India’s Nonsense Stand On The Sixty-Eight Year Old Kashmir Dispute
مجیب خان
دہلی
حکمرانی کے خلاف کشمیریوں کی مزاحمتی تحریک تقریباً 29 سال سے جاری ہے۔ اس عرصہ
میں تھوڑی دیر کے لئے یہ تحریک ٹھنڈی ہو گئی تھی لیکن اب پھر اس تحریک میں شدت آ
گئی ہے۔ یوں تو کشمیر پر بھارتی قبضہ کے خلاف مزاحمت 68 سال سے جاری ہے۔ اور گزشتہ
29 سال کشمیریوں کی مزاحمتی تحریک میں محرومی کا احساس زیادہ نظر آ رہا ہے۔ اس
مزاحمت کی تحریک کے دوران ہزاروں کشمیری بھارتی فوج کی بربریت کے نتیجے میں ہلاک
ہو گیے ہیں۔ ہزاروں کشمیری ابھی تک لا پتہ ہیں۔ آٹھ لاکھ بھارتی فوج اس وقت کشمیریوں کی گردنوں پر دن رات سنگینں تانے کھڑی
ہیں۔ صرف گزشتہ پانچ دنوں میں بھارتی فوج کی فائرنگ سے 35 کشمیری ہلاک ہوۓ ہیں۔
مقبوضہ کشمیر بھارتی فوج کی Garrison
States بن گیا ہے۔ کشمیریوں کی نقل و
حرکت پر کڑی نظر رکھی جا رہی ہے۔ فوج ان کے گھروں کا گھراؤ کیے ہوۓ۔ یہ منظر جنوبی
افریقہ میں نسل پرست سفید فام حکومت کا سیاہ فام لوگوں کے ساتھ سلوک سے مختلف نہیں
ہے۔ کشمیریوں کے ساتھ یہ بر تاؤ جنتا پارٹی اور کانگرس پارٹی کی حکومتوں میں ہو
رہا تھا۔ مقبوضہ کشمیر کے بارے میں یہ پالیسی دونوں پارٹیوں کی حکومت میں یکساں
تھی۔ دونوں پارٹیوں نے کشمیریوں کی مزاحمتی تحریک کو صرف بھر پور طاقت سے کچل نے
کے اقدام سے زیادہ کچھ نہیں کیا ہے۔ گزشتہ 29 سال میں جنتا پارٹی اور کانگرس پارٹی
نے حقوق سے محروم کشمیریوں کی تکلیفوں کا کوئی علاج نہیں کیا تھا۔ حالانکہ بھارت
دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہے۔ لیکن کشمیر کے تنازعہ کا سیاسی حل دریافت کرنے کے
لئے بھارت کا ذہن جمہوری نہیں ہے۔ 29 سال سے دونوں پارٹیاں پردھان منتری میں بیٹھی
کشمیریوں کی مزاحمتی تحریک کے پیچھے صرف پاکستان کا ہاتھ ہونے کا الزام دیتی رہی
ہیں۔ اور کشمیریوں کو دہشت گرد اور Militant قرار دے کر ان کے خلاف کاروائیاں
کرتی تھیں۔ اس کے سوا انہوں نے کچھ نہیں کیا ہے۔
دنیا
میں دہشت گردی کے خلاف جنگ کا ہر طرف چرچا تھا۔ کچھ ملک اس سے بری طرح متاثر ہو
رہے تھے ۔ کچھ ملک اس سے فائدہ اٹھا رہے تھے۔ اسرائیل نے فلسطینیوں کے خلاف اور
بھارت نے کشمیریوں کے خلاف دہشت گردی کی جنگ سے فائدہ اٹھاتے ہوۓ فلسطینیوں کے
حقوق اور کشمیریوں کے حق خود مختاری کی جدوجہد پر دہشت گرد ہونے کے لیبل لگا دئیے
تھے۔ اور ان کے نزدیک یہ حل تھا۔ بھارت نے 29 میں سے 16 سال کشمیریوں کو دشت گرد
