Two Two-Term Presidents And Seven Wars
The Next President Inherits These Seven Wars
The Next President Inherits These Seven Wars
مجیب خان
20 ستمبر 2016 کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے سالانہ اجلاس سے صدر اوبامہ نے آخری خطاب کیا تھا۔ اور 23 ستمبر 2009 کو جنرل اسمبلی کے سالانہ اجلاس سے صدر اوبامہ نے پہلا خطاب کیا تھا۔ صدر اوبامہ نے جنرل اسمبلی سے 8 مرتبہ خطاب کیا ہے۔ جنرل اسمبلی کے سالانہ اجلاس سے صدر اوبامہ کے پہلے خطاب اور آخری خطاب کے درمیان صدر اوبامہ کی صدارت کی ایک تاریخ ہے۔ جس سے عالمی امور میں صدر اوبامہ کی صدارت کی کامیابیوں اور ناکامیوں کا جائزہ لیا جا سکتا ہے۔ صدر اوبامہ Hope کے ایک عظیم پیغام کے ساتھ اقتدار میں آۓ تھے۔ دنیا کے کروڑوں لوگوں کو صدر اوبامہ کے Hope کے پیغام سے بڑی توقعات تھیں۔ لیکن کیا صدر اوبامہ نے اپنے Hope کے پیغام سے لوگوں کی توقعات پوری کی ہیں؟ یا دنیا میں ان سے امیدیں وابستہ لگاۓ لوگوں کو مایوسیوں میں چھوڑ کر جائیں گے؟ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے 8 سالانہ اجلاس سے صدر اوبامہ کے خطابات میں امید اور مایوسی کا ملا جلا تاثر ملتا ہے۔
President Obama Speaks at the U.N. on Wednesday, September 20th, 2016
|
20 ستمبر 2016 کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے سالانہ اجلاس سے صدر اوبامہ نے آخری خطاب کیا تھا۔ اور 23 ستمبر 2009 کو جنرل اسمبلی کے سالانہ اجلاس سے صدر اوبامہ نے پہلا خطاب کیا تھا۔ صدر اوبامہ نے جنرل اسمبلی سے 8 مرتبہ خطاب کیا ہے۔ جنرل اسمبلی کے سالانہ اجلاس سے صدر اوبامہ کے پہلے خطاب اور آخری خطاب کے درمیان صدر اوبامہ کی صدارت کی ایک تاریخ ہے۔ جس سے عالمی امور میں صدر اوبامہ کی صدارت کی کامیابیوں اور ناکامیوں کا جائزہ لیا جا سکتا ہے۔ صدر اوبامہ Hope کے ایک عظیم پیغام کے ساتھ اقتدار میں آۓ تھے۔ دنیا کے کروڑوں لوگوں کو صدر اوبامہ کے Hope کے پیغام سے بڑی توقعات تھیں۔ لیکن کیا صدر اوبامہ نے اپنے Hope کے پیغام سے لوگوں کی توقعات پوری کی ہیں؟ یا دنیا میں ان سے امیدیں وابستہ لگاۓ لوگوں کو مایوسیوں میں چھوڑ کر جائیں گے؟ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے 8 سالانہ اجلاس سے صدر اوبامہ کے خطابات میں امید اور مایوسی کا ملا جلا تاثر ملتا ہے۔
صدر اوبامہ نے 23 ستمبر 2009 میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے سالانہ
اجلاس سے اپنے پہلے خطاب میں کہا کہ "مجھے آفس میں صرف 9 ماہ ہوۓ ہیں لیکن
ایسا نظر آتا ہے کہ جیسے خاصا عرصہ ہو گیا ہے۔" صدر اوبامہ نے کہا کہ
