Pakistan Is A Fantastic Country, A Fantastic Place of Fantastic
People
We Hope These Views About Pakistan Will Be
Part of The Trump Administration’s South Asia Policy
مجیب خان
وزیر
اعظم نواز شریف نے نو منتخب صدر ڈونالڈ ٹرمپ کو فون کیا اور انہیں امریکہ کا صدر
منتخب ہونے کی مبارک باد دی ہے۔ نو منتخب صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے انتہائی خوشگوار
لفظوں میں وزیر اعظم نواز شریف کی تعریف میں کہا کہ آپ کی شہرت بہت اچھی ہے۔ آپ
ایک کمال کی شخصیت ہیں۔ آپ حیرت انگیز کام کر رہے ہیں۔ جو ہر شعبہ میں نظر آ رہے
ہیں۔ نو منتخب صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے کہا کہ میں آپ کے تصفیہ طلب مسائل کے حل میں آپ
کی مدد کرنے کے لئے تیار ہوں۔ وزیر اعظم نواز شریف کے آفس نے اس گفتگو کی
ٹرانسکرپٹ جاری کی ہے۔ لیکن نو منتخب صدر کی اتنی خوبصورت گفتگو کے جواب میں وزیر
اعظم نے کیا کہا تھا۔ یہ اس ٹرانسکرپٹ میں
نہیں تھا۔ ڈونالڈ ٹرمپ کے ترجمان نے
ٹرانسکرپٹ پر کوئی تبصرہ کیا ہے اور نہ ہی اس کی تردید کی ہے۔ لہذا اسے
درست سمجھا جا رہا ہے۔ امریکی میڈیا میں اس ٹرانسکرپٹ کا خاصا چرچا ہو رہا ہے۔
تقریباً ہر نیوز چینلز پر ماہرین اس پر تبصرے کر رہے ہیں۔ بعض جن کا جھکاؤ بھارت
کی جانب ہے انہیں پریشانی ہو رہی ہے کہ ٹرمپ ایڈمنسٹریشن جنوبی ایشیا کے بارے میں
کیا نئی پالیسی اختیار کرے گی۔ نو منتخب صدر ڈونالڈ ٹرمپ CPEC میں کیا امریکی
کمپنیوں کے لئے بھی مفاد دیکھ رہے ہیں؟ ڈونالڈ ٹرمپ سیاستدان نہیں ہیں کارپوریٹ دنیا
سے ان کا تعلق ہے۔ اور بزنس جانتے ہیں۔ اس لئے امریکہ میں پیشہ ور اور جوڑ توڑ کے
سیاسی پنڈتوں کو یہ بڑی حیرت ہوئی ہے کہ ڈونالڈ ٹرمپ نے نواز شریف سے دہشت گردی کے
خلاف جنگ میں Do moreکی کوئی بات نہیں کی تھی۔ دہشت گردی کی جنگ کا ذکر تک نہیں
کیا تھا۔ وزیر اعظم نواز شریف سے بزنس اسٹائل میں بات کی تھی۔
18 ماہ سے صدارتی انتخابی مہم کے دوران جو ڈونالڈ ٹرمپ کو بہت قریب سے واچ
کر رہے تھے۔ ان کے خیال میں ڈونالڈ ٹرمپ نے پہلے ری پبلیکن پارٹی کی پرائم ریز میں
اپنے 16 حریفوں کے خلاف بہت Aggressive مہم
چلائی تھی۔ اور اپنی پارٹی کے حریف امیدواروں کو ری پبلیکن پارٹی کے اسٹبلیشمنٹ کے
حامی قرار دے کر ان پر حملے کیے تھے۔ اور پھر ڈیموکریٹک پارٹی کی صدارتی امیدوار
