Wednesday, October 5, 2016

America Needs Friends, Not Allies

Big Brother India’s Feud With Pakistan
  America Needs Friends, Not Allies
Now Russia Has Become Israel’s Close Neighbor

مجیب خان
  
Indian President Mukerjee, P.M Modi, and President Obama 

Prime Minister Vajpayee and President Bush - 2003

President Bush and Prime Minister Manmohan Singh

Prime Minister of Israel Netanyahu, and President Obama
      وزیر اعظم نریندر مودی کس چہرے سے اب سرخ قالین پر وزیر اعظم نواز شریف کا ہاتھ تھام کر چلیں گے۔ مودی حکومت کا اصل چہرہ اب سب نے دیکھ لیا ہے۔ اور مودی حکومت کا یہ چہرہ دیکھ کر پاکستانیوں کی غلط فہمیاں دور ہو گئی ہوں گی۔ بھارتیوں نے ابھی تک یہ ثابت نہیں کیا ہے کہ وہ پاکستان کے ساتھ تعلقات کو کتنی اہمیت دیتے ہیں۔ اور اس سلسلے میں کس  قدر سنجیدہ ہیں۔ مودی نے اپنی انتخابی مہم میں پٹھان کوٹ دہشت گردی واقعہ پر کہا تھا کہ "میں جب وزیر اعظم ہوں گا اور دہشت گردی کا ایسا واقعہ ہوا تو میں پاکستان کے ساتھ وہ ہی کروں گا جو میں نے گجرات میں کیا تھا۔" پاکستان کے خلاف مودی حکومت کا Venom ابل کر باہر آگیا ہے۔ کشمیریوں کی انسرجنسی کو 70 سال ہو گیے ہیں۔ بھارتی پولیس اور فوج 70 سال سے ان کے حقوق کی تحریک کو بھر پور طاقت سے دباتے رہے ہیں۔ کشمیریوں کی یہ چوتھی اور پانچويں نسلیں ہیں جو کشمیر پر بھارتی قبضہ کے خلاف اب بغاوت کر رہی ہیں۔ پاکستان کی کشمیریوں کے حقوق کی حمایت آج کوئی نئی نہیں ہے۔ پاکستان 70 سال سے ان کو حقوق دینے کا مطالبہ کر رہا ہے۔ اور اس کے نتیجے میں پاکستان کی بھارت کے ساتھ جنگیں بھی ہوئی تھیں۔ کشمیریوں کے کا ز سے پاکستان اس قدر مخلص ہے۔
     پاکستان کو بھارت کے ساتھ  “Confidence Build” کرنے میں پندرہ بیس سال لگے تھے۔ جس کے بعد پاکستان نے بھارت کے لئے اپنی سرحدیں کھولی تھیں۔ لیکن مودی حکومت نے اس “Confidence Building” کے خلاف Surgical Strike کی ہے۔ نریندر مودی کے بارے میں پاکستانیوں میں پہلے ہی شک و شبہات تھے۔ اور وہ وزیر اعظم نواز شریف کو وزیر اعظم مودی سے محتاط رہنے کا مشورہ بھی دے رہے تھے۔ وزیر اعظم مودی نے ان کے شبہات کو درست ثابت کیا ہے۔ اور جن میں بھارت سے تعلقات کے بارے میں “Confidence Build” ہوا تھا اسے نقصان پہنچایا ہے۔ مودی حکومت کی پاکستان سے نفرت کھل کر سامنے آ گئی ہے۔ یہ دنیا میں پاکستان کو تنہا کرنے کے مشن پر کام کر رہی ہے۔ یہ پاکستان کو دہشت گرد ریاست قرار دینے کی مہم چلا رہی ہے۔ تاکہ پاکستان میں پھر چین کے اقتصادی منصوبوں کی تکمیل نہیں ہو سکے گی۔ پاکستان پر عراق کی طرح کی اقتصادی بندشیں لگ جائیں گی۔ اور آخر میں پاکستان کا حال بھی عراق جیسا ہو جاۓ گا۔ اور یہ بھارتی ہندو انتہا پسند سیوک سینگھ  سے تعلق رکھنے والے وزیر اعظم نریندر مودی کی سوچ اور عزائم ہیں۔ جو مقبوضہ کشمیر کے موجودہ حالات میں سامنے آ ۓ ہیں۔
