GCC Ruler’s Hijrat From Washington To London
The Law of Humanity Is The
Base Religion Of Islam, But The Problem Is There Is No Rule of Law
مجیب خان
GCC member states and the United Kingdom's Prime Minister Theresa May |
President Obama and King Salman attended The Summit of GCC |
Britain's Foreign Secretary Boris Johnson, Saudi Arabia puppeteering in proxy wars across The Middle East, and abusing Islam |
برطانیہ
کے سیکرٹیری خارجہ بورس جانسن نے مشرق
وسطی کو جنگوں کے حالات میں دیکھ کر کہا ہے کہ "سعودی عرب نے مشرق وسطی میں
پراکسی جنگوں کو کٹھ پتلیوں کا تماشہ بنا لیا ہے۔ اور یہ اسلام سے فائدے اٹھا رہا
ہے۔ وہاں یہ سیاستدان ہیں جو مذہب کی کھینچا تانی کر رہے ہیں۔ اور اسے استعمال کر
رہے۔ اور ایک ہی مذہب کے فرقوں میں اپنے سیاسی مقاصد میں محاذ رائی کر رہے ہیں۔ اس
وجہ سے تم کو سعودی، ایران مل گیے ہیں۔ ہر کوئی اس میں آ رہا ہے۔ اور کٹھ پتلیاں
بن کر پراکسی جنگیں کر رہا ہے۔" سیکرٹیری خارجہ بورس جانسن نے یہ 60 ملین کی بات
کی ہے۔ جو اسلامی ملکوں کے کسی وزیر خارجہ کو کرنا چاہیے تھی۔ لیکن اللہ نے یہ باتیں شاید برطانیہ کے سیکرٹیری خارجہ بورس
جانسن کے منہ سے کہلوائی ہیں۔ ہمارے خیال میں انہیں اسلامی ملکوں کی تنظیم کا
سیکرٹیری جنرل ہونا چاہیے تھا۔ سیکرٹیری جانسن کے اس بیان پر سعودی حکومت نے
برطانیہ سے احتجاج کیا ہے۔ 10 ڈاؤننگ اسٹریٹ کے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ "
یہ بورس جانسن کی ذاتی راۓ ہے۔ اور حکومت برطانیہ اس سے اتفاق نہیں کرتی ہے۔ وزیر
اعظم Theresa May اس وقت ابو دہابی میں GCC -
برطانیہ کانفرنس میں شرکت کرنے آئی تھیں۔ وزیر اعظم May نے جی سی سی
ملکوں کے حکمرانوں سے کہا کہ "میں آپ کو یہ یقین دلانا چاہتی ہوں کہ میں واضح
طور پر ایران سے خلیج کو اور مشرق وسطی میں جو خطرہ ہے انہیں دیکھ رہی ہوں۔"
جی سی سی – برطانیہ کانفرنس کے اختتام پر
مشترکہ اعلامیہ میں کہا گیا ہے کہ جی سی سی ممالک اور برطانیہ مل کر ایران کی عدم
استحکام کرنے کی سرگرمیوں کا جواب دیں گے۔ اعلامیہ میں کہا گیا ہے کہ جی سی سی
ملکوں اور برطانیہ نے اسٹرٹیجک پارٹنر شپ پر اتفاق کیا ہے۔ جس کے تحت سیاسی،
دفاعی، سلامتی اور تجارتی تعلقات کو فروغ دیا جاۓ گا۔ وزیر اعظم May نے
جی سی سی ملکوں کے حکمرانوں سے کہا کہ جی سی سی ملکوں کی سلامتی برطانیہ کی سلامتی
ہے۔ برطانیہ کے سابق وزیر اعظم ڈ یوڈ کمیرن نے پاکستان سے بھی ایسے ہی لفظوں میں
کہا تھا کہ پاکستان پر حملہ برطانیہ پر حملہ سمجھا جاۓ گا۔ لیکن بھارت تقریباً چار
ماہ سے پاکستان کی سرحدوں پر حملہ کر رہا ہے۔ جس میں سینکڑوں بے گناہ شہری اور
پاکستانی فوجی شہید ہو گیے ہیں۔ لیکن برطانیہ نے ابھی تک پاکستان کی سرحدوں پر
بھارت کے ان حملوں کو برطانیہ پر حملہ نہیں سمجھا ہے۔
مشرق
وسطی میں ہر طرف عدم استحکام کی جنگوں کے شعلوں میں گھر جانے کے بعد خلیج کے
حکمرانوں کو اب ہوش آیا ہے کہ ان کی سلامتی خطرے میں آ گئی ہے۔ حیرت کی بات یہ ہے
