Wednesday, July 6, 2016

The Citizens Of The Global Village Are Very Concerned About The Future Of World Peace And Stability

The Citizens Of The Global Village Are Very Concerned About The Future Of World Peace And Stability
Two Presidential Candidates: One Has Judgement Problems And The Other Is Talking About Torture, Waterboarding, And "Fighting Fire With Fire"  

This Is A Very Frightening Picture

مجیب خان
Afghan War

Afghan War

Iraq War

Iraqi P.O.W

War In Syria

War In Syria

War In Yemen

War In Yemen
       نیویارک ٹائمز میں گزشتہ ماہ یہ رپورٹ شائع ہوئی تھی کہ امریکی اور اردنی حکام کے مطابق سی آئی اے اور سعودی عرب شامی باغیوں کے لئے جو ہتھیار اردن بھیجتے تھے وہ اردن کی انٹیلی جنس کا رندے چوری کر لیتے تھے۔ اور پھریہ ہتھیاروں کے مرچنٹس کو بلیک مارکیٹ میں فروخت کرتے تھے۔ چوری کے کچھ ہتھیار گزشتہ نومبر میں امان میں پولیس ٹریننگ سینٹر میں شوٹنگ میں استعمال ہوۓ تھے۔ جس میں دو امریکی اور تین دوسرے مارے گیے تھے۔ چوری کے جو ہتھیار فروخت ہو رہے تھے ان میں کلاشناکوف Mortars, Assault Rifles   اور راکٹ Propelled grenades شامل تھے۔ نیویارک ٹائمز کی رپورٹ کے مطابق شام کے باغیوں کو تربیت دینے کا یہ پروگرام 2013 میں شروع کیا گیا تھا۔ اور انہیں براہ راست ہتھیار فراہم کیے جاتے تھے۔ سی آئی اے اور کئی عرب ملکوں کے انٹیلی جنس ادارے اس پروگرام کو چلا رہے تھے۔ اس پروگرام کا مقصد شام کے صدر بشار السد کی مخالف فورسز کو تیار اور منظم کرنا تھا۔ امریکہ اور سعودی عرب اسد حکومت کے باغیوں کے سب سے بڑے معاونین تھے۔ سعودی عرب اور سی آئی اے مل کر انہیں ہتھیار اور فنڈ دے رہے تھے۔ رپورٹ کے مطابق امریکی حکام کا یہ کہنا تھا کہ سی آئی اے نے گزشتہ تین سالوں میں ایسے ہزاروں باغیوں کو تربیت دی ہے۔ اور باغیوں نے شام میں روسی فوجوں کی آمد سے پہلے شامی فوجوں کے خلاف خاصی پیشقدمی کی تھی۔ لیکن پچھلے سال روسی فوجوں کی مدد سے شامی فوجوں نے باغیوں کو پیچھے دھکیل دیا تھا۔ اور ان سے شام کے خاصے علاقہ واپس لے لئے تھے۔ یہ رپورٹ خاصی تفصیلی ہے۔ اور اسے پڑھنے سے 80 کے عشرہ  کا افغانستان نظروں کے سامنے آنے لگتا ہے۔ جہاں سی آئی اے نے اس وقت کی کابل حکومت کے خلاف باغیوں کو بالکل اسی طرح تربیت دی تھی۔ سعودی حکومت نے فنڈ فراہم کیے تھے۔ پاکستان کی سرزمین باغیوں کو تخریب کاری کی تربیت دینے کے لئے استعمال کیا تھا۔ اور شام میں یہ اس کا Part two ہے۔