     سرد جنگ میں پاکستان کے امریکہ کے ساتھ فوجی معاہدے تھے۔ پاکستان میں فوجی حکومتیں بھی تھیں۔ لیکن امریکہ نے پاکستان کے ساتھ فوجی معاہدوں کو بھارت کے خلاف استعمال نہیں ہونے دیا تھا۔ اور نہ ہی بھارت کو اس طرح Demonize کیا جاتا تھا کہ جس طرح بھارت امریکہ کے ساتھ اپنے اسٹریٹجک تعلقات کو پاکستان کے خلاف Abuse کر رہا تھا۔ اور امریکہ بھارت کے ساتھ اپنے تعلقات کا دفاع کر رہا تھا۔ حالانکہ بھارت 80 کی دہائی سے دہشت گردی کا سامنا کر رہا تھا۔ بھارت کے دو وزیر اعظم دہشت گردی کے نتیجے میں مارے گیے تھے۔ لیکن امریکہ کے ساتھ بھارت کے اسٹریٹجک تعلقات قائم ہونے کے بعد بھارت نے اپنی داخلی دہشت گردی کا خاتمہ کرنے کا “Assignment” امریکہ کو دے دیا تھا۔ جس کے بعد بھارت میں جب بھی دہشت گردی کا کوئی ہوتا تھا۔ پاکستان ریڈار پر آ جاتا تھا۔ اور پھر وائٹ ہاؤس اور اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کے ترجمان پاکستان سے یہ کہتے تھے کہ وہ بھارت میں دہشت گردوں کو جانے سے روکے۔ لیکن پھر بھارت سے پاکستان میں جو دہشت گرد بھیجے جاتے تھے۔ اور وہ پاکستان میں خوفناک دہشت گردی کرتے تھے۔ اس پر وائٹ ہاؤس اور اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ صرف افسوس کا اظہار کرتے تھے۔ بھارت کا پاکستان کو Demonize کرنے پر امریکہ کا اتنا زیادہ فوکس ہو گیا تھا کہ افغانستان میں جنگ کی اہمیت کم ہو گئی تھی۔ اور اس کا نتیجہ آخر میں یہ سامنے آ یا تھا کہ افغانستان میں نیٹو کی شکست ہو گئی تھی۔ یورپ سے باہر یہ نیٹو کی پہلی جنگ تھی۔ اور یہ ایک ایسے ملک کے خلاف جنگ تھی جو انتہائی غریب تھا۔ اور مسلسل جنگوں کی وجہ سے بالکل تباہ ہو چکا تھا۔ ایک ایسے ملک میں نیٹو کی شکست انتہائی شرمناک تھی۔ افغانستان میں سوویت یونین کو شکست ہونے کے بعد وارسا پیکٹ ختم ہو گیا تھا۔ افغانستان میں نیٹو کی شکست دراصل صدر پوتن کی ایک بڑی کامیابی تھی۔ اور نیٹو کو بھی ختم ہو جانا چاہیے۔ اگر بھارت امریکہ کے ساتھ مل کر پاکستان کے خلاف سازشیں کرنے کے بجاۓ بھارت پاکستان کے ساتھ مل کر افغانستان میں امن اور استحکام کے لئے کام کرتا تو شاید نیٹو کو بھی شکست نہیں ہوتی۔ اور اس خطہ میں امن ہوجاتا۔
