Saturday, November 5, 2016

What Is Anti-Americanism?

What Is Anti-Americanism?
International Anti-Americanism Is Shaping Internal Anti-Americanism. What Are We Seeing In Donald Trump’s Speeches, The Tone Of Hugo Chavez?
Is This The Rise Of Internal Anti-Americanism?

مجیب خان
"President of The Philippines, Rodrigo Duterte: "American officials are Monkeys, go to Hell

"Former President of Venezuela Hugo Chavez (late) in U.N. said President Bush is a "devil" and "its system is worthless

 "Republican Party's Presidential Candidate Donald Trump: "We will drain the swamp and the system is rigged  

      فلپائن کے صدر Rodrigo Duterte نے امریکہ کے ساتھ  تعلقات کو خدا حافظ کہنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اور امریکہ سے ایک سال کے اندر فلپائن میں اپنے پانچ فوجی اڈے خالی کرنے کا کہا ہے۔ تاہم امریکہ کے ساتھ سفارتی تعلقات برقرار رہیں گے۔ صدر راڈ ریگو نے چین کے ساتھ قریبی تعلقات فروغ دینے کا فیصلہ کیا ہے۔ اور جنوبی دریاۓ چین تنازعہ مذاکرات سے حل کرنے پر زور دیا ہے۔ ان فیصلوں سے صدر راڈ ریگو نے فلپائن میں ایک آزاد خارجہ پالیسی کی بنیاد رکھی ہے۔ نہ صرف یہ بلکہ صدر راڈ ریگو نے مشرقی ایشیا کو نئی جنگوں کا سرکس بنانے سے بچایا ہے۔ یہ جنگی سرکس مغربی ایشیا سے مشرقی ایشیا منتقل کرنے کی تیاریاں ہو رہی تھیں۔ جنوبی دریاۓ چین تنازعہ کو بنیاد بنا کر چین کے گرد فوجی اتحاد اور فوجی اڈوں کے ذریعے حلقہ تنگ کرنے کی حکمت عملی پر کام جاری تھا۔ اور اس حکمت عملی میں فلپائن اور اس کے پانچ فوجی اڈوں کا جو امریکہ کے پاس تھے خصوصی فرنٹ لائن رول ہوتا۔ امریکہ کو صدر راڈ ریگو کے فیصلے سے سخت مایوسی ہوئی ہے۔ اوبامہ انتظامیہ نے اسسٹنٹ سیکرٹیری آف اسٹیٹ Danial Russal کو صدر راڈ ریگو کے امریکہ کے ساتھ فوجی اور اقتصادی تعلقات ختم کرنے کے ریمارکس کی وضاحت کے لئے فلپائن بھیجا تھا۔ صدر راڈ ریگو نے اسسٹنٹ سیکرٹیری آف اسٹیٹ سے غصہ کا اظہار کیا تھا۔ صدر راڈ ریگو نے کہا "اگر میں یہاں (اقتدار) کافی عرصہ رہتا ہوں۔ میں فلپائن کے فوجیوں کے علاوہ کسی دوسرے ملک کے فوجی یہاں دیکھنا نہیں چاہتا ہوں۔ اور میں صرف یہ چاہتا ہوں۔" صدر راڈ ریگو اس سال جون میں اقتدار میں آۓ تھے۔
     صدر راڈ ریگو کے خلاف امریکی میڈیا میں ابھی کردار کشی کی مہم شروع نہیں ہے۔ جس طرح ونزویلا کے صدر ہو گو شیویز کے خلاف امریکی میڈیا میں مہم چلائی گئی تھی۔ اور انہیں ڈکٹیٹر اور فاشسٹ کہا گیا تھا۔ حالانکہ صدر شیویز کو وینز ویلا کے لوگوں نے بھاری اکثریت سے منتخب کیا تھا۔ اور اپنے عوام میں مقبول بھی تھے۔ امریکی میڈیا کی توجہ اس وقت صدارتی انتخاب پر مرکوز ہے۔ صدر راڈ ریگو کے بیانات شائع ہو رہے ہیں۔ لیکن ان کے خلاف کچھ نہیں لکھا جا رہا ہے۔ اس صدی کی پہلی دہائی تک یہ کہا جاتا تھا کہ امریکہ کی عالمی طاقت کو جو بھی چیلنج کرے گا یا امریکہ کے مد مقابل آنے کی کوشش کرے  گا اس کی بھر پور طاقت سے مزاحمت کی جاۓ گی۔ اور اس Doctrine کے تحت عراق میں صد ام حسین کو اور لیبیا میں معمر قدافی کا خاتمہ کیا تھا۔ انہیں امریکہ کے مفادات کے خلاف ایک بڑا خطرہ سمجھا گیا تھا۔ یہ لیڈر تیل کی دولت پر بیٹھے ہوۓ تھے۔ اور امریکہ کی عالمی طاقت کو اپنے  تیل کی دولت سے چیلنج کرنے کی بھر پور صلاحیت رکھتے تھے۔ لیکن یہ ایک غلط تاثر تھا۔ جبکہ حقائق اس تاثر کے بالکل برعکس تھے۔ یہ لیڈر اس خطہ کے بارے میں امریکہ کی پالیسیوں سے اختلاف کرتے  تھے۔ اور یہ اس کا بڑے کھرے لفظوں میں اظہار کرتے تھے۔ لیکن اس کا مطلب یہ نہیں تھا کہ یہ امریکہ کی عالمی طاقت کو چیلنج کر رہے تھے۔ اس غلط فہمی میں صد ام حسین اور معمر قدافی کو ختم کر دیا تھا۔ لیکن اس کے نتائج اب امریکہ کی عالمی قیادت کے لئے چیلنج بنے ہوۓ  ہیں۔ ونزویلا کے صدر ہو گو شیویز اور ایران کے صدر احمدی نژاد بھی امریکہ کی عالمی قیادت کو مسلسل چیلنج کر رہے تھے۔ ان لیڈروں کا سیاسی پس منظر صد ام حسین اور معمر قدافی سے مختلف تھا۔ عوام نے انہیں منتخب کیا تھا۔ عوام نے انہیں لیڈر بنایا تھا۔ اور عوام میں مقبول تھے۔ صدر احمدی نژاد ان کے ملک کے خلاف امریکہ کے بر تاؤ پر تنقید کرتے تھے۔ اسرائیل کے بارے میں امریکہ کی پالیسی کی مذمت کرتے تھے۔ فلسطینیوں کے ساتھ اسرائیل کا جو Behavior تھا۔ صدر احمدی نژاد کی اس کے خلاف لفظی جنگ رہتی تھی۔ اسرائیل کے اس Behavior کی امریکہ نے ہمیشہ پشت پنا ہی کی تھی۔ اسرائیل کی مذمت میں امریکہ نے سلامتی کونسل میں ہر قرارداد کو ہمیشہ ویٹو کیا تھا۔ اور یہ امریکہ کی مخالفت کا ایک بڑا سبب تھا۔
     صدر ہو گو شیویز کو لاطین امریکہ میں امریکہ کے رول پر غصہ تھا۔ امریکہ نے یہاں ہمیشہ عوام دوست حکومتوں کے تختے الٹنے میں فوجی جنرلوں کی مدد کی تھی۔ اور پھر فوجی حکومتوں کے ذریعے ان پر حکومت کی تھی۔ ان کے وسائل کا استحصال کیا تھا۔ اور ان کے عوام کو غربت میں رکھا تھا۔ سرد جنگ ختم ہونے کے بعد صدر ہو گو شیویز کا لاطین امریکہ کے ملکوں کو متحد کرنے اور انہیں ایک آزاد خارجہ پالیسی اختیار کرنے کی ترغیب دینے میں اہم رول تھا۔ لاطین امریکہ میں صدر ہو گو شیویز کی ان سرگرمیوں سے امریکہ خوش نہیں تھا۔ صدر جارج بش کو صدر صد ام حسین کو اقتدار سے ہٹانے میں کامیابی ہو گئی تھی۔ لیکن ونزویلا میں صدر ہو گو شیویز کو اقتدار سے ہٹانے میں ناکامی ہوئی تھی۔ بش انتظامیہ کے حکام کے ذہنوں میں سرد جنگ بھری ہوئی تھی۔ سی آئی اے کی مدد سے ونز ویلا کے جنرلوں نے صدر ہو گو شیویز حکومت کا تختہ الٹ دیا اور اقتدار پر قبضہ کر لیا تھا۔ بش انتظامیہ نے فوجی حکومت کو تسلیم کر لیا تھا۔ لیکن لاطین امریکہ کے ملکوں نے متفقہ طور پر ونز ویلا میں فوجی حکومت کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ اور بش انتظامیہ کے فوجی حکومت کو تسلیم کرنے کے فیصلے کی مذمت کرتے ہوۓ ونز ویلا میں صدر ہو گو شیویز کی حکومت بحال کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔ لاطین امریکہ ملکوں کا یہ اتحاد اور حکومتوں کا موڈ دیکھ کر بش انتظامیہ کو پیچھے ہٹنا پڑا تھا۔ اور صدر ہو گو شیویز کی حکومت بحال ہو گئی تھی۔ صدر ہو گو شیويز کو اس پر غصہ تھا کہ بش انتظامیہ نے ان کی  منتخب حکومت کے خلا ف سازش کی تھی۔ اور انہیں اقتدار سے معزول کرنے کی کوشش کی تھی۔ صدر ہو گو شیويز بش انتظامیہ کے خلاف ہو گیے تھے۔ اور صدر جارج بش کے فیصلوں کے خلاف سخت لفظوں میں بیان دیتے تھے۔ امریکہ کا میڈیا اور اسٹبلشمینٹ صدر ہو گو شیويز کو Anti American  کہنے لگے تھے۔ صدر ہو گو شیويز امریکی عوام کے بالکل خلاف نہیں تھے۔ اور امریکہ امریکی عوام کا تھا۔ صدر ہو گو شويز کی امریکی عوام سے یکجہتی کا یہ ثبوت تھا کہ انہوں نے نیویارک میں کم آمدنی والے علاقوں میں سخت ترین سردی میں لوگوں کے گھروں کو گرم رکھنے کے لئے انہیں مفت تیل فراہم کیا تھا۔ اور یہ صدر جارج بش کی انتظامیہ میں ہوا تھا۔
     صدارتی انتخابی مہم میں ڈونالڈ ٹرمپ نے واشنگٹن اور اسٹبلشمینٹ کے خلاف زیادہ سخت لہجہ اختیار کیا ہے۔ اور امریکی عوام کے ذہنوں میں یہ بیٹھا دیا ہے کہ واشنگٹن انتہائی Corrupt ہے۔ اور وہ جب اقتدار میں آئیں گے تو سب سے پہلے “Drain  the Swamp” کریں گے۔ اور یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ ڈونالڈ ٹرمپ روس کے صدر پوتن کے حامی ہیں۔ اور صدر پوتن ڈونالڈ ٹرمپ کو امریکہ کا صدر دیکھنا چاہتے ہیں۔ امریکہ کے نظام اور اسٹبلشمنیٹ کے خلاف ڈونالڈ ٹرمپ کے سخت بیانات میں   Internal Anti American نظر آتا ہے۔
     فلپائن کے صدر راڈ ریگو کا کہنا تھا کہ  انہیں صرف تاریخی حماقتوں ہی پر غصہ نہیں ہے۔ انہیں 2002 میں Michael Terrence Meiring ایک امریکی کے کیس کا بھی غصہ تھا۔ جو فلپائن کے شہر Davao میں اپنے ہوٹل کے کمرے میں ایک بم پھٹنے سے شدید زخمی ہو گیا تھا۔ راڈ ریگو اس وقت اس شہر کے میئر تھے۔ اس واقعہ کے کچھ ہی دیر بعد Meiring  اپنے ہسپتال کے کمرے سے غائب ہو گیا تھا۔ اس واقعہ کے بعد سے راڈ ریگو کا  کہنا یہ تھا کہ Meiring ایک دہشت گرد تھا۔ اور امریکی کا رندے  اسے کرائم کے الزام میں عدالتی کاروائی سے بچانے کے لئے فلپائن سے نکال کر لے گیے تھے۔ صدر راڈ ریگو اس واقعہ کو بھولے نہیں تھے۔ بش انتظامیہ میں مشرقی ایشیا کے ملکوں انڈونشیا آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ میں بموں کے دھماکے ہوۓ تھے۔ جنہیں القاعدہ کی دہشت گردی بتایا جاتا تھا۔ ایسے حالات میں فلپائن کے Davao   شہر کے ایک ہوٹل میں امریکی شہری کے کمرے میں بم کا دھماکہ اور پھر ہسپتال سے اچانک اس کا غائب ہو جانا۔ لوگوں کے ذہنوں میں شکوک و شبہات پیدا کرتا تھا۔ صدر راڈ ریگو اس واقعہ کے حقائق جاننا چاہتے ہیں۔ صدر راڈ ریگو کے امریکہ سے دور ہونے کے فیصلے میں اس غصہ کا اظہار بھی ہے۔ کسی نہ کسی کو کہیں نہ کہیں امریکہ پر غصہ ہے۔ جو امریکہ کے صدارتی انتخابات میں بھی نظر آ رہا ہے۔ اس غصہ نے ڈونالڈ ٹرمپ کو بھی Extreme بنا دیا ہے۔               

No comments:

Post a Comment