Do Not Blame Globalization, Americans Were Hit Hard From The Hardline Warmonger's "1945" Mentality
مجیب خان
امریکی
طیاروں کی لیبیا میں داعش کے خلاف بمباری کا آغاز ہو گیا ہے۔ لیبیا کی حکومت کے
ذرائع کا کہنا ہے کہ بمباری سے متعدد شہری ہلاک ہو گیے ہیں۔ پانچ سال قبل قدافی
حکومت کے خلاف امریکہ اور نیٹو ملکوں نے تریپولی پر اس خوف سے بمباری کی تھی کہ
قدافی کی فوجیں بن غازی میں حکومت کے مخالفین کے خلاف کاروائی کرنے کی تیاری کر
رہی تھیں۔ اور اس کاروئی کے نتیجے میں اندیشہ تھا کہ لا تعداد لوگ مارے جاتے۔ اور
پھر ایک Humanitarian
بحران پیدا ہو جاتا۔ تاہم ایسے کوئی واضح ثبوت نہیں تھے کہ قدافی حکومت کا اتنے
بڑے پیمانے پر فوجی کاروائی کا کوئی منصوبہ
تھا۔ حالانکہ اس وقت صدر قدافی اور ان کی حکومت کے اعلی حکام بار بار اوبامہ
انتظامیہ کو متنبہ کر رہے تھے کہ القاعدہ انہیں اقتدار سے ہٹانا چاہتی ہے اور یہ
لیبیا میں اسلامی ریاست قائم کرنا چاہتی ہے۔ لیکن اوبامہ انتظامیہ جو القاعدہ کے
خلاف افغانستان اور عراق میں جنگ کر رہی تھی۔ القاعدہ اور اس کا قدافی حکومت سے
نفرت میں جیسے سمجھوتہ ہو گیا تھا۔ یہاں اوبامہ انتظامیہ اور اس کے نیٹو اتحادیوں
نے قدافی حکومت کے بجاۓ القاعدہ کو سنجیدگی سے لیا تھا اور اس کی مدد کی تھی۔ اور
اب پانچ سال بعد اوبامہ انتظامیہ لیبیا میں القاعدہ اور داعش کے اتحاد سے اسلامی
ریاست کے خلاف بمباری کر رہی ہے۔ قدافی حکومت کی فوجی کاروائی سے جن لوگوں کو
بچایا گیا تھا وہ اب امریکی فوج کی بمباری سے ہلاک ہو رہے ہیں۔ یہ بش انتظامیہ کی
پالیسیاں تھیں اور یہ ہی اوبامہ انتظامیہ کی پالیسیاں ہیں۔ جنہوں نے ڈونالڈ ٹرمپ کو عوام کا لیڈر بننےکا موقعہ فراہم کیا
ہے۔
لوگوں
کی ایک بڑی اکثریت بش اور اوبامہ انتظامیہ کی جنگجو نہ خارجہ پالیسی اور War machine کے
خلاف ڈونالڈ ٹرمپ کے موقف سے اتفاق کرتے ہیں۔ ڈونالڈ ٹرمپ جب یہ کہتے ہیں کہ مڈل
ایسٹ ایک Mess ہے
تو لوگوں کو یہ دیکھ رہے ہیں۔ اور جب وہ یہ کہتے ہیں کہ امریکہ کی خارجہ پالیسی Disastrous ہے
تو یہ بھی وہ دیکھ رہے ہیں کہ دنیا میں ہر طرف انسانی لاشیں سڑکوں پر پڑی ہوتی
ہیں۔ اور یہ ایسے حقائق ہیں جن سے انکار نہیں کیا جا سکتا ہے۔ کیونکہ ہر طرف اسے
محسوس کیا جا رہا ہے۔ 16 سال سے امریکہ کو خارجہ امور اور افغانستان عراق شام اور لیبیا
میں صرف ناکامیاں ہو رہی ہیں۔ لہذا ڈونالڈ ٹرمپ کے ان دعووں سے بھی اختلاف نہیں
