Monday, August 15, 2016

Seventy Difficult And Challenging Years Of Pakistan’s Independence

Seventy Difficult And Challenging Years Of Pakistan’s Independence

مجیب خان 

“The weak and the defenseless, in this imperfect world, invite aggression from others. The best way in which we can serve the cause of peace is by removing the temptation from the path of those who think that we are weak and, therefore, they can bully or attack us.”    

Muhammad Ali Jinnah, Founder of Pakistan
Jan 23,1948

      
     ہر سال 14 اگست آتا ہے۔ اور ہر سال پاکستان کا جشن آزادی منایا جاتا ہے۔ قیام پاکستان کے اب 70 سال ہو گیے ہیں۔ لیکن پاکستان کے لئے ان 7 دہائیوں کا ایک بڑا حصہ شدید بحرانوں اور سیاسی چیلنجوں میں گزرا ہے۔ اور اس وقت بھی پاکستان اپنی تاریخ کے ایک انتہائی پیچیدہ بحران میں پھنسا ہوا ہے۔ گزشتہ سال کے مقابلے میں اس سال بھی حالات میں کوئی بہت زیادہ تبدیلی نہیں ہے۔ اس وقت بھی پاکستان اپنے بے گناہ شہریوں کی اموات کے سوگ میں ہے۔ صرف چند روز قبل کوئٹہ میں "درندے مسلمان" دہشت گردوں نے 70 بے گناہ شہریوں کی جانیں لے لی ہیں۔ 70 خاندانوں کی دنیا انہوں نے تاریک کر دی ہے۔ لیکن آج تک یہ کسی کی سمجھ میں نہیں آیا ہے کہ آخر یہ کس کے مشن پر بے گناہ مسلمانوں کا قتل کر رہے ہیں۔ بلاشبہ یہ اللہ کا مشن  نہیں ہے۔ انہیں شاید دوزخ بھی قبول نہیں کرے گی۔ یہ قبر کے عذاب میں رہیں گے۔ پاکستان کو جب بھی سیاسی بحرانوں کے نہ ختم ہونے والے نظام میں دیکھتے ہیں۔ تو ذہن میں یہ آنے لگتا ہے کہ انگریزوں نے برصغیر میں اصل آزادی  ہندوؤں کو دی تھی۔ اور برصغیر کے مسلمانوں کو ایک ملک دے دیا تھا لیکن انہیں آزادی نہیں دی تھی۔ اس ملک میں مسلمانوں کو مسلمانوں سے لڑنے کی جیسے آزادی مل گئی تھی۔ مشرقی پاکستان کے مسلمان بنگالیوں نے مغربی حصہ کے مسلمانوں سے لڑ کر علیحدگی اختیار کر لی تھی۔ مسلم بلوچ بھی مسلمانوں سے لڑ رہے ہیں۔ سندھی اور مہاجر مسلمان 7 دہائیوں سے ایک دوسرے سے لڑ رہے ہیں۔ پھر وفاق کے مسلمانوں سے صوبوں کے مسلمانوں کی محاذ آ رائی بھی تقریباً 7 دہائیوں سے جاری ہے۔ اور اب اسلامی دہشت گردوں کا مسلمانوں کے خلاف دہشت گردی کا سلسلہ شروع ہو گیا ہے۔ جو انتہائی سنگدل ہیں اور بڑی بیدردی سے اپنے ہم مذہب مسلمانوں کو قتل کر دیتے ہیں۔ یہ دیکھ کر کٹر ہندو ذہن میں آنے لگتے ہیں جن کے ہاتھوں پر مسلمانوں کے خون کے دھبے ہوتے تھے۔ اور اب ایسا لگتا ہے کہ جیسے یہ کٹر ہندو مسلمانوں کے بھیس میں ان اسلامی تنظیموں میں گھس گیے ہیں۔ اور مسلمانوں کے خلاف اپنے پرانے عزائم پورے کر رہے ہیں۔ اس لئے یہ یقین نہیں آتا ہے کہ یہ سنگدل درندے واقعی مسلمان ہیں۔ کیونکہ مسلمانوں کا اللہ رحمان الرحیم ہے۔ اور وہ اپنے بندوں پر رحم کرتا ہے۔ لہذا مسلمانوں کے لئے اللہ کے بندوں کے ساتھ رحم سے پیش آنا ایسا ہی ہے کہ جیسے کلمہ پڑھ کر مسلمان بننا ہوتا ہے۔ ایسے حالات میں مذہبی جماعتوں اور ان کے قائدین کا کردار مفاد پرست ہے۔ اور اکثر ان کے منافقانہ ہونے کا تاثر بھی دیتا ہے۔ اگر اسلامی مملکت میں یہ مسلمانوں کو مسلمانوں کا انتہائی بیدردی سے قتل کرنے سے نہیں روک سکتے ہیں تو ان کے مذہبی قائدین ہونے کا پھر مقصد کیا ہے؟
     اور اب سمجھ میں آتا ہے کہ جنرل ایوب خان نے مذہب کی سیاست کرنے والی جماعتوں پر پابندی کیوں لگائی تھی۔ اور مذہب کو سیاست میں داخل نہیں ہونے دیا تھا۔ دس سال پاکستان میں استحکام اور امن رہا تھا۔ پاکستان کی تاریخ میں شاید اس دور میں اتنے زیادہ مذہبی فرقہ وارا نہ فسادات بھی نہیں ہوۓ تھے۔ ایوب خان نے دس سال میں اپنے پیشتر اقتصادی منصوبے بھی مکمل کر لئے تھے۔ صدر جنرل ایوب خان کے زوال کے بعد مذہبی جماعتیں بھی آزاد ہو گئی تھیں۔ اور سیاست میں پھر سے سرگرم ہونے لگی تھیں۔ وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو ایک نئے پاکستان کی تعمیر میں کیونکہ سب کو شامل کرنا چاہتے تھے۔ اس لئے وزیر اعظم بھٹو نے ترقی پسند اور لبرل جماعتوں اور مذہبی جماعتوں کو بھی اپنے اس مشن میں ساتھ رکھا تھا۔ مولانا کوثر نیازی جماعت اسلامی چھوڑ کر پیپلز پارٹی میں آ گیے تھے۔ اور بھٹو کی کابینہ کے رکن بن گیے تھے۔ بھٹو کی کابینہ کا رکن بن کر مولانا کوثر نیازی نے رجعت پسند مذہبی جماعتوں کی خاصی مدد کی تھی۔ جبکہ ترقی پسند اور لبرل وزیر اعظم بھٹو کی بعض پالیسیوں سے اختلافات کی وجہ سے سائیڈ لائن پر ہوتے جا رہے تھے۔ اور یہ ان کی ایک بہت بڑی غلطی تھی۔ انہیں مولانا کوثر نیازی کو ایک کھلا سیاسی میدان دینے کی بجاۓ انہیں اس میدان میں رہنا چاہیے تھا۔ اور بھٹو پر اپنا مسلسل اثر و رسوخ بڑھاتے رہتے۔ اور انہیں مذہبی جماعتوں کو پھیلنے کا موقعہ بالکل نہیں دینا چاہیے تھا۔ یہ ان کی اس غلطی کا نتیجہ تھا کہ مذہبی جماعتوں نے اس جمہوری نظام کو گرا دیا تھا جو مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے بعد پاکستان کو ایک نئی شکل دے رہا تھا۔ مذہبی جماعتیں By Nature فاشسٹ ہوتی ہیں۔ اور انہوں نے جنرل ضیا الحق کی ایک فاشسٹ حکومت کو قبول کر لیا تھا۔
