Wednesday, December 28, 2016

Israel’s Tantrum On The U.N Security Council’s Resolution

Israel’s Tantrum On The U.N. Security Council’s Resolution    

مجیب خان
U.S. abstains from voting on the U.N.'s Israel Resolution 
Security Council Resolution 2334 U.S. Ambassador to the U.N. Samantha Power, abstaining  

Israel's Prime Minister Benjamin Netanyahu

     مقبوضہ فلسطینی سر زمین پر نئی یہودی بستیاں آباد کرنے کی اسرائیلی پالیسی کے خلاف سلامتی کونسل کے 14 اراکین نے متفقہ طور پر قرار داد منظور کی ہے۔ امریکہ نے ووٹنگ میں حصہ نہیں لیا تھا۔ اور اسرائیل کے خلاف اس قرار داد کو ویٹو بھی نہیں کیا تھا۔ سلامتی کونسل کے جن 14 اراکین نے اس قرار داد کی حمایت میں ووٹ دئیے ہیں ان میں روس چین برطانیہ اور فرانس کونسل کے مستقل رکن تھے۔ جبکہ مصر ملیشیا نیوزی لینڈ  سینیگال ونزویلا جاپان یوکرین انگولا  اور اسپین کونسل کے غیر مستقل رکن تھے۔ سلامتی کونسل میں اسرائیل کے خلاف قرارداد منظور ہونے پر اسرائیل کا رد عمل کچھ ایسا تھا کہ جیسے اس مرتبہ فلسطینیوں نے اسرائیل کے خلاف دہشت گردی نہیں کی تھی بلکہ سلامتی کونسل کے 14 اراکین نے اسرائیل کے خلاف یہ دہشت گردی کی تھی۔ اور اوبامہ انتظامیہ کو اس کا علم تھا۔ لیکن اس نے اسے روکنے کے لئے کچھ نہیں کیا تھا۔ اسرائیلی وزیر اعظم نتھن یا ہو اس پر خاصے برہم ہیں اور تلملا رہے ہیں لیکن امریکہ کے خلاف کچھ کر نہیں سکتے ہیں۔ حالانکہ وزیر اعظم نتھن یا ہو حکومت کو یہ معلوم تھا کہ عالمی برادری ان کی حکومت کی مقبوضہ علاقوں میں نئی یہودی بستیاں آباد کرنے کی پالیسی کے سخت خلاف تھی اور انہیں اس سے متنبہ کیا جا رہا تھا۔ لیکن وزیر اعظم نتھن یا ہو حکومت اسے نظر انداز کرتی رہی۔ اور نئی یہودی بستیاں آباد کرنے کی پالیسی پر عملدرامد جاری رکھا تھا۔ عالمی برادری یہ  بھی  خصوصی طور پر نوٹ کر رہی تھی کہ کئی برسوں سے اسرائیل نے فلسطینیوں کے ساتھ امن مذاکرات میں بھی کوئی پہل نہیں کی تھی۔ امریکہ کے صدارتی انتخاب میں ڈونالڈ ٹرمپ کی کامیابی کے بعد نتھن یا ہو حکومت کے بعض اعلی حکام نے یہ کہنا شروع کر دیا کہ ڈونالڈ ٹرمپ کے صدر منتخب ہونے کے بعد ایک آزاد فلسطینی ریاست کا تصور اب ختم ہو گیا ہے۔ اور اس پر اب کوئی مذاکرات نہیں ہوں گے۔
    فلسطینیوں سے مذاکرات کرنے کے بجاۓ نتھن یا ہو حکومت پانچ چھ سال سے خلیج کی ریاستوں کے حکمرانوں کے ساتھ تعلقات استوار کرنے کے لئے غیر اعلانیہ مذاکرات کر رہی تھی۔ اور مذاکرات کا ایجنڈہ صرف اس ایک نقطہ پر تھا کہ ایران خلیج کے حکمرانوں اور اسرائیل کا مشترکہ دشمن ہے۔ اور مشرق وسطی میں ایران کے اثر و رسوخ کو روکنے لئے تعاون انتہائی ضروری ہے۔ خلیجی حکمران عرب دنیا میں برپا ہونے والی تبدیلیوں میں جب ایران کو دیکھتے  ہیں تو زیادہ گھبرا جاتے ہیں۔ اور Confuse بھی ہو جاتے ہیں۔ لہذا ایسی صورت میں اسرائیل کے لئے خلیجی حکمرانوں سے ہم آہنگی آسان ہو گئی تھی۔ نتھن یا ہو حکومت اقوام متحدہ میں اب اسرائیل کے لئے ایک سرگرم رول اور سلامتی کونسل میں غیر مستقل نشست  کی رکنیت حاصل کرنے کے لئے زیادہ سے زیادہ ملکوں کی حمایت پر کام کر رہی تھی۔ اس مقصد اور دوسرے اسٹریٹجک مفاد میں وزیر اعظم نتھن یا ہو نے اس سال موسم گرما میں افریقی ملکوں کا دورہ کیا تھا۔ اور اس دورے میں وزیر اعظم نتھن یا ہو نے افریقی ملکوں کے ساتھ قریبی اقتصادی تجارتی اور سیاسی تعلقات فروغ دینے کی اہمیت پر زور دیا تھا۔ افریقہ میں پانی کی قلت دور کرنے اور زراعت کو فروغ دینے میں نئی اسرائیلی ٹیکنالوجی دینے کی پیشکش کی تھی۔ وزیر اعظم نتھن یا ہو نے افریقی ملکوں کی یونین میں شامل ہونے کی خواہش بھی ظاہر کی تھی۔ افریقی یونین میں صدر کرنل قدافی کی خالی نشست پر شاید وزیر اعظم نتھن یا ہو کی نظر ہے۔ شام کی صورت حال پر وزیر اعظم نتھن یا ہو صدر پو تن سے ملاقات کرنے تقریباً 6 مرتبہ ماسکو گیے تھے۔ عراق میں صدام حسین کے خلاف فوجی حملہ کے سلسلے میں اسرائیلی رہنما وائٹ ہاؤس صدر بش سے ملنے آتے تھے۔ جبکہ عالمی برادری وزیر اعظم نتھن یا ہو سے مسلسل یہ مطالبہ کر رہی تھی کہ وہ فلسطینیوں کے ساتھ مذاکرات کریں۔ لیکن وزیر اعظم نتھن یا ہو فلسطینیوں کے ساتھ تنازعہ کو کوئی اہمیت نہیں دیتے تھے۔ اسرائیلی حکومت کے خیال میں ہر طرف دنیا میں ممالک مسائل کے جال میں پھنسے ہوۓ ہیں۔ یورپ میں دہشت گردی اور مہاجرین کا سیلاب ایک بڑا سیاسی مسئلہ بنا ہوا ہے۔ عرب دنیا دہشت گردی کی جنگ اور اندرونی خانہ جنگی میں دھنسی ہوئی ہے۔ امریکہ مسلسل اور طویل جنگوں میں کامیابی نہ ہونے سے تھک چکا ہے۔ لہذا اسرائیلی حکومت اپنے منصوبہ اور سیاسی نقشہ بنا رہی ہے۔
    اسرائیل کے خلاف سلامتی کونسل کی قرارداد منظور ہونے پر وزیر اعظم نتھن یا ہو نے اوبامہ انتظامیہ کے خلاف جو سخت موقف اختیار کیا ہے۔ ایسا نظر آتا ہے کہ اسرائیل اب امریکہ سے Divorce چاہتا ہے۔ نتھن یا ہو حکومت پہلے ہی ایران کے ساتھ نیو کلیر کے  مسئلہ پر اسرائیل کی بھر پور مخالفت کے باوجود سمجھوتہ پر اوبامہ انتظامیہ سے خوش نہیں تھی۔ اور اسرائیل کے تحفظات کو امریکہ نے بالکل درگزر کر دیا تھا۔ اور اب سلامتی کونسل میں اسرائیل کے خلاف قرارداد کو ویٹو نہ کر کے  امریکہ نے اسرائیل کو جیسے Divorce کے چورا ہے  پر چھوڑ دیا ہے۔ اسرائیل کے امریکہ کے ساتھ قریبی تعلقات اب سمجھ میں آ رہے ہیں۔ اسرائیل کی سیاسی اور سفارتی قانون شکنیوں کے خلاف عالمی اداروں میں مذمت اور اقدامات کے لئے قراردادوں کو ویٹو کرنا امریکہ کی ذمہ داری بن گئی تھی۔ اور اس طرح عالمی برادری کے ایکشن سے امریکہ اسرائیل کو بچا یا کرتا تھا۔ اسرائیل اقتصادی تجارتی اور اپنا فوجی دفاع کرنے میں Sovereign  ہے جبکہ عالمی اداروں میں اسرائیل کے سیاسی اور سفارتی فیصلوں کا دفاع کرنے کی Sovereignty امریکہ کی ہے۔ اس حد تک اسرائیل کے امریکہ کے ساتھ تعلقات بہت قریبی تھے۔
    اسرائیل اب مغربی ایشیا کی ایک بڑی فوجی طاقت بن گیا ہے۔ اسرائیل میں بھی امریکہ کے مقابلے پر ایک Military Industrial Complex آ گیا ہے۔ اسرائیل اب دنیا میں اسلحہ فروخت کر رہا ہے۔ مغربی ایشیا کے کسی ملک میں ایسی ور لڈ کلاس کمپنیاں نہیں ہیں کہ جیسی اسرائیل میں ہیں۔ اسرائیل جدید ٹیکنالوجی کی صنعت میں بھی بہت آگے ہے۔ اسرائیل انتہائی حساس ٹیکنالوجی دنیا کے بعض اہم ملکوں کو فروخت کر رہا ہے۔ وزیر اعظم نتھن یا ہو نے اپنے حالیہ وسط ایشیا کے دورے میں آذربائجان کے ساتھ آئل اور گیس میں مشترکہ منصوبوں کے سمجھوتہ کیے ہیں۔ اسرائیلی حکومت کی یہ سرگرمیاں ایک خود مختار ملک کی ہیں۔ لیکن جب عرب مقبوضہ علاقوں میں اسرائیلی جارحیت اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا سوال ہوتا ہے۔ تو اس عالمی دباؤ کا سامنا کرنے کے لئے اسرائیل پھر امریکہ کو آ گے کر دیتا ہے۔ اسرائیل اپنی سلامتی کا دفاع  کر نے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ لیکن اس میں اپنے غیرقانونی سیاسی ایکشن کا سفارتی دفاع کرنے کی اہلیت نہیں ہے۔ اور اسرائیل کے لئے یہ سفارتی دفاع امریکہ کرتا ہے۔
