Crown Prince Mohammad’s Yemen War And "Vision 2030"
مجیب خان
President Obama meets with Saudi Crown Prince Mohammad |
President Xi Jinping of China meets with Prince Mohammad |
Japanese Prime Minister Abe meets with Prince Mohammad |
خانہ
جنگیں اور خونی جنگیں سعودی عرب کو ہر طرف سے گھیرے ہوۓ ہیں۔ عدم استحکام خطہ کے ہر ملک کی
سلامتی کے لئے مسئلہ بنا ہوا ہے۔ یمن میں سعودی عرب کی جنگ کراۓ کے لوگ لڑ رہے
ہیں۔ امریکہ برطانیہ اور فرانس کے طیارہ بردار بحری بیڑے خلیج میں کھڑے ہیں اور
سعودی عرب کی سلامتی کی چوکیداری کر رہے ہیں۔ نائب ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان
جو یمن کے خلاف سعودی عرب کی جنگ کے Architect ہیں۔ اور سعودی عرب کے وزیر دفاع
بھی ہیں۔ سعودی عرب کو اس جنگ میں چھوڑ کر اب اس کا تیل پر انحصار ختم کر کے اسے
ایک ترقی یافتہ صنعتی ملک بنانے کے منصوبہ پر کام کر رہے ہیں۔ اور یہ نیشنل ٹرانس
فارمیشن 2020 اور ویژن 2030 ہے۔ ان منصوبوں کے فروغ سے سعودی عرب میں معاشی سلامتی
کے حالات پیدا کیے جائیں گے۔ اور سعودی سلطنت کا علاقائی اور عالمی درجہ بلند کرنے
کے راستہ میں جو رکاوٹیں ہیں ان موقعوں سے انہیں دور کرنے کی کوشش کی جاۓ گی۔
آئندہ چند برسوں میں سعودی معیشت کا صرف تیل پر انحصار ختم ہو جاۓ گا۔ اور معیشت
کے مختلف شعبوں میں صنعتوں کے قیام کو فروغ دیا جاۓ گا۔ اور 2030 تک یہ منصوبے
مکمل کیے جائیں گے۔ یہ نائب ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کا سعودی عرب کے مستقبل
کا Vision 2030 ہے۔
ولی عہد شہزادہ محمد اپنا یہ Vision
2030 لے کر سب سے پہلے واشنگٹن آۓ تھے۔
اور صدر اوبامہ سے ملاقات میں انہیں Vision 2030 کے بارے میں بتایا تھا۔ صدر
اوبامہ نے سعودی عرب کی اقتصادی ترقی میں اسے ایک اچھا آغاز قرار دیا تھا۔ شہزادہ
محمد نے امریکہ میں قیام کے دوران صنعت کاروں اور سرمایہ کاروں سے بھی ملاقاتیں کی
تھیں اور انہیں سعودی عرب میں صنعتیں لگانے کے لئے کہا تھا۔ امریکہ میں قیام کے
دوران شہزادہ محمد کیلیفورنیا میں Silicon Valley بھی گیے تھے۔
جو High Tech اور
کمپیوٹر ٹیکنالوجی کمپنیوں کا سینٹر ہے۔ شہزادہ محمد یہاں ٹیکنالوجی کمپنیوں کے
ایگزیکٹو سے ملے تھے۔ اور انہیں Silicon Valley کی طرح سعودی
عرب میں بھی High Tech
کمپنیوں کا سینٹر قائم کرنے کے لئے کہا تھا۔ شہزادہ محمد بل گیٹ سے بھی ملے تھے۔
ولی عہد شہزادہ محمد کے سعودی عرب کو ترقی یافتہ صنعتی ملک بنانے کے یہ
منصوبے بہت اچھے ہیں۔ لیکن ادھر سعودی عرب اور یمن میں جنگ بھی جاری ہے۔ جس میں
مغرب کے ترقی یافتہ صنعتی ملکوں کے جدید ترین ہتھیار استعمال ہو رہے ہیں۔ اس جنگ
میں بے شمار یمینی شہریوں کے ہلاک ہو نے کی خبریں بھی آ رہی ہیں۔ اقوام متحدہ کے
سیکریٹری جنرل بن کی مون نے یمین میں ہسپتالوں اور اسکولوں پر سعودی بمباری کی
مذمت کی ہے جس میں بڑی تعداد میں عورتیں اور بچے ہلاک ہو گیے تھے۔ جبکہ سعودی عرب
کی سرحد کے دوسری طرف عراق میں صدر جارج ایچ بش نے 90 کی دہائی میں جس جنگ کی
بنیاد رکھی تھی وہ جنگ امریکہ کے ساتویں صدارتی انتخابات میں بھی جاری ہے۔ صدر
