پالیسی
کی یہ مہلک سیاسی بیماریاں ہیں جن کا علاج اب فرانس کے پاس ہے اور نہ ہی 16 سال
میں امریکہ ان کا کوئی علاج کر سکا ہے۔
صدر
نکولس سرکو زی نے شمالی افریقہ میں ان سیاسی حقائق کو بالکل نظر انداز کر دیا تھا۔
اور لیبیا میں صدر معمر قدافی کو اقتدار سے ہٹانے کے بعد شمالی افریقہ میں اسلامی
ریاست کی تحریک کو آزادی دلا دی تھی۔ اور اسلامسٹ جو پہلے اپنی فوج کے حملوں کا
سامنا کر تے تھے جن کی پشت پر فرانس تھا۔ اب فرانس ان کے حملوں کی زد میں ہے۔ طاقت
کے استعمال سے مسائل پر قابو پا نے کا تصور اب فرسودہ ہو چکا ہے۔ جو طاقتیں طاقت
کو استعمال کر رہی ہیں وہ اب کمزور نظر آ رہی ہیں۔ اور انہیں سیاسی تنازعوں کا
سیاسی حل تلاش کرنا ہو گا۔
No comments:
Post a Comment