Donald Trump Wants To Bar
Muslims From Entering The United States, But Why Not Bar The American Weapons Entering Those
Parts Of The World Where Terrorism Breeds?
مجیب خان
Trump vows to form a new partnership with Israel, Egypt and Jordan to try to stop the spread of terrorism, including groups such as Hamas and Hezbollah |
امریکہ کے صدارتی انتخابات میں 74 دن رہے گیے
ہیں۔ ری پبلیکن پارٹی کے صدارتی امیدوار ڈونالڈ ٹرمپ بعض اہم پالیسی ایشو پر اپنی
پوزیشن بدلتے جا رہے ہیں۔ اور با ظاہر یہ نظر آ رہا ہے کہ اہم خارجہ پالیسی امور
پر ڈونالڈ ٹرمپ امریکہ کی خارجہ پالیسی اسٹبلشمنٹ کے قریب ہونے کی کوشش کر رہے
ہیں۔ اسلامی دہشت گردی کے خلاف جنگ کی باتیں بھی کر رہے ہیں۔ جبکہ ڈیمو کریٹک
پارٹی کی صدارتی امیدوار ہلری کلنٹن اس پر اپنا موقف واضح کرنے سے گریز کر رہی
ہیں۔ لیکن عام تاثر یہ ہے کہ ہلری کلنٹن انتظامیہ میں بھی جارج بش اور برا ک
اوبامہ انتظامیہ کی افغان، عراق اور اسلامی دہشت گردی کے خلاف جنگ جاری رکھنے کی
پالیسی میں تسلسل رہے گا۔ ڈونالڈ ٹرمپ نے Ohio یونیورسٹی میں اپنے خطاب میں کہا
ہے کہ "جس طرح ہم نے کمیونزم کی برائیوں کو بے نقاب کیا تھا۔ اور فری مارکیٹ کی
خوبیوں سے سرد جنگ جیتی تھی۔ اسی طرح ہمیں ریڈیکل اسلام کی آئیڈیا لوجی کو بھی
لینا ہو گا۔" اور میں اس پر بش انتظامیہ کے دور سے لکھ رہا تھا کہ دہشت گردی
کو ایک نظریاتی جنگ بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ جو سرد جنگ کا متبادل ہو گی۔ صدر
بش کے نائب صدر ڈک چینی نے اپنی سیاسی زندگی میں شاید یہ سچ کہا تھا کہ دہشت گردی
کے خلاف جنگ 50 سال تک جاری رہے گی۔ اور یہ جنگ اسی سمت میں بڑھ رہی ہے۔ اس وقت
میں نے لکھا تھا کہ دہشت گردی کو ختم نہیں بلکہ پھیلایا جاۓ گا۔ صدر پرویز مشرف کو
آ گاہ کیا تھا کہ حکمت عملی یہ ہے کہ افغانستان سے دہشت گرد پاکستان میں بھیجے
جائیں گے اور پاکستان سے کہا جاۓ گا کہ ان کا خاتمہ کرے۔ اور یہ سلسلہ جاری رہے
گا۔ لیکن اسلامی دنیا کی قیادتیں جس طرح سرد جنگ میں کمیونزم کی برائیوں کو بے
نقاب کرنے والوں کے ہاتھوں میں ان کا کھیل کھیل رہی تھیں۔ بالکل اسی طرح اسلامی
دنیا کی قیادتیں اب اسلامی دہشت گردی کے خلاف جنگ کو اسلامی ریڈیکل آ ئیڈیا لوجی
کی جنگ میں تبدیل کرنے میں ان کے ہاتھوں میں کھیل رہی ہیں۔ اور اسلامی دہشت گرد