ہلری کلنٹن کے خلاف بھی ڈونالڈ ٹرمپ نے ایسا ہی Aggressive
رویہ اختیار کیا تھا۔ اور ہر جگہ انتخابی ریلی میں Crooked ہلری، Liar ہلری کہنا شروع کر دیا تھا۔ لوگوں میں یہ غلط تاثر پیدا کیا تھا کہ ہلری
کلنٹن جب سیکرٹیری آف اسٹیٹ تھیں۔ انہوں نے اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کو سیل کرنا شروع کر دیا
تھا۔ خلیج کے عرب حکمرانوں نے کلنٹن فاؤنڈیشن کو لاکھوں ڈالر عطیہ دئیے تھے۔ اور
اس کے نتیجے میں سیکرٹیری آف اسٹیٹ سے Favors لیتے تھے۔ لیکن
یہ صرف الزامات تھے اور اس کے انہوں نے کبھی ثبوت نہیں دئیے تھے۔ ہلری کلنٹن کے
خلاف یہ مہم ڈونالڈ ٹرمپ نے اس طرح چلائی تھی کہ لوگوں کے ذہنوں میں یہ الزامات حقیقت
بن کر بیٹھ گیے تھے۔ مجھے اکثر لوگ جب کلنٹن فاؤنڈیشن کے لئے عربوں سے لاکھوں ڈالر
وصول کرنے کا کہتے تھے۔ میں نے انہیں بتایا کہ امیر کویت نے صدر جارج ایچ بش کو
100 ملین ڈالر کویت کو آزاد کرانے کا تحفہ ان کی لائبریری کی تعمیر میں دیا تھا۔
اس کے علاوہ سعودی عرب اور خلیج کے دوسرے حکمرانوں نے بھی لاکھوں ڈالر تحفہ میں
دئیے تھے۔ پھر سابق سیکرٹیری آف اسٹیٹ جم بیکر کو ان کے بیکر انسٹی ٹیوٹ کی تعمیر
میں بھی لاکھوں ڈالر دئیے تھے۔ یہ ان عطیوں اور تحفوں کا سبب تھا کہ نائن الیون
حملے کے بعد صدر بش نے امریکہ کے تمام ایرپورٹ بند کرنے کا حکم دیا تھا۔ لیکن صرف
سعودی طیاروں کو امریکہ سے اپنے شہریوں کو لے جانے کی اجازت دے دی تھی۔ اگر یہ
کلنٹن انتظامیہ میں ہوتا تو ری پبلیکن پارٹی اسے ایک بہت بڑا سکینڈل بنا دیتی۔ پھر
لوگ جب ہلری کلنٹن Liar
کہتے تھے تو اس پرمیں ان سے کہتا تھا کہ مجھے دنیا میں ایک بھی ایسے لیڈر کا نام
بتاؤ جس نے کبھی جھوٹ نہیں بولا تھا۔؟ صدر بش اور وزیر اعظم ٹونی بلیر نے عراق میں
مہلک ہتھیاروں کے بارے میں جھوٹ بولا تھا۔ یہ امریکی مجھ سے اتفاق کرتے تھے۔
لیکن
پھر صدارتی الیکشن جیتنے کے بعد اسی رات کو ڈونالڈ ٹرمپ نے اپنے حامیوں سے خطاب
میں شاندار لفظوں میں ہلری کلنٹن کی تعریف کی تھی کہ ہلری کلنٹن بہت محنتی ہیں۔
امریکہ کے لئے ان کی بہت خدمات ہیں۔ اور ہمیں ان کا احترام کرنا چاہیے۔ بل کلنٹن
اور ہلری کلنٹن بہت ذہن اور قابل ہیں۔ اور یہ ڈونالڈ ٹرمپ کی شخصیت کے دو رخ ہیں۔
جنہیں دنیا سمجھنے کی کوشش کر رہی ہے۔ برطانیہ کی وزیر اعظم نے جب ڈونالڈ ٹرمپ کو
