Saturday, December 24, 2016

The War On Terror Is Attracting The Young, As In The Sixties When Camel Cigarettes Attracted The Young

The War On Terror Is Attracting The Young, As In The Sixties When Camel Cigarettes Attracted The Young       
These young terrorists at the time of September 11th were young children and they grew up In the "War on Terror". The "War on Terror" is creating more young terrorists

مجیب خان


Oldest terrorist, prisoner in Guantanamo Bay, released in 2006 

Suspected terrorist responsible for Paris attacks

San Bernardino Terrorists

Suspected Terrorist responsible for playing a role in the Belgium and France terrorist attacks
A Turkish Police Officer assassinates the Russian Ambassador to Turkey
    
    انقرہ میں ترکی کے ایک 22 سالہ پولیس آفسر نے جو ڈیوٹی پر نہیں تھا۔ روس کے سفیر کو گولیاں مار کر قتل کر دیا۔ اور پھر بلند آواز سے ' خدا عظیم ہے' 'حلب کو مت بھولو' شام کو مت بھولو' کہنے لگا۔ چند منٹ میں یہ بھی زمین پر پڑا تھا۔ ترکی کی سیکورٹی فورس کے اہل کاروں کی گولیوں سے یہ بھی مر گیا تھا۔ ان سر پھرے مذہبی جنونوں سے کوئی پوچھے کے اس 22 سال کے نوجوان کو کیا ملا۔ ایک بے گناہ انسان کا قتل کر کے خود بھی قتل ہو گیا۔ اگر یہ زندہ ہوتا تو ' خدا عظیم ہے' کرتا رہتا اور لوگوں کے ذہنوں میں حلب اور شام کو بھی زندہ رکھنے کی باتیں کرتا رہتا۔ تاہم یہ بڑی خصوصیت سے دیکھا جا رہا ہے کہ اب تک اس طرح کے واقعات میں زیادہ تر 22 سے 26 سال کی عمروں کے نوجوان ملوث پاۓ گیے ہیں۔ کیلیفورنیا، فلوریڈا، نیوجرسی/ نیویارک، پیرس، بلجیم اور بر لن میں دہشت گردی میں 24 ،25 اور26 سال کی عمروں کے ملوث تھے۔ امریکہ پر نائن الیون کے حملہ کے وقت یہ 8 اور 10 سال کے تھے۔ اور نائن الیون کے بعد دہشت گردی کے خلاف بش اور چینی کی جنگوں نے اس نسل کو 16 سال میں Certified انتہا پسند بنا دیا ہے۔ 16 سال سے یہ نسل ایک ایسی دنیا دیکھ رہی ہے جس میں خونی جنگوں کی باتیں ہو رہی ہیں۔ دہشت گردی اور جوابی دہشت گردی ہو رہی ہے۔ ہر طرف انسانی خون بہہ رہا ہے۔ بچے خون میں لت پت پڑے ہیں۔ عورتوں بچوں اور مردوں کی لاشیں سمند دروں میں تیر رہی ہیں۔ یہ سب بےگناہ انسان تھے۔ جن کا نائن الیون کی دہشت گردی سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ نہ ہی امریکہ کے مفادات سے انہیں کوئی دلچسپی تھی۔ ان کی دنیا امریکہ کی دنیا سے بہت چھوٹی تھی۔ لیکن جس طرح ان کی دنیا میں حکومتیں تبدیل کرنے سے تباہی پھیلائی گئی ہے۔ ان کے معاشروں کو عدم استحکام کیا گیا ہے۔ ان کی معیشت تباہ کی گئی ہے۔ ان کے خاندان تباہ ہو گیے ہیں۔ ان Extreme پالیسیوں نے Extremism کو فروغ دیا ہے۔
