Karachi: A City Of Lost Opportunity
مجیب خان
ہمیشہ
“First
impression is the last impression” ہوتا ہے۔ اور
ایم کیو ایم، اس کے قائد الطاف حسین اور اس کی قیادت کے بارے میں میرا پہلا تاثر
بھی آخری ہے۔ اور یہ تبدیل نہیں ہوا ہے۔ 90 کی دہائی میں مرحوم جام صادق علی سندھ
کے وزیر اعلی تھے۔ ایم کیو ایم کی قیادت میں کراچی میں بڑے پیمانے پر فسادات ہو
رہے تھے۔ اور فسادات کے خلاف حکومت کی کاروائی جا رہی تھی۔ ایم کیو ایم کے کارکنوں
کی پکڑ دھکڑ ہو رہی تھی۔ اس دوران میں نے یہ خبر پڑھی تھی کہ کراچی میں برطانیہ،
سویڈن، ڈنمارک، سوئزرلینڈ وغیرہ کے کونسل جنرل ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین کے گھر جا رہے
تھے۔ یہ خبر پڑھ کر میرا ماتھا ٹھنک گیا تھا کہ یہ سفارت کار الطاف حسین کے گھر
کیوں جا رہے تھے۔ کراچی میں ہم نے بڑے فسادات دیکھے تھے لیکن کبھی غیرملکی سفارت
کاروں کو فسادات کے دوران اس طرح کسی لیڈر
کے گھر جاتے نہیں دیکھا تھا۔ اور اس پارٹی کی قیادت کا غیرملکی ایجنٹ ہونے کے بارے
میں اس وقت سے یہ میرا پہلا تاثر ہے اور یہ میرا آخری تاثر بھی ہے۔ پھر اس وقت
الطاف حسین کو جس طرح خفیہ "سفارتی طریقہ" سے کراچی سے نکال کر لندن لے
گیے تھے۔ وہ بھی میرے اس تاثر کی تصدیق کرتا تھا۔ الطاف حسین برطانیہ کی خفیہ
ایجنسی کا ایجنٹ تھا۔ لندن میں برطانیہ کی خفیہ ایجنسی کا الطاف حسین کی لیڈرشپ
اور کراچی میں ایم کیو ایم کے رول کو Shape دینے میں اہم ہاتھ تھا۔ پاکستان
میں اخبارات اور نشریاتی میڈیا میں برطانیہ کا خاصا اثر و رسوخ ہے۔ لہذا الطاف
حسین اور ایم کیو ایم کو بھی خصوصی کوریج ملنے لگا تھا۔
برطانیہ کو کراچی میں مہاجروں میں یہ اچانک دلچسپی ہو گئی تھی۔ اور اپنی اس دلچسپی میں برطانیہ نے
ایم کیو ایم اور اس کے قائد پر ہاتھ رکھا تھا۔ برطانیہ نے ہانگ کانگ چین کے حوالے
کر دیا تھا۔ کیونکہ اس کی ہانگ کانگ کی 100 سال کی لیز ختم ہو گئی تھی۔ اوربرطانیہ
کو ہانگ کانگ چین کو واپس کرنا پڑا تھا۔ اس کے بعد بڑے زور شور سے یہ کہا جا رہا
تھا کہ کراچی اب ہانگ کانگ بنے گا۔ اس خبر سے خلیج کے عرب مسلمان بھائیوں کے کان
کھڑے ہو گیے تھے۔ وہ دوبئی کو ہانگ کانگ کے مقابلے پر تعمیر کر رہے تھے۔ ان کے تیل
اور گیس کی تمام دولت لندن کے بنکوں میں جمع ہوتی تھی۔ دوبئی کو ہانگ کانگ بنانے
کے لئے برطانیہ کی بڑی بڑی تعمیراتی کمپنیوں کو ٹھیکے دئیے گیے تھے۔ اور برطانیہ
کے لئے کراچی کو ہانگ کانگ بننے سے روکنے کا ٹھیکہ بھی تھا۔ برطانیہ کے ساتھ اس Endeavour میں
بھارت بھی شامل ہو گیا تھا۔ بھارت کراچی کو ایشیا کا اسٹاک ایکسچینج بنتا دیکھنا