کہ جنہوں نے مشرق وسطی کو عدم استحکام کرنے کی جنگیں دی ہیں۔ وہ ہی خلیج کے
حکمرانوں کو ان کی سلامتی کی یقین دہانیاں بھی کرا رہے ہیں۔ صدر جارج بش چلے گیے۔
صدر اوبامہ چند ہفتوں میں چلے جائیں گے۔ وزیر اعظم ٹونی بلیر چلے گیے ہیں۔ اور ڈ
یوڈ کمیرن بھی چلے گیے ہیں۔ لیکن مشرق وسطی کے ملک کہیں نہیں گیے ہیں۔ عراق ابھی
تک سعودی عرب اور کویت کے ہمساۓ میں موجود ہے۔ ایران بھی سنی عربوں کا ہمسایہ ہے۔
شام تباہ ہو گیا ہے۔ لیکن اس کے کھنڈرات عراق لبنان اردن ترکی سعودی عرب کے ہمسایہ
رہیں گے۔ یہ ہزاروں سال سے یہاں ہیں اور ہزاروں سال یہیں رہیں گے۔ خلیج کے سنی
حکمرانوں کو اپنے آپ سوال کرنا چاہیے کہ اتنے سارے اسلامی ملکوں کے درمیان انہیں
سلامتی اور عدم استحکام کے خطروں کا سامنا کیسے ہوا ہے؟ اور یہ حالات پیدا کرنے
میں ان کا اپنا کیا کردار ہے؟
صدر
اوبامہ ہتھیاروں کی کمپنیوں کے مشرق وسطی کے لئے سیل مین تھے۔ اور وہ ہتھیار فروخت
کرنے کے لئے جنگیں مارکیٹنگ کرتے تھے۔ اس لئے صدر اوبامہ کے اقتدار کا ایک بڑا حصہ
مشرق وسطی میں جنگیں فروغ دینے میں گزرا ہے۔ امن کے لئے کوئی مثبت کام نہیں ہوۓ
ہیں۔ لیکن خلیج کے حکمرانوں کا ہتھیاروں پر کھربوں ڈالر خرچ کرنے میں کیا مفاد
تھا؟ اب نئی امریکی انتظامیہ کا شاید مشرق وسطی میں جنگوں میں مفاد ہے اور نہ ہی
ہتھیار فروخت کرنے میں کوئی دلچسپی ہے۔ لہذا اب برطانیہ کی وزیر اعظم Theresa May جی
سی سی ملکوں کے ساتھ برطانیہ کے لئے 10 بلین ڈالر کی تجارت کا منصوبہ لے کر ابو
دہابی آئی تھیں۔ برطانیہ یورپی یونین سے علیحدہ ہو رہا ہے۔ برطانیہ اپنی تجارت کے
لئے نئی مارکیٹیں ڈھونڈ رہا ہے۔ وزیر اعظم May گزشتہ ماہ اس مقصد سے بھارت آئی
تھیں۔ اور انہوں نے بھارت کے ساتھ تجارتی تعلقات فروغ دینے کے لئے کئی معاہدے کیے
تھے۔ لیکن خلیج کے ملکوں کے ساتھ تمام تعلقات یکطرفہ مفاد میں ثابت ہو رہے ہیں۔ ان
کے ساتھ تجارت بھی یکطرفہ مفاد میں ہوتی ہے۔ مشرق وسطی میں جنگیں بھی یکطرفہ مفاد
ہوتی ہیں۔ ہتھیاروں کی فروخت بھی یکطرفہ مفاد میں ہوتی ہے۔ انہیں عدم استحکام بھی
یکطرفہ مفاد میں کیا جاتا ہے۔
برطانیہ
کے سیکرٹیری خارجہ بورس جانسن نے یہ بالکل درست کہا ہے کہ "سعودی عرب پراکسی
جنگوں کو کٹھ پتلیوں کا تماشہ بنا رہا ہے۔ اور اسلام سے فائدے اٹھا رہا ہے۔"
اس وقت مشرق وسطی میں سعودی عرب ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھا ہوا ہے۔ اور عرب دنیا کو
عدم استحکام کی کھائیوں کی طرف لے جا رہا ہے۔ سعودی عرب کے واچ میں عرب ملک تباہ
ہو رہے ہیں۔ قدیم اسلامی تاریخ کے عرب ملک کھنڈرات بن گیے ہیں۔ لاکھوں عربوں کے
گھر اجڑ گیے ہیں۔ لاکھوں بے گناہ عرب ہلاک ہو گیے ہیں۔ عرب بچوں کا مستقبل تاریک
ہو گیا ہے۔ عراق شام لیبیا یمن سے لاکھوں خاندان امن کی تلاش میں در بدر گھوم رہے
ہیں۔ ایسے کتنے خاندان ہیں جنہوں نے صرف امن کے لئے اسلام ترک کر کے عیسائی مذہب قبول
کر لیا ہے۔ اور یورپ میں پناہ لے لی ہے۔ اور یہ شیعہ ایران سے سنی عرب حکمرانوں کو
خوفزدہ کر رہے ہیں۔ لیکن انہیں شاید معلوم نہیں ہے کہ ان کے سنی عوام سنی حکمرانوں