اوبامہ نے اس ہفتہ مزید چار سو امریکی فوجی عراق بھیجے ہیں۔ عراق کے شہروں میں
بموں کے دھماکوں کا جیسے نظام رائج ہو گیا ہے۔ روزانہ عراق میں بموں کے دھماکہ
ہوتے ہیں روزانہ سینکڑوں عراقی ہلاک ہو جاتے ہیں۔ تیسری طرف شام میں ایک خوفناک
خونی خانہ جنگی جاری ہے جسے اب چھ سال ہو رہے ہیں۔ نصف ملین شامی اس خانہ جنگی میں
ہلاک ہو چکے ہیں۔ شام کھنڈرات بن گیا ہے۔ شام کی آبادی تہس نہس ہو گئی ہے۔ اس خانہ
جنگی میں امریکہ ہتھیار، سعودی عرب اور
خلیج کی حکومتیں ڈالر فراہم کر رہے تھے۔ انسانیت
کے لئے اذیت ناک حالات پیدا کرنے کے سوا ان ملکوں نے کیا حاصل کیا ہے۔ ان ملکوں نے
جس میں امریکہ بھی شامل ہے۔ مصر میں ایک فوجی ڈکٹیٹر کو قبول کیا ہے۔ جس نے اسلامی
نظریاتی لوگوں کی حکومت ختم کی تھی۔ اور جیلیں ان لوگوں سے بھر دی ہیں۔ لیکن پھر
یہ ملک شام میں ڈکٹیٹر کے خلاف ان ہی اسلامی نظریاتی لوگوں کی حمایت کر رہے ہیں۔
ان ملکوں کی اخلاقی اور انسانی قدریں کیا ہیں؟ موقعہ پرستی صرف ان کی قدریں ہیں۔
شام کو تباہ کرنے میں سعودی عرب اور خلیج کے حکمرانوں نے کھربوں ڈالر انویسٹ کیے
ہیں۔ یہ کھربوں ڈالر وہ شام عراق یمن مصر کے لوگوں کے معاشی حالات بہتر بنانے میں
انویسٹ کر سکتے تھے۔ ان ملکوں میں Silicon Valley تعمیر کر سکتے
تھے۔
نائب ولی عہد شہزادہ محمد سعودی عرب کے لئے اپنا Vision 2030 لے کر مشرقی ایشیا گیے تھے۔ چین میں شہزادہ محمد نے صدر شی جن پنگ سے
ملاقات کی تھی۔ اور صدر شی سے باہمی اقتصادی امور پر تبادلہ خیال کیا تھا۔ سعودی
وفد اور اعلی چینی حکام کے درمیان ملاقات میں چینی کمپنیوں کے لئے سعودی مارکیٹ
کھولنے پر سمجھوتہ ہوا ہے۔ اس کے علاوہ چین کی سب سے بڑی انفارمیشن اور ٹیلی
کومینیکیشن کمپنی Huawei کو
سعودی عرب میں ٹیلی کومینیکیشن اور انفارمیشن ٹیکنالوجی میں انویسٹ کرنے کے لئے
لائیسنس دینے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ شہزادہ محمد نے چین کی پندرہ بڑی کمپنیوں اور
اداروں کے اعلی حکام سے بھی ملاقاتیں کی تھیں۔ اور ان سے انویسٹ کے مناسب موقعوں،
پارٹنر شپ اور تعاون کے امور پر تبادلہ
خیال کیا تھا۔ شہزادہ محمد پھر جاپان پہنچے تھے۔ جہاں جاپان کے شہنشاہ Akihito نے
ان کا خیر مقدم کیا تھا۔ یہاں دونوں ملکوں کے اعلی حکام میں ملاقاتوں کے بعد کئی
معاہدے ہوۓ ہیں۔ جن میں دونوں ملکوں میں ثقافتی تبادلہ بہتر بنانے کا معاہدہ بھی
شامل ہے۔ اس کے علاوہ سعودی عرب میں چھوٹے اور درمیانی درجہ کے انٹرپرائز کو ترقی
دینے اور معاشی تعاون کو فروغ دیا جاۓ گا۔ دونوں ملکوں کے درمیان تجارت بڑھانے کے
معاہدے پر بھی دستخط ہوۓ ہیں۔
نائب ولی عہد شہزادہ محمد نے Vision 2030 کے اعلان کے بعد امریکہ، فرانس،
جرمنی، چین اور جاپان کے کامیاب دورے کیے ہیں۔ ان دوروں میں حوصلہ افزا یقین
دہانیاں اور معاہدے ہوۓ ہیں۔ لیکن Vision 2030 کو کامیاب بنانے میں اہم خلا
سعودی عرب کے خطہ میں عدم استحکام کی آگ لگی ہوئی ہے۔ جو پھیلتی جا رہی ہے۔ جب تک
یہ آگ نہیں بجھے گی اور استحکام نہیں ہو گا۔ Vision 2030
باتوں اور ملاقاتوں کے لئے اچھا موضوع ہے۔ شہزادہ محمد نے وزیر دفاع بننے کے بعد
یمن کے خلاف جنگ کا آغاز کیا تھا۔ اس جنگ کو 18 ماہ ہو گیے ہیں۔ اور یہ جنگ ابھی
