Mr. Modi, Baluchistan Is Not
Occupied Kashmir
مجیب خان
بھارت
کی یوم آزادی کے موقعہ پر وزیر اعظم نریند ر مودی کے خطاب کا اہم پیراگراف جو
پاکستان کے صوبہ بلوچستان میں بلوچوں کے ساتھ ذیاتیوں اور ان کے حقوق پامال ہونے کے
بارے میں تھا۔ دنیا کو اس پر خاصی حیرت ہوئی تھی۔ اہم عالمی اخبارات کی یہ نمایاں
سرخی بھی تھی۔ وزیر اعظم کے خطاب کا یہ حصہ بعض کے لئے معنی خیز تھا۔ جبکہ بعض کے
لئے مضحکہ خیز تھا۔ وزیر اعظم مودی کے اس خطاب سے صرف چند روز قبل کوئٹہ میں جو
بلوچستان صوبہ کا دارالحکومت ہے، دہشت گردی کا خوفناک واقعہ ہوا تھا۔ جس میں 70 سے
زیادہ لوگ مارے گیے تھے۔ 100 کے قریب لوگ زخمی ہو گیے تھے۔ اس دہشت گردی پر حکومت
پاکستان کے اداروں کی انگلیاں بھارت کی طرف گئی تھیں۔ جس پر بلوچستان کے پشتون رہنما
محمود خان اچکزئی اور پختون خواہ صوبہ کے رہنما مولانا فضل الرحمن نے بھارت کی ایجنسیوں
کو الزام دینے کے بجاۓ اپنی ایجنسیوں کی ناکامی پر شدید تنقید کی تھی۔ اور انہیں
دہشت گردوں کو پکڑنے میں ناکامی کا ذمہ دار ٹھہرایا تھا۔ جبکہ پاکستان ایک عرصہ سے بلوچستان میں
بھارتی خفیہ ایجنسیوں کی سرگرمیوں کے بارے میں ثبوت عالمی برادری کو دے رہا تھا۔
لیکن امریکہ اور نیٹو اپنے اتحادی پاکستان کی سننے کے بجاۓ بھارت کے ساتھ تعاون کر
رہے تھے۔ اس لئے افغانستان میں ان کی شکست میں ان کا اپنا رول بھی ہے۔ اور اب وزیر
اعظم مودی نے بھارت کے یوم آزادی کے پر بلوچستان کے علیحدگی پسند دہشت گردوں کے
ساتھ بھارت کی ہمدردی کا اظہار کر کے بلوچستان میں بھارتی خفیہ ایجنسیوں کی
سرگرمیوں کے پاکستانی دعووں کو دنیا کے سامنے درست ثابت کر دیا ہے۔ تاہم وزیر اعظم
مودی نے کشمیری عوام کے خلاف بھارتی فوج کے آپریشن کا کوئی ذکر نہیں کیا تھا۔ وزیر
اعظم مودی اس وقت بڑی مشکل میں ہیں۔ گجرات میں ہندو مسلم فسادات ان کے دور میں ہوا
تھا اور اب ان کی حکومت میں بھارتی فوج کشمیریوں کے خلاف بھر پور طاقت کا استعمال
کر رہی ہے۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل اور انسانی
حقوق کی تنظیمیں کشمیریوں کے خلاف انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کو خصوصی طور پر نوٹ کر رہی ہیں۔
اب
تک دنیا یہ سمجھ رہی تھی کہ قیادت کا بحران پاکستان میں تھا۔ لیکن وزیر اعظم مودی
کے بیان سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ بھارت میں بھی قیادت کا بحران آ گیا ہے۔ وزیر اعظم
مودی نے کیا سوچ کر بلوچستان میں بھارت کی دلچسپی کا اظہار کیا تھا؟ کیا انہوں نے یہ
بیان دینے سے پہلے بھارت کے لئے اس کے دور