"دنیا کو میری صدارت سے جو امیدیں ہیں۔ میں ان سے بھی با خوبی واقف ہوں۔ یہ
توقعات میرے بارے میں نہیں ہیں۔ کسی حد تک مجھے یقین ہے کہ اس بے چینی کی جڑیں Status quo میں
ہیں۔ جو ہم سے ہمارے اختلافات کا جلدی اعتراف کرا لیتے ہیں۔ اور پھر یہ ہمارے
مسائل سے آگے نکل جاتے ہیں۔ لیکن ان کی جڑیں امید میں ہے۔ امید جس میں تبدیلی ممکن
ہے۔ اور امریکہ اس امید کا لیڈر ہے اور یہ تبدیلی لاۓ گا۔" صدر اوبامہ نے اس خطاب
میں کہا کہ "اقوام متحدہ کا قیام بھی اس یقین کے ساتھ آیا تھا کہ دنیا میں
لوگ سکون سے رہیں گے۔ اور اپنے خاندانوں کی پرورش کریں گے۔ اور اپنے اختلافات
پرامن طریقوں سے حل کریں گے۔" صدر اوبامہ نے کہا " القا عدہ اور اس کے
انتہا پسند اتحادیوں کو شکست دی جاۓ گی۔
یہ نیٹ ورک جس نے مختلف عقیدوں اور قوموں
کے ہزاروں لوگوں کو مارا ہے۔ افغانستان اور پاکستان میں ہم اور دوسرے بہت سے ملک
ان حکومتوں کی مدد کر رہے ہیں۔ جبکہ ان کے عوام کی سیکورٹی کے لئے حالات بہتر
بنانے پر بھی کام کر رہے ہیں۔" صدر اوبامہ نے کہا کہ "عراق میں جنگ ختم
کرنا ہماری ذمہ داری ہے۔ ہم نے عراقی شہروں سے فوجی دستہ ہٹا لئے ہیں۔ اور آئندہ
سال اگست تک عراقی سر زمین سے ہماری تمام فوجیں چلی جائیں گی۔"
21
ستمبر 2011 میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے سالانہ اجلاس سے خطاب میں صدر
اوبامہ نے کہا کہ "جنگ کی موجیں دست کش ہو رہی ہیں۔ میں جب اقتدار میں آیا
تھا اس وقت تقریباً ایک لاکھ 80 ہزار
فوجیں عراق اور افغانستان میں تھیں۔ اور
اس سال کے آخر تک ان کی تعداد نصف ہو جا ۓ گی۔ اور ان کی تعداد میں مسلسل کمی ہوتی
جاۓ گی۔ عراق اور افغانستان کی Sovereignty کے لئے بھی یہ بہت اہم ہے۔"
صدر اوبامہ نے جنرل اسمبلی سے خطاب میں عالمی رہنماؤں کو بتایا کہ "ایک سال
پہلے مصر تقریباً 30 سال سے صرف ایک صدر کو جانتا تھا۔ لیکن 18 روز سے دنیا کی
نظریں تحریر اسکوائر پر لگی ہوئی ہیں۔ جہاں زندگی کے ہر شعبہ سے تعلق رکھنے والے
مصری مرد عورتیں نوجوان بوڑھے مسلم عیسائی سب اپنے آفاقی حقوق کا مطالبہ کر رہے
ہیں۔ ہم نے ان مظاہرین میں عدم تشدد کی اخلاقی قوت دیکھی تھی۔ جس نے دہلی سے وا
رسا اور Selma سے
جنوبی افریقہ تک دنیا کو چکا چوند کر دیا تھا۔ مصر اور عرب دنیا میں تبدیلی آنا
تھی۔ اور ہم یہ جانتے تھے۔"
صدر
اوبامہ نے 2009 میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے سالانہ اجلاس سے اپنے پہلے خطاب
کا آغاز اسامہ بن لادن اور القا عدہ کے خلاف دہشت گردی کی جنگ سے کیا تھا۔ جنرل