کہنے اور پاکستان کو کشمیری دہشت گردوں کی پشت پنا ہی کرنے کے الزامات لگانے میں
گزار دئیے تھے۔ جو بھارت کے خیال میں کشمیر کے تنازعہ کا حل ہو گیا تھا۔ پاکستان
دہشت گردی کی جنگ کے دباؤ میں گھیرا رہے گا۔ دنیا کو بیس پچیس سال اور اسی طرح
دہشت گردی کا سامنا رہے گا۔ اس وقت تک دنیا فلسطینیوں کے حقوق کی بات کرے گی اور
نہ ہی کشمیریوں کو خود مختاری دینے کا سوال ہو گا۔ یہ دیکھ کر ایسا احساس ہوتا کہ
جیسے 21 ویں صدی میں جمہوری قیادتوں اور دہشت گردوں کی سوچیں ایک جیسی ہو گئی ہیں۔
اس لئے جمہوری قیادتیں تنازعہ اور مسائل حل نہیں کر پا رہی ہیں۔ بلکہ دہشت گردوں کے ساتھ کھیل کھیل رہی ہیں۔
Kashmir's Resistance Against The Indian Army’s Brutality Is Terrorism, But The Syrian Rebels Backed By America Are
Fighting For Freedom
جب یہ طے ہے اور سب
نے اسے تسلیم کیا ہے کہ کشمیر ایک تنازعہ ہے اور کشمیریوں کی حق خود مختاری پر راۓ
شماری کرائی جاۓ گی۔ تو پھر کشمیر بھارت کا اٹوٹ انگ کیسے ہو گیا ہے؟ اور اگر
کشمیر بھارت کا اٹوٹ انگ ہے تو 29 سال سے کشمیری اس اٹوٹ انگ پالیسی کے خلاف
مزاحمت کیوں کر رہے ہیں؟ اور کشمیریوں کے خلاف بھر پور فوجی طاقت کا استعمال کیوں
ہو رہا ہے؟ کہ جس طرح اسرائیلی فلسطینیوں کے خلاف فوج استعمال کرتے ہیں۔ کشمیر کے
تنازعہ کو 68 سال ہو گیے ہیں۔ اس تنازعہ
میں کئی نسلیں پیدا ہو کر جوان اور پھر بوڑھی ہو کر دنیا سے رخصت ہو گئی ہیں۔ 29
سال قبل کشمیر میں جب مزاحمتی تحریک شروع ہوئی تھی۔ اور اس وقت جو بچے کشمیر میں
پیدا ہوۓ تھے۔ وہ بھی اس مزاحمتی تحریک کے ساتھ اب 29 سال کے ہو گیے ہیں۔ اور
مقبوضہ کشمیر میں اب بھارتی فوجیوں پر پتھروں سے حملے کر رہے ہیں۔ برہان وانی جو
بھارتی فوج کی فائرنگ سے ہلاک ہوا ہے وہ 25 سال کا تھا۔ مقبوضہ کشمیر میں جب صورت
یہ ہے تو آئندہ 25 سال میں بھی بھارت کو ایسے بے شمار برہان وانی کا سامنا کرنا ہو
گا۔
بھارت
اور پاکستان اگر ایٹمی ہتھیار بنا سکتے ہیں۔ تو یہ کشمیر کا تنازعہ بھی حل کر سکتے
ہیں۔ دونوں ملکوں میں یہ صلاحیتیں ہیں۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ صلاحیتوں کو مصلحتوں
پر ترجیح کیسے دی جاۓ؟ بھارت نے کشمیریوں کو حق خود مختاری دینے کا وعدہ کیا تھا۔
اور پاکستان بھارت سے اس پر عملدرامد کرنے کا مطالبہ کر رہا ہے۔ یہ کشمیریوں کو
بھارت کے خلاف اکسانا نہیں ہے۔ بلکہ یہ بھارت ہے جو کشمیریوں سے اپنے وعدہ سے مکر
