India’s New Ping-Pong Role Between America And China
The Question Is Not The Security Of The
Powerful, The
Question Is Survival Of The Weaker And Economically Deprived
Question Is Survival Of The Weaker And Economically Deprived
مجیب خان
ایسے
عالمی حالات میں کہ جب دنیا بھر میں فوجی الائینس ایک فرسودہ نظام کی سیاست قرار
دئیے جا رہے ہیں۔ فوجی مہم جوئیوں اور غیر ملکی فوجی اڈوں کے خلاف آوازیں بلند ہو
رہی ہیں۔ لوگوں میں مسلسل جنگوں کو ان کی زندگی کا حصہ بنانے پر سخت غصہ پا یا
جاتا ہے۔ ادھر نائین ایلون کے بعد سے امریکہ کو ابھی تک اپنی کسی فوجی مہم جوئی میں
کوئی کامیابی نہیں ہوئی ہے۔ لیکن ان تمام حقائق کے باوجود بھارت کے وزیر اعظم
نریندر مودی نے واشنگٹن کے ساتھ ایک فوجی معاہد پر دستخط کیے ہیں۔ دونوں ملک اس
معاہدے کے تحت ایک دوسرے کو عالمی طور پر Spare parts
سروس اور Refueling کی سہولتیں
فراہم کریں گے۔ امریکہ کی مسلح افواج بھارتی اڈوں کو موثر طور پر استعمال کر سکیں
گی۔ بھارت کو بھی ایسی ہی سہولتیں دی جائیں گی۔ اس کے علاوہ امریکہ اب بھارتی بندر
گاہیں اور ائیر بیس استعمال کر سکے گا۔ بھارت امریکہ کے ساتھ فوجی معاہدے کو
اس لئے ضروری بتا رہا کہ چین اور پاکستان کے درمیان اقتصادی تعلقات کے فروغ سے اس
خطہ میں چین کا اثر و رسوخ بہت بڑھ جاۓ
گا۔ اور یہ بھارت کی سلامتی کے لئے ایک
بڑا خطرہ بن جاۓ گا۔ یہ بڑے تعجب کی بات ہے حالانکہ دنیا اقتصادی تعلقات کے فروغ
سے خطہ کے امن اور استحکام کو اہمیت دیتی ہے۔ لیکن پاکستان سے دشمنی میں یہ بھارتی
منطق ہے۔ اب بھارت میں ہندو Belligerency
بڑھتی جا رہی ہے اور اس صورت میں امریکہ کے ساتھ بھارت کا فوجی معاہدہ خطہ کے
ملکوں کے لئے تشویش کا باعث ہے۔ یہ فوجی معاہدہ خطہ کو عدم استحکام بھی کر سکتا
ہے۔
وزیر
اعظم نریندر مودی نے بھارت کی اس پالیسی کو اب تبدیل کر دیا ہے۔ جس نے ترقی پذیر دنیا میں بھارت کو ایک قابل احترام
قیادت کا مقام دیا تھا۔ اور یہ جواہر لال نہرو کی غیر جانبدارانہ پالیسی تھی۔ اور
جواہر لال نہرو کے بعد ہر بھارتی حکومت نے غیرجاببدارانہ پالیسی کے اصولوں کی
بنیاد پر بھارت کو عالمی تنازعوں سے الگ تھلگ رکھا تھا۔ نریندر مودی نے بھارت کی
اس پالیسی کو اب تبدیل کر دیا ہے اور امریکہ کے ساتھ بھارت بھی
چین سے پنگے بازی کرنے میں شامل ہو
گیا ہے۔ امریکہ کو ہمیشہ ایسی قیادتوں کی تلاش رہتی ہے۔ سرد جنگ میں سوویت یونین
کے خلاف پنگے بازی میں امریکہ کے ساتھ پاکستان کی قیادتیں شامل ہو گئی تھیں۔
امریکہ کی پنگے بازی کی سیاست میں اسے جنوبی ایشیا سے کوئی نہ کوئی ضرور مل جا تا
ہے۔ حالانکہ یہ بھارت تھا جس نے 50 اور 60 کی دہائیوں میں پاکستان کے امریکہ کے
