Prime Minister Modi, Calling Pakistan “Mothership Of Terrorism” Is An Insult
Of 180 Million People
And Disrespects Those Who Give Sacrifices In Combating Terrorism
And Disrespects Those Who Give Sacrifices In Combating Terrorism
No Talks With Modi Government,
Until Prime Minister Modi Apologizes To The People Of Pakistan
مجیب خان
President Vladimir Putin, Indian Prime Minister Narendra Modi, Chinese President Xi Jinping |
BIMSTEC Countries |
بھارت
میں BRICS
کانفرنس ایک ایسے موقعہ پر ہوئی تھی کہ جب وزیر اعظم پرندر مودی کے سینہ میں
پاکستان کے خلاف خاصا بلغم جمع ہو گیا تھا۔ اور اسے نکالنے اور اپنا سینہ ہلکا
کرنے کے لئے انہوں نے یہ بہتر موقعہ سمجھا تھا۔ وزیر اعظم اپنی سابقہ ملاقاتوں میں
چین کے صدر شی جن پنگ سے پاکستان میں 46 بلین ڈالر کے اقتصادی منصوبوں کو بھارت کے
مفاد کے خلاف ہونے میں دلیلیں دیتے رہے ہیں۔ اور ان منصوبوں پر عملدرامد کو روکا
نے میں اپنے تمام ہتکھنڈے استعمال کرتے رہے ہیں۔ لیکن اس میں ناکامی ان کے سینہ
میں بلغم جمع ہونے کی ایک وجہ تھی۔ وزیر اعظم مودی کی توجہ صرف چین پر تھی کہ یہ
پاکستان میں کیا رہا تھا۔ پھر انہوں نے کھانسنے کے لئے منہ موڑا تو یہ دیکھا کہ
روس کے دوسو فوجی پاکستانی فوج کے ساتھ مشترکہ فوجی مشقیں کر رہی تھیں۔ یہ دیکھ کر
وزیر اعظم مودی کی پریشانی اب پریشانیاں بن گئی تھیں۔ BRICS کانفرنس میں
وزیر اعظم مودی کے دائیں ہاتھ پر صدر پوتن بیٹھے تھے۔ وزیر اعظم مودی اب صدر پو تن
سے پاکستان کے ساتھ روس کے بڑھتے ہوۓ فوجی
تعلقات کے بارے میں بھارت کی تشویش کا اظہار کر رہے تھے ۔ لیکن وزیر اعظم مودی کی
تشویش پر کچھ کہنے سے پہلے صدر پو تن نے امریکہ کے ساتھ بھارت کے بڑھتے ہوۓ فوجی
تعلقات کے بارے میں وزیر اعظم مودی سے وضاحت طلب کی کہ ان فوجی تعلقات کے مقاصد کیا ہیں؟ حال
ہی میں بھارت اور امریکہ میں ہونے والے فوجی معاہدے کے تحت امریکہ بھارت میں فوجی
اڈے استعمال کر سکے گا۔ اور روس کو بھارت کے فوجی طور پر امریکہ کے قریب تر ہونے
سے تشویش تھی۔ روس اور بھارت کے سرد جنگ کے دور سے انتہائی قریبی تعلقات تھے۔ اور
اب جیسے ان تعلقات کو خیرباد کیا جا رہا تھا۔ BRICS ایک اقتصادی ترقی اور تعاون کے مقاصد میں وجود میں آ یا
تھا۔ اور اس گروپ میں شامل ملک اپنے نئے مالیاتی ادارے فروغ دینے میں خصوصی دلچسپی
رکھتے تھے۔ اور بھارت اس گروپ کے ان مقاصد کے خلاف فوجی معاہدوں کے گروپ میں شامل
ہونے میں خصوصی دلچسپی لے رہا تھا۔
اور
چین کی بھی یہ تشویش تھی کہ بھارت کا امریکہ اور جاپان کے ساتھ فوجی الائنس چین کے
مفادات کے خلاف بن رہا ہے۔ روس اور چین نے پھر وزیر اعظم مودی سے یہ پوچھا کہ “Are you with us or against us”
وزیر اعظم مودی نے اپنی خارجہ پالیسی بدل دی اور صدر پو تن سے کہا کہ بھارت اور
روس کے خصوصی اور امتیازی نوعیت کے تعلقات ہیں۔ اور وہ انہیں مظبوط بنائیں گے۔ اور
یہ ہمیشہ کی طرح مظبوط رہیں گے۔ وزیر اعظم مودی نے کہا “An old friend is better
than two new friends” دو نئے دوستوں سے ان کا مطلب کیا امریکہ اور پاکستان تھا؟ اور امریکہ اس کی وضاحت شاید ضرور چاہے گا۔ BRICS
کانفرنس بھارت میں ہوئی تھی۔ لیکن وزیر اعظم مودی کا اس کانفرنس کے ذریعے پاکستان
کو تنہا کرنے کی ابتدا میں مخالفت کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ پاکستان کا نام کوئی بھی
دہشت گردی سے منسلک کرنے کے لئے تیار نہیں تھا۔ صدر پو تن نے دہشت گردی کا کوئی
حوالہ دیا تھا اور نہ ہی پاکستان کا ذکر کیا تھا۔ وزیر اعظم مودی نے کانفرنس شروع
ہونے سے ایک روز قبل اپنے خطاب میں پاکستان کا نام لئے بغیر کہا کہ "یہ المیہ
ہے کہ بھارت کے محلہ میں ایک ملک دنیا بھرمیں Mothership of terrorism
ہے۔" وزیر اعظم مودی نے پاکستان کو “Mothership of terrorism” کہا
ہے اور یہ پاکستان کے 180 ملین لوگوں کی توہین ہے۔ بالخصوص ان پاکستانی خاندانوں
کے لئے جن کے پیارے دہشت گردی میں مارے گیے ہیں۔ اور سابق وزیر اعظم بے نظیر بھٹو
بھی ان میں شامل ہیں۔ وزیر اعظم مودی یہ Name calling گھٹیا سیاسی ذہنیت ہے۔ جو جمہوریت
کے اخلاقی ضوابط کے منافی ہے۔
وزیر
اعظم مودی کے اس بیان پر چین کی وزارت خارجہ کے ترجمان Hua Chunying نے کہا "دہشت گردی کو کسی ملک یا مذہب کے ساتھ منسلک کرنا غلط ہے۔
اور عالمی برادری سے پاکستان کی عظیم قربانیوں کا اعتراف کرنے کا کہا ."
