Thursday, November 17, 2016

Who Is Changing The World, Globalization Or The Multi-National Corporate World?

   Who Is Changing The World, Globalization Or The Multi-National Corporate World?  
Is The Future Of Democracy In Danger? 

 مجیب خان
U.S. President-Elect Donald Trump

Victory of Donald Trump and the Red Revolution 

         نائن الیون کے بعد یہ امریکہ کا چوتھا صدارتی انتخاب تھا۔ اور سابقہ تین صدارتی انتخابات کے مقابلے میں دہشت گردی کے خلاف جنگ اس مرتبہ انتخابی مہم پر نہیں چھائی ہوئی تھی۔ القاعدہ کا کوئی ذکر نہیں تھا۔ داعش کی دہشت گردی بھی اہم موضوع نہیں تھا۔ طالبان کو جیسے سب بھول گیے تھے۔ افغانستان اب ڈونالڈ ٹرمپ کی جنگ بن جاۓ گی۔ لیکن صدارتی مباحثوں میں کسی نے ڈونالڈ ٹرمپ سے یہ سوال نہیں کیا تھا کہ وہ صدر منتخب ہونے کے بعد افغانستان کا کیا کریں گے۔ اور شام کی خانہ جنگی میں پانچ سال سے  سی آئی اے جن باغیوں کو تربیت دے رہی تھی۔ ٹرمپ انتظامیہ ان کا کیا کرے گی۔ یمن کے خلاف جنگ میں سعودی حکومت کے ساتھ امریکہ کا جو Share ہے ڈونالڈ ٹرمپ انتظامیہ اس کا کیا کرے گی؟ لیبیا میں بھی خانہ جنگی کے شعلے بھڑک رہے ہیں۔ جو افریقہ کو بھی بھڑکا رہے ہیں۔ اور یورپ کو مہاجرین کا بحران دے رہے ہیں۔ یہ جنگیں ڈونالڈ ٹرمپ کا پہلا سردرد ہوں گی۔ لیکن صدارتی انتخابی مہم کے دوران میڈیا کی طرف سے اس صورت حال پر کوئی سوال نہیں کیے گیے تھے۔ حالانکہ ان جنگوں کے نتیجے میں دنیا آج زیادہ خطرناک حالات کا سامنا کر رہی ہے۔ یورپ اور امریکہ میں دہشت گردی کے انتہائی خوفناک واقعات ہوۓ ہیں۔ جن میں بڑی تعداد میں لوگ مارے گیے ہیں۔ لیکن دہشت گردی اور جنگیں اس صدارتی انتخابی مہم کے ایجنڈے سے غائب تھے۔ اس کی وجہ شاید یہ بھی تھی کہ 16 سال میں دہشت گردی اور جنگوں کے حالات نہیں بدلے تھے۔ لہذا انہیں انتخابی مہم کا موضوع بنانا مناسب نہیں سمجھا گیا تھا۔ اور لوگ بھی شاید یہ سننے کے لئے تیار نہیں تھے۔
    اس انتخابی مہم میں ڈونالڈ ٹرمپ نے امیگریشن، ہیلتھ کیئر پلان، واشنگٹن کو خصوصی مفادات اور لابیوں کے کرپشن کے نظام سے صاف کرنے، آزاد تجارتی معاہدے جن کے نتیجے میں صنعتی پیداواری سرگرمیاں امریکہ سے دوسرے ملکوں میں چلی گئی ہیں۔ اور امریکی اچھی اجرتوں کی ملازمتوں سے محروم ہو گیے ہیں۔ انہیں واپس امریکہ میں لانے کا عزم ایسے موضوع تھے۔ جن کو سننے میں امریکی عوام کی گہری دلچسپی تھی۔ اسٹبلشمینٹ کیونکہ ان کے خلاف تھی۔ اس لئے ڈونالڈ ٹرمپ نے اس پر بھی حملے کرنا شروع کر دئیے تھے۔ ان موضوعات کے علاوہ ڈونالڈ ٹرمپ نے کوئی اور نئی بات کی تھی اور نہ ہی کوئی پرانی باتیں سننا چاہتے تھے۔ اپنی انتخابی ریلیوں میں ہر جگہ اور ہر وقت  صرف ان موضوع کو دہراتے تھے۔ یہ سن سن کر امریکی عوام کو ان کی شخصیت میں جیسے Jesus Christ ان کے تمام مسائل کے نجات دہندہ نظر آنے لگے تھے۔ ڈونالڈ ٹرمپ اب امریکہ کے 45 ویں صدر منتخب ہو گیے ہیں۔ اور امریکہ کی تاریخ میں پہلے Billionaire صدر ہیں۔ کارپوریٹ دنیا سے ان کا تعلق ہے۔ سیاست کے ایوانوں میں انہوں نے کبھی قدم نہیں رکھا تھا۔ ڈونالڈ ٹرمپ کی صدارتی انتخاب میں کامیابی صرف ڈیموکریٹک پارٹی کی شکست نہیں ہے بلکہ یہ ری پبلیکن پارٹی کی بھی ناکامی ہے۔ کیونکہ وہ اچانک ان کی صفوں میں آۓ تھے اور اب وائٹ ہاؤس میں پہنچ گیے ہیں۔ اور جن کی عمریں ری پبلیکن پارٹی کی سیاست میں گزر گئی ہیں وہ ایک سے زیادہ مرتبہ انتخاب ہار جاتے ہیں۔
    اب یہ سوال کہ امریکی کمپنیاں دوسرے ملکوں میں چلی گئی ہیں۔ تو یہ ری پبلیکن اور ڈیموکریٹک پارٹی کے واچ میں ہوا ہے۔ اور آزاد تجارت کے قانون کانگرس نے منظور کیے ہیں۔ اور  NAFTA ( نارتھ  امریکہ فری ٹریڈ معاہدہ دونوں پارٹیوں نے متفقہ طور پر کانگرس میں منظور کیا تھا۔ اور اسے امریکہ کے مفاد میں بتایا تھا۔ لیکن جو حقائق اب سامنے آۓ ہیں یہ فری ٹریڈ معاہدے کارپوریٹ امریکہ کے مفاد میں نظر آ رہے ہیں۔ اور امریکی عوام کو فری ٹریڈ معاہدوں سے بیروزگاری اور اجرتوں میں حیرت انگیز کمی ملی ہے۔ اور ڈونالڈ ٹرمپ نے صدارتی انتخابی مہم میں اس ایشو کو Exploit کیا ہے۔ اور جیسا کہ ڈونالڈ ٹرمپ نے امریکی عوام سے کہا ہے کہ وہ صدر بننے کے بعد فری ٹریڈ معاہدے ختم کر دیں گے یا ان معاہدوں پر دوبارہ مذاکرات کریں گے۔ اس میں انہیں کتنی کامیابی ہو گی۔ اس کا انتظار ہے۔
    یہ فری ٹریڈ معاہدے دراصل ڈیزائن ہی کمپنیوں کے مفاد میں کیے گیے تھے۔ امریکہ سے جو کمپنیاں چین چلی گئی ہیں وہ بھاری منافع سے متاثر ہو کر اپنا کاروبار چین لے گئی ہیں۔ ان کمپنیوں کا چین میں ایک سال کا منافع  امریکہ میں پانچ سال کے منافع کے برابر ہے۔ اس لئے کمپنیوں اور کارپوریشنوں کو امریکہ کے نظام سے زیادہ چین کا نظام Suit کرتا ہے۔ فری ٹریڈ اور منافع کے تعاقب کی دوڑ کو گلوبلائزیشن کہا جاتا ہے۔ حالانکہ گلوبلائزیشن دراصل Multi National Corporate World ہے۔  کارپوریٹ امریکہ کی جگہ اب Corporate World لے رہی ہے۔ اس عمل میں لوگوں کو جن مالی اور اقتصادی مصائب کا سامنا ہو رہا ہے۔ اس کا سبب گلوبلائزیشن کو بتایا جا رہا ہے۔ امریکہ کی بڑی بڑی کمپنیوں نے ایک ٹیریلین ڈالر امریکہ سے باہر رکھا ہے۔ لیکن عوام کے اقتصادی مصائب کا سبب گلوبلائزیشن کو بتایا جا تا ہے۔
