Thursday, September 29, 2016

Mr. Prime Minister Modi, “If There’s A Will, There’s A Way”, And You Don’t Have Both

         
Mr. Prime Minister Modi, “If There’s A Will, There’s A Way”, And You Don’t Have Both
Whining And Complaining Has Become India’s Habit
Fifty Thousand Peoples Have Been Killed In Pakistan In Terrorists Attacks, But India Is Telling The World That They Are The Victim Of Terrorism

مجیب خان

India's Prime Minister, Narendra Modi
Protests for Kashmir
Violent clashes in the streets of Kashmir

      مودی حکومت کا امریکہ کے ساتھ فوجی معاہدہ ہو گیا ہے۔ اور بھارت کا GDP 7.9 فیصد پر پہنچ گیا ہے۔ بھارتی رہنماؤں کی سوچ ہی بدل گئی ہے۔ بھارت انہیں اس خطہ کی سپر پاور نظر ہے۔ اس خطہ کے ملک جن کا امریکہ کے ساتھ فوجی معاہدہ نہیں ہے اور جن کا GDP 3 اور 4 فیصد ہے۔ وہ ان کی نظر میں بھارت کے Slave ہیں۔ اور پاکستان کے ساتھ تعلقات رکھنے کو وہ Hell سمجھتے ہیں۔ انتہا پسند ہندوؤں نے اپنی آستینیں اوپر چڑھا لی ہیں۔ اور یہ ڈنڈے لاٹھیاں لے کر میدان میں آ گیے ہیں۔ اوبامہ انتظامیہ نے ہندو انتہا پسندوں کے ساتھ فوجی معاہدہ کر کے اس خطہ میں ایک نئی جنگ کی فضا پیدا کر دی ہے۔ امریکہ اور بھارت میں 29 اگست کو معاہدہ ہوا تھا۔ اور یہ معاہدہ ہونے کے صرف24 روز بعد بھارت نے پاکستان کو جنگ کی دھمکیاں دینا شروع کر دی ہیں۔ دن رات پاکستان کو دھمکیاں مل رہی ہیں۔ سورج جب طلوع ہوتا ہے وزیر اعظم مودی یہ مطالبہ کرنے لگتے ہیں کہ پاکستان کو دہشت گرد اسٹیٹ قرار جاۓ۔ اور سورج جب غروب ہو جاتا ہے تو پھر یہ کہنے لگتے ہیں پاکستان کو تنہا کر کے اس تاریکی میں چھوڑ دیا جاۓ۔ اور اگر تاریکی کی بجاۓ چاندنی رات ہوتی ہے۔ تو پھر یہ کہنے لگتے ہیں کہ پاکستان کو پانی کی فراہمی معطل کر دی جاۓ۔ پاکستان کو سزا دینے کی یہ باتیں بھارتی حکومت میں اس لئے ہو رہی ہیں کہ چھ لاکھ بھارتی فوجیں کشمیریوں کی سرکشی پر قابو پا نے میں ناکام ہو رہی ہیں۔ باغی کشمیریوں نے 18 بھارتی فوجیوں کو ہلاک کر دیا ہے۔ اس لئے مقبوضہ کشمیر کے حالات کی گرمی پاکستان پر اتر رہی ہے۔
    ایشیا بالخصوص جنوب مشرقی ایشیا کے ملکوں کو اس بھارتی Behavior کا خصوصی طور پر نوٹس لینا چاہیے۔ بھارت اور امریکہ میں ابھی صرف فوجی معاہدہ ہوا ہے۔ اور امریکہ نے بھارت کو ابھی مہلک ہتھیاروں کی ترسیل بھی شروع نہیں کی ہے۔ لیکن بھارت نے پاکستان کا پانی بند کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ کیونکہ مذہبی انتہا پسند ہیں اس لئے Evil خیالات ذہن میں جلدی آ جاتے ہیں۔ لیکن اختلافات یا تنازع کو حل کرنے کے سلسلے میں اچھے خیالات ان  کے ذہن میں کبھی نہیں آ تے ہیں۔ حالانکہ دنیا میں پانی کی قلت کی جنگ اس صدی کے آخر تک شروع ہونے کا کہا جا رہا ہے۔ اس وقت تک تیل کی لڑائی کی جگہ پانی کی لڑائی لے لی گی۔ لیکن بھارت نے ابھی سے پاکستان کا پانی بند کر نے کا فیصلہ کر کے  یہ لڑائی شروع کر دی ہے۔ ویسے بھی پاکستان کے ساتھ لڑائیوں میں بھارت سب سے آ گے ہو تا ہے۔ اور چین کے ساتھ امن میں آ گے رہتا ہے۔ امریکہ بھارت فوجی معاہدہ  کے تحت امریکہ بھارت کو بحر ہند کی ایک بڑی نیول پاور بننے میں بھی مدد کرے گا۔ بھارت کو انتہائی جدید طیارہ بردار بحری بیڑے اور ایٹمی ہتھیاروں سے مسلح آبدوزیں بھی بھارت کو فراہم کی جائیں گی۔ بھارت بحر ہند کی نیول پاور بننے کے بعد پھر بحر ہند میں ان ملکوں کے تجارتی بحری جہازوں کی ناکہ بندی کرے گا جو بھارت کی تابعداری نہیں کریں گے یا جن کے ساتھ بھارت کے سیاسی اور تجارتی اختلافات ہوں گے۔ اس وقت پاکستان کے ساتھ بھارت کا جو Behavior ہے۔ اور بھارتی حکومت جس طرح پاکستان پر اپنی بالا دستی قائم کرنے کے لئے عالمی دباؤ کا سہارا لے رہی ہے۔ پاکستان کو Bully کر رہی ہے۔ اس سے ایشیائی ملکوں بالخصوص جنوب مشرقی ایشیائی ملکوں کی آنکھیں کھل جانا چاہیے۔ بحر ہند پر بھارت کی اجارہ داری روکنے میں جوابی اقدامات بہت ضروری ہیں۔ اس پر خصوصی توجہ دینے کی ضرورت ہے۔
    80 کی دہائی میں امریکہ نے افغانستان میں اپنے محدود تنگ نظر مفادات میں انتہائی رجعت پسند اسلامی مجاہدین کو ہتھیاروں سے مسلح کیا تھا۔ اور انہیں سوویت یونین کے مقابلے پر کھڑا کر دیا تھا۔ لیکن اس وقت کسی نے یہ نہیں سوچا تھا کہ 30 یا 35 سال بعد یہ اسلامی مجاہدین جنوبی ایشیا اور دنیا کے لئے کتنا بڑا خطرہ ہوں گے۔ بالکل اسی طرح آج بھارت کو ہتھیاروں سے مسلح کر کے چین کے مقابلے پر کھڑا کیا جا رہا ہے۔ لیکن کوئی یہ غور نہیں کر رہا ہے کہ 30 یا 35 سال بعد بھارت جنوب مشرقی ایشیا کے لئے کتنا بڑا خطرہ ہو گا۔ جبکہ بھارت میں ہندو انتہا پسندی ابھی ختم نہیں ہوئی ہے۔ تاہم بھارت کا چین کے مقابلے کی اقتصادی طاقت بننے سے کسی کو خطرہ نہیں ہو گا۔
    وزیر اعظم نریند ر مودی نے اب پاکستان کو مخاطب کرتے ہوۓ کہا ہے کہ "میں پاکستان کے عوام کو بتانا چاہتا ہوں کہ بھارت آپ سے لڑنے کے لئے تیار ہے۔ اگر آپ میں طاقت ہے تو غربت کے خلاف لڑنے آ گے آئیں۔ دیکھتے ہیں پھر کون جیتتا ہے۔ دیکھتے ہیں کس میں بھارت یا پاکستان میں پہلے غربت اور جہالت کو شکست دینے کی صلاحیت ہے۔" لیکن بھارت کے دفاعی اخراجات غربت کا حل کیسے ہو سکتے ہیں؟ بھارت پاکستان کو یہ چیلنج کر رہا ہے کہ "آؤ دیکھتے ہیں غربت اور جہالت پہلے کون ختم کرتا ہے۔" لیکن پھر یہ بھارت ہے جو چین اور پاکستان کے درمیان غربت ختم کرنے کے اقتصادی منصوبوں کو سبوتاژ کرنے کی سازشیں بھی کر رہا ہے۔ ہر طرف سے یہ کوشش ہے کہ کسی طرح چین ان منصوبوں کی تکمیل سے پیچھے ہٹ جاۓ۔ بلوچستان میں حکومت لوگوں کے اقتصادی حالات بہتر بنانے کی کوششیں کر رہی ہے۔ فوج نے بلوچستان میں خاصے ترقیاتی کام بھی کیے ہیں۔ سڑکیں بنائی ہیں۔ اسکول تعمیر کیے ہیں۔ ہسپتال بناۓ ہیں۔ لیکن وزیر اعظم مودی بلوچستان میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں اس طرح بیان کر رہے ہیں کہ جیسے مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوج Chili-Filled Shell سے لوگوں کو اندھا کر رہی ہے اور Pellet guns سے لوگوں کے جسموں کو چھینی کیا جا رہا ہے۔ بھرم داغ بگتی کو بلوچستان میں بھارتی حکومت انتشار پھیلانے کے لئے استعمال کر رہی ہے۔ وزیر اعظم مودی اسے بلوچستان جا کر اپنے بلوچ عوام کو غربت سے نجات دلانے کے کام کرنے کا مشورہ کیوں نہیں دیتے ہیں۔ اسے بلوچستان میں غربت ختم کرنے کے کاموں کو تباہ کرنے میں کیوں استعمال کر رہے ہیں؟