کیا جا سکتا ہے۔ اور یہ صدارتی انتخابات امریکہ کی خارجہ اور War machine
پالیسیوں پر ریفرینڈم ہے۔ 16 سال میں امریکی عوام کو ان پالیسیوں سے سیکورٹی ملی
ہے اور نہ ہی انہیں امن ملا ہے۔ نہ ہی دہشت گردی ختم ہوئی ہے بلکہ اس میں کمی تک
نہیں ہوئی ہے۔ دنیا ایک محاذ جنگ بنی ہوئی ہے۔ ڈکٹیٹروں کے نظام سے زیادہ ان جنگوں
میں لوگوں کی آزادی چھین گئی ہے۔ دنیا میں ہر طرف خوف پھیلا ہوا ہے۔ اس سے زیادہ
آزادی سرد جنگ میں تھی۔ کمیونسٹ بھی آزادی سے امریکہ آتے تھے۔ اور سرمایہ دار
آزادی سے کمیونسٹ ملکوں میں جاتے تھے۔
The Republican Party Is In Disarray And This Is The Beginning Of The Purges In The Party
اگر ڈونالڈ ٹرمپ بش اور اوبامہ انتظامیہ کی ان پالیسیوں کو امریکہ کے لئے تباہی اور بربادی کہتے ہیں۔ تو اس میں کوئی مبالغہ نہیں ہے۔ یہ حقیقت ہے۔ اور لوگوں کی زندگیاں ان پالیسیوں کی وجہ سے بری طرح متاثر ہوئی ہیں۔ امریکہ کی Elite Establishment Class کو اس کا کوئی احساس نہیں ہے۔ ڈونالڈ ٹرمپ کو ری پبلیکن پارٹی کا پلیٹ فارم چاہیے تھا انہیں ری پبلیکن پارٹی کی ضرورت نہیں ہے۔ ری پبلیکن پارٹی کی Elite Class ان کے خلاف Rebellious ہو رہی ہے۔ حالانکہ ڈونلڈ ٹرمپ کوئی Proletariat نہیں ہیں۔ ان ہی کی Elite Class سے ہیں۔ انہوں نے صرف خارجہ اور War machine پالیسیوں کے خلاف صدارتی انتخابات کو محاذ بنایا ہے۔ اور لوگوں سے کہا ہے کہ وہ منتخب ہونے کے بعد انہیں بدل دیں گے۔
16
سال سے دونوں پارٹیوں کی ان پالیسیوں کے نتیجے میں لوگوں میں بے چینی بہت بڑھ گئی
ہے۔ اور اب امریکہ کے نظام کو وہ Overhaul کرنا چاہتے ہیں۔ لیکن لوگوں میں اس بے چینی کی وجہ اب وہ Globalization
بتاتے ہیں۔ بش انتظامیہ میں یہ کہتے تھے کہ وہ ( بن لادن۔ القاعدہ ) ہماری خوشحالی
سے نفرت کرتے ہیں۔ اور ہماری ترقی اور خوشحالی کو تباہ کرنا چاہتے ہیں۔ لیکن پھر
بش انتظامیہ کے اٹھ سال بعد سامنے یہ آیا تھا کہ ساری دولت امریکہ کے ایک فیصد Filthy Richs کے
ہاتھوں میں تھی۔ اور درمیانہ طبقہ کو انہوں نے غریب کر دیا تھا۔ لیکن آٹھ سال تک
بش انتظامیہ امریکی عوام سے یہ کہتی رہی کہ وہ ہماری خوشحالی سے نفرت کرتے ہیں۔
اور ہماری ترقی اور خوشحالی کو تباہ کرنا چاہتے ہیں۔ اور اوبامہ انتظامیہ میں یہ Globalization ہے
جس نے عوام کی خوشحالی ختم کر دی ہے۔ لوگوں میں بے چینی کی اصل وجہ امریکہ کی