ترجمان نے کہا "ہم ہر طرح کی دہشت گردی کے خلاف ہیں۔ اور ہمیں یقین ہے کہ
تمام ملکوں کے استحکام اور سلامتی کو یقینی بنانے میں عالمی مشترکہ کوششیں ضروری
ہیں۔ بھارت اور پاکستان دہشت گردی کا شکار ہیں۔" ترجمان نے کہا "اسلام آ
باد نے دہشت گردی کی جنگ میں عظیم قربانیاں دی ہیں۔ اور عالمی برادری کو یہ اعتراف
کرنا چاہیے۔" ادھر برطانوی حکومت نے پاکستان کو دہشت گردوں کو پناہ دینے اور
پاکستان کی مذمت کرنے کی درخواست کو مسترد کرتے ہوۓ کہا ہے کہ "پاکستان نے
دہشت گردی کے خلاف نمایاں قربانیاں دی ہیں۔ ہم پاکستان اور اس کے لوگوں کی دہشت
گردی کی جنگ میں نمایاں قربانیوں کا اعتراف کرتے ہیں۔ ہم پاکستان کی اپنی حفاظت
کرنے کی وسعت بڑھانے اور ان کے خلاف کاروائی کرنے میں جو منصوبے بناتے ہیں اور پھر
دشت گرد حملے کرتے ہیں، مدد کر رہے ہیں۔" پاکستان کے لئے برطانوی حکومت کا یہ
موقف بہت حوصلہ افزا ہے۔ وزیر اعظم مودی کو اس سے مایوسی ہوئی ہو گی۔ برطانیہ کی
وزیر اعظم آئندہ ماہ بھارت کا دورہ کریں گی۔ پاکستان اور بھارت دولت مشترکہ کا رکن
ہیں۔ اور بھارت کی درخواست پر دولت مشترکہ میں شامل ملک پاکستان کو تنہا نہیں کریں
گے۔ پاکستان شنگ ہائی گروپ میں شامل ہے۔ پاکستان وسط ایشیائی ملکوں کے اکنامک گروپ میں بھی ہے۔ اس لئے BRICS کانفرنس میں
چین اور روس نے بھارت کی پاکستان کو تنہا کرنے کی کوشش سے اتفاق نہیں کیا ہے۔ پھر
اسلامی ملکوں کی تنظیم کی طرف سے اعلامیہ میں بھی پاکستان کے موقف کی حمایت کی گئی
ہے۔ اور نہتے کشمیریوں کے خلاف بھر پور فوجی طاقت کے استعمال کی شدید مذمت کی ہے۔
دنیا
میں بھارت کے ساتھ ہاں میں ہاں کرنے والے نہ ملنے پر مودی حکومت اور زیادہ حواس
باختہ ہو گئی ہے۔ وزیر اعظم مودی کے یہ بس
میں نہیں ہے ورنہ وہ خود ٹینک لے کر لاہور میں نواز شریف کے گھر پر چڑھ دوڑتے۔ یہ
کتنے تعجب کی بات ہے کہ وزیر اعظم مودی نے بھارتی فوج کی سرجیکل اسٹرائک کا
اسرائیل کی سرجیکل اسٹرائک مہم سے تشبیہ دی ہے۔ وزیر اعظم مودی نے ہماچل پردیش میں
ایک اجتماع سے خطاب میں کہا ہے کہ "آج کل ملک بھر میں ہماری فوج کی بہادری کے
چرچے ہو رہے ہیں۔ ہم نے پہلے سنا تھا کہ اسرائیل نے بھی یہ کیا تھا۔ قوم نے دیکھا
ہے کہ ہماری فوج کسی سے کم نہیں ہے۔ اسرائیل اپنے فوجی اسٹرائک سے دشمن ملکوں اور انتہا پسندوں کے ٹھکانوں کو
نشانہ بنانے میں بہت مشہور ہے۔ " وزیر اعظم مودی کو شاید معلوم نہیں ہے کہ
نہتے اور بے گناہ عربوں کے خلاف اسرائیل کے سرجیکل حملوں کی امریکہ کے علاوہ دنیا
کے تقریباً تمام مہذب ملکوں نے مذمت کی ہے۔
اس اسرائیلی جا حا ریت کا وزیر اعظم مودی پاکستان کے خلاف اپنی سرجیکل اسٹرائک سے
موازنہ کر رہے ہیں۔ لیکن یہ بھول گیے ہیں کہ پاکستان ایٹمی ہتھیاروں سے اسی دن کے
