Tuesday, October 11, 2016

The Middle East: America’s Hard Power, Arab Rulers' Iron Fist, Israel’s Aggression

    
The Middle East: America’s Hard Power, Arab Rulers' Iron Fist, Israel’s Aggression  
“In The Middle East Every War Is A War Crime”

مجیب خان
  
Secretary of State John Kerry and Russian Foreign Minister Sergei Lavrov


War-torn Aleppo

Children of Syria


       ایک ہفتہ میں دوسری بار روس نے امریکہ کو شام میں حکومت کے ملٹری ائربیس فیلڈ پر کارپٹ بمباری کرنے سے متنبہ کیا ہے۔ روس کے وزیر خارجہ Sergei Lavrov نے کہا ہے "اگر امریکہ نے یہ فیصلہ کیا تو پھر روس کے پاس شام میں اپنے اثاثوں کا دفاع کرنے کے تمام وسائل ہیں۔" وزیر خارجہ Sergei Lavrov نے کہا "روس کو شام میں بہت خطرناک کھیل دیا گیا ہے۔ شام کی قانونی حکومت کی درخواست پر روس یہاں آیا ہے۔ اور یہاں روس کے دو اڈے ہیں۔ اور اس نے اپنے اثاثوں کا دفاع کرنے کے لئے ائرڈیفنس بھی حاصل کر لیا ہے۔" وزیر خارجہ نے کہا "انہیں یقین ہے کہ صدر اوبامہ اس منظر سے اتفاق نہیں کریں گے۔" اس سے قبل روس کی وزارت دفاع کے ترجمان میجر جنرل Igor Konashenkov نے بھی امریکہ کو متنبہ کیا ہے کہ وہ شام کے صدر بشرالسد کی حامی فوجوں کے خلاف کوئی فوجی مداخلت نہیں کرے۔ اور امریکہ کو یہ بھی بتا دیا ہے کہ اگر کسی طیارے نے یہ حملہ کرنے کوشش کی تو اسے گرا دیا جاۓ گا۔ وزارت دفاع کے ترجمان نے بڑے دو ٹوک لفظوں میں بیان میں کہا کہ روس اور حکومت شام نے کسی بھی امکانی حملوں کو روکنے کے لئے کافی ائر ڈیفنس نصب کر دئیے ہیں۔
     مشرق وسطی میں یہ بہت خطرناک صورت ہوتی جا رہی ہے۔ جس کے شام میں خانہ جنگی سے بھی زیادہ خطرناک اثرات ہوں گے۔ چھ سال قبل شام میں جب خانہ جنگی کو فروغ دیا جا رہا تھا۔ اس وقت اوبامہ انتظامیہ نے یہ سوچا بھی نہیں ہو گا کہ شام میں روس امریکہ کے مدمقابل کھڑا ہو گا۔ اور امریکہ کو متنبہ کر رہا ہو گا۔ اور یہ عرب حکمرانوں کے  ساتھ  شام میں خانہ جنگی کو طول دینے کے نتائج ہیں۔ شام میں صرف شیعہ سنی ہی مسئلہ نہیں تھا۔ Orthodox عیسائیت کی بھی شام میں ایک قدیم تاریخ ہے۔ روس میں کمیونزم ختم ہونے کے بعد Orthodox چرچ کا کریملن پر خاصا انفلوئنس ہے۔ اور روس کی فوجیں شام میں خانہ جنگی کے کرائم سے انسانیت کو بچانے کے علاوہ Orthodox عیسائیت کی ہزار سال کی تاریخ کو بھی بچانے آئی ہیں۔ جسے شام میں وہابی اور سلا فسٹ جنہیں خلیج کی ریاستوں کی حمایت حاصل ہے اور اوبامہ انتظامیہ شام کی خانہ جنگی میں ان کی ایک اہم اتحادی ہے، Orthodox عیسائیت کی قدیم تاریخ کی تمام نشانیوں کو تباہ کر رہے ہیں۔ تاریخ کے ساتھ انسانیت کا ایک گہرا رشتہ ہوتا ہے۔ اور تاریخ کے بغیر انسانیت کا وجود بے معنی ہو جاتا ہے۔ مشرق وسطی کی اس قدیم تاریخ کے بارے میں بش انتظامیہ کو کوئی علم تھا اور نہ ہی اوبامہ انتظامیہ اس سے واقف ہے۔ اردن کے شاہ عبداللہ نے ایک امریکی ٹی وی پروگرام میں یہ درست کہا ہے کہ امریکہ یہ سمجھتا ہے کہ وہ مشرق وسطی کے بارے میں سب کچھ جانتا ہے۔ لیکن حقیقت میں امریکہ مشرق وسطی کے بارے میں کچھ بھی نہیں جانتا ہے۔ یہ ہی وجہ ہے کہ مشرق وسطی کے وسط میں روس امریکہ کے مد مقابل آ گیا ہے۔ اور امریکہ اب روس کو مشرق وسطی سے نکالنے کی پوزیشن میں بھی نہیں ہے۔ امریکہ کو مشرق وسطی میں استحکام کے لئے روس کے ساتھ تعاون کرنا ہو گا یا مشرق وسطی چھوڑ کر جانا ہو گا؟ امریکہ کے تھنک ٹینکس میں برصغیر میں بھارت اور پاکستان دو ایٹمی طاقتوں میں بڑھتی ہوئی کشیدگی پر تشویش ہو رہی تھی۔ لیکن مشرق وسطی میں دنیا کی دو عالمی ایٹمی طاقتیں شام میں ایک دوسرے کے مدمقابل آ گئی ہیں۔ اور جنگ کی باتیں ہو رہی ہیں۔ یہ صورت حال برصغیر کی صورت حال سے زیادہ خطرناک ہے۔
     پچھلے ماہ 11 ستمبر کو نائن الیون کی 15 ویں Anniversary منائی گئی تھی۔ نیویارک میں ورلڈ ٹریڈ سینٹر کو جنہوں نے زمین بوس ہوتے دیکھا تھا۔ اور ور لڈ ٹریڈ سینٹر کی کھڑکیوں سے لوگوں کو اپنی جانیں بچانے کے لئے چھلانگیں لگاتے دیکھا تھا۔ تین ہزار لوگ اس ملبے میں دب کر ہلاک ہو گیے تھے۔ ان کی نظروں کے سامنے آج بھی یہ ہولناک مناظر ہیں۔ اور شام میں ہر عمارت اور گھروں کا ملبہ ٹریڈ سینٹر کا ملبہ ہے۔ جس میں 500,000 مرد، عورتیں، بچے، بوڑھے ہلاک ہو گیے ہیں۔ اور جو زندہ تھے وہ شام سے اپنی جانیں بچانے کے لئے بھاگ رہے تھے۔ سمندروں میں شامیوں سے بھری کشتیاں الٹ رہی تھیں۔ مردوں عورتوں اور بچوں کی لاشیں سمندر کی لہروں میں دیکھی جا رہی تھیں۔ شامی کشتیوں سے چھلانگیں لگا رہے تھے۔ دنیا کے لئے یہ مناظر بھی نیویارک میں ورلڈ ٹریڈ سینٹر کے ہولناک مناظر سے کسی طرح کم تکلیف دہ نہیں تھے۔ ورلڈ ٹریڈ سینٹر کا ملبہ دیکھ کر اور تین ہزار لوگوں کے ہلاک ہونے سے دنیا بھر میں امریکہ سے یکجہتی اور حمایت کا جذبہ دیکھا گیا تھا۔ اب انہیں شام میں عمارتوں اور گھروں کے ملبے اور لاکھوں شامیوں کی ہولناک اموات، معصوم بچوں کی دریاؤں میں تیرتی لاشیں دیکھ کر شام کی خانہ جنگی میں امریکہ کے رول پر سخت غصہ ہے۔ امریکہ میں بھی لوگوں میں یہ غصہ ہے۔ امریکہ کے صدارتی انتخابات میں لوگوں کا یہ غصہ دیکھا جا رہا ہے۔
     امریکہ ایک جمہوری ملک اور اس کے غیر جمہوری عرب اتحادی، امریکہ کی Hard Power اور اس کے عرب اتحادیوں کا Iron Fist شام میں تباہی پھیلانے کے ذمہ دار ہیں۔  یہ بنیادی سبب ہے جس نے روس کو شام میں مداخلت کرنے پر مجبور کیا ہے۔ روس عراق میں نہیں آیا تھا۔ روس لیبیا میں نہیں گیا ہے۔ لیکن روس کو شام میں جنگ بندی ختم کرانے اور انسانیت کو بچانے کے لئے آنا پڑا ہے۔ یہ امریکہ اور مغربی طاقتیں تھیں جنہوں نے باسنیا، رؤنڈا Rwanda اور کانگو میں تقریباً 6 ملین لوگ جنگ اور Genocide کے نتیجے میں ہلاک ہونے اور بر وقت مداخلت کر کے  انہیں بچانے میں اپنی ناکامی کا اعتراف کیا تھا۔ اور پھر یہ عہد کیا تھا کہ آئندہ انسانیت کے خلاف جب بھی جرائم کی ابتدا ہو گی وہاں فوری مداخلت کی جاۓ گی۔ لیکن شام میں ان مغربی طاقتوں نے اپنے اس عہد کے بر خلاف مداخلت کی ہے۔ اور انسانیت کے خلاف جرائم کرنے والوں کی مدد کی ہے۔ انہیں ہتھیار دئیے ہیں۔ انہیں دمشق حکومت کے حامی شہریوں سے لڑنے کی تربیت دی ہے۔ آزاد فلسطین آرمی کو ہمیشہ دہشت گرد کہا گیا ہے اور اسرائیلی شہریوں کو ہلاک کرنے اور ان کی املاک تباہ کرنے کی دنیا کے ہر پلیٹ فارم سے مذمت کی جاتی تھی۔ لیکن آزاد شامی آرمی کے شامی شہریوں کو ہلاک کرنے اور ان کی املاک تباہ کرنے کی حوصلہ افزائی کی گئی ہے۔ اور اوبامہ انتظامیہ نے ان کے ماڈریٹ ہونے کا فتوی جاری کیا تھا۔ لیکن جو عراق میں امریکی فوجی قبضہ کے خلاف فلوجہ اور رمادی میں لڑ رہے تھے وہ القاعدہ کے کیوں بتاۓ جاتے تھے؟ وہ آزاد عراقی آرمی کیوں نہیں تھے؟
     آزاد شامی آرمی سے شام میں داعش وجود میں آیا ہے۔ ایک درجن سے زیادہ دوسرے نئے انتہا پسند گروپ بھی وجود میں آۓ تھے۔ Ahrar al-Sham جو آزاد شامی آرمی کے بعد دوسرا بڑا گروپ تھا۔ یہ ایک سخت گیر نظریاتی گروپ تھا۔ فتح الشام جہادی گروپ سے اس کا اتحاد تھا۔ یہ گروپ Aleppo اورIdlib صوبوں پر قابض تھے۔ ایک دوسرا اہم اپوزیشن گروپ جیش الا اسلام تھا۔ سعودی عرب اس گروپ کی پشت پر تھا۔ شام میں سابق القاعدہ کی اس گروپ سے وابستگی تھی۔ ان میں النصرہ فرنٹ بھی شامل تھا۔ لیکن پھر النصرہ فرنٹ نے اس گروپ سے فاصلے پیدا کر کے  یہ ثابت کرنا شروع کر دیا تھا کہ اس کا عالمی جہادیوں سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ اوبامہ انتظامیہ نے داعش کے خلاف شامی کردوں کو مسلح کرنا شروع کر دیا تھا۔ آزاد شامی آرمی کو اسد حکومت کے خلاف مسلح کیا تھا۔ پھر ان گروپوں کے درمیان خانہ جنگی ہونے لگی تھی۔ کچھ گروپ داعش سے علیحدہ ہو گیے تھے۔ کچھ گروپ داعش سے مل گیے تھے۔ ان گروپوں کے درمیان محاذ آرا ئی کے نتیجے میں بھی ہزاروں شامی مارے گیے تھے۔ ہزاروں شامی شام سے بھاگ رہے تھے۔ صدر اوبامہ کی Red Line سے پیچھے ہٹنے کی وجہ بھی یہ تھی کہ ایک درجن انتہا پسند اور باغی گروپوں کے درمیان امریکی فوجیں گھر جاتیں۔ جبکہ یہ گروپ امریکہ کے فراہم کردہ ہتھیاروں سے مسلح تھے۔ اور ان کے پاس بڑی مقدار میں اسلحہ تھا۔ جس اسلحہ سے یہ اسد حکومت کے خلاف لڑ رہے تھے۔ وہ پھر امریکی فوجوں کے خلاف استعمال ہونے لگتے۔ اس لئے صدر اوبامہ نے Red Line پر امریکہ میں اپنے مخالفین کی تنقید کو قبول کر لیا تھا۔ لیکن فوجیں شام نہیں بھیجی تھیں۔
     شام میں روسی فوجیں آنے سے اسد حکومت کے خلاف خانہ جنگی کا نقشہ پلٹ گیا تھا۔ خانہ جنگی کو جو کردار Patronize کر رہے تھے۔ ان کے منصوبے بھی الٹ گیے تھے۔ امریکہ اور روس میں شام میں خانہ جنگی ختم کرنے پر ہم آہنگی ہو گئی تھی۔ پھر جنگ بندی پر سمجھوتہ بھی ہو گیا تھا۔ جنگ بندی سے اسد حکومت کو ایک نئی زندگی مل گئی تھی۔ لیکن باغی گروپ جنگ بندی معاہدے سے زیادہ خوش نہیں تھے۔ سعودی عرب بھی اوبامہ انتظامیہ کی اس پالیسی میں تبدیلی سے خوش نہیں تھا۔ باغیوں کا کہنا تھا کہ امریکہ نے انہیں دھوکہ دیا ہے۔ انتہا پسندوں اور باغی گروپوں کی بڑی تعداد Aleppo اور Idlib صوبوں میں تھی۔ اسد حکومت کی فوجوں نے Idlib کا محاصرہ کیا ہوا تھا۔ یہاں النصرہ اور دوسرے جہادی گروپوں کا قبضہ تھا۔ انہیں اسد حکومت کی فوجوں کے محاصرہ سے نکالنے کے لئے عرب اتحادیوں کا امریکہ پر دباؤ بڑھ رہا تھا۔ ایک انتہائی پیچیدہ خانہ جنگی میں جو باغیوں کو Patronize کرتے ہیں ان کے لئے پھر مشکل فیصلے کرنا اور زیادہ مشکل ہو جاتا ہے۔ گزشتہ ماہ Idlib کے قریب امریکی طیاروں کی بمباری سے شام کے 60 فوجی ہلاک ہو گیے تھے۔ اور سو سے زیادہ فوجی زخمی ہو گیے تھے۔ روس اس پر خاصا برہم تھا۔ شام کی حکومت نے اسے ایک Deliberate کاروائی قرار دیا تھا۔ اوبامہ انتظامیہ کے ترجمان نے اس پر افسوس کا اظہار کیا تھا اور اس واقعہ کی تحقیقات کرنے کا کہا تھا۔
     اس واقعہ کے کچھ روز بعد اقوام متحدہ کے  Convoys پر جو Aleppo میں محصور لوگوں کے لئے خوراک اور ادویات لے کر جا رہے تھے، بمباری سے 20 افراد ہلاک کر دئیے تھے۔ امریکی حکام نے شام میں اقوام متحدہ کے Convoys پر بمباری کا روس کو ذمہ دار ٹھہرایا تھا۔ جبکہ اسد حکومت نے اس واقعہ میں ملوث ہونے سے انکار کیا تھا۔ اور اپوزیشن گروپوں کو الزام دیا تھا۔ اسد حکومت کا کہنا تھا کہ یہ Convoys انتہا پسندوں کے علاقہ میں تھے۔ جو دہشت گردوں کے کنٹرول میں ہے۔ اور ہمیں کچھ معلوم نہیں ہے کہ کیا ہوا تھا۔ روس اور اسد حکومت Aleppo میں دہشت گردوں اور انتہا پسندوں کے ٹھکانوں پر مسلسل بمباری کر رہے ہیں۔ اور Aleppo پر حکومت کا کنٹرول بحال کرنے کی کوششیں جاری ہیں۔ امریکہ کو اس بمباری مہم پر شدید اعتراض ہے۔ اور روس سے کئی بار یہ بمباری بند کرنے کی درخواست کی ہے۔ گزشتہ ہفتہ روس اور امریکہ کے وزراۓ خارجہ کے درمیان اس پر مذاکرات ناکام ہو جانے کے بعد سیکرٹیری آف اسٹیٹ جان کیری نے شام میں جنگ بندی معاہدے پر روس کے ساتھ تعاون معطل کر دیا ہے۔ اور اقوام متحدہ سے روس کے خلاف جنگی جرائم کی تحقیقات کرانے کا کہا ہے۔ امریکہ اور روس میں شام کے مسئلہ پر یہ خطرناک کشیدگی دنیا کو 60 کی دہائی میں لے آئی ہے کہ جب کیوبا میزائل بحران پر امریکہ نے سوویت یونین کے کیوبا میں ایٹمی میزائل نصب کرنے کے فیصلے پر سخت دھمکی دی تھی۔
     روس اور امریکہ میں شام میں جنگی بندی معاہدے میں روس کے ساتھ تعاون کرنے کی شق سے سیکرٹیری دفاع ایشٹن کارٹر  اتفاق نہیں کرتے ہیں۔ اور انہوں نے روس سے تعاون کرنے سے انکار کر دیا ہے۔ اقوام متحدہ کے Convoys پر بمباری اور Idlib کے قریب شامی فوج پر امریکی طیاروں کی بمباری جس میں شام کے 60 فوجی مارے گیے تھے۔ روس کے ساتھ اس معاہدے کو سبوتاژ کرنے کی سازش سمجھا جا رہا ہے۔ امریکہ ایک بار پھر روس کو دشمن بنانے کے راستے پر لے آیا ہے۔   
        


              

No comments:

Post a Comment