فون کیا اور انہیں صدر منتخب ہونے کی مبارک باد دی تھی۔ نو منتخب صدر ڈونالڈ ٹرمپ
نے ان سے کہا کہ تمہارا جب کبھی میرے ہمساۓ میں آنا ہو تو مجھے فون کرنا پھر مل
لیں گے۔ یورپی حکومتوں کی ڈونالڈ ٹرمپ کے بارے میں ابھی کوئی واضح راۓ نہیں ہے۔ صدارتی
انتخابی مہم کے دوران دنیا نے ان کا Aggressive Behavior دیکھا ہے۔ اس لئے یورپی حکومتیں ابتدا میں ذرا محتاط ہوں گی۔
انتخابی مہم کے دوران ڈونالڈ ٹرمپ کا ہلری کلنٹن کے خلاف ایک الزام یہ بھی
تھا کہ وہ وال اسٹریٹ کے مفادات کے لئے کام کرتی تھیں۔ لیکن اب ڈونالڈ ٹرمپ نے
اپنی کابینہ میں وال اسٹریٹ کے کھرب پتیوں کو نامزد کیا ہے۔ جس میں Goldman Sachs دنیا کی سب سے بڑی ملٹی نیشنل کمپنی کے سابق اعلی حکام کو سیکرٹیری خزانہ،
سیکرٹیری کامرس، اور ڈپٹی سیکرٹیری خزانہ کے عہدوں پر نامزد کیا ہے۔ ان کے علاوہ
تین یا چار سابق جنرلوں کو بھی ٹرمپ کابینہ میں اہم عہدے دئیے جا رہے ہیں۔
سیکرٹیری دفاع کے لئے رٹائرڈ جنرل جیمس Mattis عرف Mad Dog کو نامزد کیا ہے۔ جو عراق میں فلوجہ آپریشن کے کمانڈر تھے۔ اور تین سال
قبل رٹائرڈ ہوۓ ہیں۔ امریکہ کے قانون کے
مطابق رٹائرڈ فوجی افسر سات سال تک حکومت کے اہم عہدوں پر نامزد نہیں ہو سکتے ہیں۔
لیکن کانگرس سے ان کے لئے خصوصی طور پر اس قانون میں تبدیلی کے لئے کہا جاۓ گا۔
ایسا نظر آتا ہے کہ ڈونالڈ ٹرمپ کے لئے سیکرٹیری آف اسٹیٹ کے عہدے کے لئے انتخاب
مشکل ہو گیا ہے۔ شاید وہ کسی ایسی شخصیت کو ڈھونڈ رہے ہیں جو اسٹبلیشمنٹ کی نہیں،
ان کی خارجہ پالیسی کو فروغ دے۔
لیکن
اہم سوال اب یہ ہے کہ ڈونالڈ ٹرمپ کی صدارت کا مستقبل کیا ہو گا؟ ایک طرف دنیا کے
25 ملکوں میں ان کے بزنس مفادات ہیں۔ جبکہ دوسری طرف ان کے خلاف امریکہ میں 50 کے
قریب مقدمات ہیں۔ صدر کا عہدہ سنبھالنے سے پہلے ڈونا لڈ ٹرمپ کی کوشش ہے کہ ان کا
تصفیہ کر لیا جاۓ۔ ڈونالڈ ٹرمپ یونیورسٹی سکینڈل کیس عدالت میں تھا۔ اس کیس میں ڈونالڈ
ٹرمپ نے Settlement کر لیا ہے۔ اور 25 ملین ڈالر دینے پر رضا مند ہو
گیے ہیں۔ نیویارک میں ڈونالڈ ٹرمپ کے خلاف ایک Charity کیس میں تحقیقات
کے بعد یہ ثابت ہوا ہے کہ انہوں نے نیویارک میں دہشت گردوں کے حملے کے بعد Twin Towers Fund میں جس فراغ دلی سے خیرات دینے کے دعوی کیے تھے۔
وہ غلط تھے۔ اور انہوں نے دس ہزار ڈالر اس فنڈ میں نہیں دئیے تھے۔ ڈونالڈ ٹرمپ نے
انٹرنل ریونیو سروس کو اپنے ٹیکس پیپرز میں بھی Charity