    1979 میں مصر نے اسرائیل کو تسلیم کیا تھا۔ اور اس کے ساتھ امن سمجھوتہ کیا تھا۔ دونوں ملکوں میں سفارتی تعلقات قائم ہو اورگۓ تھے۔ اور ان سفارتی تعلقات کو قائم رکھنے کے لئے امریکہ مصر کو 1.5 بلین ڈالر سالانہ امداد دیتا ہے۔ پھر 90 کی دہائی میں اردن نے بھی اسرائیل کو تسلیم کر لیا تھا۔ اور اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کر لئے تھے۔ اسرائیل کو تسلیم کرنے پر امریکہ اردن کو 1 بلین ڈالر سالانہ امداد دیتا ہے۔ 90 کی دہائی میں PLO نے چیرمین یا سر عرفات کی قیادت میں اسرائیل کو تسلیم کر لیا تھا۔ اور اسرائیل کے ساتھ تاریخی اوسلو امن معاہدہ کیا تھا۔ جس کے بعد مغربی کنارے میں فلسطینیوں کی محدود حکومت قائم ہونے کے بعد امریکہ فلسطینی اتھارٹی کو 5 بلین ڈالر سالانہ مالی امداد دیتا ہے۔ اوبامہ انتظامیہ نے گزشتہ سال اس میں 80 ملین ڈالر کی کمی کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔ ان ملکوں کو یہ مالی امداد امریکہ صرف اسرائیل کے لئے دے رہا ہے۔ نو منتخب صدر ڈونالڈ ٹرمپ نیٹو ملکوں سے سیکورٹی کے سلسلے میں اپنا حصہ ادا کرنے کا اصرار کر رہے ہیں۔ اسرائیل نئی یہودی بستیوں کی تعمیر پر کھربوں ڈالر خرچ کر رہا ہے۔ ڈونالڈ ٹرمپ کو اسرائیل کی سلامتی کے مفاد میں مصر اور اردن کے ساتھ امن معاہدوں کے نتیجہ میں ان ملکوں کو امریکہ کی مالی امداد میں اسے کچھ حصہ ادا کرنے کا کہنا چاہیے۔ اسرائیل کی ہتھیاروں اور ٹیکنالوجی کی تجارت میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ اور اسرائیل یہ ادا کر سکتا ہے۔
    اسرائیلیوں اور فلسطینیوں میں براہ راست مذاکرات ناممکن ہیں۔ اور اگر یہ مذاکرات شروع ہوں گے تو کبھی کسی نتیجہ پر نہیں پہنچ سکے گے۔ دونوں پارٹیوں میں گزشتہ 26 برس کے مذاکرات کے نتائج دنیا کے سامنے ہیں۔ 1948 میں اگر یہودیوں سے فلسطینیوں کے ساتھ اپنی ایک آزاد ریاست کے قیام کے لئے براہ ریاست مذاکرات کرنے کا کہا جاتا تو یہ مذاکرات شاید ابھی تک ہو رہے ہوتے۔ جتنے بلند ٹرمپ ٹاور ہیں اسرائیلیوں کے پاس Excuses کی اتنی ہی لمبی فہرست ہے۔ اوسلو معاہدہ 1993 میں ہوا تھا۔ PLO نے اسرائیل کے وجود کو تسلیم کر لیا تھا۔ چیرمین عرفات نے یہودیوں کو اپنا کزن کہا تھا۔ لیکن اسرائیلی نظریاتی انتہا پسندوں نے کیا اس کا مثبت جواب دیا تھا۔ انہوں نے اپنے وزیر اعظم کو فلسطینیوں کے ساتھ امن معاہدہ کرنے کے جرم میں قتل کر دیا تھا۔ وزیر اعظم Yitzhak Rabin کو حماس نے قتل نہیں کیا تھا۔ حزب اللہ نے قتل نہیں کیا تھا۔ Yitzhak Rabin کو یہودی سلا فسٹ نے قتل کیا تھا۔ اور یہ امن کا قتل تھا۔ اس کے بعد کسی اسرائیلی حکومت نے Yitzhak Rabin کی فلسطینیوں کے ساتھ امن کی Legacy کو مثال نہیں بنایا ہے۔ بلکہ جس نے وزیر اعظم Rabin کو قتل کیا تھا۔ اس کی امن کا قتل کرنے کی Legacy اسرائیلی حکومت کی پالیسی بن گئی ہے۔ اسرائیلی مذہبی نظریاتیوں سے فلسطینیوں کو امن دینے کی توقع نہیں کی جا سکتی ہے۔                   

No comments:

Post a Comment