جانے سے انہیں بھارت کے خلاف اکسا رہا ہے۔ پاکستان اور بھارت جب کشمیریوں کے حق خود مختاری کو تسلیم کرتے ہیں۔
تو پھر مسئلہ کیا ہے؟ کشمیریوں کی آزاد ریاست ہو سکتی ہے۔ کشمیریوں کو فوج رکھنے
کی ضرورت نہیں ہے۔ پاکستان اور بھارت دونوں کشمیر کی آزادی اور خود مختاری کی ضمانت
دیں گے۔ بھارت اور پاکستان کی فوجیں کشمیر میں نہیں جائیں گی۔ کشمیریوں کو بار ڈر
پولیس اور داخلی امن و امان کے لئے پولیس
رکھنے کا اختیار ہو گا۔ اور ان کی اپنی عدلیہ ہو گی۔ کشمیریوں کو دنیا سے تجارت
اور اقتصادی معاہدے کرنے کا حق ہو گا۔ لیکن بیرونی طاقتوں کو کشمیر میں سیاسی اور
فوجی اثر و رسوخ بڑھانے کا اختیار نہیں ہو گا۔ ایک خود مختار اور آزاد کشمیر بھارت
کے مفادات کے خلاف اور نہ ہی پاکستان کے مفادات کے خلاف کوئی فیصلے، پالیسی اور
اقدام کرے گا۔ کشمیر میں مذہبی آزادی ہو گی لیکن مذہب کی سیات کرنے کی اجازت نہیں
ہو گی۔ بھارت اور پاکستان کشمیریوں کے داخلی معاملات میں مداخلت نہیں کریں گے۔ اور
نہ ہی کشمیر کو ایک دوسرے کے خلاف استعمال کریں گے۔ بھارت اور پاکستان کے درمیان
تعلقات میں کشمیر Neutral رہے
گا۔ ان خطوط پر کشمیر کا تنازعہ حل کیا جا سکتا ہے۔ ایک مرتبہ جب اس تنازعہ کو حل
کر لیا جاۓ گا تو پھر یہ ہی کشمیر جو ستر سال سے دونوں ملکوں میں کشیدگی کا ذریعہ
بنا ہوا ہے۔ دونوں ملکوں کو ایک دوسرے کے قریب لانے کا Bridge بن جاۓ گا۔ اس
تنازعہ کا حل بھارت کے کورٹ میں ہے۔ بھارت کی طرح برطانیہ بھی ایک قدیم جمہوری ملک
ہے۔ برطانیہ 40 سال سے یورپی یونین میں شامل تھا۔ پھر برطانیہ میں یہ راۓ عامہ
ابھر آئی جو یہ سمجھتی تھی کہ برطانیہ یورپی یونین کے بغیر زیادہ بہتر کر سکتا ہے۔
اس کی اپنی خارجہ پالیسی ہو گی۔ اس کی کرنسی دنیا میں اپنا مقام پھر بنا سکتی ہے۔
اور برطانیہ یورپی یونین کی اقتصادی پالیسیوں سے نجات حاصل کر کے زیادہ تیزی سے دنیا
کی اقتصادی طاقت بن سکتا ہے۔ برطانیہ نے یورپی یونین چھوڑنے یا یورپی یونین میں
رہنے کے سوال پر ریفرینڈم کرایا تھا۔ برطانوی عوام کی اکثریت نے یورپی یونین
چھوڑنے کی حمایت میں فیصلہ دیا تھا۔ برطانیہ نے یورپی یونین سے علیحدگی اختیار کر
لی ہے۔
India is Union of States ہے۔
اور کشمیر اس یونین میں شامل نہیں ہے۔ تاہم بھارت بھی Brexit کی طرح Kashmir exit پر
ریفرینڈم کرا سکتا ہے۔ اور یہ اقوام متحدہ کی نگرانی میں ہو سکتا ہے۔
No comments:
Post a Comment