     بش اور اوبامہ انتظامیہ میں انتہا پسندی اور دہشت گردی کے خلاف باتیں بہت کی گئی ہیں۔ بش انتظامیہ میں بن لادن اور القا عدہ کا چرچا ہوتا رہا۔ بن لادن کے و ڈیو بریکنگ نیوز بنتے تھے۔ بن لادن پر کتابیں لکھی گئی تھیں۔ القاعدہ پر مضامین لکھے جاتے تھے۔ سیاسی پنڈتوں نے امریکی میڈ یا میں تقریباً ہزاروں گھنٹے بن لادن القاعدہ اور انتہا پسندی پر باتیں کی تھیں۔ اور پھر بن لادن کو مار دیا تھا۔ القاعدہ تتربتر ہوتی جا رہی تھی۔ لیکن پھر اوبامہ انتظامیہ میں داعش ISIS القاعدہ سے بھی بڑی دہشت گرد تنظیم بن کر سامنے آئی تھی۔ اس نام نہاد اسلامی ریاست کو کمیونسٹ ریاست کے مقابلے کی ریاست بنا دیا تھا۔ وہ ہی پنڈت جو امریکی میڈ یا میں بن لادن اور القاعدہ پر باتیں کرتے تھے۔ داعش کی انتہا پسندی اب ان کا موضوع بن گیا تھا۔ کبھی ایسا تاثر ملتا تھا کہ شام کو جیسے داعش کے مفاد میں عدم استحکام کیا جا رہا تھا۔ اس نا ختم ہونے والی دہشت گردی کے پیچھے سیاسی تھیوری یہ ہے کہ جب لوگ بڑی تعداد میں مرتے ہیں تو دنیا میں پھر تبدیلیاں آتی ہیں۔ یورپ میں جب بادشاہتیں تھیں۔ یورپ میں جنگیں ہوتی رہتی تھیں۔ ان جنگوں میں ہزاروں کی تعداد میں لوگ مرتے تھے۔ جس کے نتیجہ میں یورپ میں پھر تبدیلیاں آئی تھیں۔ کچھ عرصہ بعد پھر جرمنی میں 6 ملین یہودی مارے گیے تھے۔ اور اس کے بعد پھر دنیا بدل گئی تھی۔ اور اب عراق، شام، لیبیا، یمن، افغانستان اور پاکستان میں تقریباً تین ملین مسلمان مارے گیے ہیں اور یہ سلسلہ ابھی جاری ہے۔ اور دنیا میں تبدیلیاں آنے کا آغاز امریکہ کے صدارتی انتخابات میں ری پبلیکن اور ڈیمو کریٹک پارٹی کی شکست سے ہو گیا ہے۔
     دہشت گردی کے خلاف جنگ میں امریکہ کو ناکامیاں ہو رہی ہیں۔ انتہا پسندی اور دہشت گردی مشرق وسطی سے، افغانستان سے، جنوبی ایشیا سے گزر کر یورپ میں پہنچ گئی ہے۔ اور یہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ناکامی ہے۔ امریکہ کی Regime change پالیسی بھی ناکام ہو گئی ہے۔ عراق میں Regime change دنیا کے لئے Hell بن گیا ہے۔ لیکن حیرت کی بات ہے کہ امریکی میڈیا میں ان ناکامیوں پر کوئی بات نہیں ہوتی ہے۔ صرف داعش دہشت گروپ کی بات ہوتی ہے حالانکہ داعش کو امریکہ کی ان ناکامیوں نے جنم دیا ہے۔ اس کے پریس ریلیز سناۓ جاتے ہیں۔ اور یہ گفتگو بھی امریکی میڈیا میں اس طرح ہوتی ہے کہ جیسے اس کی پبلسٹی کی جا رہی ہے۔ امریکی میڈیا میں کسی پنڈت نے یہ سوال نہیں کیے ہیں کہ داعش کو کس نےایجاد کیا ہے؟ کون اسے فنڈ فراہم کر رہا ہے؟ انہیں یہ معلوم ہے کہ داعش میں 30 ہزار تربیت یافتہ عسکری ہیں۔ لیکن انہیں اس کا علم نہیں ہے کہ یہ تربیت کس نے اور کہاں دی تھی؟ جب تک ان سوالوں کے جواب نہیں دئیے جائیں گے۔ اس وقت تک یہ ہی سمجھا جاۓ گا کہ دہشت گردی کو دنیا میں تبدیلیوں کے مقاصد میں استعمال کیا جا رہا ہے۔ اور ایسی دہشت گرد تنظیموں کو فروغ دیا جا رہا ہے۔