     امریکہ کا مسئلہ یہ ہے کہ اس کا کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ امریکہ کے پاس اتنے زیادہ نیوکلیر ہتھیار ہیں کہ امریکہ کو اپنی غلطیوں سے سبق سیکھنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ امریکہ نے کیا ویت نام جنگ سے کوئی سبق سیکھا تھا؟ جہاں امریکہ کے 50 ہزار فوجی مارے گیے تھے۔ لیکن 28 سال بعد امریکہ نے پھر ایسی ہی غلطی افغانستان میں کی تھی۔ اور افغانستان میں امریکہ ایک نئی جنگ کرنے چلا گیا تھا۔ حالانکہ افغانستان میں سوویت فوجوں کا تلخ تجربہ امریکہ کے اعلی سول اور فوجی حکام کے سامنے تھا۔ نہ صرف یہ افغان جنگ ابھی کسی حتمی نتیجے پر نہیں پہنچی تھی کہ امریکہ نے عراق میں ایک نئی جنگ شروع کر دی تھا۔ عراق 1991 سے آج 2016 میں بھی جنگ کے حالات میں ہے۔ پھر عراق کو جنگ کے حالات میں چھوڑ کر امریکہ نے باغیوں کے ساتھ شام میں ایک نئی Proxy جنگ شروع کر دی تھی۔ پرانی جنگوں میں مسلسل ناکامیوں کے باوجود یہ نئے محاذ کھل رہے تھے۔ اسامہ بن لادن کو مارنے سے کوئی فرق نہیں آیا تھا۔ القاعدہ کے ساتھ اب داعش ایک نیا ایڈیشن ہے۔ دنیا کی اتنی عظیم طاقت کو جب  چھوٹے ملکوں میں Non States گروپوں سے ناکامی کا سامنا ہو رہا ہے۔ تو اس سے امریکہ کی ساکھ گر رہی ہے۔ امریکہ دہشت گرد گروپوں میں گھیر گیا ہے۔
     حیرت ہے کہ سی آئی اے ار دن میں شامی حکومت کے باغیوں کو تربیت دے رہی تھی اور انہیں جو ہتھیار دینے کے لئے بھیجے جا رہے تھے۔ وہ چوری ہو رہے تھے۔ اور بلیک مارکیٹ میں فروخت ہو رہے تھے۔ لیکن یہ سی آئی اے کے علم میں نہیں تھا۔ داعش کے تیس ہزار فوجی وردیوں میں جنگی اسلحہ کے ساتھ توپوں اور بکتر بند گاڑیوں پر سوار عراق میں داخل ہوتے ہیں۔ اور پھر شام پہنچ کر اس کے علاقوں پر قبضہ کر لیتے ہیں۔ لیکن سی آئی اے کو ان کے بارے میں بھی کوئی علم نہیں تھا کہ یہ کس ملک میں منظم ہو رہے تھے۔ کون  logistics میں ان کی مدد کر رہا تھا۔ یہ انٹیلی جنس کی ناکامیاں تھیں جن سے دہشت گردی کو فروغ مل رہا تھا۔ نائن الیون میں، صدام حسین کے مہلک ہتھیاروں کے بارے میں، داعش کے وجود کے بارے میں، ہتھیاروں کی چوری اور بلیک مارکیٹ میں ان کی فروخت ہر جگہ انٹیلی جنس ناکام ہو رہی ہے۔ اور ایسا نظر آ رہا ہے کہ دہشت گردوں کے خلاف جنگ میں امریکہ کو دہشت گردوں سے نہیں بلکہ اس کی اپنی انٹیلی جنس سے ناکامی ہو رہی ہے۔ جیسے عراق میں مہلک ہتھیاروں کے بارے میں انٹیلی جنس نے غلط رپورٹیں دی تھیں اور صدر بش کی صدارت کو ناکام کر دیا تھا۔