اسمبلی کا یہ 64 واں اجلاس تھا۔ اور 2016 میں اب جنرل اسمبلی کے 71 ویں سالانہ
اجلاس سے صدر اوبامہ نے اپنے آخری الوداعی خطاب کا اختتام اسلامی ریاست کو تباہ
کرنے کے لئے ایک متحدہ اور انتھک ضرورت پر زور دیا ہے۔ صدر اوبامہ نے افسوس سے کہا
کہ "یہ فرقہ پرستی انتہا پسندی خونریزی اور انتقام کی طرف راغب ہیں۔ یہ اتنی
آسانی سے تبدیل نہیں ہوں گے۔" صدر اوبامہ نے جنرل اسمبلی سے اپنے آخری خطاب
میں افغانستان کا کوئی ذکر نہیں کیا تھا۔ اور عراق میں امن اور استحکام کے بارے
میں بھی کچھ نہیں کہا تھا۔ عراق میں امن اور استحکام نہ ہونے کی وجہ سے یہ بے شمار
انتہا پسند گروپوں کا گھڑ بنا ہوا ہے۔ ISIS ان
میں سب سے بڑا گروپ ہے۔ اوبامہ انتظامیہ نے ابتدا میں جو پالیسیاں اختیار کی تھیں بعد
میں انہیں تبدیل کر دیا تھا۔ اس عمل کے دوران نئے انتہا پسندوں کی پیدائش ہوئی
تھی۔ صدر اوبامہ نے جنرل اسمبلی سے خطاب میں Myanmar میں منتخب جمہوری
حکومت کا خیر مقدم کیا تھا۔ لیکن مصری عوام کو ایک فوجی حکومت سے آزادی ملنے کا
خیر مقدم کرنے کے بعد ان پر دوسری فوجی حکومت مسلط ہونے کا خوش آمد ید کرنے کا صدر اوبامہ نے اپنے خطاب میں کوئی وضاحت
نہیں دی تھی۔ صدر اوبامہ نے عالمی برادری کو یہ بھی نہیں بتایا کہ مصر میں اب جمہوریت
کب آۓ گی؟ مصری عوام Hope سے Set Backs میں
آ گیے ہیں۔ مشرق وسطی میں سیاسی اور جمہوری عمل کا ٹینکوں اور بکتر بند فوجی ٹرکوں
سے راستہ روک کر اوبامہ انتظامیہ نے دراصل Militants کو حوصلہ دئیے تھے۔ یہ بڑے حیرت
کی بات تھی کہ امریکہ جیسے جمہوری ملک نے سیاسی عمل پر تالے ڈال دئیے تھے اور صرف
جنگوں سے انتہا پسندی سے متعلق تمام مسئلوں کو حل کرنے پر زور تھا۔ جنرل اسمبلی کے
سامنے اپنے آخری خطاب میں صدر اوبامہ اگر مصر اور لیبیا میں جمہوریت کا فروغ ہونے
اور عراق اور افغانستان میں سیاسی استحکام آنے کا پیغام دیتے تو جنرل اسمبلی میں
عالمی برادری کھڑے ہو کر انہیں زبردست خراج تحسین پیش کرتی اور دیر تک ان کی
تالیوں سے جنرل اسمبلی کا ہال گونجتا رہتا۔
صدر اوبامہ نے کہا "شام جیسے ملک میں جہاں
فوجی فتح آخری جیت نہیں ہو گی۔ اس مقصد سے ہم ڈپلومیسی کی انتھک کوشش کر رہے ہیں۔
تاکہ تشدد کو روکا جاۓ اور جنہیں مدد کی اشد ضرورت ہے ان کی مدد کی جاۓ۔ اور ان کی
حمایت کی جاۓ جو سیاسی حل چاہتے ہیں۔ اور پھر یہ انہیں بھی دیکھ سکے گے جو خود کو
کسی وقار اور عزت کے قابل نہیں سمجھتے ہیں۔" صدر اوبامہ نے کہا "ہم یہ
روزانہ سرخیوں میں دیکھتے ہیں کہ ظالم تنازعہ سے مہاجروں کے سرحدیں عبور کرنے کے
ہجوم لگے ہیں۔ مشرق وسطی کے ایک بڑے حصہ میں بنیادی سیکورٹی اور بنیادی نظام ٹوٹ
