How Will We See President Obama’s Legacy Without Dr. Martin Luther King Jr's Concept Of Non-Violence?
مجیب خان
African icon Nelson Mandela and Libya's Muammar Gaddafi |
Members of The African Union |
Children killed in violence in Syria |
امریکہ
کے 44 ویں صدر اوبامہ کا دور اقتدار اب تاریخ بننے جا رہا ہے۔ امریکہ کی دو سو
چالیس سال کی تاریخ میں صدر اوبامہ پہلے بلیک
صدر تھے۔ اور اب دیکھا یہ جاۓ گا کہ صدر اوبامہ کی ایک بلیک صدر کی حیثیت
سے Legacy
امریکہ کے 43 صدروں سے کس طرح مختلف تھی؟ امریکی عوام کی ایک بھاری اکثریت نے صرف
اس لئے دو مرتبہ صدر اوبامہ کو منتخب کیا
تھا کہ وہ صدر اوبامہ کی Legacy
امریکہ کے دوسرے صدروں سے مختلف دیکھنا چاہتے
تھے۔ لیکن صدر اوبامہ کی صدارت کے آٹھ سال کے اختتام پر جو انتخابی نتائج سامنے آۓ
ہیں۔ ان سے ظاہر ہوتا ہے کہ امریکی عوام صدر اوبامہ سے سخت مایوس ہوۓ ہیں۔ اور ان
میں امریکہ کے بلیک بھی شامل ہیں۔ صدر اوبامہ نے یہ ثابت نہیں کیا ہے کہ وہ امریکہ
کے پہلے بلیک صدر تھے۔ صدر اوبامہ نے Dr. Martin Luther King کو خراج تحسین
پیش کرتے ہوۓ کہا تھا کہ" آج وہ جس مقام پر ہیں۔ ڈاکٹر مارٹن لو تھر کنگ کی
وجہ سے انہیں یہ مقام حاصل ہوا ہے۔" ہر سال 15 جنوری کو Martin Luther King Day
منایا جاتا ہے۔ انہیں خراج تحسین پیش کیا جاتا ہے۔ تقریریں ہوتی ہیں۔ ڈاکٹر مارٹن
لو تھر کنگ کے فلسفہ Non
Violence اور Civil Right
تحریک پر باتیں ہو تی ہیں۔ لیکن مایوسی اس پر ہے کہ صدر اوبامہ پہلے بلیک صدر تھے۔
لیکن صدر اوبامہ نے ڈاکٹر مارٹن لو تھر کنگ کے فلسفہ Non-violence کو ایک ایسی دنیا میں جہاں ہر طرف violence تھا، اپنی
خارجہ پالیسی کی Doctrine
نہیں بنایا تھا۔ صدر اوبامہ عرب دنیا کے سیاسی اسٹیج پر ڈاکٹر مارٹن لو تھر کنگ کی
civil right
تحریک کو متتعارف کرا سکتے تھے۔ اور پھر اس تحریک کے ذریعہ متعلق العنان حکومتوں
سے ان کے عوام کے civil right تسلیم کرانے کے لئے دباؤ بڑھاتے۔
Dr. King believed that “the age-old tradition of hating one’s opponents was not only immoral, but bad strategy which perpetuated the cycles of revenge and retaliation only non-violence, had the power to break the cycle of retributive violence
and create lasting peace through reconciliation.”
Dr. King said, “International disputes will be
resolved by peaceful conflict resolution and reconciliation of adversaries, instead of military power. Love and trust will triumph over fear and hatred. Peace with justice will prevail over war and military conflict.”
On Another occasion, Dr. King said, “Triple evils of Poverty, Racism and Militarism are forms of violence that exist in a vicious cycle, they are interrelated.”