نہیں چاہتا تھا۔ Mumbai
اسٹاک ایکسچینج کو بھارت شہنگائی اسٹاک ایکسچینج کے مقابلے پر لانا چاہتا تھا۔ ان
مقاصد میں الطاف حسین کی قیادت اور ایم کیو ایم کو استعمال کیا گیا تھا۔
لسانی اور قومیت کے نام پر جن لیڈروں نے سیاست کی ہے۔ انہوں نے اپنے عوام
کو کچھ نہیں دیا ہے۔ انہیں انتشار میں رکھا ہے۔ انہیں سماجی اور اقتصادی طور پر
پیچھے رکھا ہے۔ سندھ میں جی ایم سید سندھو دیش کے نعروں سے سندھیوں کو متاثر کرتے
تھے۔ سندھیوں کو حکومت کے خلاف ابھارتے تھے۔ لیکن اس سے زیادہ جی ایم سید نے سندھیوں
کو کچھ نہیں دیا تھا۔ آج سندھ میں عوام کے جو حالات ہیں وہ جی ایم سید کی اس سیاست
کے ثبوت ہیں۔ سندھی آج ترقی کے ہر شعبہ میں بہت پیچھے ہیں۔ بلوچستان میں اکبر بگتی،
سردار عطا اللہ مینگل، نواب خیر بخش وغیرہ بلوچ قوم کے نام پر سیاست کرتے تھے۔
بلوچوں کو اپنے حقوق کے لئے لڑتے رہنے کا درس دیتے تھے۔ جبکہ انہیں تمام حقوق حاصل
تھے۔ حکومت سے اپنے لئے جو چاہتے تھے۔ حاصل کر لیتے تھے۔ یہ بلوچستان میں حکومتوں
میں بھی تھے۔ لیکن انہوں نے بلوچوں کے لئے کچھ نہیں کیا تھا۔ وہ بھی بلوچ قوم کے
نام پر سیاست کرتے تھے۔ اور اپنی اس سیاست سے وہ بلوچوں کو تعلیم اور ترقی میں بہت
پیچھے چھوڑ کر چلے گیے ہیں۔ سرحد میں خان عبدالولی خان کو سیاسی حقوق حاصل تھے۔
سیاسی تقریریں کرتے تھے۔ سیاسی بیانات بھی دیتے تھے۔ لیکن پشتونوں سے خود مختاری
اور حقوق کے لئے لڑتے رہنے کا کہتے تھے۔ ولی خان کے صاحبزادے اسفندر یار ولی اسی سرحد
میں پیدا ہوئیے تھے۔ اسی سرحد میں جوان ہوۓ تھے۔ انہیں عیش و عشرت کے ساتھ تمام
حقوق حاصل ہیں۔ لیکن ولی خان پشتونوں کو پسماندہ چھوڑ کر گیے ہیں۔ تعلیم اور معاشی
ترقی میں پشتون بھی بہت پیچھے ہیں۔
کراچی میں مہاجروں نے جی ایم سید کے سندھ ،اکبر بگتی کے بلوچستان اور
عبدالولی خان کے سرحد کے مقابلے میں مہاجر قومی قیادت کے بغیر خاصی ترقی کی تھی۔
قومی سیاست میں بھی کراچی کے مہاجروں کا ایک بڑا رول تھا۔ کراچی جب بھی حرکت میں
آتا تھا۔ اسلام آباد میں حکومتیں گر جاتی تھیں۔ کراچی کا یہ مقام تھا۔ کراچی ادب
تہذیب و تمدن کا مرکز تھا۔ دنیا جب کراچی کو دیکھتی تھی تو پاکستان اسے Civil Society نظر
آتا تھا۔ الطاف حسین کراچی میں مہاجر پاکستان کی پانچویں قوم کا نعرہ لگا کر جی
ایم سید، اکبر بگتی اور ولی خان بن کر آۓ تھے۔ ان کی سیاست کا یہ نعرہ کراچی کے
مہاجروں کو بھی پسماندہ کر رہا ہے۔ جبکہ لندن میں الطاف حسین کو اور کراچی میں ایم
کیو ایم کی قیادت کو عیش و عشرت کی تمام مراعت حاصل ہیں۔ لیکن ایم کیو ایم کی