رس منفی اثرات کے بارے میں غور کیا تھا؟ بلوچستان
میں بھارتی مداخلت کے باوجود پاکستان نے بڑی حد تک بلوچستان کے مسئلہ پر قابو پا
لیا ہے۔ اور بلوچستان میں صوبائی خود مختاری موثر طور پر کام کر رہی ہے۔ لیکن وزیر
اعظم مودی کے اس بیان سے Damage
بھارت کا ہوا ہے۔ اور بھارتی قیادت میں اس کا احساس ہو ر ہا ہے۔ جب ہی بھارتی
حکومت نے Damage control کے
لئے جلد ہی پاکستان سے مذاکرات پر آ مادگی ظاہر کر دی ہے۔ بلوچستان میں بھارت کی
دلچسپی کے بیان سے بھارت کے دوسرے ہمساۓ بھی ضرور چونک گیے ہوں گے۔ کیونکہ بھارت
کی دلچسپی سری لنکا میں بھی ہے۔ بھارت کی دلچسپی نیپال میں بھی ہے۔ بھارت کی دلچسپی
بنگلہ دیش میں بھی ہے۔ بھارت دنیا کی ابھرتی طاقت بننے کی طرف بڑھ رہا ہے۔ وزیر
اعظم مودی نے دوسرے ملکوں کے اندرونی معاملات میں بھارت کی دلچسپی کا اعتراف کر کے
دراصل پنڈ رہ باکس کھول دیا ہے۔ بھارت میں
اس وقت سو سے زیادہ خود مختاری اور سیاسی حقوق کی تحریکیں ہیں۔ اور اب پاکستان،
چین اور بعض دوسرے ملکوں کو بھی بھارت میں علیحدگی پسندوں سے ہمدردی کرنے کا اسی
طرح موقعہ مل گیا ہے کہ جس طرح بھارتی
حکومت بلوچ علیحدگی پسندوں سے اپنی یکجہتی کا اظہار کر رہی ہے۔
بلوچستان کو انتشار میں رکھنے والی قوتوں کی بھارت اگر اس مقصد سے پشت
پناہی کر رہا ہے کہ اس سے جین پاکستان Economic Corridor منصوبہ سبوتاژ
ہو جاۓ گا تو یہ بھارتی حکومت کی ایک بہت بڑی غلط فہمی ہو گی۔ اور یہ بھارتی عزائم
بھارت کے لئے Backfire ہوں
گے۔ اس منصوبہ میں پاکستان سے زیادہ چین کے اقتصادی مفادات ہیں۔ چین اس منصوبہ میں
بھاری سرمایہ کاری کر رہا ہے۔ اور چین اپنی سرمایہ کاری کا ہر قیمت پر دفاع کرے
گا۔ چین بھارت کے ساتھ تصادم کے موڈ میں بالکل نہیں ہے۔ چین نے اس منصوبہ میں بھارت
کو بھی شامل ہونے کی پیشکش کی ہے۔ چین کا کہنا ہے کہ اقتصادی راہداری منصوبہ بھارت
کے مفاد میں بھی۔ اور ان شاہراہوں کے ذریعہ بھارت وسط ایشیا میں اپنی تجارت کو
فروغ دے سکتا ہے۔ لیکن بھارتی رہنماؤں کا مسئلہ یہ ہے کہ ان کا “Mind Set” ہے۔
اور انہیں ہر اچھا مشورہ برا نظر آتا ہے۔ پھر خوف بھی ان کا ایک بڑا مسئلہ ہے۔ یہ
پاکستان کے ساتھ تنازعوں کا حل چاہتے ہیں۔ لیکن پھر خوف سے پیچھے ہٹ جاتے ہیں۔
سابق وزیر اعظم اٹل بہاری باجپائی پاکستان کے ساتھ تنازعوں کو حل کرنے کے معاہدے
کے بہت قریب آ گیے تھے۔ لیکن پھر اچانک اس سے پیچھے ہٹ گیے تھے۔ انہیں یہ خوف ہو گیا
تھا کہ پاکستان کے ساتھ کشمیر کے تنازعہ پر سمجھوتہ کر کے وہ اپنا مہاتما گاندھی جیسا
حشر دیکھنا نہیں چاہتے تھے۔