خارجہ اور War machine
پالیسیاں ہیں۔ جو لوگوں کی خوشحالی کو ختم کر رہی ہیں۔ Globalization نے
امریکہ کو 20 ٹیریلین ڈالر کا مقروض نہیں کیا ہے۔ یہ امریکہ کی خارجہ مہم جوئیاں
اور War machine ہے
جس نے امریکہ کو 20 ٹیریلین ڈالر کا مقروض اور لوگوں کو غریب کر دیا ہے۔ عراق اور
افغان جنگوں پر ایک ٹیریلین ڈالر خرچ کیے گیے تھے۔ کیا یہ Globalization
تھا۔ اگر خارجہ پالیسی اور War
machine کی یہ مہم جوئیاں نہیں ہوتی تو Globalization کے فائدے لوگوں تک ضرور پہنچتے۔
امریکہ
کے دو پارٹی نظام میں اب بڑے پیمانے پر تبدیلیاں کرنا ہوں گی۔ اور یہ تبدیلیاں ان
پارٹیوں میں ووٹرز کو لانا ہوں گی۔16 سال میں دونوں پارٹیوں ری پبلیکن اور
ڈیموکریٹس نے آٹھ سال حکومت کی ہے۔ لیکن ان پارٹیوں کی حکومت میں خارجہ پالیسی اور
وار مشین میں زیادہ فرق نہیں تھا۔ دونوں پارٹیوں میں جیسے دنیا میں سب سے زیادہ بم
گرانے اور جنگوں کو پھیلانے کا مقابلہ ہو رہا تھا۔ اور دونوں پارٹیاں ایک دوسرے پر
بازی لے جانے کی سیاست کر رہی تھیں۔ دونوں پارٹیاں ابھی تک دنیا کو 1945 کی ذہنیت
سے دیکھتی ہیں۔ اور سرد جنگ بھی ان کی اس ذہنیت کا حصہ ہے۔ اس لئے 21 ویں صدی کو
یہ اپنی اس پرانی ذہنیت کے مطابق بنا رہے ہیں۔ حالانکہ چین کی کمیونسٹ پارٹی کے
اندر جو Hardliners تھے وہ بھی Globalize
World کے تقاضوں کے مطابق Soft ہو
گیے ہیں۔ اور Sideline پر ہو گیے ہیں۔ ماسکو میں کمیونسٹ پارٹی کی Hardline سیاست بھی ختم
ہو گئی ہے۔ لیکن امریکہ میں ری پبلیکن پارٹی کے اندر Hardline Warmongers
دنیا کو ابھی تک 1945 کی دنیا سمجھتے ہیں۔ اور یہ ان کی ذہنیت بن گئی ہے۔ سرد جنگ
ختم ہوۓ 26 سال ہو گیے ہیں۔ کمیونسٹ ملک آزاد ہو گیے ہیں۔ ان ملکوں کے لوگوں کے ذہن جمہوری بن گیے ہیں۔ لیکن ری
پبلیکن پارٹی کے Hardline Warmongers نے
ابھی تک خود کو 1945 اور سرد جنگ کی ذہنیت سے آزاد نہیں کیا ہے۔ پارٹی کے اندر ان
عناصر کے Purges کا
وقت اب آگیا ہے۔ اور ووٹروں کو ان انتخابات میں یہ Purges کرنا ہے۔ نیٹو
کے بارے میں ڈونالڈ ٹرمپ کا موقف بہت معقول ہے۔ یہ فوجی الائنس Globalize World کے
لئے مسائل پیدا کر رہا ہے۔ یہ الائنس سرد جنگ دور کی ایک سیاہ علامت ہے۔ اور اسے سرد جنگ ختم ہونے
کے ساتھ دفن کر دیا جاتا۔ ری پبلیکن پارٹی اس وقت Disarray کا شکار ہے۔
اور یہ پارٹی میں Purges کے عمل کا آغاز
ہے۔
No comments:
Post a Comment