Saturday, December 31, 2016

People of The Year: Syrian And Yemeni Children

People of The Year: Syrian And Yemeni Children

Why Are They Supporting Violence Against Humanity?  So, Long

مجیب خان



























     شام، یمن، عراق اور افغانستان کے لوگوں کے لئے 2016 بھی امن کا سال نہیں بن سکا ہے۔ اس سال جنگ زدہ ملکوں میں بچے سب سے متاثر ہوۓ ہیں۔ اور بڑی تعداد میں ان ملکوں میں بچے مارے گیے ہیں۔ زخمی ہوۓ ہیں یا یتیم ہو گیے ہیں۔ ایک ملین لوگ شام چھوڑ کر دوسرے ملکوں میں پناہ لینے پر مجبور ہو گیے تھے۔ شام یمن اور عراق کے لوگوں پر بیرونی مداخلت نے جنگیں مسلط کی ہیں۔ ان کے ملک تباہ کیے ہیں۔ ان کی زندگیاں بر باد کی ہیں۔ ان کے بچوں کی دنیا تاریک کر دی ہے۔ حالانکہ یمن میں اقتدار اور قبائلی سیاست کی داخلی لڑائی تھی۔ اور اس میں غیر ملکیوں کو اپنی ٹانگ اڑانے کی ضرورت نہیں تھی۔ ان کی مداخلت نے داخلی محاذ آ رائی کو علاقائی جنگ میں بدل دیا تھا۔ یمن کے خلاف ان کی جا حا ریت کو تین سال ہو رہے ہیں۔ اور اس جنگ میں لوگوں کی زندگیاں تباہ کرنے اور ان کے بچوں کی دنیا تاریک کرنے سے زیادہ کامیابی نہیں ہوئی ہے۔ شام میں 6 سال سے خانہ جنگی سے دنیا کو Entertain کرایا جا رہا تھا۔ لوگ مر رہے تھے۔ بچے مر رہے تھے۔ بچے بچیاں یتیم ہو گیے تھے۔ سمندوں میں بچوں کی لاشیں تیر رہی تھیں۔ بڑے ٹی وی اسکرین پر دنیا یہ مناظر دیکھ رہی تھی۔ لیکن اس کے ضمیر میں انسانیت مر گئی تھی۔ اگر ان کے ضمیر میں انسانیت زرہ بھی زندہ ہوتی۔ تو ان کے سامنے جنگ بند کرانے کے طریقہ بھی تھے۔ لیکن لوگ مر رہے تھے اور حکومتیں صرف باتیں کر رہی تھیں۔ سفارت کار کانفرنسیں کر رہے تھے۔
    بشر اسد ڈکٹیٹر ہے۔ انسانیت کے خون سے اس کے ہاتھ رنگے ہوۓ ہیں۔ لیکن جو ڈکٹیٹر کو اقتدار سے ہٹانے کی لڑائی لڑ رہے تھے۔ ان کا رویہ ڈکٹیٹر کے شہریوں کے ساتھ ڈکٹیٹروں کی طرح تھا۔ اور انہوں نے ہزاروں لوگوں کو صرف اس لئے قتل کیا تھا کہ وہ اسد حکومت کی حمایت کرتے تھے۔ اپوزیشن جس کی امریکہ اور مغربی ملک حمایت کر رہے تھے۔ انتہائی Violence ہوتی جا رہی تھی۔ حکومت کے خلاف اس نے ہتھیار اٹھا لیے تھے۔ شہریوں کو خوفزدہ کیا جا رہا تھا۔ سرکاری املاک تباہ کی جا رہی تھیں۔ اگر امریکہ میں، فرانس میں، برطانیہ میں ایسے حالات پیدا ہو جاتے ہیں تو حکومت کیا کرے گی؟ اسرائیل میں حماس یا فلسطینی راکٹ پھینکتے ہیں۔ جس سے اسرائیلی لوگ مر جاتے ہیں۔ اسرائیلی املاک کو تباہ کرنے لگتے ہیں ایسی صورت میں اسرائیلی حکومت نے بھی ان عناصر کے خلاف انتہائی Ruthless  طاقت کا استعمال کیا ہے۔ اور ہزاروں فلسطینیوں کو ہلاک کر دیا تھا۔ جن ملکوں نے اسرائیل کے اس اقدام کو اپنے شہریوں کا دفاع کرنے کا حق کہا تھا۔ لیکن وہ ہی ممالک شام کی حکومت کے اپنے شہریوں کا دفاع کرنے کے اقدام کو انسانیت کے خلاف کرائم قرار دیتے ہیں۔ جبکہ ہر حکومت کا اپنے شہریوں کی جان اور املاک کا دفاع کرنا فرض ہے۔ لیکن یہ شام میں حکومت کے خلاف  نام نہاد اپوزیشن کو اسلحہ اور تربیت دے رہے تھے۔ اور شام میں Violence کو فروغ دے رہے تھے۔ جبکہ دوسری طرف عالمی برادری دہشت گردی اور انتہا پسندی کے خلاف جنگ بھی کر رہی تھی۔ آخر Violence اورTerrorism میں فرق کیا تھا؟ کیا انہیں یہ معلوم نہیں تھا کہ Terrorism کی ابتدا Violence سے ہوتی ہے؟ دنیا کی انتہائی تعلیم یافتہ اور جمہوری قومیں قبائلیوں کے ساتھ مل کر یہ کیا کر رہی تھیں؟ عالمی قوانین اور انسانی قدروں کو انہوں نے کیسے فراموش کر دیا تھا؟ عراق شام یمن اور لیبیا کو تباہ کرنے کے یہ ذمہ دار ہیں۔ تاریخ میں یہ دور انسانیت کے خلاف سب سے زیادہ ہونے والے کرائم کا دور دیکھا جاۓ گا۔ اور پانچ سال تک کسی نے کچھ نہیں کیا تھا۔          

No comments:

Post a Comment