Monday, July 11, 2016

John Chilcot's Report On Iraq War: There Was “No Imminent Threat From Saddam Hussein” In March 2003 And Military Action Was “Not A Last Resort”

 John Chilcot's Report On Iraq War: There Was “No Imminent Threat From Saddam Hussein” In March 2003 And Military Action Was “Not A Last Resort”

مجیب خان
British P.M. Tony Blair And U.S. President George W. Bush

Bush Awarding Tony Blair With A Presidential Award

Bush Awarding CIA Director, George Tenet, With A Presidential Award, Despite The False Intelligence

"John Chilcot Discusses "The Iraq Inquiry
    
      برطانیہ کی عراق جنگ   رپورٹ اب منظر پر آ گئی ہے۔ عراق جنگ  شروع کرنے میں کتنا جھوٹ بولا گیا تھا۔ اور اصل حقائق کیا تھے۔ اس کی انکوائری اور پھر رپورٹ کی تیاری میں تقریبا 7 سال لگے ہیں۔ Sir John Chilcot جو ایک سابق بیورو کریٹ تھے۔ انہیں عراق جنگ انکوائری کی ذمہ داری سونپی گئی تھی۔ اس انکوائری کی مرکزی شخصیت وزیر اعظم ٹونی بلیر تھے۔ جو برطانیہ کو امریکہ کے ساتھ اس جنگ  میں لے گیے تھے۔ جس کے نتیجے میں دو سو سے زیادہ برطانیہ کے فوجی عراق میں مارے گیے تھے۔ جبکہ انکوائری کا دوسرا اہم موضوع صدام حسین تھے۔ جن کے بارے میں یہ بتایا جا رہا تھا کہ وہ دنیا کے لئے ایک بہت بڑا خطرہ تھے۔ اور اس انکوائری کے ذریعے یہ دریافت کرنا تھا کہ واقعی کیا وہ اتنا بڑا خطرہ تھے؟ وزیر اعظم ٹونی بلیر نے عراق میں مہلک ہتھیاروں کے  خطروں سے  جس طرح خوفزدہ کیا تھا۔ اس انکوائری کے ذریعے اس کی صداقت اور جھوٹ کو عوام کے سامنے لانا تھا۔ یہ رپورٹ 2.6 ملین لفظوں میں ہے۔ اور تقریباً 8 سو صفحات کی رپورٹ ہے۔ وزیر اعظم ٹونی بلیر اور بش انتظامیہ کے سابق حکام  نے اس رپورٹ کو شائع کرنے کی مخالفت کی تھی۔ تاہم وزیر اعظم بلیر کے خطوط کے جواب میں صدر بش نے جو خط لکھے تھے انہیں شائع نہیں کیا گیا ہے۔
     عراق جنگ پر Chilcot رپورٹ میں ٹونی بلیر نے صدر بش کو جو خط لکھے تھے۔ اور جس طرح عراق پر حملہ کے سلسلے میں مشورے اور منصوبے تجویز کر رہے تھے۔ ان سے یہ تاثر ملتا ہے کہ عراق پر حملہ کے سلسلے میں دنوں کا Mind set تھا۔ انہیں عالمی راۓ عامہ کی کوئی پروا تھی اور نہ ہی انہیں عالمی قوانین کا احترام تھا۔ دونوں ہائی اسکول ذہن سے صدام حسین کے خلاف Adventurism  کرنے جا رہے تھے۔ اور اس کے لئے انہوں نے جنہیں استعمال کیا تھا ان کی عمریں بھی 19 سے 30 کے درمیان تھیں۔ جو ہائی اسکول اور کالج کی عمریں تھیں۔ وزیر اعظم ٹونی بلیر نے 28 جولائی 2002 میں صدر بش کے نام اپنے ایک ذاتی میمو میں لکھا تھا کہ "عراقی ڈکٹیٹر صدام حسین کو اقتدار سے ہٹانے کے لئے ان سے جو کچھ بھی ہو گا وہ کریں گے۔" بلیر نے کہا کہ " صدام کو اقتدار سے ہٹانا ایک درست فیصلہ ہے۔" انہوں نے یہ مزید کہا کہ "اہم سوال یہ نہیں ہے کہ کب بلکہ کیسے۔" اس رپورٹ کے مطابق وزیر اعظم بلیر اس وقت برطانوی عوام اور پارلیمنٹ کو یہ بتا رہے تھے کہ عراق کے خلاف جنگ کا ابھی کوئی فیصلہ نہیں کیا گیا ہے۔

One Trillion Dollars Was Invested In The Iraq War And In Return Came Deaths, Human Misery, Turmoil, Chaos And Conflagration. 

Would Bush And Blair Invest Ten Million Dollars For Thousands In Return?
   