بھی ان کے ہاتھوں میں کھیل رہے ہیں۔ القاعدہ کی دہشت گردی کے خلاف جو جنگ شروع
ہوئی تھی وہ اب اسلامی ریاست کے خلاف جنگ بن گئی ہے۔ لیکن اس جنگ میں یہ اسلامی
ریاستیں ہیں جو ایک ایک کر کے تباہ ہوتی جا رہی ہیں۔
افغانستان تباہ ہو چکا ہے۔ پاکستان تباہی کے کنارے پر پہنچ گیا ہے۔ عراق
تباہ ہو گیا ہے۔ شام کھنڈرات بن گیا ہے۔ لیبیا بھی تباہ ہو گیا ہے۔ یمن تباہ ہو
رہا ہے۔ صومالیہ تباہ و برباد ہے۔ اور اب ترکی عدم و استحکام ہوتا جا رہا ہے۔ ان
ملکوں کے شہری امریکہ یا مغرب کے خلاف
دہشت گردی میں ملوث نہیں تھے۔ نائن ایلون کو امریکہ پر حملہ کرنے والوں میں جیسا
کہ یہ بتایا گیا تھا کہ 15 سعودی شہری تھے۔ لیکن اوبامہ انتظامیہ سعود یوں کے
ساتھ شام کو تباہ کرنے کی مہم میں شامل ہو
گئی ہے۔ اسی طرح لیبیا میں قدافی حکومت نے نائن ایلون کے بعد بش انتظامیہ سے دہشت گردوں کے خلاف مہم میں مکمل تعاون کیا تھا
اور امریکہ کی مدد کی تھی۔ لیکن پھر اوبامہ انتظامیہ نے قدافی کو اقتدار سے ہٹا کر
ان اسلامی انتہا پسندوں کے آ گے پھینک دیا تھا جن کے خلاف صدر قدافی نے بش
انتظامیہ سے تعاون کیا تھا۔ اور یہ اسلامی انتہا پسند قدافی پر بھوکے شیروں کی طرح
ٹوٹ پڑے تھے۔ اور اب یہ سمجھ میں آتا ہے کہ صدام حسین اور معمر قدافی کو اقتدار سے
ہٹانا کیوں ضروری ہو گیا تھا؟ کیونکہ اسلامی ریاست ان لیڈروں کی موجودگی میں کبھی
وجود میں نہیں آ سکتی تھی۔ یہ لیڈر دہشت گردوں کا خاتمہ کرنا جانتے تھے۔ لیکن بش
اور اوبامہ انتظامیہ نے ان عرب لیڈروں کے ساتھ
کام کرنے کو ترجیح دی تھی جو دہشت گردوں کو جنم دیتے اور ان کی پرورش کرتے
تھے۔ افغانستان میں پسپا ہونے کے بعد اسلامی انتہا پسند عرب سر زمین پر دوبارہ
منظم ہونے کے مواقع دیکھ رہے تھے۔ اور یہ مواقع انہیں پہلے عراق میں پھر لیبیا میں
اور اس کے بعد شام میں فراہم کیے گیے تھے۔ حالانکہ اسلامی دہشت گردی جو دم توڑ رہی
تھی اسے امریکہ اور نیٹو کی فوجی مہم جوئیوں کے نتیجہ میں ایک نئی زندگی مل گئی
تھی۔ نائن ایلون کے بعد جن اسلامی ملکوں اور حکومتوں نے اسلامی دہشت گردی کا خاتمہ
کرنے میں جو تعاون کیا تھا۔ ان کی محنت، وسائل اور کوششیں سب رائگاں ہو گئی تھیں۔
امریکہ شام میں حکومت کے “Rebels” کے
نام سے انہیں حکومت کے خلاف جہاد کی تر بیت دے رہا تھا۔ یہ سرد جنگ میں افغان جہاد
کی کاربن کاپی تھا۔ ترکی اس جہاد میں پاکستان کا رول ادا کر رہا تھا۔ سعودی عرب