     پاکستان کے بارے میں Distortion اور Disinformation مہم کے ذریعے یہ تاثر پیدا کیا جا رہا تھا کہ پاکستان Double game کر رہا تھا۔ طالبان کے ساتھ ملا ہوا تھا۔ اور طالبان کے خلاف جنگ میں امریکہ کے ساتھ تھا۔ یہ تاثر بھی بھارتی لابی نے پیدا کیا تھا۔ اگر پاکستان کو Double game کرنا ہوتا تو افغانستان میں 180 ڈگری سے یو ٹرن لینے کے بجاۓ پاکستان صرف 80 ڈگری کا یو ٹرن لیتا اور پھر 100 ڈگری سے طالبان کے ساتھ رہتا۔ حالانکہ کے یہ بھارت تھا جو امریکہ کے ساتھ اسٹریٹجک تعلقات میں Double game کر رہا تھا۔ سب کی توجہ بھارت نے پاکستان کوDemonize کرنے پر لگا دی تھی۔ بھارت افغانستان میں دہشت گردی ختم کرنے میں خود بھی کوئی مدد نہیں کر رہا تھا۔ اور پاکستان کو بھی اس سے Distract کر دیا تھا۔ بھارت افغانستان میں تا جک اور ازبک کو پشتونوں کے خلاف استعمال کر رہا تھا۔ جن کی اکثریت طالبان تھی۔ اور ازبک کو پاکستان میں دہشت گردی کے حملہ کرنے میں استعمال کر رہا تھا۔ افغانستان میں عمارتیں اور سڑکیں تعمیر کرنا بھارت کا کوئی مثبت رول نہیں تھا۔ امن اور استحکام افغانستان کی اشد ضرورت تھی۔ اور اس میں بھارت کا رول بڑا منفی تھا۔
     جنوبی ایشیا میں امریکہ کی ناکامیوں کے بعد جب مغربی ایشیا کی طرف دیکھا جاۓ تو ادھر بھی ہر طرف امریکہ کی ناکامیاں دور دور تک نظر آتی ہیں۔ جنوبی ایشیا میں بھارت کے ساتھ امریکہ کے اسٹریٹجک تعلقات ہیں۔ اور مغربی ایشیا میں اسرائیل کے ساتھ امریکہ کے اسپیشل تعلقات ہیں۔ ان اسپیشل تعلقات کا مغربی ایشیا میں امریکہ کی ناکامیوں میں ایک بڑا رول ہے۔ عراق اب امریکہ کے لئے  Liability بن گیا ہے۔ ایران کے ساتھ امریکہ کے تعلقات بحال ہونے کا ابھی کوئی سوال نہیں ہے۔ ایک زمانے میں خلیج میں شاہ ایران کا پولیس مین کا جو رول تھا۔ وہ اب امریکہ کا رول ہے۔ عراق اور لیبیا میں حکومتیں تبدیل ہونے سے اسرائیل اصل Beneficial ہے۔ شام میں ایک سیکولر اور لبرل حکومت تھی۔ لیکن یہاں امریکہ نے سعودی عرب اور قطر کے مفاد میں حکومت تبدیل کرنے کے لئے باغیوں کی حمایت کی ہے۔ شام میں خانہ جنگی کو چھ سال ہو رہے ہیں۔ لیکن Human Deaths اور Human Miseries کے علاوہ کسی کو کوئی شاندار کامیابی نہیں ہوئی ہے۔ امریکہ شام میں بھٹک گیا ہے۔ کسی کی یہ سمجھ میں نہیں آ رہا ہے کہ امریکہ باغیوں کی مدد کر رہا ہے یا اسلامی انتہا پسندوں سے تعاون کر رہا ہے؟ مشرق وسطی میں امریکہ کے Blunders نے روس کے لئے مشرق وسطی میں نئے موقعوں کے دروازے کھول دئیے ہیں۔ روس اب اسرائیل کا قریبی ہمسایہ بن گیا ہے۔ کیا اسرائیل کو اب بھی امریکہ کی فوجی امداد کی ضرورت ہے؟ یہ ناکامیاں ہیں جو امریکہ کے Allies امریکہ کے لئے لاۓ ہیں۔ یاد ہے صدر بش نے صدام حسین کو اقتدار سے ہٹانے کے لئے کہا تھا کہ" صدام حسین مشرق وسطی میں ہمارے مفادات اور ہمارے Allies کے لئے ایک بڑا خطرہ تھے۔" اب وہ مفادات کہاں ہیں؟ اور خطرات کس کے لئے خطرہ ہیں؟                  

No comments:

Post a Comment