State Sponsored Fake
News Against Iraq Has Become An “Epidemic” For America’s Democratic System
مجیب خان
Champions of "fake news" in the Iraq War |
U.S. Secretary of State Colin Powell Display's a vial of anthrax during his Presentation in U.N Security Council |
یہ بھی دنیا کے لئے
شاید ایک نئی تبدیلی ہے کہ روس نے پہلی مرتبہ امریکہ کے صدارتی انتخابات میں
مداخلت کی ہے۔ اور اپنے امیدوار کو کامیاب کرایا ہے۔ امریکہ کے صدارتی انتخابات
میں روس کی مداخلت پر ری پبلیکن اور ڈیمو کریٹک دونوں پارٹیاں اعتراض کر رہی ہیں۔
ہلری کلنٹن کی انتخابی مہم اور ڈیمو کریٹک نیشنل کمیٹی کی داخلی ای میل کی Hacking اور
انہیں پھر پریس میں ریلیز کرنے میں روسی Hackers کا ہاتھ بتایا تھا۔ ڈیمو کریٹک
پارٹی اور اس کی صدارتی امیدوار ہلری کلنٹن کی ای میل Hacking ایک نیا واٹر
گیٹ سکینڈل ہے۔ امریکہ کی تاریخ میں ڈونالڈ ٹرمپ پہلے نو منتخب صدر ہیں۔ جنہوں نے
اپنی انتخابی مہم میں روس کے صدر پو تن کی تعریف کی تھی۔ صدر پو تن کو ایک اچھا
لیڈر کہا تھا۔ اور روس کے ساتھ امریکہ کے اچھے تعلقات ہونے کی اہمیت پر زور دیا
تھا۔ اس ہفتہ کے ٹائمز میگزین میں ڈونالڈ ٹرمپ کا جو انٹرویو شائع ہوا ہے۔ اس میں
امریکہ کے انتخابات میں روس کی مداخلت اور Hacking کے بارے میں ایک سوال کے جواب میں
نو منتخب صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے اسے مسترد کرتے ہوۓ کہا " میں یہ نہیں مانتا ہوں
کہ روس نے مداخلت کی تھی۔ یہ ایک قہقہے لگانے کا موضوع بن گیا ہے گفتگو کا موضوع نہیں ہے۔" ڈونالڈ ٹرمپ نے کہا " میں
جب بھی کچھ کرتا ہوں وہ کہتے ہیں اوہ، روس مداخلت کرتا ہے۔"
15 سال قبل ری پبلیکن پارٹی کے ایک دوسرے صدر جارج بش نے صدر پو تن کے بارے میں کہا تھا کہ انہوں نے صدر پو تن کی Soul میں
انہیں ایک مخلص اور دیانتدار انسان دیکھا تھا۔ صدر پو تن ایک اچھے انسان ہیں۔ صدر
پو تن کے بارے میں یہ فتوی کیونکہ صدر جارج بش نے دیا تھا۔ اس لئے دونوں پارٹیوں
کے سینٹروں اور کانگرس مین کو بھی صدر پو تن کے مخلص اور اچھا انسان ہونے کے بارے
میں کبھی اختلاف نہیں تھا۔ صدر بش اور صدر پو تن میں دوستانہ تعلقات بھی بہت اچھے
تھے۔ لیکن پھر ایسی کیا تبدیلی آئی ہے کہ امریکہ کے اسٹبلشمینٹ میں صدر پو تن کی
اچانک مخالفت "سرد جنگ" کی سیاست بن گئی ہے۔ صدر پو تن روزانہ آئینے کے
سامنے کھڑے ہو کر اپنی Soul
دیکھتے ہیں۔ اور یہ دیکھ کر ان کا ضمیر مطمئن ہو جاتا ہے کہ وہ بالکل تبدیل نہیں
ہوۓ ہیں۔ ان کی Soul میں
مخلص اور دیانتدار انسان بھی موجود ہے۔ اب بڑی تبدیلی شاید یہ ہے کہ صدر پو تن روس
کے ایک انتہائی کامیاب لیڈر ہیں۔ انہوں نے اپنے دور میں پہلے صدر بش کو ناکام ہو
