Friday, September 16, 2016

Election Promises And The Role of Congress

Election Promises And The Role of Congress
Guantanamo Bay Detention Camp Is A Black Dot On America’s Democratic Values, President Obama Wants To Shut Down Guantanamo Bay, But Congress Prevents President From Shutting It Down, And President Obama Can’t Fulfill
  His Election Promise

مجیب خان
George W. Bush And President Obama
Donald Trump And Hillary Clinton
      اکیسویں صدی کا یہ پانچواں صدارتی انتخاب ہے۔ پہلے چار صدارتی انتخابات کے نتیجے میں آنے والی انتظامیہ کی پالیسیاں اور کارکردگی دنیا کے سامنے ہے۔ 2000 میں صدارتی انتخابات کی مہم میں صدر جارج بش نے امریکی عوام سے جتنے وعدہ کیے تھے وہ نائن الیون کو دہشت گردی کا واقعہ ہونے کی وجہ سے پورے نہیں ہو سکے تھے۔ اور صدر بش کے پہلے چار سال امریکی عوام کو ا سا مہ بن لادن سے خوفزدہ رکھنے میں گزر گیے تھے۔ جبکہ چار سال بعد دوسرے صدارتی انتخابات میں صدر بش کی انتخابی مہم کا موضوع القاعدہ کے خلاف جنگ تھا۔ اور امریکی عوام کے مسائل کو ثانوی حیثیت دی تھی۔ صدر بش دوسری مرتبہ بھی صدر منتخب ہو گیے تھے۔ دوسرے چار سال بش انتظامیہ کے القاعدہ کے خلاف جنگ دنیا کے مختلف ملکوں میں لڑنے میں گزر گیے تھے۔ صدر بش نے آٹھ سال میں امریکی عوام کے مصائب ختم کیے تھے اور نہ  ہی عالمی تنازعوں کو حل کیا تھا۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ بھی اس طرح لڑی تھی کہ اسے اور پھیلا دیا تھا۔ بش انتظامیہ نے افغانستان کو استحکام دیا تھا اور نہ ہی عراق کو امن دیا تھا۔ جبکہ امریکہ کی معیشت کے لئے انتہائی گھمبیر مسائل پیدا کر دئیے تھے۔
     اکیسویں صدی کے تیسرے صدارتی انتخابات میں براک اوبامہ ڈیموکریٹک پارٹی کے صدارتی امیدوار تھے۔ اپنی صدارتی انتخابی مہم میں اوبامہ نے “Hope on the way” کے نعرے سے امریکی عوام کو حوصلہ دیا تھا۔ صدر اوبامہ نے امریکی عوام کو یہ یقین دلایا تھا کہ وہ اسامہ بن لادن کو پکڑیں گے۔ عراق جنگ ختم کریں گے۔ اور عراق سے فوجیں نکال لیں گے۔ افغانستان میں طالبان کے خلاف جنگ پر توجہ دیں گے۔ طالبان کا خاتمہ کیا جاۓ گا۔ افغان سیکورٹی فورس کی تربیت مکمل ہونے کے بعد افغانستان میں امن اور استحکام کی ذمہ دار یاں کابل حکومت کے حوالے کر دی جائیں گی۔ اور پھر افغانستان سے امریکہ اور نیٹو فوجیں چلی جائیں گی۔ صدر اوبامہ نے اپنی صدارت کے پہلے چار سال میں گوتانوموبے نظر بندی کیمپ بند کرنے کا عہد کیا تھا۔ اور اسے امریکہ کی جمہوری قدروں پر ایک سیاہ داغ قرار دیا تھا۔ بش انتظامیہ کے آٹھ سال دور میں امریکہ کے معاشی حالات انتہائی خراب ہو گیے تھے۔ بیروز گاری 10 اور12 فیصد پر پہنچ گئی تھی۔ امریکہ کی معیشت Recession میں تھی۔ ہاؤسنگ انڈسٹری میں Mortgage  اسکینڈل نے مالیاتی اداروں کو ایک بڑے بحران میں ڈال دیا تھا۔ بڑے بڑے بنک گرنے کے قریب پہنچ گیے تھے۔ صدر اوبامہ کا وائٹ ہاؤس میں پہلا دن تھا اور جب انہوں نے امریکہ کو اتنے خراب معاشی حال میں دیکھا تو انہیں یقین نہیں آ رہا تھا کہ صدر بش انہیں امریکہ کے انتہائی خراب معاشی حالات دے کر گیے تھے۔
     پہلے چار سال میں صدر اوبامہ نے امریکی عوام سے انتخابی مہم کے دوران جو وعدے کیے تھے۔ ان میں سے کچھ وعدے پورے کیے تھے۔ لیکن صدر اوبامہ کا زیادہ تر وقت امریکہ کے معاشی اداروں کو بچانے میں گزرا تھا۔ تاہم عراق سے فوجیں بلا لی تھیں۔ یہ بھی امریکہ کے معاشی مسائل میں اضافہ کرنے کا سبب تھا۔ افغان جنگ پر خصوصی توجہ دی تھی۔ صدر اوبامہ کی انتظامیہ میں صدارتی انتخابی مہم کا آغاز ہونے سے صرف چند ماہ قبل اسامہ بن لادن کو پکڑ لیا تھا۔ یہ بہت بڑا وعدہ تھا جسے صدر اوبامہ نے پورا کر کے دکھایا تھا۔ امریکہ کی معیشت میں عوام کا اعتماد بحال ہو رہا تھا۔ امریکہ کو Recession سے نکال لیا تھا۔ Health Care Reform امریکی عوام سے ایک بڑا عہد تھا اور صدر اوبامہ نے اسے بھی پورا کیا تھا۔ یہ چند وعدے تھے جو صدر اوبامہ نے پہلے چار سال میں انتہائی مشکل حالات میں پورے کیے تھے۔ اس کی بڑی وجہ یہ بھی تھی کہ صدر اوبامہ کی انتظامیہ کے پہلے دو سال میں کانگرس میں ڈیموکریٹ کی اکثریت تھی۔ لیکن پھر 2010 میں کانگرس کے مڈ ٹرم الیکشن میں ری پبلیکن کو کانگرس میں اکثریت حاصل ہو گئی تھی۔ جس کے بعد اوبامہ انتظامیہ کے لئے مشکلات بڑھ گئی تھیں۔
     اوبامہ پریذیڈنسی کے دوسری ٹرم میں کانگرس کا رول جیسے انتظامیہ کے اندر ایک انتظامیہ بن گیا تھا۔ کانگرس اپنے ایجنڈے پر عملدرامد دیکھنا چاہتی تھی۔ اس صورت حال میں صدر اوبامہ کو اپنے انتخابی ایجنڈے کے بقیہ حصہ پر عملدرامد میں سخت مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ صدر اوبامہ کی سفیروں کی تقرر یوں اور اعلی وفاقی عدالتوں میں ججوں کی نامزدگیوں کی توثیق کرنے کے سلسلے میں ری پبلیکن پارٹی کی غالب کانگرس کا رویہ عدم تعاون ہو گیا تھا۔۔ گوتانوموبے نظر بندی کیمپ امریکہ کی جمہوری قدروں پر ایک سیاہ داغ ہے۔ صدر اوبامہ اس سیاہ داغ کو ہمیشہ کے لئے ختم کرنا چاہتے ہیں۔ لیکن کانگرس نے ایک بل منظور کرکے صدر اوبامہ کو گوتانوموبے بند کرنے سے روک دیا ہے۔ اور امریکہ کی جمہوری قدروں پر یہ سیاہ داغ برقرار رکھا ہے۔ جبکہ گوتانوموبے میں نظر بند قیدیوں پر سالانہ 7 ملین ڈالر خرچ کیے جا رہے ہیں۔ صرف 2015 میں گوتانوموبے کے اخراجات 445 ملین ڈالر تھے۔ اور 2015 تک یعنی 14 برس میں گوتانوموبے کے مجموعی اخراجات 5.7 بلین ڈالر تھے۔
     صدارتی انتخابات کی مہم تقریباً 18 ماہ سے جاری ہے۔ دونوں پارٹیوں کی پرائم ریز کے دوران مختلف ٹی وی چینلز پر دونوں پارٹیوں کے صدارتی امیدواروں کے درمیان مباحثہ بھی ہوۓ تھے لیکن حیرت کی بات تھی کہ صدارتی امیدواروں سے کانگرس کے اس رول پر کسی نے سوال نہیں کیے تھے۔ اوبامہ انتظامیہ کے لئے یہ “do nothing Congress” تھی۔ کانگرس نے گوتانوموبے  نظر بندی کیمپ بند کرنے کی صدر اوبامہ کو اجازت نہیں دی تھی۔ لیکن عراق جنگ کا تجربہ دیکھنے کے باوجود کانگرس نے صدر اوبامہ کو لیبیا Adventure کرنے کی اجازت دے دی تھی۔ سینیٹر جان مکین کانگرس کے جیسے De facto سیکریٹری آف اسٹیٹ تھے۔ اور سینیٹر Lindsey Graham ان کے ڈپٹی تھے۔ عراق کے خلاف جنگ کی مہم میں یہ سب سے آگے تھے۔ پھر کرنل قدافی کے خلاف مہم میں یہ بن غازی میں اسلامی انتہا پسندوں کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کر رہے تھے۔ اور ان کے ساتھ کھڑے تھے۔ اور صدر اوبامہ سے کرنل قدافی کے خلاف فوجی ایکشن کا مطالبہ کر رہے تھے۔ امریکہ کی De jure سیکریٹری آف اسٹیٹ ہلری کلنٹن کو اس پر انتظامیہ کی پالیسی واضح کرنے سے پہلے قدافی کے خلاف فوجی ایکشن کے لئے اتنا زیادہ دباؤ بڑھ گیا تھا کہ صدر اوبامہ نے کچھ سوچے سمجھے بغیر لیبیا پر بمباری کا حکم دے دیا تھا۔ بن غازی میں جن اسلامی انتہا پسندوں کے ساتھ سینیٹر جان مکین اور سینیٹر گرہم کھڑے تھے بعد میں انہوں نے کرنل قدافی کو قتل کر دیا تھا۔ اور پھر انہی کے ساتھیوں نے بن غازی میں امریکی سفیر اور چار دوسرے امریکیوں کو مار دیا تھا۔ اب ہلری کلنٹن کے judgment کے بارے میں سب سوال کر رہے ہیں۔ لیکن سینیٹر جان مکین اور سینیٹر Lindsey Graham کے Judgment کے بارے میں کوئی سوال نہیں کر رہا ہے۔ ان کے Judgment غلط ہونے کے باوجود لوگ انہیں منتخب کرتے ہیں۔
   