     صدر جنرل ایوب خان نے مذہبی جماعتوں کو سیاست سے جتنا دور رکھا تھا۔ صدر جنرل ضیا الحق اتنا ہی زیادہ مذہبی جماعتوں کی سیاست حکومت کے ہر شعبہ میں لے آۓ تھے۔ ان کا اسلامی نظام بھی جنرل ضیا نے پاکستان میں رائج کر دیا تھا۔ جنرل ضیا الحق کے اس نظام نے اتنے دانشور پیدا نہیں کیے تھے کہ جتنے جہادی پیدا کیے تھے۔ اس نظام نے معاشرے کو اتنا تعلیم یافتہ نہیں بنایا تھا کہ معاشرے کو جتنے جاہل اسلامی دہشت گرد دئیے تھے۔ جنرل ضیا کے دس سال دور اقتدار میں پاکستانی معاشرہ تہس نہس ہو گیا ہے۔ اس کی مہذب اخلاقی اور معاشرتی قدریں ختم ہو گئی ہیں۔ اسلام کی تاریخ میں مسلمانوں نے اسلام کو کبھی اس طرح رسوا نہیں کیا تھا کہ جس طرح آج اسلامی دہشت گرد اسلام کو رسوا کر رہے ہیں۔ اور یہ مذہبی جماعتیں اور ان کے رہنما ہیں۔ جو صرف تماشائی بنے ہوۓ ہیں۔ ان میں سے کسی نے اسلام کے نام پر دہشت گردی کرنے والوں کے خلاف قومی اسمبلی میں قانون تک تجویز نہیں کیا ہے۔ پاکستان کی سیاست میں مذہبی جماعتوں کا کردار ہمیشہ منفی رہا ہے۔ پاکستان کو خوشحال اور مہذب معاشرہ بنانے میں ان جماعتوں نے کیا کیا ہے؟ اور اسلام کے لئے انہوں نے کیا کام کیے ہیں؟ یہ ایک اسلامی پاکستان میں مسلمانوں کو متحد بھی نہیں کر سکے ہیں؟ جماعت اسلامی نے وزیر اعظم ذوالفقارعلی بھٹو کو پھانسی دینے پر مٹھائیاں تقسیم کی تھیں۔ لیکن بنگلہ دیش کی حکومت نے جماعت اسلامی کے دو رہنماؤں کو جب پھانسی دی تھی تو جماعت اسلامی نے اس کی مذمت کی تھی اور حکومت سے پاکستان کے سفیر کو ڈھاکہ سے واپس بلانے کا مطالبہ کیا تھا۔ یہ اس جماعت کا اخلاقی کردار ہے۔ 70 سال ہو گیے ہیں جب ہی تو پاکستان آج اس مقام پر آگیا ہے۔
     پاکستان بڑا خوبصورت اور پیارا ملک تھا۔ ہم بھی اس ملک کی دھرتی کے فرزند تھے۔ اس ملک نے ہمیں تعلیم دی تھی اور ایک اچھا انسان بنایا تھا۔ لیکن اس ملک کے ایسے برے حالات کبھی نہیں دیکھے تھے۔ اس ملک میں بڑے بڑے بحران بھی دیکھے تھے۔ مشرقی پاکستان کی علیحدگی کا بحران بھی آیا تھا۔ اور پاکستان اس سے بھی گزر گیا تھا۔ لیکن یہ دہشت گردی کا بحران جیسے پاکستان کا پیچھا نہیں چھوڑ رہا ہے۔ کراچی کے حالات پاکستان کے حالات سے بھی زیادہ خوفناک ہیں۔ اور 25 سال ہو گیے ہیں۔ ہم جب اپنے دور کے کراچی کو دیکھتے ہیں تو ہمیں اب وہ انگریزوں کا دور نظر آتا ہے۔ کراچی یونیورسٹی میں ہم نے بھٹو صاحب کو پھانسی دینے کے خلاف مہم کے سلسلے میں ایک گروپ تشکیل دیا تھا جس میں کچھ پروفیسر بھی ہمارے ساتھ شامل تھے۔ جیسے جیسے بھٹو کا قتل کا کیس آگے بڑھ رہا تھا ہم بھی اتنے ہی سرگرم ہوتے جا رہے تھے۔ ہمارا اکثر 70 کلفٹن جانا رہتا تھا۔ بیگم صاحبہ جب کراچی میں ہوتی تھیں تو ان سے 70 کلفٹن میں ملنے جایا کرتے تھے۔ اور جب بیگم صاحبہ نظر بند ہوتی تھیں۔ اور بے نظیر بھٹو 70 کلفٹن میں ہوتی تھیں تو پھر ان سے ملاقات رہتی تھی۔ بے نظیر بھٹو ہم سے ہمیشہ آخر میں ملاقات کرتی تھیں۔ اندرون سندھ  وغیرہ سے آنے والوں کا ہجوم ہوتا تھا۔ بے نظیر بھٹو پہلے ان سے ملتی تھیں۔ اور پھر شام 9 بجے کے بعد 70 کلفٹن کے لان پر ہم سے ملاقات کرتی تھیں۔ ان کے ساتھ صنم بھٹو بھی ہوتی تھیں۔ بے نظیر بھٹو جیل میں بھٹو صاحب سے اپنی ملاقات کے بارے میں  ہمیں بتاتی تھیں۔ جنرل ضیا ملک میں جن پالیسیوں کو فروغ دے تھے اس پر گفتگو ہوتی تھی۔ دس ساڑھے دس بجے ہم 70 کلفٹن سے جاتے تھے۔ 70 کلفٹن کے باہر سی آئی ڈی ہوتی تھی۔ لیکن کسی نے ہمیں کبھی تنگ نہیں کیا تھا۔ 70 کلفٹن سے ہم پھر کراچی پریس کلب آتے تھے۔ اور بے نظیر بھٹو سے ملاقات کی پریس ریلیز بنا کر مساوات اور جنگ کے نمائندوں کو دے دیتے تھے۔ اب اس دور کو ہم جب موجودہ حالات میں صرف تصور کرتے ہیں۔ تو خوف آنے لگتا ہے کہ 70 کلفٹن سے اس طرح نکل کر جانے کے بعد موٹر سائیکل سوار ہمارا تعاقب کرتے اور ہمیں گولیاں مار دیتے۔ اور ہم زمین میں ہوتے۔ حالانکہ اس وقت بھی حالات اتنے اچھے نہیں تھے لیکن انسانیت پھر بھی تھی۔ وزیر اعظم بھٹو صاحب سے بھی ہماری آخری ملاقات 70 کلفٹن میں ہوئی تھی۔ جب بھٹو صاحب مری سے رہا ہونے کے بعد کراچی آۓ تھے۔ 70 کلفٹن پر بڑا ہجوم تھا۔ 70 کلفٹن پر اسٹاف نے ہمیں پہچان لیا تھا۔ اور ہماری بھٹو صاحب سے مختصر ملاقات کرا دی تھی۔ بھٹو صاحب حالات سے مایوس نظر آ رہے تھے۔ بھٹو صاحب نے کہا کہ یہ مجھے مقدموں میں ملوث کریں گے۔ یہ بڑی طویل لڑائی ہو گی۔ آپ لوگ جمہوریت کے لئے  جد و جہد  جاری رکھیں۔ اسی رات بھٹو صاحب کو 70 کلفٹن سے احمد رضا قصوری کے قتل کے کیس میں حراست میں لے لیا گیا تھا ۔ اور لاہور میں کوٹ لکھ پت جیل میں نظر بند کر دیا تھا۔
     پاکستان کی 70 سال کی تاریخ کا یہ سب سے سیاہ باب ہے۔ جس نے پاکستان سے روشنیاں چھین لی ہیں۔ اور پاکستان کو تاریکیوں میں چھوڑ دیا ہے۔ پاکستان کو واپس روشنیوں میں لانے کی جد و جہد واقعی بڑی طویل ہے۔ معاشرے کی تعمیر کرنے میں دہائیاں لگ جاتی ہیں۔ لیکن معاشرے کو بگاڑنے میں صرف سال لگتے ہیں۔ یہ پاکستان کے قیام کے 70 سال ہیں۔            


             

No comments:

Post a Comment