پاکستان کا کشمیر پر موقف نیا ہے اور نہ ہی بلوچستان کے سیاسی حالات نئے
ہیں۔ پاکستان نے متعدد بار سرکش بلوچ قبائلوں کے خلاف کاروائیاں کی ہیں۔ لیکن بھارت
نے کبھی بلوچستان میں مداخلت نہیں کی تھی۔ یہ پاکستان کی افغان پالیسی ہے جس نے
بلوچستان میں بھارت کو دلچسپی لینے کے نئے مواقع فراہم کیے ہیں۔ بلوچستان میں
بھارتی مداخلت انتہا پسند ہندوؤں کی پالیسی ہے۔ جو پاکستان کی کشمیر پالیسی کا جواب
ہے۔ یہ ان کی احمقانہ سوچ ہے۔ کشمیر کا
بلوچستان سے کوئی موازنہ نہیں ہے۔ اگر پاکستان خالصتان تحریک کی حمایت کرنے لگے
اور پھر بھارت سے یہ کہہ کہ اب وہ بلوچستان میں مداخلت بند کرے تو بھارت کا جواب
کیا ہو گا۔ کشمیر کو دونوں ملکوں نے تنازعہ تسلیم کیا ہے۔ اور اقوام متحدہ میں
کشمیر ایک تنازعہ کی حیثیت سے رجسڑڈ ہے۔ اور بھارت کشمیر کا تنازعہ حل کرنے کا ذمہ
دار ہے۔ اب بھارت اگر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا مستقل رکن بننا چاہتا ہے تو
اسے پہلے کشمیر کے تنازعہ کو حل کرنا ہو گا۔ یہ تنازعہ حل کیے بغیر بھارت عالمی
اسٹیج پر نہیں آ سکتا ہے۔ بھارت کو پہلے کشمیریوں کو حقوق دینے کا فیصلہ کرنا
ہوگا۔
اب
جہاں تک بلوچستان میں بحرانوں کی سیاست کا تعلق ہے۔ یہ بحران دراصل بلوچستان کے
سرکش Greedy, Opportunists
قبائلی سردار پیدا کرتے تھے۔ جو بلوچستان کے عوام کا استحصال کرتے تھے اور وفاقی
حکومت کو بلیک میل کرتے رہتے تھے۔ اور دونوں ہاتھوں سے اپنی جیبیں بھرا کرتے تھے۔
تاہم کچھ نا انصافیاں حکومت کی بھی تھیں۔ لیکن بلوچوں کو پسماندہ
رکھنے میں قبائلی سرداروں کا ایک بڑا کردار تھا۔ آخر قبائلی سرداروں کے خاندان
کیسے اتنے خوشحال تھے۔ ان کی زندگیاں بھی شاہانہ تھیں۔ لیکن ان کے قبیلے میں لوگ
بہت غریب تھے۔ ان کے پاس اپنے بچوں کو اسکول میں بھیجنے کے لئے پیسے نہیں ہوتے
تھے۔ جبکہ قبائلی سرداروں کے بچے گھومنے پھرنے سوئزرلینڈ جاتے تھے۔ عام بلوچوں کو
بلوچستان کی سیاست کو قبائلی سرداروں کے ذہن سے نہیں دیکھنا چاہیے بلکہ انہیں خود
بھی سوچنا چاہیے کہ ان کے ساتھ ان کے اپنے لوگوں نے کیا کیا ہے۔
پھر
سرد جنگ کی سیاست کا بھی بلوچستان کے حالات میں ایک بڑا رول تھا۔ جیسے دہشت گردی
کے خلاف جنگ کی سیاست میں اب بھارت بلوچستان میں اپنا سیاسی رول دیکھ رہا ہے۔ اور
بھارت کو بلوچستان میں چین کے اقتصادی منصوبوں پر تشویش ہو رہی ہے۔ اس وقت سرد جنگ
میں امریکہ کو یہ تشویش تھی کہ سوویت یونین بلوچستان کے ذریعے خلیج کے گرم پانیوں
تک پہنچنا چاہتا تھا۔ اس لئے بھی بلوچوں کے خلاف حکومت کی کاروائیوں میں بڑی
طاقتوں کی اس سیاست کا بھی ایک رول تھا۔ لیکن اس کے باوجود حکومت نے سرکش بلوچ