ساتھ فوجی معاہدوں میں شامل ہونے کی سخت مخالفت کی تھی۔ اور ایسے فوجی معاہدوں سے
خطہ میں کشیدگی پیدا ہونے کے خدشہ کا اظہار کیا تھا۔ اور اب خطہ میں پہلے سے کشیدہ
حالات ہیں اور بھارت نے چین کے خلاف امریکہ کے ساتھ فوجی معاہدہ کیا ہے۔
امریکہ کو نریندر مودی اس لئے پسند ہے کہ یہ
ایک سخت گیر ہندو مذہبی نظریاتی ہے۔ ہندو نظریات پرستی کی بنیاد پر مودی سخت فیصلہ کرنا جانتا ہے۔ اور
گجرات میں مودی نے اس کا ثبوت بھی دیا ہے۔ انتخابی مہم کے دوران مودی نے پٹھان کوٹ
میں دہشت گردی کے واقعہ پر پاکستان کو متنبہ کیا تھا کہ جب وہ وزیر اعظم ہوں گے تو
پاکستان کے ساتھ ایسا ہی کریں گے جو انہوں نے گجرات میں کیا تھا۔ نریندر مودی اب
بھارت کے وزیر اعظم ہیں۔ اور انہوں نے بھارت کے یوم آزادی پر اپنے ان عزائم کا
بلوچستان کو گجرات بنانے کا اشارہ دیا ہے۔ ایک نظریاتی ہندو حکومت کے ساتھ امریکہ
کا فوجی معاہدہ اور اسے فوجی ٹیکنالوجی فراہم کرنا خطہ کے ملکوں کی تشویش میں
اضافہ کرنا ہے۔ امریکہ کا یہ ایک بڑا مسئلہ ہے کہ فوجی مہم جوئیوں کے لئے نظریاتی
مذہبی بہت موزوں نظر آتے ہیں۔ امریکہ کو اندرا گاندھی بالکل پسند نہیں تھیں۔ جو
سیکولر اور لبرل تھیں۔ جواہر لال نہرو بھی امریکہ کو پسند نہیں تھے جنہوں نے بھارت
میں سیکولر ازم کی بنیاد پر جمہوریت کو فروغ دیا تھا۔ اسی طرح اسلامی دنیا میں بھی
سیکولر اور لبرل قیادتیں امریکہ کو پسند نہیں تھیں۔ حالانکہ یہ حکومتیں 40 سال سے
اسلامی انتہا پسندی کا مقابلہ کر رہی تھیں۔ لیکن امریکہ نے ان حکومتوں کا خاتمہ کر
کے اسلامی دہشت گردی کے خلاف ان حکومتوں
کے ساتھ مل کر لڑنے کا فیصلہ کیا ہے جو دنیا میں اسلامی انتہا پسندی فروغ دے رہے
تھے۔
امریکہ اور بھارت میں اسٹرٹیجک تعلقات کا آغاز جارج بش انتظامیہ اور وزیر اعظم
اٹل بہاری واجپائی کی حکومت میں ہوا تھا۔ بھارت کے خیال میں ان تعلقات کے ذریعہ
پاکستان کو امریکہ سے دور رکھا جا سکتا تھا۔ امریکہ کے ساتھ اسڑٹیجک تعلقات میں
بھارت غیرجانبدارانہ پالیسی سے فوجی الائینس کے اسڑٹیجک تعلقات میں داخل ہو رہا
تھا۔ لیکن پھر جنتا پارٹی انتخابات ہار گئی تھی۔ اور کانگرس پارٹی اقتدار میں آ
گئی تھی۔ من موہن سنگھ وزیر اعظم بن گیے
تھے۔ کانگرس حکومت میں امریکہ کے ساتھ اسڑٹیجک تعلقات کو فروغ دینے کا عمل سست ہو
گیا تھا۔ اور کسی تیسرے ملک کے خلاف امریکہ کے ساتھ فوجی الائینس میں شامل ہونے سے
گریز کرتے ہو ۓ کانگرس کی قدیم روایتی پالیسی کو برقرار رکھا تھا۔ لیکن نریندر
مودی نے اقتدار میں آنے کے بعد امریکہ کے ساتھ جنتا پارٹی کے دور میں امریکہ کے
ساتھ جو معاملات طے پاۓ تھے۔ انہیں آگے بڑھانے کا فیصلہ کیا تھا۔ اب اگر امریکہ
بھارت دفاعی تعلقات چین کے خلاف ہیں تو ان تعلقات میں بھارت Looser ہو گا۔ چین پاکستان