گیا ہے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ بہت سی حکومتیں صحافیوں کے منہ بند کر رہی ہیں۔ اور
مخالفین کو کچل رہی ہیں۔ اطلاعات کو سنسر کر رہی ہیں۔ دہشت گرد نیٹ ورک سوشل میڈ
یا کو ہمارے نوجوانوں کو گمراہ کرنے کے مقصد سے استعمال کرتے ہیں۔ معاشروں کو
خطروں میں ڈالتے ہیں۔ اور بے گناہ مہاجروں اور مسلمانوں کے خلا ف غصہ دلا رہے ہیں۔
طاقتور قومیں عالمی قانون سے انہیں روکنے کی بحث میں الجھی ہوئی ہیں۔"
لیکن
عرب دنیا میں بے گناہ انسانیت کے لئے یہ تمام مسائل بھی جن کا صدر اوبامہ نے جنرل
اسمبلی سے اپنے آخری خطاب میں ذکر کیا ہے۔ دراصل یہ طاقتور قوموں نے اس معصوم
انسانیت کے لئے پیدا کیے ہیں۔ عرب دنیا میں 300 ملین کی آبادی اسامہ بن لادن کی
حامی تھی اور نہ ہی یہ ابوبکر الابغدادی کی اسلامی ریاست کے حق میں ہے۔ اور جو
انتہا پسند اور تشدد کی سیاست میں ایمان لاۓ ہیں وہ بھی طاقتور قوموں کی مسلسل فوجی
مہم جوئیوں سے تنگ آ کر اس راستہ پر آ گیے ہیں۔ اور یہ عدم استحکام کے ستم زدہ
ہیں۔ یہ عدم استحکام ان کے ملک میں ہے اور ان کی زندگیوں میں بھی عدم استحکام ہے۔
اینگلو امریکہ کے عراق پر حملہ نے عراقیوں کو خوشحالی سے مفلسی میں دھکیل دیا ہے۔
جیسے ان کا سب کچھ اس حملہ کی سو نامی میں بہہ گیا ہے۔ اور ان کا کوئی پرساں حال
نہیں ہے۔ ان کے بچوں کا مستقبل بھی چھین لیا ہے۔ چودہ سال ہو رہے ہیں عراقیوں کے
بچوں نے اسکولوں اور کالجوں کی شکل نہیں دیکھی ہے۔ ان کے سامنے صرف انسانیت کا خون
ٹپک رہا ہے۔ ان کے کانوں میں بموں کے دھماکوں کی آوازیں گونج رہی ہیں۔ ہر انسان کی
فطرت میں ایک اچھی زندگی گزارنے کی لگن ہوتی ہے۔ جب ظالم انسانیت نے ان کی اس لگن
کا بھی گلہ گھونٹ دیا ہے تو پھر وہ کیا بنیں گے؟ اس سوال سے ان کا ضمیر بیدار ہونے
سے بہت سے مسائل ہو جائیں گے؟
یہ کس Plato یا Socrates نے کہا ہے کہ ایک عدم استحکام کے شکار ملک کو
اس کے ہمسایہ میں مستحکم ملک کو عدم استحکام کر کے پھر عدم استحکام کے شکار ملک کو
استحکام دیا جا سکتا ہے۔ عراق Brutally Destabilize تھا۔ پھر شام
کو کیا سوچ کر Destabilize کیا
گیا ہے۔ صدر اوبامہ نے مصری مظاہرین میں عدم تشدد کی اخلاقی قوت دیکھی تھی۔ لیکن
شام میں پر تشدد مظاہرین میں کونسی اخلاقی
قوت دیکھی تھی۔ اور پھر ان کی پشت پنا ہی کی تھی۔ سیا ست یا کاروبار میں ایک غلط
فیصلے کی قیمت بہت بھاری ادا کرنا پڑتی ہے۔ اور اگر پہلا فیصلہ غلط ہوتا ہے تو پھر
بعد کے تمام فیصلے بھی غلط ہوتے ہیں۔ اور امریکہ کے یہ فیصلے دنیا کے لئے المیہ ثابت
ہو رہے ہیں۔
No comments:
Post a Comment