    2016 کے صدارتی انتخابات امریکہ کے سیاسی جمہوری نظام میں کیا تبدیلیاں لائیں گی؟ یہ اہم توجہ طلب سوال ہے؟ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پہلے ہی امریکہ اور دوسرے مغربی جمہوری ملکوں میں لوگوں کے جمہوری حقوق میں سیکورٹی کے نام پر بڑی حد تک تخفیف ہو گئی ہے۔ اور اب مغربی جمہوری نظام میں ایک نیا سیاسی رجحان خصوصی طور سے نوٹ کیا جا رہا ہے۔ اور یہ “One Party Democratic Government Minus Opposition” ہے۔ اس میں چین کے نظام حکومت کی جھلک نظر آتی ہے۔ جرمنی میں اسے آزمایا جا رہا ہے۔ اور کامیاب ہے۔ جرمنی کی دونوں بڑی سیاسی پارٹیاںCDU اور   SPD      حکومت میں شامل ہیں اور تیسری پارٹی CSU بھی حکومت میں شامل ہو گئی ہے۔ اہم وزارتیں جرمنی کی دو بڑی پارٹیوں کے پاس ہیں۔ جبکہ خوراک اور زراعت، ٹرانسپورٹ کی وزارتیں CSU کے پاس ہیں۔ اور سیاسی اپوزیشن غائب ہے۔ 2005 سے چانسلر انجیلا مرکل اقتدار میں ہیں۔ اور  کسی سیاسی مزاحمت کے بغیر حکومت کے فیصلے کر رہی ہیں۔ اور بہت کامیابی سے حکومت کر رہی ہیں۔ اس سے قبل جب ان دو بڑی پارٹیوں میں سے ایک بڑی پارٹی اپوزیشن میں ہوتی تھی۔ برسراقتدار پارٹی کے کسی فیصلے پر اپوزیشن کے شدید اختلاف کے نتیجے میں حکومت ختم ہو جاتی تھی یا حکومت کے ساتھ کسی چھوٹی پارٹی کا اتحاد ختم ہو جانے سے حکومت ٹوٹ جایا کرتی تھی۔ لیکن تقریباً 11 سال سے حکومت میں تسلسل ہے ۔ فرانس میں سوشلسٹ پارٹی اقتدار میں ہے Francois Hollande صدر ہیں۔ جبکہ فرانس کی دوسری بڑی پارٹی Union for a Popular Movement دائیں بازو کی پارٹی ہے۔ سابق صدر نکولیس سارکوزی 2012 میں انتخاب ہار گیے تھے۔ تیسری پارٹی نیشنل فرنٹ ہے Marine Le Pen پارٹی کی سربراہ ہیں۔ یہ پارٹی ابھی تک حکومت میں نہیں آئی ہے لیکن پارلیمنٹ میں اس کے 23 اراکین ہیں۔ پہلی مرتبہ یہ دیکھا جا رہا ہے کہ سوشلسٹ پارٹی کی حکومت کو اپوزیشن کی طرف سے کسی بڑی مزاحمت کا سامنا نہیں ہو رہا ہے۔ فرانس میں دہشت گردی کے بڑے خوفناک واقعات ہوۓ ہیں۔ سینکڑوں لوگ اس میں مارے گیے ہیں۔ لیکن اپوزیشن نے اسے حکومت کی کمزوری نہیں قرار دیا ہے۔ اور حکومت کی سخت لفظوں میں تنقید سے گریز کیا ہے۔ حالانکہ فرانس میں حکومت معمولی کوتاہی کے نتیجے میں ٹوٹ جانے کی ایک روایت ہے۔ پہلی مرتبہ فرانس میں حکومت کا تسلسل برقرار دیکھا جا رہا ہے۔ اپوزیشن کے رویہ میں نرمی ہے۔ اور پارلیمنٹ میں حکومت کے خلاف اپوزیشن کی گرما گرمی نہیں دیکھی جا رہی ہے۔