لئے مسلح ہے کہ ایک دن اسے بھارت کی سرجیکل اسٹرائک کا سامنا ہو گا۔ بھارت انتہا
پسندی کا مقابلہ اگر انتہا پسند دانہ پالیسیوں سے کرے گا تو اسے بھی پھر انتفا دہ
کا سامنا کرنا ہو گا۔ یہ بڑے تعجب کی بات ہے کہ وزیر اعظم مودی عربوں کے خلاف
اسرائیل کے سرجیکل اسٹرائک کی تعریف کر رہے ہیں۔ نظریاتی مذہبی خواہ کسی بھی مذہب
کا ہو Militant
ہوتا ہے۔ اور نرندر مودی بھی اب کھل کر سامنے آ گیے ہیں۔ ان کے لب و لہجہ میں Meanness اور
Militancy آ
تی جا رہی ہے۔
مودی
حکومت کے وزیر دفاع Manohar
Parrikar نے بڑے جلے کٹے لہجہ میں یہ کہا
تھا کہ “going
to Pakistan is the same as going to hell”
(پاکستان جانا ایسا ہی ہے جیسے جہنم میں جانا ہے) وزیر دفاع نے یہ اسلام آ باد میں سارک کانفرنس
سے چند ہفتہ قبل کہا تھا۔ اور پھر چند ہفتہ بعد وزیر اعظم مودی نے اسلام آ باد میں
سارک کانفرنس میں شرکت کے لئے آنے سے انکار کر دیا تھا اور دوسرے ملکوں کو بھی ان
کے فیصلے کا تابعدار بننے کا کہا تھا۔ کسی کو انہوں نے اربوں ڈالر کی کریڈٹ لائن
دینے کا اعلان کیا تھا۔ اور جو ہندو اور بدھ پرست ملک تھے انہیں بھارت کی قیادت
میں متحد ہونے کا کہا تھا۔ جنوبی ایشیا میں پاکستان کو تنہا کرنے کی شاید یہ ایک کوشش بھی تھی۔ اور یہ بہت ممکن ہے کہ بھارت
اس مقصد سے سارک کو بھی ختم کر دے۔ اسلام آباد میں سارک کانفرنس میں شرکت سے بھارت
پاکستان کا Stature
بڑھانا نہیں چاہتا تھا۔
وزیر
اعظم مودی کے ان عزائم کی ایک جھلک BRICS کانفرنس کے دوران دیکھی گئی تھی۔
وزیر اعظم مودی سارک میں شامل ملکوں کے ساتھ
ایک نئے گروپ BIMSTEC کا
تعارف کرا رہے تھے۔ اس گروپ میں بنگلہ دیش، انڈیا، مینمار، سری لنکا، نیپال، بھو
ٹان، تھائی لینڈ شامل تھے۔ اور اس گروپ میں پاکستان کو شامل نہیں کر کے اسے تنہا
کر دیا تھا۔ مودی حکومت BIMSTEC
گروپ کو فروغ دینے میں دلچسپی لے رہی ہے۔ اس گروپ کے ذریعہ مودی حکومت اہم عالمی اداروں میں بھارت کے لئے کرسی حاصل
کرنے کی کوشش کرے گی۔ لیکن بھارت جو سوچ
رہا ہے شاید وہ پورا نہیں ہو سکے گا۔ BIMSTEC گروپ میں شامل ممالک چین کے بھی
ہمسایہ ہیں۔ اور چین کے ساتھ ان کے گہرے اقتصادی مفادات ہیں۔ بھارت نے بنگلہ دیش
کو 2 بلین ڈالر کی کریڈٹ لائن دی تھی۔ لیکن صدر شی جن پنگ نے اپنے حالیہ دورہ
بنگلہ دیش میں حکومت کو 24 بلین ڈالر دینے کا اعلان کیا ہے۔ اور بنگلہ دیش کی
اقتصادی ترقی میں سرمایہ کاری کے سمجھوتے بھی کیے ہیں۔ سری لنکا اور تھائی لینڈ کے
ساتھ بھی چین کے قریبی تعلقات ہیں۔ چین
سری لنکا میں بھی بندر گاہ تعمیر کر رہا ہے۔ آس خطہ کی جغرافیہ می نرندر مودی کے عزائم کبھی پورے نہیں ہو ں گے۔
No comments:
Post a Comment