کے سخت خلاف ہیں۔ لیکن ان کی توجہ ایران پر ہے کہ اس خطہ میں ایران کا اثر و رسوخ
بڑھ رہا ہے۔
سعودی عرب ایران کے بارے میں صرف غلط فہیمی میں
مبتلا ہے۔ ایران کو اگر مشرق وسطی میں اپنا اثر و رسوخ بڑھانے کا شوق ہوتا تو یہ
بہت پہلے امریکہ سے ساز باز کر چکا ہوتا۔ اور شاہ کے دور میں ایران کا خلیج میں جو
مقام تھا۔ وہ اسے مل گیا ہوتا۔ نوے کی
دہائی میں محمد خاتمی جب ایران کے صدر تھے۔ کلنٹن انتظامیہ نے ایران کے ساتھ
تعلقات بحال کرنے کی بڑی کوشش کی تھی۔ سیکرٹیری آف اسٹیٹ میڈ یلین البرائٹ نے سی
آئی اے کا محمد مصدق کی منتخب جمہوری حکومت کا تختہ الٹنے پر ایرانیوں سے معافی
بھی مانگی تھی۔ اور میڈ یلین البرائٹ تہران بھی گئی تھیں۔ لیکن ایران نے
سیکرٹیری آف اسٹیٹ البرائٹ سے عرب سنی حکمرانوں کے خلاف کوئی ساز باز نہیں کی تھی۔
انہوں نے صدام حسین کو اقتدار سے ہٹا کر عراق میں شیعاؤں کی حکومت قائم کرنے کی
سازش نہیں کی تھی۔ صدام حسین نے ایران سے نو سال جنگ لڑی تھی۔ ایک لاکھ ایرانی اس
جنگ میں مارے گیے تھے۔ عرب سنی حکمرانوں نے اس جنگ میں صدام حسین کی مدد کی تھی۔
لیکن ان تمام حقائق کے باوجود ایران نے عرب سنی حکمرانوں سے انتقام لینے کی سیاست
نہیں کی تھی۔ ایرانی ملاؤں کو امریکہ کی دشمنی پسند تھی۔ لیکن عرب سنی حکومتوں سے
محاذ رائی قبول نہیں تھی۔ ایران کے خلاف انہوں نے اقتصادی بندشیں بھی برداشت کی تھیں۔
لیکن عرب سنی حکمرانوں کی سیاست کے خلاف امریکہ کے ساتھ مل کر سازش نہیں کی تھی۔
اگر ایران چاہتا تو یہ کر سکتا تھا۔ یہ ان کے مسائل کا ایک آسان حل تھا۔ امریکہ
انہیں سب کچھ دینے کے لئے تیار تھا۔ قوموں کے کردار اور حقائق سے تاریخ بنتی ہے۔
یہ GCC
ملکوں کے عرب سنی حکمران ہیں۔ جن کی تاریخ عرب سنی حکمرانوں کے خلاف سازشوں سے
بھری ہوئی ہے۔ یہ GCC
ملکوں کے سنی حکمران ہیں جنہوں نے صدام حسین کی سنی حکومت ختم کرانے میں امریکہ
اور برطانیہ کی مدد کی تھی۔ اور پھر عراق کو شیعاؤں کا عراق بنانے میں امریکہ اور
برطانیہ سے اتفاق کیا تھا۔ اور اب ایران کو سنی عربوں کے معاملات میں مداخلت کرنے
کا الزام دیتے ہیں۔ یہ عرب سنی حکمرانوں کی عرب لیگ تھی۔ جس نے لیبیا میں سنی معمر
قدافی کے خلاف قرارداد منظور کی تھی۔ اور امریکہ برطانیہ اور فرانس سے قدافی حکومت
کے خلاف کاروائی کا مطالبہ کیا تھا۔ یہ عرب سنی حکمران تھے جنہوں نے اپنے بچوں کو
جہادی بننے کے لئے افغانستان میں سی آئی اے کے تربیتی کیمپوں میں “Admit” کرایا تھا۔ اور انہیں دہشت گردی کی تعلیم دلائی تھی۔ اور جب ان سنی بچوں
نے جہادی بننے کی ڈگریاں لے لیں۔ تو عرب سنی حکمران ان کے خلاف امریکہ کی دہشت
گردی کی جنگ میں اتحادی بن گیے تھے۔ ان سنی عرب حکمرانوں نے اپنے سنی بچوں کو یہ
دنیا دی ہے۔ GCC
ملکوں کے عرب سنی حکمرانوں کو شام کے خلاف ایک نامعقول جنگ میں کیا ملا ہے؟
انسانیت جب شام کی تباہی اور بے گناہ لوگوں کی بربادی دیکھتی ہے تو اس کی آنکھوں
میں آنسو آ جاتے ہیں۔ ان عرب سنی حکمرانوں نے کھربوں ڈالر امریکہ کے ساتھ مل کر صرف
لوگوں کی زندگیاں تباہ و برباد کرنے میں
انویسٹ کیے ہیں۔
No comments:
Post a Comment