    حیرت کی بات ہے کہ بھارت جو دنیا کی ایک بڑی جمہوریت ہے۔ بھارت نے امریکہ کے ساتھ فوجی معاہدہ کرنے کے 24 روز بعد پاکستان کے خلاف فوجی کاروائی کرنے کی دھمکیاں دینا شروع کر دی ہیں۔ اور سرحدوں پر بھارتی فوج کی نقل و حرکت بھی بڑھ گئی ہے۔ جبکہ سرد جنگ میں پاکستان میں فوجی حکومت نے بھی امریکہ کے ساتھ فوجی معاہدہ کیے تھے۔ لیکن فوجی جنرلوں نے امریکہ کے ساتھ فوجی معاہدے کرنے کے 24 روز بعد بھارت پر حملہ کی دھمکیاں کبھی نہیں دی تھیں۔ وزیر اعظم مودی کی حکومت کو دو سال ہو گیے ہیں۔ مقبوضہ کشمیر کے حالات سے وہ بہت عرصہ سے واقف تھے۔ جہاں 5 لاکھ فوج تقریباً 3 دہائیوں سے کشمیریوں کا گھراؤ کیے ہوۓ ہے۔ وزیر اعظم مودی کشمیریوں کو فوج کے پریشر کو ککر میں چھوڑ کر دنیا بھر میں گھومتے پھر رہے ہیں۔ صدر اوبامہ سے وہ آٹھ مرتبہ ملے ہیں۔ لیکن کشمیریوں سے وزیر اعظم مودی نے ایک مرتبہ بھی ملاقات نہیں کی تھی۔ نہ کشمیر کے حالات کی طرف کوئی توجہ دی تھی۔ لہذا مقبوضہ کشمیر میں یہ پریشر کو ککر ایک دن تو پھٹنا تھا۔ اور جب یہ پریشر کو ککر پھٹ گیا ہے تو بھارت نے شور مچا دیا ہے کہ یہ دہشت گرد پاکستان سے آۓ تھے اور  پریشر کو ککر پھٹ گیا ہے۔ پاکستان کو الزام دینا ہر بھارتی حکومت کی عادت بن گئی ہے۔ حالانکہ دنیا دیکھ رہی ہے کہ پاکستان میں دہشت گردی کے کتنے خوفناک واقعات ہوۓ تھے۔ جس میں 50 ہزار سے زیادہ لوگ مارے گیے تھے۔ جن میں ایک بڑی تعداد فوجیوں کی بھی شامل ہے۔ بھارتی حکومت یہ جانتے بوجتے بھی پاکستان کو دہشت گرد ریاست قرار دینے کا مطالبہ کر رہی ہے۔ 
    اگر بھارتی حکومت میں “There’s a will, There’s a way” سوچ ہوتی تو اس کے سامنے پاکستان کے ساتھ تنازعوں کو حل کرنے کے راستے بھی ہوتے۔ لیکن بھارتی حکومت اگر تنازعوں کو حل کرنا نہیں چاہتی ہے۔ اور ان تنازعوں کو پاکستان کے ساتھ محاذ رائی کی سیاست کے لئے استعمال کرنا چاہتی ہے۔ پھر اس کا حل کسی دیوتا کے پاس بھی نہیں ہے۔ نریندر مودی اقتدار میں آۓ تھے۔ انہیں چاہیے تھا کہ وہ سب سے پہلے وزیر اعظم واجپائی اور صدر جنرل پرویز مشرف کے درمیان جن امور پر اتفاق ہو گیا تھا۔ اور پھر وزیر اعظم من موہن سنگھ  کے درمیان جس معاہدے پر دستخط ہونے والے تھے۔ وزیر اعظم مودی  اس پر وزیر اعظم نواز شریف سے اپنی پہلی ملاقات میں بات کرتے اور پھر اس معاہدے کو آگے بڑھاتے۔ دونوں ملکوں میں مذاکرات “Z” پر پہنچنے کے بعد انہیں دوبارہ “A” سے شروع نہیں کیا جاۓ۔ Now the ball is in India’s court                                            

No comments:

Post a Comment