    برطانیہ میں کنزرویٹو پارٹی حکومت میں ہے۔ اور Theresa May جب سے وزیر اعظم بنی ہیں۔ پارلیمنٹ میں لیبر پارٹی کا اپوزیشن کردار ٹھنڈا ہو گیا ہے۔ وزیر اعظم Theresa May کے فیصلوں اور پالیسیوں کو خاموشی سے تسلیم کیا جا رہا ہے۔ لیبر پارٹی جیسے Sleeping Mode میں چلی گئی ہے۔ اسرائیل میں دو بڑی سیاسی جماعتوں لیبر اور لیکوڈ پارٹی کی مخلوط حکومت نے اقتدار کیا ہے۔ اور اس وقت لیکوڈ پارٹی کی دوسری چھوٹی پارٹیوں کے ساتھ مخلوط حکومت ہے۔ اور لیبر پارٹی So Called اپوزیشن ہے۔ وزیر اعظم نتھن یا ہو کو کسی طرف سے بھی سخت سیاسی مزاحمت کا سامنا نہیں ہے۔ اسرائیل میں با ظاہر ایک پارٹی کی حکومت ہے۔ 
    بھارت کی جمہوریت میں پہلی مرتبہ کانگرس پارٹی سیاسی طور پر Impotent نظر آ رہی ہے۔ وزیر اعظم نریندر مودی کی نیشنل ڈیموکریٹک الائنس کا بھارتیہ جنتا پارٹی کے ساتھ اتحاد ہے۔ بھارت کی پندرہ ریاستوں میں اس وقت اتحاد کی حکومتیں ہیں۔ مرکز میں وزیر اعظم مودی این ڈی اے حکومت کے قائد ہیں۔  وزیر اعظم مودی اس وقت سابق وزیر اعظم اندرا گاندھی سے زیادہ آہنی نظر آ رہے ہیں۔ بھارت کے روایتی سیاسی، اقتصادی اور خارجہ امور کے ڈھانچہ کو انہوں نے توڑ دیا ہے۔ امریکہ کے ساتھ بھارت کا فوجی اتحاد بنایا ہے۔ بھارت کی معیشت کے دروازے غیرملکی سرمایہ کاروں اور Multi-National Companies کے لئے کھول دئیے ہیں۔ وزیر اعظم مودی نے بھارت کے سیاسی نظام میں اتنے بڑے فیصلے کیے ہیں۔ لیکن پارلیمنٹ میں اپوزیشن کی طرف سے حکومت کے ان فیصلوں پر کو رد عمل نہیں ہوا ہے۔ کانگرس کے جس ڈھانچہ پر بھارت اس مقام پر پہنچا ہے۔ نریندر مودی نے اسے تباہ کر دیا ہے۔ اور اپوزیشن نے اسے قبول کر لیا ہے۔ مودی حکومت نے ایک ہزار روپے اور پانچ سو روپے کے نوٹ منسوخ کر کے بھارت کے کروڑوں لوگوں کو جیسے اذیتیں دی ہیں۔ لیکن پارلیمنٹ میں اپوزیشن کی طرف سے اس پر کوئی چیخ پکار نہیں ہو رہی ہے۔ یہ جمہوریت میں حکومت اور اپوزیشن کے کردار کے نئے سیاسی رجحان ہیں۔ پاکستان میں نواز شریف کی پارٹی کو پیپلز پارٹی کی حکومت میں شامل کرایا گیا تھا۔ لیکن نواز شریف زرداری حکومت سے علیحدہ ہو گیے تھے۔ اور اپنے ہونٹوں پر Duck Tap لگا کر اپوزیشن بینچوں پر بیٹھ گیے تھے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ ایکBillionaire President کی قیادت میں ری پبلیکن اور ڈیموکریٹک پارٹی کا کیا رول ہوگا؟                 

No comments:

Post a Comment