دینے کا بتایا تھا۔ لیکن اب ڈونالڈ ٹرمپ نے یہ اعتراف کر لیا ہے کہ انہوں
نے انٹرنل ریونیو سروس سے غلط بیانی کی تھی۔ اور اب اس کیس کا فیصلہ بھی ہونا ہے۔
ڈونالڈ ٹرمپ کے ذاتی بزنس مسائل امریکہ کے مسائل سے کم نہیں ہوں گے۔ اور انہیں بیک
وقت ان کا سامنا رہے گا۔ ڈونالڈ ٹرمپ کے لئے پریزیڈنسی پیس آف کیک نہیں ہو گی۔
وزیر
اعظم نواز شریف سے فون پر گفتگو میں نو منتخب صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے نواز شریف کے
بارے میں جو تعاریفی باتیں کی ہیں۔ انہیں صرف باتیں ہی رکھا جاۓ۔ صدر جارج بش نے
بھی صدر جنرل پرویز مشرف کے بارے میں بھی ایسے ہی تعاریفی باتیں کی تھیں۔ اور پھر
نائن الیون کے بعد پاکستان کے ساتھ نئے
تعلقات کا آغاز کیا تھا۔ اور پرانے تعلقات میں جو گلے شکوے تھے۔ انہیں بھول جانے
کا کہا تھا۔ بش انتظامیہ نے صدر جنرل پرویز مشرف کو یہ یقین دلایا تھا کہ امریکہ
پاکستان کی اقتصادی ترقی میں مدد کرے گا۔ لیکن پھر کیا ہوا تھا؟ بھارت کے ساتھ
اسٹرٹیجک تعلقات بش انتظامیہ کے لئے امریکہ کی ضرورت بن گیے تھے۔ دہشت گردی کے
خلاف عالمی جنگ کو امریکہ اور بھارت نے پاکستان کی جنگ بنا دیا تھا۔ اور پاکستان
کی اقتصادی ترقی میں مدد اس طرح کی تھی کہ پاکستان کو دہشت گردی کی جنگ میں ملوث
کر کے اس کو ایک سو بیس بلین ڈالر کا نقصان پہنچا دیا تھا۔ بھارت پاکستان میں دہشت
گردوں کو بھیجتا تھا۔ یہاں سے یہ دہشت گرد افغانستان میں بھی جاتے تھے۔ اور پھر
امریکہ بھارت اور افغانستان پاکستان سے اس کی سرزمین پر دہشت گردوں کے ٹھکانوں کا
خاتمہ کرنے کا مطالبہ کرتے تھے۔ بھارت امریکہ کے ساتھ اپنے اسٹریٹجک تعلقات کا اس
طرح فائدے اٹھا رہا تھا۔ اور یہ پاکستان کو عدم استحکام کر رہے تھے۔ پاکستان نے
180 ڈگری سے یوٹرن لے کر افغانستان میں امریکہ کی مدد کی تھی۔ اور امریکہ نے 180
ڈگری سے یوٹرن لے کر بھارت کی مدد کی تھی۔ امریکہ کے لئے بھارت کے ساتھ یہ
اسٹرٹیجک تعلقات اتنے زیادہ اہمیت رکھتے تھے کہ اسے افغانستان میں نیٹو کی ناکامی
قبول تھی۔ لیکن بھارت سے افغانستان کو پاکستان کے خلاف استعمال کرنے سے روکنا قبول
نہیں تھا۔ حالانکہ بھارت کے افغانستان میں وہ مفادات نہیں تھے جو امریکہ اور نیٹو
کے مفادات تھے۔ یہ تلخ تجربے ہیں جو پاکستان کے لئے گہرے زخم بن گیے ہیں۔
No comments:
Post a Comment