اور خلیج کی ریاستیں اس جہاد میں فنڈنگ کر رہے تھے۔ سی آئی اے جہادیوں کو Rebel بننے کی تر بیت دے رہی تھی۔ اور ہتھیار امریکہ
سے آ رہے تھے۔ حیرت کی بات یہ تھی کہ یہ Rebels بھی شام کے شہری
نہیں تھے۔ ان میں ایک بڑی تعداد اسلامی انتہا پسندوں کی تھی جو دوسرے عرب ملکوں سے
یہاں Rebels
بننے کے شوق میں آۓ تھے۔ اردن میں امریکہ کے تربیتی کیمپوں میں تربیت لینے کے بعد
ان میں سے کچھ عراق میں حکومت کے خلاف Rebels بن گیے تھے۔ کچھ داعش کے ساتھ مل
کر دنیا کے خلاف Rebels بن
گیے تھے۔ اور کچھ لیبیا چلے گیے تھے۔ جہاں
انہوں نے اپنی اسلامی ریاست قائم کر لی تھی۔ ادھر غریب یمنیوں کو سعودی عرب اور
خلیج کے ملکوں کے آ گے کر دیا گیا تھا۔ جنہوں نے امریکہ سے جو ہتھیار خریدے تھے۔
ان کو استعمال کر کے 15 ماہ میں تقریباً
چار ہزار بے گناہ یمنی شہری ہلاک کر دئیے تھے۔ یہ یمن کے خلاف امریکی ہتھیاروں سے
سعودی عرب کی ننگی جا حا ریت تھی۔ یمن نے سعودی عرب پر حملہ نہیں کیا تھا۔ یمنی
سعودی عرب میں دہشت گردی بھی نہیں کر رہے تھے۔ یمن میں حکومت کا انتخاب ان کا
داخلی مسئلہ تھا۔ سعودی عرب اور خلیج کے ملکوں کو اس میں مداخلت کرنے کی ضرورت
نہیں تھی۔ یہ جنگیں امریکی ہتھیارو ں کی ایک بڑی مارکیٹ بن گئی ہیں۔ کھربوں ڈالر
کے ہتھیار ان جنگوں میں فروخت ہو رہے ہیں۔ ان جنگوں کے نتیجے میں امریکہ کے معاشی
حالات بھی بہت بہتر ہو گیے ہیں۔
صنعتی Productivity امریکہ سے چین اور دوسرے ملکوں
میں منتقل ہو جانے سے جو خلا یہاں پیدا ہو گیا تھا۔ اس کی جگہ ہتھیاروں کی Productivity نے
لے لی ہے۔ اور اسلامی دہشت گردی کے خلاف جنگ ان ہتھیاروں کے لئے ایک بڑی مارکیٹ
ہے۔ نائن الیون کے بعد سے تقریباً نصف ٹیریلین ڈالر کے ہتھیار اس جنگ میں فروخت
کیے گیے ہیں۔ عراق میں صدام حسین کا اقتدار ختم کرنے کے بعد عراق کو ایک ایسا نظام
دیا گیا ہے۔ جس میں عراق ہمیشہ حالت جنگ میں رہے گا۔ اور امریکہ عراق کو کھربوں
ڈالر کے ہتھیار فروخت کرتا رہے گا۔ عراقی ان ہتھیاروں سے اسی طرح مرتے رہیں گے۔ ان
میں سے کچھ ہتھیار داعش کو منتقل ہوتے رہیں گے۔ اور باقی ہتھیاروں سے عراقی حکومت
داعش سے لڑتی رہے گی۔ عراق میں اس نظام جنگ کے 13 سال ہو گیے ہیں۔ اور ان 13 سالوں
میں امریکہ نے عراقی حکومت کو کھربوں ڈالر کے ہتھیار فروخت کیے ہیں۔
افغانستان میں امریکہ اور نیٹو نے اپنے جو ہتھیار افغان سیکورٹی فورس کو
دئیے تھے۔ وہ ہتھیار طالبان کے قبضہ میں آ گیے تھے۔ اور ان ہتھیاروں سے طالبان نے