   "Senator John McCain and Senator Lindsey Graham’s judgment were worse than Secretary Hillary Clinton."     

     مشرق وسطی کو جمہوری بنانے کے پروجیکٹ پر بش اور اوبامہ انتظامیہ نے تقریباً 576 ملین ڈالر خرچ کیے تھے۔ جس کے بعد مصر میں جمہوریت آئی تھی۔ جو عرب دنیا کا ایک بڑا ملک تھا۔ سینیٹر جان مکین اور سینیٹر Graham  مصر میں جمہوریت کے متوالوں کے ساتھ کھڑے تھے۔ جمہوریت کے لئے ان کی قربانیوں کو خراج تحسین پیش کر رہے تھے۔ لیکن پھر مصر میں جمہوریت نے پیدائش کے پہلے ہی سال میں دم توڑ دیا تھا۔ مصر میں دوبارہ فوجی راج بحال ہو گیا تھا۔ سینیٹر مکین اور سینیٹر گرہم نے سینٹ میں اس کے خلاف کچھ نہیں کیا تھا۔ مصر کی فوجی اور اقتصادی امداد نئے فوجی راج میں بھی جاری تھی۔ مصر میں جمہوریت کی ناکامی کے بعد شام میں سیاسی تبدیلی کے لئے تحریک کی حمایت معطل کر دی جاتی۔ لیکن اسد حکومت کے خلاف باغیوں کو تربیت دینے پر اوبامہ انتظامیہ 500 ملین ڈالر خرچ کر رہی تھی۔ کانگرس نے اسے کبھی ویٹو نہیں کیا تھا۔ جبکہ سینیٹر مکین اور سینیٹر گرہم شام میں امریکی فوجیں بھیجنے کا اصرار کر رہے تھے۔ شام میں جن نام نہاد باغیوں کی حمایت کی جا رہی تھی۔ ان میں ایک بڑی تعداد کا عرب اور شمالی افریقہ میں القاعدہ اور داعش سے تعلق تھا۔ امریکہ کو عرب دنیا میں جمہوریت پھیلانے میں بری طرح ناکامی ہوئی ہے۔ جس پر لاکھوں ڈالر خرچ کیے تھے۔ امریکہ نے شام میں باغیوں کو تربیت دی تھی 500 ملین ڈالر خرچ کیے تھے۔ اس سے  القاعدہ اور داعش کو فروغ ملا ہے۔ عرب دنیا میں ہر طرف یہ امریکہ کی ناکامیاں ہیں۔ جنہوں نے روس کے لئے عرب دنیا میں داخل ہونے کے دروازے کھولے ہیں۔ امریکہ کی یہ تاریخی ناکامیاں روس کے لئے تاریخی فتح بن گئی ہیں۔
    اوبامہ انتظامیہ کو مصر میں کسی بھی قیمت پر جمہوریت کو ناکام نہیں بنانا چاہیے تھا۔ مشرق وسطی میں یہ جمہوری تبدیلی امریکہ کے مفادات کی فرنٹ لائن تھی۔ اگر مصر میں امریکہ کامیاب ہو جاتا تو شام میں بھی اسے ضرور کامیابی ہوتی۔ اور روس کو بھی شام میں آنے کا موقعہ نہیں دیا جاتا۔ اسرائیل میں تقریباً دو ملین روسی آباد ہیں۔ اور آئندہ حکومت اسرائیل میں روسی نژاد وزیر اعظم کی ہو گی۔ ایرانی یہودی اس کی کابینہ میں ہوں گے۔ اور یہ بڑی تبدیلی کا آغاز ہو گا۔ صدر پو تن نے فلسطین کے صدر محمود عباس اور اسرائیلی وزیر اعظم نتھن یاہو کو ماسکو میں مذاکرات شروع کرنے کے لئے بلایا ہے۔ یہ وہ اہم ایشو ہیں جن پر صدارتی امیدواروں کو بات کرنا چاہیے تھی۔ اور اپنی پالیسی واضح کرنا چاہیے تھی۔
    اب اوبامہ انتظامیہ کے اس تجربہ  اور کانگرس کے اس رول میں ڈونالڈ ٹرمپ انتظامیہ عوام سے اپنے وعدے کس طرح پورے کرے گی؟ جبکہ کانگرس میں ڈیموکریٹ اور ری پبلیکن  دونوں ڈونالڈ ٹرمپ کے خلاف پہلے ہی بہت زیادہ Hostile ہیں۔ جبکہ ہلری کلنٹن انتظامیہ میں ری پبلیکن کانگرس کا رویہ خاصا معاندانہ ہو گا۔ اور خدشہ یہ ہے کہ 90 کی دہائی میں صدر کلنٹن کا دور واپس آ جاۓ گا۔ اور اس مرتبہ صدر ہلری کلنٹن کے خلاف Congressional انکوائریوں کی بھر مار ہونے لگے گی۔                          

No comments:

Post a Comment