     اسامہ بن لادن کے مارے جانے پر عرب اسلامی دنیا میں کہیں خونی رد عمل نہیں ہوا تھا۔ کسی نے پیرس بریسلز استنبول جدہ میں بموں کے دھماکہ نہیں کیے تھے۔ امریکہ سے انتقام لینے کا عہد نہیں کیا تھا۔ اس سے ظاہر ہوتا تھا کہ عرب اسلامی دنیا میں اسے لیڈر ہونے کا مقام حاصل نہیں تھا۔ یہ امریکی میڈیا تھا جو اس کی پبلسٹی کرتا تھا۔ جو بریکنگ نیوز میں گھنٹوں  مغرب کے خلاف اس کے Sermons دکھایا کرتا تھا۔ حالانکہ عرب عوام کو اسلامی دہشت گردی سے زیادہ عرب اسپرنگ میں دلچسپی تھی۔ بن لادن کے جانے سے جو خلا آیا تھا اسے عرب اسپرنگ نے پر کیا تھا۔ مغربی طاقتیں با لخصوص امریکہ فیصلے کرنے میں اگر ذرا محتاط ہونے کا ثبوت دیتے اور عرب اسپرنگ میں عوام کے ساتھ قدم بڑھاتے رہتے تو شاید دنیا بھر کو آج دہشت گردوں کے بموں کا خوف نہیں ہوتا۔ لیکن انتظامیہ نے انتہائی خطرناک حالات میں انتہائی غیر ذمہ دارانہ فیصلے کیے ہیں۔ جس نے اسامہ بن لادن سے پیدا ہونے والے خلا میں داعش کو آگے آنے کا موقعہ فراہم کیا تھا۔ اس وقت دنیا میں بڑھتی ہوئی دہشتگردی میں مغربی طاقتوں کے فیصلوں کا ایک بڑا رول ہے۔ جبکہ عربوں کے تیل کی دولت کی لالچ نے امریکہ کو بھی وہابی بنا دیا ہے۔ عرب اسپرنگ کا راستہ روک کر دراصل اسلامی انتہا پسندوں کو Unleash کیا گیا ہے۔ عرب دنیا جو 40 سال سے اسلامی انتہا پسندوں سے لڑ رہے تھے۔ امریکہ نے ان سے Regime Change کی ابتدا کی تھی۔ حالانکہ صدر کرنل قدافی نے امریکہ اور یورپی ملکوں کو اس سے آگاہ بھی کیا تھا کہ القاعدہ انہیں اقتدار سے ہٹانا چاہتی ہے اور لیبیا میں اسلامی ریاست قائم کرنا چاہتی ہے۔ لیکن انہوں نے اس پر توجہ نہیں دی تھی اور القاعدہ سے تعاون کیا تھا۔ اور اب یہ لیبیا میں اسلامی ریاست قائم کر رہے ہیں تو ان پر بھی بم گر آۓ جا رہے ہیں۔ یہ کیسا فیصلہ تھا؟ اور کیسی پالیسی ہے؟ عرب دنیا میں جو 40 سال سے اسلامی انتہا پسندوں سے لڑ رہے تھے۔ اور اپنے عوام کو ان سے محفوظ رکھا تھا۔ امریکہ کو وہ بھی پسند نہیں تھے۔ اور انہیں ہٹانے کے بعد جو سامنے آۓ ہیں وہ بھی امریکہ کو پسند نہیں آ رہے ہیں۔ کم از کم یورپ کے عوام کو اپنی حکومتوں کے اس رول کا ضرور احتساب کرنا چاہیے ۔ کیونکہ وہ ان کے اس رول کی وجہ سے آج دہشت گردی کا سامنا کر رہے ہیں۔ ان کی حکومتوں کے فیصلوں نے ان کے لئے یہ مسائل پیدا کیے ہیں۔ اور ان کا امن تہس نہس ہو گیا ہے۔
     ایک غلط فیصلے کو درست کرنے کی دوسری صورت یہ تھی کہ لبرل اور سیکولر ڈکٹیٹروں کو اقتدار سے ہٹانے کے بعد اگر اسلامی قوتوں کو Unleash کیا گیا تھا تو پھر انہیں فوری طور پر سیاسی عمل میں لایا جاتا۔ اور اقتدار میں آنے دیا جاتا۔ اور جب یہ اقتدار میں آتے پھر ان کی ذمہ داریاں اسلامی انتہا پسندی نہیں ہوتیں۔ دنیا ان سے لڑنے کے بجاۓ ان سے سوال کرتی۔ دنیا کا ان پر دباؤ رہتا۔ جیسے حزب اللہ ہے۔ جو لبنان میں حکومت میں شامل ہے۔ اور دنیا کہ علم میں ہے کہ یہ کیا کر رہے ہیں۔ اسی طرح حماس ہے۔ جس کی غازہ میں حکومت ہے۔ جو ایک جگہ بیٹھے ہوۓ ہیں۔ اور دنیا انہیں بھی دیکھ رہی ہے۔ انہیں سیاسی عمل کے ذریعے شکست دینا آسان ہوتا۔ سیاست میں یا تو یہ اپنی ساکھ کھو دیتے۔ اور جلد غیر مقبول ہو جاتے۔ اور لوگوں کا ان پر اعتماد ختم ہو جاتا۔ اور یہ انتخابات میں ہار جاتے۔ جو اس وقت لاطین امریکہ میں ہو رہا ہے کہ بائیں بازو کی سیاسی جماعتیں انتخابات میں ہار رہی ہیں۔ اور دائیں بازو کے پرانے قدامت پسند نظریاتی ایک سیاسی عمل کے ذریعے اقتدار میں آ رہے ہیں۔ بالکل ایسا ہی عرب دنیا میں بھی ممکن بنایا جا سکتا تھا۔ لیکن یہاں مسئلہ یہ ہے کہ دولت مند عرب حکمرانوں نے واشنگٹن میں کھربوں ڈالر لابیوں کو دئیے اور ان کے ذریعے  پہلے بش انتظامیہ کو اور پھر اوبامہ انتظامیہ کو خرید لیا تھا۔ اس کرپشن کی بھاری قیمت عرب عوام، مسلم عوام،  امریکی عوام، یورپی عوام ادا کر رہے ہیں۔ 16 سال سے اسلامی انتہا پسندی کا اتنا زیادہ چرچا ہے کہ اس نے یورپ میں دائیں بازو کے  قوم پرست انتہا پسندوں  کو بیدار کر دیا ہے۔ عرب دنیا میں اسلامی انتہا پسندوں کو انتخابی سیاسی عمل ختم کر کے اقتدار میں آنے سے روکا گیا تھا۔ لیکن یورپ میں انتخابی عمل کے ذریعے دائیں بازو کے قوم پرست انتہا پسند اقتدار میں آ رہے ہیں۔ اور یہ ہوائیں امریکہ کی طرف بھی آ رہی ہیں۔
     عالمی امن کے سلسلے میں بش اور اوبامہ انتظامیہ کا جو ریکارڈ ہے اس سے عالمی امن کا مستقبل Bleak نظر آ تا ہے۔ انتظامیہ کو عالمی امن میں اتنی دلچسپی نہیں کہ جتنی جنگوں میں دلچسپی ہے۔ جیسا کہ صدر اوبامہ نے بھی کہا ہے کہ دہشت گردوں کو شکست دینے میں 20 سال لگیں گے۔ یقیناً امریکہ کے لئے یہ منافع کی جنگیں ہیں۔ لیکن دنیا کے لوگوں کے لئے یہ خسارے کی جنگیں ہیں۔ ان کے لئے یہ جنگیں نئے خطرے پیدا کر رہی ہیں۔ ان کی آزادانہ نقل و حرکت کی آزادی سمٹتی جا رہی ہے۔ تقریباً پندرہ ماہ سے امریکہ میں صدارتی مہم جاری ہے۔ پرائم ریز میں ری پبلیکن پارٹی کے 17 صدارتی امیدواروں میں سے کسی نے دنیا میں امن بحال کرنے کی بات نہیں کی تھی۔ سب بڑھ چڑھ کر صرف جنگوں سے دہشت گردی کا مسئلہ حل کر نے کی تجویزیں دے رہے تھے۔  روس کے ساتھ  یوکرین کے مسئلہ کا حل بھی ان کے پاس فوجی تھا۔ داعش کے خلاف کوئی Carpet Bombing کی بات کر رہا تھا۔ کوئی شام اور عراق میں فوجیں بھیجنے کی بات کر رہا تھا۔ لیکن کسی صدارتی امیدوار نے یہ سوال نہیں کیا تھا کہ دہشت گردی میں یہ تیزی کیسے آئی ہے؟ اس کی کیا وجوہات ہیں؟ کھربوں ڈالر دہشت گردی ختم کرنے پر خرچ کیے گیے ہیں یا دہشت گردی فروغ دینے پر خرچ کیے ہیں؟ لیکن عوام پریشان ہیں اور انہیں خوف میں رکھا جا رہا ہے۔                           

No comments:

Post a Comment