اب نصف سے زیادہ افغانستان پر قبضہ کر لیا ہے۔ لہذا اوبامہ انتظامیہ نے اب افغان
حکومت کو 60 ملین ڈالر کے ہتھیار فروخت کرنے کا اعلان کیا ہے۔ 60 ملین ڈالر کے ان
ہتھیاروں میں سے 30 ملین ڈالر کے ہتھیار طالبان کے ہاتھوں میں پہنچ جائیں گے۔ اور
نئی امریکی انتظامیہ میں بھی یہ جنگ اسی طرح جاری رہے گی۔ 2002 اور 2003 میں
پاکستان کی حکومت جب بھی طالبان سے مذاکرات کرنے کا کہتی تھی۔ بش انتظامیہ کی طرف
سے یہ کہا جاتا تھا کہ طالبان سے کوئی مذاکرات نہیں ہوں گے۔ ان کا مکمل خاتمہ ہونے
تک جنگ جاری رہے گی۔ اور اب 16 سال بعد یہ سمجھ میں آ رہا ہے کہ طالبان کا خاتمہ
ہونے تک جنگ پر آخر اتنا زور کیوں تھا؟ کیونکہ انہیں معلوم تھا کہ طالبان کا کبھی
خاتمہ نہیں ہو گا۔ اور جنگ کبھی ختم نہیں ہو گی۔ لیکن ہتھیاروں کی انڈسٹری کے لئے
یہ جنگ “Bonanza” ہو گی۔
اوبامہ انتظامیہ نے گزشتہ ہفتہ سعودی عرب کو
1.5 بلین ڈالر کے مزید ہتھیار فروخت کرنے کا اعلان کیا ہے۔ سعودی عرب کے علاوہ کویت قطر اور بحرین کو 8 بلین ڈالر کے فائٹرجٹ فروخت کرنے کا اعلان بھی کیا ہے۔ جبکہ مصر کے فوجی ڈکٹیٹر
کو جس نے جیلوں میں نظر بند 900 سیاسی مخالفین کو پھانسیاں دینے کا اعلان کیا ہے۔
اسے بھی اوبامہ انتظامیہ نے 1.3 بلین ڈالر کے ہتھیار دینے کا فیصلہ کیا ہے۔ پانچ
سال سے شام کی خانہ جنگی میں امریکہ نے لاکھوں ڈالر کے ہتھیار مہیا کیے ہیں جن کی
فنڈنگ سعودی عرب اور خلیج کی حکومتوں نے کی ہے۔ کھربوں ڈالر اسلامی دنیا میں صرف
انسانیت کو نیست و نابود کرنے میں خرچ کیے
جا رہے ہیں۔
ڈونالڈ ٹرمپ نے اب یہ عہد کیا ہے کہ وہ صدر
منتخب ہونے کے بعد اسرائیل مصر اور اردن کے ساتھ ایک نیا اتحاد بنائیں گے۔ جو دہشت
گردی کو پھیلنے سے روکنے کی کوشش کرے گا۔ اور حماس اور حزب اللہ جیسے گروپ بھی
شامل ہوں گے۔ اس سے قبل ڈونالڈ ٹرمپ نے یہ بھی کہا تھا کہ وہ مسلمانوں کے امریکہ
میں داخل ہونے پر پابندی لگا دیں گے۔ لیکن اب انہوں نے اپنے اس موقف کو بدل دیا ہے
اور ان کا نیا موقف اب یہ ہے کہ دنیا کے ان خطوں میں جہاں دہشت گردوں کی پرورش ہو
رہی ہے۔ ان خطوں سے مسلمانوں کے امریکہ میں داخل ہونے پر پابندی ہو گی۔ لیکن دہشت
گردی ختم کرنے میں سب سے اہم بات ہے جو ڈونالڈ ٹرمپ نہیں کر رہے ہیں کہ دنیا کے جن
خطوں میں دہشت گردوں کی پرورش ہو رہی ہے۔ ان خطوں میں امریکی میڈ ہتھیاروں کے داخل
ہونے پر وہ پابندی لگا دیں گے؟
No comments:
Post a Comment