ڈاکٹر مارٹن لو تھر کنگ کے یہ ارشادات صدر اوبامہ کی خارجہ پالیسی کی Doctrine ہونا چاہیے تھے۔ اور مشرق وسطی میں violence کو ہر صورت میں discourage کیا جاتا۔ عرب دنیا میں civil right تحریکوں میں Non-violence کی ترغیب دی جاتی۔ شام میں civil right تحریک اگر non-violence ہوتی تو اسے کامیاب بنانے میں کبھی چھ سال نہیں لگتے۔ بلکہ انتہائی مختصر عرصہ میں سب ضرور کامیاب ہو کر اس تحریک سے نکل آتے۔ لیکن civil right تحریک کو خونی بنانے سے کسی کو کچھ نہیں ملا ہے۔ امریکہ کی جنگوں میں ناکامیوں میں یہ ایک نیا اضافہ ہوا ہے۔ اوبامہ انتظامیہ 7 سال سے terrorists کے خلاف جنگ لڑ رہی تھی۔ لیکن شام میں 6 سال سے حکومت کے خلاف انتہائی violent elements کی پشت پنا ہی کر رہی تھی۔ انہیں violence کے لئے جتنے بھی ہتھیا ر ہو سکتے تھے وہ سب دے دئیے تھے۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ حکومت کے خلاف تحریک انسانوں کے خون میں ڈوب گئی تھی۔ ڈاکٹر کنگ بہت دور اندیش اور ذہن تھے۔ اس لئے انہوں نے civil right تحریک کو non violence رکھا تھا۔
امریکہ
کا یہ کردار دنیا کی سمجھ میں نہیں آ رہا ہے کہ اسرائیل میں شہریوں کے خلاف
فلسطینیوں کے violence کی
امریکہ نے ہمیشہ مخالفت کی تھی۔ لیکن شام میں شہریوں کے خلاف violence کی
امریکہ نے کیسے حمایت کی تھی؟ اس violence کے ذریعہ پانچ سال میں شام کو
کھنڈرات بنا دیا ہے۔ لیکن violent
elements کی حمایت ترک نہیں کی تھی۔ صدر
اوبامہ نے بش انتظامیہ کی اس پالیسی پر شدید تنقید کی تھی کہ اسے افغان جنگ پر
توجہ دینا چاہیے تھی۔ اور اسے عراق کے
خلاف جنگ کا نیا محاذ کبھی نہیں کھولنا چاہیے تھا۔ صدر اوبامہ کو بھی افغانستان
اور عراق اور کو استحکام دینے پر توجہ دینا چاہیے تھا۔ لیکن صدر اوبامہ نے کیا سوچ
کر شام اور لیبیا کو عدم استحکام کرنے کی پالیسی اختیار کی تھی۔ بلاشبہ صدر اوبامہ
اچھے ارادوں کے ساتھ امریکہ کے صدر منتخب ہوۓ تھے۔ لیکن پھر صدر اوبامہ شاید یہ
بھول گیے تھے کہ وہ امریکہ کے پہلے بلیک صدر ہیں۔ اور ان کی Legacy امریکہ کے 43
صدروں سے مختلف ہونا چاہیے تھی۔ اور اس مقصد میں صدر اوبامہ کو ڈاکٹر مارٹن لو تھر
کنگ کے ارشادات سے رہنمائی لینا چاہیے تھی۔
اسرائیل
دراصل یورپی Race کے
یہودیوں کی ریاست ہے۔ اور اس لئے امریکہ اور یورپ اسرائیل کی سلامتی اور دفاع کی
100 فیصد ضمانت دیتے ہیں۔ اسرائیلی حکومت پچاس سال سے جس طرح فلسطینیوں کو ان کے
گھروں سے بید خل کر رہی ہے اور اس کی جگہ یورپ سے آنے والے یہودیوں کے لئے نئی
بستیاں تعمیر کر رہی ہے۔ اگر صدر پو تن یوکرین میں مقامی لوگوں کو ان کے گھروں سے
بید خل کر کے وہاں روسیوں کو آباد کرنے کے لئے نئی بستیاں تعمیر کرنا شروع کر دیں
تو امریکہ اور یورپ میں جیسے قیامت آ جاۓ گی۔ صدر پو تن کی گردن میں ہر طرح کی
بندشوں کے پھند ے پڑ جائیں گے۔ اسرائیل میں یورپ سے آنے والے یہودیوں کا خیر مقدم
کیا جاتا ہے۔ فرانس میں دہشت گردی کے واقعات کے بعد جس میں یہودیوں کی عبادت گاہوں
پر حملہ بھی تھے۔ اسرائیلی وزیر اعظم نتھن یا ہو نے فرانس کے یہودیوں سے اسرائیل
میں آباد ہونے کی اپیل کی تھی۔ لیکن اسرائیل کے کسی وزیر اعظم نے ایسی اپیل افریقہ
میں آباد بلیک یہودیوں سے کبھی نہیں کی تھی۔ جہاں خوفناک خانہ جنگیاں ہو رہی تھیں۔
بعض مقامات پر قحط پڑ رہا تھا۔ افریقہ میں بلیک یہودی انتہائی غریب تھے۔ ایتھوپیا
اور بعض دوسرے افریقی ملکوں سے جو بلیک یہودی اسرائیل آ گیے تھے۔ پہلے انہیں
