Friday, November 11, 2016

America Is Not Ready To Accept A Woman President, As Saudis Are Not Ready To Let Women Sit Behind The Steering Wheel

 America Is Not Ready To Accept A Woman President, As Saudis Are Not Ready To Let Women Sit Behind The Steering Wheel     
Americans Prefer The Incompetent President, Who Is Unfit, As Declared By Both Parties
Now The GOP And DEM's Will Fit Him In The Establishment

مجیب خان

Hillary Clinton gives her concession speech following her loss in the election
U.S. President-Elect, Donald J. Trump

     یہ وضاحت ضروری ہے کہ ڈونالڈ ٹرمپ ری پبلیکن نہیں ہیں۔ اور نہ ہی ڈیموکریٹ ہیں۔ ایک Outsider کی حیثیت سے ری پبلیکن  پارٹی کے پلیٹ فارم سے انہوں نے صدارتی امیدوار ہونے کا اعلان کیا تھا۔ لیکن پارٹی نے انہیں قبول نہیں کیا تھا۔ تاہم امریکی عوام جو ری پبلیکن پارٹی کے حامی تھے۔ انہوں نے پرائم ریز میں ڈونالڈ ٹرمپ کو سب سے زیادہ ووٹ دئیے تھے۔ اور پھر ری پبلیکن پارٹی سے ڈونالڈ ٹرمپ کو پارٹی کا صدارتی امیدوار تسلیم کروایا تھا۔ پارٹی نے صدارتی مہم میں ان کی کوئی مدد نہیں کی تھی۔ اور وہ اپنی مدد آپ سے صدارتی مہم چلاتے رہے تھے۔ کیونکہ کھرب پتی تھے اس لئے اپنی دولت اپنی صدارتی مہم میں استعمال کرتے رہے۔ میں یہاں جتنے بھی لوگوں سے ملتا تھا۔ دونوں صدارتی امیدواروں کے بارے میں ان کی پہلی راۓ یہ ہوتی تھی کہ وہ دونوں کو پسند نہیں کرتے تھے۔ لیکن پھر ان کا کہنا یہ تھا کہ ڈونالڈ ٹرمپ کبھی سیاست میں نہیں رہے ہیں۔ اور وہ ری پبلیکن ہیں اور نہ ہی ڈیمو کریٹ ہیں اس لئے وہ تبدیلی لا سکتے ہیں۔ اور واشنگٹن میں کرپشن بھی ختم کر سکتے ہیں۔ جبکہ امریکہ کی دونوں بڑی پارٹیوں میں اس پر اتفاق تھا کہ ڈونالڈ ٹرمپ صدر بننے کے لئے Unfit ہیں۔ جبکہ ری پبلیکن پارٹی کے سابق صدارتی امیدوار مٹ ر  نے انہیں Con-man کہا تھا۔ ڈونالڈ ٹرمپ con-man کہنے والوں کی سیاست کے Inner-circle میں نہیں تھے۔ لہذا لوگوں نے بھی اسے کوئی اہمیت نہیں دی تھی۔ اور ڈونالڈ ٹرمپ جو کچھ کہتے تھے لوگ اس پر یقین کرنے لگتے تھے۔ ڈونالڈ ٹرمپ کو دونوں پارٹیوں کے سیاسی حلقہ سے باہر ہونے  کا یہ فائدہ ہوا تھا کہ لوگ ان پر اعتماد کرنے لگے تھے۔ لیکن اس کے باوجود امریکی عوام کا یہ پختہ یقین تھا کہ ہلری کلنٹن انتخاب جیت جائیں گی۔
    الیکشن سے صرف تین ہفتے قبل جب ڈونالڈ ٹرمپ کے و ڈیو سامنے آۓ تھے۔ جس میں انہوں نے عورتوں کے بارے میں کچھ نازیبہ باتیں کی تھیں۔ اور یہ وڈیو آنے کے بعد ہلری کلنٹن کے Poll Double-Digit ہو گیے تھے۔ ڈونالڈ ٹرمپ کی انتخابی شکست یقینی نظر آ رہی تھی۔ پھر انتخابی مہم کے آخری لمحوں میں ایف بی آئی ڈائریکٹر نے اس دھماکہ خیز خبر سے کہ ہلری کلنٹن کے ای میل سکینڈل سے متعلق کچھ نئی ای میل ملی ہیں جن کی تحقیقات کی جاۓ گی۔ تاہم ان ای میل کا تعلق ہلری کلنٹن سے نہیں تھا۔ یہ ان کی ایک معاون اور اس کے شوہر کے بارے میں تھیں۔ حالانکہ قانونی طور پر ایف بی آئی ڈائریکٹر کو انتخابی مہم کے آخری لمحوں میں صدارتی امیدواروں کے بارے میں اس طرح الزامات اور تحقیقات کو سامنے لانے کا اختیار نہیں تھا۔ ایف بی آئی ڈائریکٹر ری پبلیکن تھے۔ بش انتظامیہ میں اسسٹنٹ  اٹارنی جنرل تھے۔ لیکن ان  کی اس مداخلت  سے ہلری کلنٹن کا Double Digit انتخابی امیج سبوتاژ ہو گیا تھا۔ اور یہ تاثر پیدا کر دیا گیا تھا کہ وہ جیل جانے والی ہیں۔ اور یہ تاثر ڈونالڈ ٹرمپ پھیلا رہے تھے۔ ہلری کلنٹن کی شخصیت کی جیسے انہوں نے دھجیاں بکھیر دی تھیں۔ اس پر خاتون اول Michelle اوبامہ نے کہا کہ “If they go low, you go high”  اس کے بعد ہلری کلنٹن اور ڈونالڈ ٹرمپ کے درمیان مقابلہ اور زیادہ سخت ہو گیا تھا۔ اور دس اور بارہ پوائنٹ کا فرق ایک اور دو پوائنٹ پر آگیا تھا۔ پہلے ڈونالڈ ٹرمپ کے ٹیپ کو منظر عام پر لایا گیا تھا۔ اور انہیں گرانے کی کوشش کی گئی تھی۔ پھر ہلری کلنٹن کے ای میل سکینڈل کو دوبارہ منظر پر لا کر اسے سنسنی خیز بنایا تھا۔ اس کے پیچھے کون سے خفیہ ہاتھ تھے۔ جو انہیں دباؤ میں رکھ کر ان سے  بعض فیصلوں میں ضمانت چاہتے تھے۔
     صدارتی امیدوار امریکی عوام کے سامنے جانے سے پہلے اسرائیل جاتے ہیں۔ اور وہاں ان کے انٹرویو ہوتے ہیں۔ اس مرتبہ جو امیدوار اسرائیل گیے تھے وہ پرائم ریز میں ہار گیے تھے۔ ڈونالڈ ٹرمپ اور ہلری کلنٹن صدارتی امیدوار نامزد ہونے کے بعد ستمبر میں اقوام متحدہ کے سالانہ اجلاس کے دوران نیویارک میں اسرائیلی وزیر اعظم نتھن یا ہو سے ملے تھے۔ وزیر اعظم نے اس ملاقات میں ڈیڑھ گھنٹہ ڈونالڈ ٹرمپ کا انٹرویو کیا تھا۔ اور اس کے بعد ہلری کلنٹن سے بھی تقریباً اتنی ہی دیر ملاقات کی تھی۔ ان سے انٹرویو کا نتیجہ فوری طور پر نہیں تھا۔ الیکشن کی رات کو سی این این پراس کے نتائج سامنے آۓ تھے۔ اوبامہ انتظامیہ میں وزیر اعظم نتھن یا ہو کے ساتھ تعلقات میں خاصا تناؤ تھا۔ اور گہرے اختلافات بھی تھے۔ وزیر اعظم نتھن یا ہو کے صدر اوبامہ سے زیادہ صدر پوتن کے ساتھ اچھے تعلقات تھے۔ فلسطین کی آزاد ریاست کو تسلیم کرنے کی ایک قرارداد جیسے فرانس اس سال موسم بہار میں سیکورٹی کونسل میں پیش کرنے جا رہا تھا۔ اوبامہ انتظامیہ سے مشورے کے بعد اسے ملتوی کر دیا گیا تھا۔ اور اب امریکہ کے صدارتی انتخابات کے بعد اس قرارداد کو فرانس یورپی یونین اور امریکہ کی حمایت کے ساتھ سیکورٹی کونسل میں پیش کرنے کی تیاری ہو رہی ہے۔ اس قرارداد میں فلسطینیوں کی آزاد ریاست کو تسلیم کرنے کا کہا گیا ہے۔ اور فلسطین کی ریاست کا 1967 کی جنگ سے قبل کی سرحدوں کا تعین کیا گیا ہے۔ اسرائیل اس قرارداد کو روکنے کی کوشش کر رہا ہے۔ جبکہ امریکہ میں اسرائیلی لابی اس قرارداد کے خلاف نیویارک ٹائمز میں پورے صفحہ کے اشتہار دے رہی ہے۔ جن میں صدر اوبامہ سے اس قرارداد کو روکنے اور اسے ویٹو کرنے کی اپیلیں کی جا رہی ہیں۔ اوبامہ انتظامیہ  اس پر خاموش ہے۔ ہلری کلنٹن نے بھی اس پر کچھ نہیں کہا تھا۔ ہلری کلنٹن کا صدر منتخب ہونے کے بعد عرب اسپرنگ کو دوبارہ زندہ کرنے کا منصوبہ تھا۔ اب با ظاہر یہ نظر آتا ہے کہ اسرائیلی لابی اور ڈونالڈ ٹرمپ کی انتخابی ٹیم کے درمیان یہ معاملات طے ہو گیے ہیں۔ جس کے بعد امریکی میڈیا میں صدارتی مہم کا نقشہ پلٹ گیا تھا۔ ڈونالڈ ٹرمپ کو میڈیا میں زیادہ پروجیکٹ کیا جانے لگا تھا۔ جو عورتیں  ڈونالڈ  ٹرمپ کی ان کے ساتھ نازیبہ حرکتوں کو بتانے ٹی وی پروگراموں میں نظر آ رہی تھیں۔ وہ ٹی وی اسکرین سے غائب ہو گئی تھیں۔ ہلری کلنٹن اور ڈونالڈ ٹرمپ کے درمیان Gap قریب تر ہوتا جا رہا تھا۔
     بالکل ایسا ہی 2000 کے صدارتی انتخابات میں الگور کے ساتھ ہوا تھا۔ اس وقت صدر بش کے مقابلے پر الگور کے جیتنے کے بہت واضح امکان تھے۔ امریکہ کی معیشت بہت اچھی تھی۔ لوگ اقتصادی خشحالی محسوس کر رہے تھے۔ بیروزگاری بھی بہت کم تھی۔ لہذا ان کے ہارنے کی کوئی اور وجہ بھی نہیں تھی۔ صدر کلنٹن اپنے اقتدار کی تاریخ بنانے کے لئے اسرائیل اور فلسطینیوں میں امن سمجھوتہ کرانے کی انتھک کوششیں کر رہے تھے۔ چیرمین یا سر عرفات اور اسرائیلی وزیر اعظم ایہود براک میں مذاکرات میں بڑی حد تک پیش رفت ہوئی تھی۔ ایک دو نکات پر مذاکرات میں تعطل آ گیا تھا۔ جس میں فلسطینی مہاجرین کی واپسی اور فلسطینی ریاست کی سرحدوں کا تنازعہ تھا۔ صدر کلنٹن  چیرمین یا سر عرفات اور اسرائیلی وزیر اعظم ایہود براک نے کیمپ ڈیوڈ میں تقریباً 22 گھنٹے مسلسل مذاکرات کیے تھے۔ صدر کلنٹن نے اپنا سارا Political Capital اس تنازعہ کو حل کرنے میں لگا دیا تھا۔ ری پبلیکن پارٹی کے صدارتی امیدوار جارج بش کے خارجہ امور کے مشیر اسرائیلی رہنماؤں سے اپیلیں کرنے لگے کہ وہ کوئی معاہدہ مت کریں۔ ہم جب اقتدار میں آئیں گے اسرائیل کو بہتر ڈیل دلائیں گے۔ یا سر عرفات اور ایہود براک میں مذاکرات ختم ہو گیے تھے۔ الگور انتخابات جیتے جیتے  ہار گیے تھے۔ اور جارج بش امریکہ کے 43 صدر بن گیے تھے۔ اسرائیلیوں نے اس کے بعد فلسطینیوں سے  دوبارہ کبھی مذاکرات نہ کرنے کا عہد کیا تھا۔ اور اس وقت عرب دنیا میں جو کچھ ہو رہا ہے۔ یہ مذاکرات نہ کرنے کا پلان بی ہے۔
     اب 16 سال بعد وہ تاریخ پھر دوہرائی گئی ہے۔ ہلری کلنٹن انتخاب جیتے جیتے ہار گئی ہیں۔ اور ڈونا لڈ ٹرمپ انتخاب ہارتے ہارتے جیت گیے ہیں۔ نومنتخب صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے اسرائیلی وزیر اعظم نتھن یا ہو کو امریکہ کے دورے کی دعوت دی ہے۔ اسرائیلی کابینہ کے وزیر Ofir Akunis نے کہا ہے "ہمیں اب نئی یہودی بستیاں پھیلانے کے لئے یہ غور کرنا چاہیے کہ کس طرح آ گے بڑھا جاۓ۔ اب جبکہ واشنگٹن میں ٹرمپ انتظامیہ ہے اور اس کے مشیروں کا کہنا ہے کہ ایک فلسطینی ریاست کا کوئی مقام نہیں ہے۔"                     

      

No comments:

Post a Comment