قبائلی سرداروں کے ساتھ سمجھوتے بھی کیے تھے۔ اور بلوچستان میں امن رکھنے کی کوشش
کی تھی۔
وزیر
اعظم ذوالفقار علی بھٹو نے پہلی مرتبہ بلوچستان اور سرحد میں انہیں اپنی صوبائی
حکومتیں بنانے کا موقعہ دیا تھا۔ اور انہوں نے صوبے کی حکومت میں جنہیں بھی شامل
کیا تھا۔ بھٹو حکومت نے اسے ویٹو نہیں کیا تھا۔ اس سے بڑھ کر اہم بات یہ تھی کہ
وزیر اعظم بھٹو نے بلوچ اور پشتون رہنماؤں کو آئین سازی میں تمام اختیارات کے ساتھ
شامل کیا تھا۔ اور انہوں نے اقلیتی صوبوں کے لئے جو اختیارات اور حقوق تجویز کیے
تھے۔ انہیں آئین میں شامل کیا گیا تھا۔ یہاں بھی وزیر اعظم بھٹو نے اپنی مرضی ان
پر مسلط نہیں کی تھی۔ اس لئے بلوچ اور پشتون رہنماؤں نے 1973 کے آئین کو قبول کیا
تھا۔ اور اس پر ان رہنماؤں نے دستخط بھی کیے تھے۔ اس طرح صوبوں کے حقوق اور
اختیارات کا مسئلہ با خوبی حل ہو گیا تھا۔ بلوچستان اور سرحد میں ان کی حکومتیں کام
کر رہی تھیں۔ اور وفاقی حکومت اپنے فرائض انجام دے رہی تھی۔ پھر بلوچستان کے بارے
میں سی آئی اے کی رپورٹیں پکنا (Cook)شروع ہو گئی تھیں۔ اور یہ خبریں دی جا رہی تھیں کہ بلوچستان میں قوم پرست بلوچوں کی حکومت میں
سوویت یونین کا اثر و رسوخ بڑھ رہا تھا۔ اور سی آئی اے کی یہ رپورٹیں امریکہ نے
وزیر اعظم بھٹو کو فراہم کی تھیں۔ جس کے بعد پاکستان کی اپنی انٹیلی جنس نے بھی اس
کی تحقیقات شروع کر دی تھی۔ اسی اثنا میں شاہ ایران نے بھی جو اس خطہ میں امریکہ
کے پولیس مین تھے، وزیر اعظم بھٹو کو اپنی انٹیلی جنس کی یہ رپورٹیں دینا شروع
کردی تھیں کہ بلوچستان میں سوویت یونین کا اثرو رسوخ بڑھ رہا تھا۔ اور یہ ایران کی
سلامتی کے لئے خطرہ بن رہا تھا۔ امریکہ اور ایران کے اس دباؤ میں وزیر اعظم بھٹو
نے بلوچستان اور سرحد میں ان کی حکومتیں ختم کر دی تھیں۔ اور ان کے خلاف فوجی
آپریشن ہونے لگا تھا۔ بلوچستان کے بارے میں یہ رپورٹیں جو سی آئی اے اور شاہ ایران نے پاکستان کو فراہم کی تھیں۔
بالکل ایسی ہی تھیں کہ جیسے بش انتظامیہ اور ٹونی بلیر حکومت نے عراق میں مہلک
ہتھیاروں کے بارے میں دنیا کو رپورٹیں فراہم
کی تھیں۔ اور پھران رپورٹوں کی بنیاد پر عراق کی حکومت کو تبدیل کیا تھا۔
حالانکہ جنرل ضیا الحق نے پھر ان بلوچ رہنماؤں کو عام معافی دینے کا اعلان کیا
تھا۔ جن کی موجودگی میں بلوچستان میں سوویت یونین کا اثر و رسوخ بڑھ رہا تھا۔ اور
یہ سرد جنگ کی سیاست کا ڈرامہ تھا۔ اور اب اسلامی ریاست کے خلاف جنگ کی سیاست بھی سرد
جنگ کے سیاسی ڈرامہ سے مختلف نہیں ہے۔
No comments:
Post a Comment