اسرائیل سے نکالنے کا کہا جا رہا تھا۔ یا پھر انہیں دوسرے درجہ کا شہری سمجھا جاتا
ہے۔ اسرائیل کی سیاسی جماعتوں میں افریقی یہودی نہیں ہیں۔ پارلیمنٹ میں، حکومت کے
اہم اداروں میں بھی افریقی یہودی نظر نہیں آتے ہیں۔ فلسطینیوں کے خلاف جو اسرائیلی
فوجی کاروائیاں کرتے ہیں وہ بھی یورپی Race کے نظر آ تے ہیں۔ اسرائیلی فوج
میں شاید افریقی یہودیوں کو بھرتی نہیں کیا جاتا ہے۔ صدر اوبامہ نے اسرائیل کے
دورے کیے ہیں۔ لیکن صدر اوبامہ افریقی یہودیوں سے کبھی نہیں ملے تھے۔ یہودی ایران
میں بھی رہتے ہیں۔ اور یہ ایرانی یہودی ہیں۔ یہودی جنوبی افریقہ میں بھی رہتے ہیں
اور جنوبی افریقہ کے شہری ہیں۔ اسرائیل کے مقابلے میں جنوبی افریقہ زیادہ بڑا
جمہوری ملک ہے۔ جہاں عیسائی، مسلمان اور یہودی ایک ساتھ رہتے ہیں۔ اور یہ حکومت
میں بھی ہیں۔ سیاسی جماعتوں میں بھی ہیں۔ پارلیمنٹ میں بھی ہیں۔ پھر یہودی مراکش
میں بھی ہیں۔ تیونس میں بھی یہودی ہیں۔ اور دوسرے افریقی ملکوں میں بھی یہودی آباد
ہیں۔ لیکن امریکہ اور یورپ میں صرف اسرائیل میں جو یہودی آباد ہیں اور جو ان کی
نسل ہیں صرف ان کی فلاح اور بہبود کا خیال رکھا جاتا ہے۔
لیبیا
کے صدر معمر قدافی سے امریکہ اور یورپ کے لیڈروں کی نفرت اور حقارت سمجھ میں نہیں
آ ئی تھی۔ انہیں ایک ایسے لیڈر سے نفرت تھی۔ جو افریقہ کے عیسائی ملکوں اور ان کے
عوام کی ترقی خوشحالی تعلیم پر اپنے ملک کا پیٹرو ڈالر خرچ کرتا تھا۔ امریکہ اور
یورپ کو ان اسلامسٹ سے بھی نفرت ہے جو بے گناہ لوگوں کے گلے کاٹ رہے ہیں۔ آخر یہ
دنیا کے لوگوں کی زندگیاں miserable
کیوں بنا رہے ہیں۔ جنوبی افریقہ کے صدرThabo Mbeki عراق میں مہلک ہتھیاروں کے بارے
میں اپنی حکومت کی انٹیلی جنس رپورٹ لے کر صدر بش کے پاس آۓ تھے۔ اور انہیں بتایا
تھا کہ عراق میں مہلک ہتھیار نہیں تھے۔ صدام حسین نے انہیں بہت پہلے تباہ کر دیا
تھا۔ جنوبی افریقہ کی انٹیلی جنس زیادہ credible تھی۔ لیکن کیونکہ وہ ایک افریقی ملک کے رہنما
تھے۔ بش انتظامیہ نے ان کی انٹیلی جنس رپورٹ کو کوئی اہمیت نہیں دی تھی۔ لیبیا میں
صدر معمر قدافی کو اقتدار سے ہٹانے کے بارے میں صدر اوبامہ نے فرانس اور برطانیہ
کے رہنماؤں سے صلاح و مشورے کیے تھے۔ نیٹو کے یورپی ملکوں نے اس کی منصوبہ بندی کی
تھی۔ لیکن صدر اوبامہ نے افریقی ملکوں کے رہنماؤں سے صدر قدافی کو اقتدار سے ہٹانے
کے بارے میں کوئی راۓ نہیں لی تھی۔ ان سے پوچھا تک نہیں تھا۔ انہیں کوئی اہمیت
نہیں دی تھی۔ حالانکہ افریقی ملکوں کی بھی ایک تنظیم تھی۔ لیبیا بھی اس کا ایک
سرگرم رکن تھا۔ صدر معمر قدافی ایک مسلم رہنما افریقہ کے غریب عیسائی ملکوں میں
کھربوں ڈالر انویسٹ کر رہے تھے۔ افریقی ملکوں میں انفراسیٹکچر تعمیر کرنے میں صدر
قدافی مدد کر رہے تھے۔ ہر سال تین چار افریقی نوجوانوں کو بیرون ملک اعلی تعلیم کے
تمام اخراجات لیبیا کی حکومت دیتی تھی۔ لیبیا کے ہمساۓ میں چڈ، مالی اور دوسرے
افریقی ملکوں کے ہزاروں غریب خاندانوں کو لیبیا کی آئل ریفائنری پال رہی تھی۔ ان
ملکوں سے لوگ ان ریفائنری میں کام کرنے آتے تھے۔ امریکہ نے ایک شخص کو اقتدار سے
ہٹا کر ہزاروں خاندانوں کو فاقہ کشی کی طرف دھکیل دیا تھا۔ صدر اوبامہ کو قدافی کے
ماضی کو فراموش کر کے افریقہ کی ترقی میں
قدافی کی حمایت کرنا چاہیے تھی۔ ان سے تعاون کرتے اور لیبیا کا پیٹرو ڈالر افریقہ
میں انویسٹ کرنے میں مدد کرتے۔ لیکن پھر Goldman Sachs کا کیا ہوتا؟
جو لیبیا کے 60 بلین ڈالر ہضم کر چکی ہے۔ اور لیبیا کی نئی حکومت سے کہا ہے کہ
خسارہ ہو گیا تھا۔
No comments:
Post a Comment