کر جاتے دیکھا تھا اور اب صدر اوبامہ بھی صدر بش کی طرح جا رہے ہیں۔ صدر بش نے جو
جنگیں شروع کی تھیں اس میں انہیں بری طرح ناکامی ہوئی تھی۔ اور ان کے بعد صدر
اوبامہ بھی پہلے صدر بش کی جنگوں میں اور پھر اپنی جنگوں میں ناکام ہو کر جا رہے
ہیں۔ ان جنگوں میں امریکہ کی یہ ناکامیاں روس کے ساتھ امریکہ کے تعلقات میں تناؤ لائی
ہیں۔
صدر پو تن جب اقتدار میں آۓ تھے۔ روس معاشی کھنڈرات تھا۔ چچنیا میں دہشت
گردی اور خانہ جنگی ہو رہی تھی۔ طالبان اور القاعدہ بھی باغی چچن کے ساتھ دہشت گردی میں شامل تھے۔ ماسکو میں بم پھٹ رہے
تھے۔ لیکن پھر صدر پو تن نے اتحادیوں کے بغیر چچنیا میں دہشت گردوں اور چچن باغیوں
سے جنگ لڑی تھی۔ انہیں شکست دی تھی۔ دہشت گردوں کا خاتمہ کیا تھا۔ صدر پو تن نے
چچنیا کو دوبارہ تعمیر کیا تھا۔ اور چچنیا کے مسلمانوں کو ایک نیا چچنیا تعمیر کر
کے دیا تھا۔ چچنیا کے مسلمانوں کی زندگیاں اور کاروبار بحال ہو گیے تھے۔ صدر پو تن
کی دہشت گردی اور چچن باغیوں کے خلاف یہ بہت بڑی کامیابی تھی۔ لیکن صدر بش اپنے
آٹھ سال میں اور پھر صدر اوبامہ اپنے آٹھ سال میں عراق کو دوبارہ ایک ملک بنانے
اور عراقیوں کی زندگیاں اور کاروبار بحال کرنے میں ناکام ہوۓ ہیں۔ نو منتخب صدر
ڈونالڈ ٹرمپ شاید صدر پو تن میں قیادت کی ان اعلی صلاحیتوں سے خاصے متاثر ہوۓ ہیں۔
اور اس لئے صدر پو تن کو کامیاب لیڈر سمجھتے ہیں۔
بش اور اوبامہ انتظامیہ کی جنگیں 16 سال سے جب
امریکہ کو نقصان پہنچا رہی ہیں تو روس کو امریکہ کے خلاف کسی پراپگنڈہ کی ضرورت
نہیں ہے۔ یہ سرد جنگ کی دنیا سے بہت مختلف دنیا ہے۔ لیکن سرد جنگ میں امریکہ کے جو
اتحادی تھے وہ القاعدہ/ داعش کے خلاف جنگ میں بھی امریکہ کے اتحادی ہیں۔ دنیا بھر
میں لوگوں میں بڑی سیاسی بیداری آئی ہے۔ لوگ جنگوں سے سخت بیزار ہیں۔ لوگ یہ دیکھ
رہے ہیں کہ امریکہ کا دہشت گردی کی جنگ میں زیادہ مفاد ہے لیکن دہشت گردی ختم کرنے
میں زیادہ دلچسپی نہیں ہے۔ ISIS امریکہ کے ریڈار پر نہیں تھا۔
لیکن روس امریکہ کے انتخابات میں Hacking کر رہا تھا یہ امریکہ کے ریڈار پر
تھا۔ ان پالیسیوں سے امریکہ کی عالمی لیڈر شپ Depreciate
ہوئی ہے۔ ان جنگوں میں امریکہ نے جو Loose کیا ہے۔ روس نے اسے Gain کیا
ہے۔ صدر اوبامہ سے لوگوں کو بڑی مایوسی ہوئی ہے۔ صدر پو تن سے لوگوں کی امیدیں بڑھ
گئی ہیں۔ یہ کتنے افسوس کی بات ہے کہ ایک امریکی صدر کے منہ پر بغداد میں جوتا
پھینک دیا تھا۔ اور اب دوسرے امریکی صدر کو فلپائن کے صدر نے SOB کہا ہے۔ روس کے پراپگنڈہ نے امریکہ کے لئے یہ حالات پیدا نہیں کیے ہیں۔
امریکہ کے لیڈروں نے خود اپنے لئے یہ حا لات پیدا کیے ہیں۔ اور یہ الزام انہیں خود
اپنے آپ کو دینا چاہیے۔
صدر پو تن ڈونالڈ ٹرمپ کے “Make