     صدر بش کی انتظامیہ میں افغانستان میں دہشت گردوں کے خلاف جنگ پاکستان پہنچ گئی تھی۔ اس جنگ سے انتہا پسندوں اور دہشت گردوں کو پاکستان میں فروغ ملا تھا۔ پاکستان ایک لبرل اور ماڈریٹ ملک تھا۔ اس پیمانے پر مذہبی انتہا پسندی پہلے کبھی نہیں دیکھی گئی تھی۔ صدر بش کی دہشت گردی کے خلاف جنگ انتہا پسندی اور دہشت گردی کا خاتمہ کرنے کے لئے تھی۔ یا یہ جنگ لبرل اور ماڈریٹ معاشروں کو تباہ کرنے کے لئے ڈیزائن کی گئی تھی۔ اور اب صدر اوبامہ کی انتظامیہ میں شام کی خانہ جنگی میں دہشت گردی ترکی پہنچ گئی ہے۔ ترکی میں بم پھٹ رہے ہیں۔ لاشیں سڑکوں پر بکھری ہوتی ہیں۔ شہریوں کا امن ختم ہو گیا ہے۔ شام میں Regime change دہشت گردی ترکی میں اسلامی انتہا پسندی بن گئی ہے۔ ترکی ایک سیکولر ملک تھا۔ لبرل جمہوریت ترکی کے سیاسی نظام کا دل تھا۔ اور یہ کمال اتاترک کا جدید ترکی تھا۔ اس نظام میں ترکی کو مستحکم ہونے میں تقریباً 80 برس لگے تھے۔ ترکی میں مذہبی انتہا پسندوں کی دہشت گردی دیکھ کر کمال اتاترک اپنی قبر میں تڑپ جاتے ہوں گے۔ اور انہیں بھی امریکہ کی عراق اور شام پالیسی پر غصہ آ رہا ہو گا۔ جو ترکی کے ہمسایہ ہیں۔  
     صدر اوبامہ کی شام میں Red Line کی خلاف ورزی ہونے پر کاروائی نہ کرنے کی پالیسی غلط نہیں تھی۔ بلکہ شام کے بارے میں ساری پالیسی غلط  تھی۔ آخر مصر میں اخوان المسلمون  کو اقتدار سے کیوں ہٹایا گیا تھا؟ اور پھر ان ہی لوگوں کو شام میں اسد حکومت کی ماڈریٹ اپوزیشن کا سارٹیفیکٹ دے کر ان کی دہشت گردی میں مدد کی جا رہی تھی۔ ان میں انتہائی خوفناک اور ظالم سلا فسٹ اور وہابی بھی شامل تھے۔ مصر میں یہ لوگ عیسائوں اور اخوان حکومت کے مخالفین پر تشدد کر رہے تھے۔ اور ان کی انتہا پسندی بڑھتی جا رہی تھی۔ مصر خانہ جنگی کی طرف بڑھ رہا تھا۔ اور اس خوف سے مصر میں فوجی آمریت کی بحالی قبول کی تھی۔ لیکن پھر دوسری طرف شام میں ڈکٹیٹر کو اقتدار سے ہٹانے کے لئے ایک خونی خانہ جنگی کو فروغ دیا جا رہا تھا۔ دنیا کے لئے یہ پالیسی ہے جو انتہا پسندی پھیلا رہی ہے۔ اور اس نے داعش کو سنہری موقعہ فراہم کیے ہیں۔ یہ جنگیں نوجوانوں کو Attract  کر رہی ہیں۔ اور انہیں دہشت گرد بنا رہی ہیں۔              






No comments:

Post a Comment