اقتصادی راہداری کے منصوبہ سے بھارت کو اگر یہ خوف ہو رہا ہے کہ اس منصوبہ کی
تکمیل سے چین بھارت کے گرد حلقہ تنگ کر ے گا تو یہ ایک نا معقول سوچ ہے۔ اقتصادی
منصوبے کسی کے گرد حلقہ تنگ نہیں کرتے ہیں بلکہ حلقہ وسیع کرتے ہیں۔ اور دوسرے
ملکوں کو بھی اقتصادی منصوبوں سے فائدے پہنچتے ہیں۔ اقتصادی منصوبوں کا مقصد
اقتصادی سرگرمیوں کو پھیلانا ہو تا ہے۔
بھارت ایک عجیب صورت حال کا شکار ہو گیا ہے۔ اور کسی کی سمجھ میں نہیں آ
رہا ہے کہ بھارت آخر کیا چاہتا ہے؟ اور مودی حکومت بھارت کو کس سمت میں لے جا رہی
ہے؟ بھارت نے امریکہ کے ساتھ فوجی معاہدہ چین کی ابھرتی طاقت کو روکنے کے لئے ہے۔
لیکن دوسری طرف بھارت چین روس کے ساتھ جس میں جنوبی افریقہ اور براز یل بھی شریک
ہیں BRICS کا رکن ہے۔ پھر بھارت کو شہنگائی
گروپ میں بھی شامل کیا گیا ہے۔ چین اور روس اس گروپ کے اہم رکن ہیں۔ امریکہ کے
ساتھ فوجی معاہدے کرنے کے بعد بھارت کا اب ان تنظیموں میں کیا مستقبل ہو گا؟ بھارت
امریکہ کی مدد سے بحر ہند کی ایک غالب فوجی طاقت بننا چاہتا ہے۔ جبکہ چین دنیا کی
ایک بڑی اقتصادی طاقت بننے میں دلچسپی رکھتا ہے۔ اس میں کوئی شبہ نہیں ہے کہ مودی
کی زندگی میں بھارت کو نیٹو میں بھی شامل کر لیا جاۓ۔
وزیر اعظم نر یندر مودی جون میں صدر اوبامہ کی دعوت پر وائٹ ہاؤس آۓ تھے۔
صدر اوبامہ سے ملاقات میں وزیر اعظم مودی کو یہ یقین دلایا گیا تھا کہ بھارت کو
نیو کلیر سپلائر گروپ {NSG} میں
شامل کیا جاۓ گا۔ صدر اوبامہ کی اس سفارش کے ساتھ بھارتی وفد سیول جنوبی کوریا میں
نیو کلیر سپلائر گروپ کے اراکین کی خصوصی کانفرنس میں شرکت کرنے اس امید سے آیا
تھا کہ اس کانفرنس میں بھارت کا ایک نئے رکن
کی حیثیت سے خیر مقدم کیا جاۓ گا۔ بھارت نے کیونکہ ابھی تک NPT پر دستخط نہیں کیے ہیں لہذا بھارت
نیو کلیر سپلائر گروپ کا رکن نہیں بن سکتا ہے۔ گروپ کے دس اراکین نے جس میں چین
بھی شامل تھا بھارت کو رکنیت دینے کی مخالفت کی تھی۔ 1975 میں اس گروپ کے قیام کے
وقت متفقہ طور پر یہ فیصلہ ہوا تھا کہ نیو کلیر سپلائر گروپ کے تمام اراکین NPT معاہدے کے Signatories ہوں
گے۔ لیکن بھارت صدر اوبامہ کی سفارش سے NPT معاہدے پر دستخط کے بغیر نیو کلیر
سپلائر گروپ کا رکن بننا چاہتا تھا۔ جس پر
چین کا یہ کہنا تھا کہ "امریکہ ساری دنیا نہیں ہے" امریکہ کے Endorsement کا
مطلب یہ نہیں ہے کہ بھارت نے ساری دنیا کی حمایت حاصل کر لی ہے۔ بھارت نے اس گروپ
کے ایک بنیادی اصول کو نظر انداز کر دیا ہے۔" وزیر اعظم مودی بھارت کے
اقتصادی مسئلہ حل کر رہے ہیں لیکن بھارت کے لئے سیاسی اور خارجہ امور کے مسائل
پیچیدہ بنا رہے ہیں۔
No comments:
Post a Comment