America Great Again” مشن سے شاید متاثر
ہوۓ ہیں۔ اور اس لئے صدر پو تن نے ڈونالڈ
ٹرمپ کو امریکہ کا صدر بننے پر مسرت کا اظہار کیا ہے۔ تاہم امریکہ کے صدارتی انتخاب میں روس کی
مداخلت کے کوئی ثبوت نہیں ہیں۔ صدر پو تن کی قیادت میں روس بہت بدل گیا ہے۔ صدر پو
تن دنیا کو سرد جنگ کی ذہنیت سے نہیں دیکھتے ہیں۔ حالانکہ صدر پو تن کا تعلق KGB سے
تھا۔ لیکن صدر پو تن نے روس میں درجنوں
نئی خفیہ ایجنسیاں نیٹو سے روس کی سلامتی کو خطروں کے نام پر نہیں بنائی ہیں۔ دنیا
کے اہم خطوں میں روس نے اپنے مفاد میں فوجی اڈے قائم کیے ہیں اور نہ ہی اپنی خفیہ
سرگرمیوں کا نیٹ ورک بنایا ہے۔ روس کے روئیے میں یہ تبدیلی دیکھ کر نو منتخب صدر
نے روس کے ساتھ اچھے تعلقات فروغ دینے اور مشرق وسطی میں روس سے قریبی تعاون کرنے
پر زور دیا ہے۔
اب جہاں تک “Fake
News” کا تعلق ہے۔ یہ دراصل ری پبلیکن پارٹی کی ایجاد ہے۔
جس کی اعلی قیادت نے By hook or by crook
ہلری کلنٹن کو اقتدار میں نہیں آنے دیا جاۓ گا کی بات کی تھی۔ اور پھر اس مقصد میں
ہلری کلنٹن کے بارے میں “Fake
News” پھیلائی تھیں۔ ہلری کلنٹن کے بارے
میں یہ خبر دی تھی کہ وہ Alzheimer میں مبتلا ہیں۔ پھر یہ خبر پھیلائی گئی تھی کہ کچھ عرصہ قبل ہلری کلنٹن جب
گر گئی تھیں تو کئی روز تک وہ Coma میں رہی تھیں۔
ڈونالڈ ٹرمپ کے ایک قریبی مشیر نے Twitter پر یہ خبر پھیلائی تھی کہ ہلری
کلنٹن اور صدر اوبامہ شام کے تنازعہ کا اصل سبب ہیں۔ اور اس سے یہ فائدے لے رہے
تھے۔ اور ڈونالڈ ٹرمپ اگر منتخب ہو گیے تو
دونوں پر غداری کے الزام میں مقدمہ چلایا جاۓ گا۔ ایسی بے شمار “Fake News”
تھیں جو ہلری کلنٹن کو منتخب ہو نے سے روکنے کے لئے گھڑی گئی تھیں۔
Fake News
دراصل سی آئی اے کا ایک پراپگنڈہ ہتھیار ہے۔ جو دنیا میں ناپسندیدہ حکومتوں اور
قیادتوں کے خلاف استعمال کیا جاتا ہے۔ ان کے خلاف طرح طرح کی من گھڑت خبریں با اثر
عالمی نشریاتی اداروں کے ذریعے پھیلائی جاتی ہیں۔ صدام حسین اور عراق میں مہلک
ہتھیاروں کے بارے میں Lie,
Misinformation, Fabrication بھی Fake News
ہوتی تھیں۔ اور یہ برطانیہ اور امریکہ کی حکومتوں کے اعلی حکام کے ذریعہ دنیا میں
پھیلائی گئی تھیں۔ جیسے یہ خبر کہ صدام حسین کے پاس ایسے خطرناک زہریلے کیمیائی ہتھیار
تھے۔ جس کے صرف ایک قطرے سے لاکھوں لوگ سیکنڈ میں مر جاتے۔ ایسی Fake News کی
ایک بہت لمبی فہرست ہے۔ صدام حسین کے پاس زہریلے کیمیائی ہتھیاروں سے اتنے لوگ
نہیں مرے ہیں کہ جتنے ان ہتھیاروں کے بارے میں Fake News کے
نتیجے میں لاکھوں بے گناہ لوگ ہلاک ہوۓ ہیں۔ Now, Hillary Clinton calls “Fake
news is an “epidemic” and a danger that must be addressed and addressed quickly.”
No comments:
Post a Comment