قیادت مہاجروں کے نام پر سیاست سے مہاجروں کو اقتصادی ترقی سے محروم کر رہی تھی۔
اور انہیں غربت کی تاریکیوں میں لے جا رہی تھی۔ ایم کیو ایم کی سیاست نے کراچی کی
خوبصورتی کو بدصورتی میں بدل دیا ہے۔ ایم کیو ایم پیپلز پارٹی کے ساتھ سندھ حکومت
میں شامل تھی۔ لیکن کراچی کے حالات اس وقت بھی بد تر تھے۔ پیپلز پارٹی کے ساتھ مل
کر ایم کیو ایم نے کراچی کے امن و استحکام کو تباہ کیا تھا۔ ان کے واچ میں کراچی
میں ٹارگٹ کلینگ اور دوسرے کرائم ہو رہے تھے۔ پانچ سال ایم کیو ایم پیپلز پارٹی کے
ساتھ حکومت میں تھی۔ اس دور میں کراچی میں کتنی سڑکیں اور پل تعمیر ہوۓ تھے۔ اور
ایم کیو ایم کی قیادت نے اپنے کتنے گھر کراچی اور دوبئی میں تعمیر کیے تھے؟ کراچی
کے لوگوں کے لئے ایم کیو ایم نے کتنے نئے روزگار
پیدا کیے تھے۔
ایم
کیو ایم پیپلز پارٹی کے ساتھ حکومت سے جب علیحدہ ہو گئی تھی۔ تو الطاف حسین نے
لندن سے کراچی میں تقریباً روزانہ ہڑتالوں کی اپیلیں کرنا ایک معمول بنا لیا تھا۔
ایک تو کراچی میں امن و امان کے حالات انتہائی خراب تھے۔ اور دوسرے الطاف حسین کی
روزانہ ہڑتالوں کی اپیلوں سے کراچی کا کاروبار بری طرح متاثر ہو رہا تھا۔ کراچی
میں جن کا کھانا روز کی کمائی پر انحصار کرتا تھا۔ ان کے گھروں میں فاقہ پڑنے لگے تھے۔ لیکن
الطاف حسین کو اس کا احساس تھا اور نہ ایم کیو ایم کی قیادت کو اس کا خیال تھا۔ ان
ہڑتالوں اور امن و امان کے حالات سے تنگ آ کر کراچی کے سرمایہ کار اور بزنس مین
اپنا سرمایہ اور کاروبار بنگلہ دیش ملیشیا، انڈونشیا اور دوسرے ملکوں میں منتقل کرنے لگے
تھے۔ مہاجروں کی سیاست کے نام پر ایم کیو ایم مہاجروں کے لئے یہ کام کر رہی تھی۔ کراچی میں سرمایہ اور کاروبار لانے
کے بجاۓ۔ سرمایہ اور کاروبار کو کراچی سے باہر جانے کا راستہ دیا جا رہا تھا۔ پھر
ایم کیو ایم اور الطاف حسین کے واچ میں کراچی میں ڈاکٹروں، پروفیسروں اور ممتاز
دانشوروں کو قتل کیا جا رہا تھا۔ یہ بھی مہاجر تھے۔ لیکن ایم کیو ایم نے کیا کیا
تھا؟
کراچی کی ترقی کے لئے ایم کیو ایم کے پاس حکومت میں شامل ہو کر یا حکومت سے
باہر رہتے ہوۓ بھی بے شمار سنہری موقعہ تھے۔ ایم کیو ایم اگر کراچی کے لوگوں کی
خشحالی میں مخلص اور سنجیدہ ہوتی تو کراچی کو وہ ضرور دنیا کے صف اول کے شہروں کا
شہر بنا سکتی تھی۔ کراچی پاکستان کا آبادی کے لحاظ سے سب سے بڑا شہر ہے۔ کراچی میں
خریداری بھی بہت ہوتی ہے۔ حکومت کراچی سے روزانہ لاکھوں روپے سیل ٹیکس وصول کرتی
ہے۔ یہ سیل ٹیکس کراچی کی آمدنی ہے اور اسے کراچی میں تعلیمی اداروں اور ہسپتالوں