ختم نہیں ہوئی ہے۔ اور جب یہ جنگ ختم ہو گی سعودی عرب کے سامنے War reparations کا
بل ہو گا جو کھربوں ڈالر میں ہو گا۔ یمن کے علاوہ شام کو تباہ کرنے میں نام نہاد
باغیوں کی مدد کرنے کے نتیجے میں سعودی عرب پر War reparations
واجب ہو گیا ہے۔ تاہم اس میں امریکہ اور خلیج کی ریاستیں بھی شامل ہوں گی۔ ان
ملکوں نے صدام حسین سے War
reparations ادا کرنے کا کہا
تھا۔ حالانکہ کویت کو صدام حسین کی فوج نے اس پیمانے پر تباہ نہیں کیا تھا۔ یہ
مسائل خود انہوں نے اپنے لئے پیدا کیے ہیں۔ اور ان مسائل سے جو نئے مسائل پیدا ہو
رہے ہیں وہ بھی ان کا پیچھا کرتے رہیں گے۔ مکہ اور مدینہ میں بیٹھ کر مسلمانوں کو
لڑانے اور ان میں انتشار پیدا کرنے کے لئے کام کرنا سعودی عرب کی خارجہ پالیسی
کبھی نہیں ہونا چاہیے تھی۔
نائب ولی عہد شہزادہ محمد کو اپنا Vision 2030 پیش کرنے سے پہلے ایسٹ ایشیائی
ملکوں کے اقتصادی ترقی کے Vision کا مطالعہ کرنا چاہیے تھا۔ اس کے بعد انہیں یورپ کے ملکوں کی اقتصادی ترقی
کے Vision کا
بھی مطالعہ کرنا چاہیے تھا کہ دوسری جنگ عظیم کے بعد یورپ کے ملکوں نے کس طرح اپنی
تعمیر نو کی تھی اور ایک انتہائی مختصر عرصہ میں یہ دنیا کی سیاست میں پھر عظیم
طاقتیں بن کر آ گیے تھے۔ برطانیہ نے فرانس کو پیچھے چھوڑا تھا اور نہ ہی فرانس اور
برطانیہ نے جرمنی کو تباہ حال رکھا تھا۔ یہاں تک کہ انہوں نے مشرقی یورپ کے ملکوں
کو بھی مغربی یورپ سے پیچھے نہیں رکھا تھا۔ اور دوسری جنگ عظیم کی تباہی سے انہیں
بھی نکلنے کا موقعہ دیا تھا۔ اس لئے سرد جنگ میں یورپ میں استحکام تھا اور امن
رہا۔ ایک موقع پر مغربی یورپی ملکوں نے سوویت یونین کو اقتصادی طور پر گرنے سے
بچایا تھا۔ 80 کی دہائی میں سوویت فوجیں افغانستان میں پھنس گئی تھیں۔ اور سوویت
یونین افغان جنگ کے نتیجے میں اقتصادی طور پر تقریباً دیوالیہ ہو چکا تھا۔ سوویت
ایمپائر 80 کی دہائی کے وسط میں گرنے کے قریب تھی۔ امریکہ کی انٹیلی جنس کو یہ خبر
مل گئی تھی۔ لیکن ریگن انتظامیہ سوویت ایمپائر کے گرنے کی صورت حال کا سامنا کرنے
کے لئے تیار نہیں تھی۔ لہذا مغربی جرمنی نے سوویت یونین کو 80 بلین ڈالر فوری طور
پر فراہم کر کے اسے گرنے سے بچایا تھا۔ اپنے ہمسایہ کو عدم استحکام ہونے سے بچانے
کے لئے اکثر اپنے نظریاتی دشمن کی بھی مدد کرنا پڑتی ہے۔ صدر پوتن نے روس میں
اقتدار میں آنے کے بعد جرمنی کے 80 بلین ڈالر واپس کیے تھے۔
لیکن سعودی عرب کا اپنے ہمسایہ میں اسلامی ہمسایہ ملکوں کے ساتھ کیا بر تاؤ
ہے؟ سعودی سوچ یہ ہے کہ اس کے ہمسایہ میں سواۓ چند حکمران ریاستوں کے باقی سب
ملکوں کو اقتصادی اور سیاسی طور پر آ گے نہیں آ نے دیا جاۓ اور صرف سعودی عرب خطہ
کی بڑی طاقت ہو گا۔ حالانکہ سعودی عرب کے جو ہمسایہ ہیں ان کی یہ سوچ نہیں ہے۔ وہ
سعودی عرب کا احترام کرتے ہیں۔ اور وہ اس خطہ کے ہر ملک کی خوشحالی میں سب کی
سلامتی اور بقا دیکھتے ہیں۔ سعودی حکومت کی پالیسیوں نے جس طرح اسلامی دنیا کو
تقسیم کر دیا ہے اس سے مسلمانوں کو بڑی مایوسی ہوئی ہے۔ اس سے سعودی عرب کمزور ہوا
ہے اور اسلامی دنیا بھی کمزور ہو گئی ہے۔
Destruction of Yemen |
No comments:
Post a Comment