     وزیر اعظم بلیر صدر بش کو پھر یہ لکھتے ہیں کہ "میں جس طرح بھی ہوا آپ کا ساتھ دوں گا۔ لیکن یہ موقعہ مشکلات کا ذرا اکھڑ پنے سے جائزہ لینے کا ہے۔ اس پر منصوبہ بندی اور اسٹرٹیجی ابھی بہت کٹھن ہے۔ یہ کوئی کاسوو نہیں ہے۔ نہ ہی یہ افغانستان ہے۔ یہ خلیج کی جنگ بھی نہیں ہے۔" صدر بش اقوام متحدہ کے راستہ پر جانے کے لئے تیار نہیں تھے۔ لیکن پھر وزیر اعظم بلیر نے انہیں آمادہ کیا تھا کہ اس ایشو کو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں لے جانے سے یہ حمایت حاصل کرنے کا بہتر راستہ ہو گا۔ وزیر اعظم بلیر نے مشورہ دیا کہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں جانے سے وہ صدام حسین کو اقوام متحدہ کے ہتھیاروں کے انسپکٹروں کو بغیر کسی پیشگی شرط کے عراق میں جانے کا وقت دے سکتی ہے۔ اور ممکن ہے وہ اس میں پھنس جائیں گے۔ اور مقررہ وقت کی شرط پوری نہیں کر سکیں گے۔ اور اگر مقررہ وقت گزر جانے کے بعد وہ آتے ہیں تو ہم یہ ڈیل مسترد کر دیں گے۔ اور ہمیں اگر WMD کے بارے میں تمام ثبوت بھی دے دئیے جاتے ہیں تب بھی یہ اس کی ایٹمی صلاحیت حاصل کرنے کی کوششیں سمجھا جاۓ۔ اور یہ بھی ممکن ہے کہ القاعدہ کے ساتھ تعلق بھی جوڑ دیا جاۓ۔ یہ یہاں پر بہت موثر ہو گا۔" بلیر نے پھر بش کو دونوں ملکوں میں Media اور Communication War Room قائم کرنے کا مشورہ دیا تھا۔ انہوں نے اعلامیہ جاری کرنے کے سلسلے میں ایک مشترکہ حکمت عملی اختیار کرنے کی تجویز دی تھی۔ اور یہ کہ انٹرویو دینے میں احتیاط برتی جاۓ۔ اور صرف صدام کی شخصیت کو فوکس کیا جاۓ۔ وزیر اعظم بلیر نے کہا کہ ہمارا پیغام صرف یہ ہونا چاہیے کہ "وہ بد کار ہے۔ ہم اچھے ہیں۔ اسے شکست ہو رہی ہے اور ہم جیت رہے ہیں۔"
     بلیر اور بش کے درمیان عراق پر حملہ کی تیاری میں ان پیغامات کا تبادلہ ہو رہا تھا۔ تاہم بلیر کے مشوروں کا بش نے کس طرح جواب دئیے تھے۔ انہیں شائع کرنے سے روک دیا گیا ہے۔ لیکن بلیر جس طرح مشورے دے رہے تھے۔ ان سے بش کے جوابات کا بھی کچھ اندازہ ہو جاتا ہے۔ جو بلاشبہ بلیر کے خیالات سے مختلف نہیں ہوں گے۔ عراق کے بارے میں دنیا کو گمراہ کرنے کے لئے بلیر جس طرح جھوٹ پھیلانے کے مشورے دے رہے تھے۔ بش کی ٹیم ان مشوروں پر عمل کر رہی تھی۔ لیکن بلیر پھر برطانیہ کے عوام اور دنیا سے اپنی ان تجویزوں کے بالکل برعکس باتیں کرتے تھے۔ کہ عراق کے خلاف ہمارا فوجی کاروائی کرنے کا کوئی ارادہ نہیں تھا۔ اور دنیا نے بھی ان کی باتوں پر یقین کیا تھا کیونکہ ان میں ایک برطانیہ کے وزیر اعظم تھے اور دوسرے امریکہ کے صدر تھے۔ جو اخلاقی قدروں کے علمبردار تھے۔ اور جہاں قانون کی حکمرانی مثالی تھی۔ لیکن پہلے یہ دنیا سے جھوٹ بولتے رہے کہ ان کے پاس یہ ٹھوس ثبوت ہیں کہ صدام مہلک ہتھیار بنا رہے تھے۔ اور عراق میں ان ہتھیاروں کے ڈھیر لگے ہیں۔ اور پھر عراق میں جب یہ ہتھیار کہیں نہیں ملے تھے۔ تو پھر یہ انٹیلی جنس کو الزام دینے لگے تھے کہ انٹیلی جنس نے انہیں غلط رپورٹیں دی تھیں۔ کیا 10 سال سے انٹیلی جنس انہیں عراق کے بارے میں یہ غلط رپورٹیں دے رہی تھی؟ کیونکہ عراق پر 10 سال سے انسانی تاریخ کی انتہائی وحشیانہ اقتصادی بندشیں بھی صرف اسی بنیاد پر لگائی گئی تھیں۔ اور ان بندشوں کے نتیجے میں عراق میں 5 لاکھ معصوم بچے پیدائش کے چند گھنٹوں بعد دم توڑ دیتے تھے۔