کے حالات بہتر بنانے میں استعمال کیا جا سکتا ہے۔ پھر کراچی میں پراپرٹی ٹیکس بھی
کھربوں میں وصول کیا جاتا ہے۔ جس میں کمرشل پراپرٹی بھی شامل ہے۔ یہ پراپرٹی ٹیکس
بھی کراچی کی آمدنی ہے۔ اور اسے کراچی میں سڑکیں بنانے ٹرانسپورٹ کا نظام بہتر
بنانے اور کراچی کو صاف ستھرا شہر رکھنے میں استعمال کیا جا سکتا ہے۔ اس کے علاوہ
کراچی میں پورٹ اور ایرپورٹ سے ہونے والی آمدنی کا حصہ بھی کراچی کو ملنا چاہیے۔ کراچی کے لئے آمدنی کے بے
شمار وسائل ہیں۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ ان وسائل کو ڈھونڈنے کے لئے دماغوں کی کمی
ہے۔ جو کراچی کے لیڈر بنے ہوۓ ہیں ان کے دماغوں میں فساد بھرا ہوا ہے۔ ایم کیو ایم
کراچی کے ایجنڈے پر کام نہیں کر رہی تھی۔ یہ جن کے ایجنڈے پر کام کر رہی تھی کراچی
کے حالات بھی اسی ایجنڈے کے مطابق سامنے آۓ ہیں۔
پاکستان میں الطاف حسین کو بہت ذہن سمجھا جاتا ہے کہ انہوں نے لندن میں
بیٹھ کر کراچی میں ایم کیو ایم کو منظم ر کھا ہے۔ اور بڑی کامیابی سے پارٹی چلا
رہے ہیں۔ اول تو الطاف حسین اتنے ذہن نہیں تھے۔ اگر وہ واقعی ذہن ہوتے تو اپنے آپ
کو کبھی اس انجام پر لے جانے کی سیاست نہیں کرتے۔ اور پارٹی کا بھی یہ حشر نہیں
ہونے دیتے۔ الطاف حسین لندن میں بیٹھے تھے۔ لیکن پاکستان میں برطانیہ اور امریکہ
کے سفیروں کی انہیں پشت پنا ہی حاصل تھی۔ پاکستان کے ٹی وی چینلز پر الطاف حسین کو
اتنا زیادہ کو ریج بھی برطانیہ کی وجہ سے دیا جاتا تھا۔ ادھر لندن میں بھی ایک بڑی
آ ئی ہے۔ وزیر داخلہ چودھری نثار علی الطاف حسین کے بارے میں فائلیں لے کر لندن
ھوم منسٹر کے پاس جاتے تھے۔ لیکن ان کے سامنے فائلیں رکھ کر وزیر داخلہ جیسے دیوار
سے سر پیٹ کر واپس آ جاتے تھے۔ اور اس پر کوئی کاروائی نہیں ہوتی تھی۔ لیکن لندن
میں میئر کے الیکشن میں پاکستانی نژاد برطانوی شہری لندن کا میئر منتخب ہو گیا تھا۔
لندن کے میئر کے اختیارات اور برطانوی وزیر اعظم کے اختیارات میں صرف ایک فرلانگ
کا فرق ہے۔ الطاف حسین لندن کے شہری ہیں۔ ہمارے ملک میں امریکہ اور برطانیہ کے ایک
اشارے پر حکومتوں کے تختہ الٹ جاتے تھے۔ امریکہ اور برطانیہ کا پاکستان میں کیونکہ
جمہوریت میں مفاد ہے۔ اس لئے آصف علی زر داری نے بھی پانچ سال مکمل کر لئے تھے۔
اگر بے نظیر بھٹو یا ذوالفقار علی بھٹو آج وزیر اعظم ہوتے تو وہ بھی پانچ سال مکمل
کرلیتے۔ لہذا الطاف حسین اور ایم کیو ایم کے خلاف کاروائی میں بھی تاخیر نہیں ہوئی
تھی۔ ایم کیو ایم کا بھی تختہ الٹ دیا گیا تھا۔ لندن میں پاکستانی نژاد میئر اب الطاف
حسین کے لئے خطرہ بن گیے ہیں۔
No comments:
Post a Comment