      حالانکہ تمام حقائق یہ گواہی دیتے ہیں کہ انٹیلی جنس نے جب انہیں یہ رپورٹ دی تھی کہ عراق میں مہلک ہتھیاروں کا مکمل خاتمہ ہو گیا ہے۔ تو اسی روز ان کی فوجوں نے عراق پر چڑھائی کر دی تھی۔ اور یہ عراق کے شہروں بستیوں  گھروں سرکاری عمارتوں میں گھستی چلی گئی تھیں۔ اور انہوں نے عراق پر قبضہ کر لیا تھا۔ عراق کے تیل کی صنعت کو انہوں سب سے پہلے قومی ملکیت سے نجی شعبہ میں دے دیا تھا۔ اس کے بعد عراق کے صنعتی اور مالیاتی نظام کو انہوں نے عراقی عوام سے پوچھے بغیر فری مارکیٹ اکنامی میں بدل دیا تھا۔ کیا انہوں نے یہ فیصلہ سلامتی کونسل کی قرار دادوں کے تحت کیے تھے۔  لیکن جب تک انٹیلی جنس نے عراق میں مہلک ہتھیاروں کے بارے میں انہیں گرین سگنل نہیں دیا تھا۔ اس وقت تک امریکہ اور برطانیہ فضا سے عراق پر بم برساتے رہے تھے۔  1998 میں صدر کلنٹن اور وزیر اعظم ٹونی بلیر نے تین ہفتہ عراق پر بمباری کی تھی۔
     واٹر گیٹ سکینڈل کے بعد عراق امریکہ کی تاریخ کا دوسرا بڑا سکینڈل تھا۔ کیونکہ یہ دونوں پارٹیوں کا مشترکہ سکینڈل تھا۔ اس لئے اسے سکینڈل تسلیم نہیں کیا تھا۔ اور انٹیلی جنس کو غلط رپورٹیں دینے کا الزام دے کر اپنے جھوٹ دھو دئیے تھے۔ لیکن کسی بھی صورت میں عراق پر اینگلو امریکہ کا حملہ غیر قانونی اور اخلاقی قدروں کے منافی تھا۔ اقوام متحدہ کے سیکرٹیری جنرل کوفی عنان نے عراق پر حملہ کو غیر قانونی کہا تھا۔ 1991 میں کویت سے عراقی فوجوں کے انخلا کے بعد سلامتی کونسل نے عراق کے بارے میں جتنی بھی قراردادیں منظور کی تھیں ان میں کہیں بھی بغداد میں فوجی حملہ کر کے حکومت تبدیل کرنے کا نہیں کہا گیا تھا۔ صدام حسین نے جو ایک ڈکٹیٹر تھے اگر سلامتی کونسل کی قراردادوں کی خلاف ورزیاں کی تھیں تو اینگلو امریکہ نے جن کی قدریں جمہوری تھیں اور جو قانون کی حکمرانی کے چمپین تھے۔ انہوں نے عالمی قانون کی خلاف ورزی اس طرح کی تھی کہ قانون جارحیت کو اپنا قانون بنا لیا تھا۔ اور اس قانون جارحیت کے تحت خود مختار ملکوں پر حملہ کر کے انہیں ناکام مملکتیں قرار دینا شروع کر دیا تھا۔ مارچ 2003 سے پہلے عراق ایک مملکت تھا۔ لیکن اپریل 2003 کے بعد سے عراق ایک فیل ریاست بن گیا ہے۔ 2003 سے عراق کے بارے میں اقوام متحدہ کی ہر سال رپورٹوں میں 20 سے 25 ہزار عراقیوں کے ہلاک ہونے کے اعداد و شمار دئیے جاتے ہیں۔ لیکن ٹونی بلیر اور جارج بش کا کہنا ہے کہ “Iraq is better off without Saddam Hussein” عراق میں روزانہ بموں کے دھماکے ہو رہے ہیں۔ انتشار اور فرقہ پرستی عراق کا نیا نظام بن گیا ہے۔ انسان جب پہلا جھوٹ بولتا ہے تو وہ اس جھوٹ کے Guilt کی وجہ سے دوسرا جھوٹ بولنے سے گریز کرتا ہے۔ لیکن عراق کا عدم استحکام جس طرح مشرق وسطی میں پھیل رہا ہے۔ اور صد ر بش کے انتہائی ذہن مشیر Karl Rove کا کہنا یہ ہے کہ “Saddam was a force for destabilization”          
Victims Of The Iraq War
                            


No comments:

Post a Comment