Tuesday, January 10, 2017

American Election: Internal Intrigue And External Hacking

American Election: Internal Intrigue And External Hacking

When Government Can’t Convince The People, Then Intelligence
Agencies Have Confused The People By Their Reports 

مجیب خان



     جب یہ انکشاف ہوا تھا کہ امریکہ جرمن چانسلر انجلا مرکل کے فون ٹیپ کر رہا تھا۔ اور پھر مزید انکشافات بھی ہوۓ تھے کہ فرانس کے صدر، برازیل کی سابق  صدرDilma Rousseff کے فون بھی ٹیپ ہو رہے تھے۔ یہ انکشاف ہونے کے بعد ان ملکوں کی حکومتوں نے امریکہ سے احتجاج کیا تھا۔ اور اس کی وضاحت طلب کی تھی۔ لیکن اس طرح واویلا نہیں کیا تھا۔ جو اس وقت امریکہ میں روس کے Hacking اور صدارتی انتخاب میں Meddling کرنے کے دعووں کی بنیاد پر واویلا ہو رہا ہے۔ روس کو یہ الزام دینے کے بعد اس کے 35 سفارت کاروں کو امریکہ سے نکال دیا ہے۔ اور روس کے خلاف مزید نئی بندشیں بھی لگا دی ہیں۔ روس کے خلاف امریکہ کا یہ کیس بھی کچھ ایسا ہی ہے کہ جیسے عراق کے خلاف مہلک ہتھیاروں کے بارے میں الزامات کی کہانیاں تھیں۔ اور انہیں انٹیلی جینس کی رپورٹوں کے ذریعہ ثابت کیا جاتا تھا۔ جو بعد میں 100 فیصد غلط ثابت ہوئی تھیں۔ تاہم Hacking کوئی نیا مسئلہ نہیں ہے۔ یہ روس کی ایجاد نہیں ہے۔ Hacking پہلے بھی ہوتی رہی ہے۔ امریکہ کے ریڈار پر چین کا نام بھی Hacking کرنے میں آیا ہے۔ شمالی کوریا اور ایران کے نام بھی Hacking کرنے والے ملکوں میں شامل تھے۔ اسرائیل نے بھی Hacking کی ہے۔
    اب جہاں تک دوسرے ملکوں کے انتخابات میں Meddling کرنے اور اپنی پسند کے امیدوار کو اقتدار میں لانے کی کوشش امریکہ کی سرد جنگ کی روایت ہے۔ امریکہ نے مغربی یورپ کے ملکوں میں انتخابات میں اکثر مداخلت کی ہے۔ اور سوشلسٹ نظریات کے حامی امیدواروں کو انتخابات میں ناکام بنانے کی مہم چلائی تھی۔ برطانیہ کے انتخابات میں لیبر پارٹی کے مقابلے میں کنزر ویٹو پارٹی کو کامیاب کرانے کے لئے ری پبلیکن پارٹی کے کنزر ویٹو Strategists لندن جاتے تھے اور کنزر ویٹو پارٹی کی مدد کرتے تھے۔ امریکہ میں اسرائیل کی مداخلت کے بغیر کوئی انتخاب جیت نہیں سکتا ہے۔ دونوں پارٹیوں کے صدارتی امیدوار اپنی انتخابی مہم کا آغاز کرنے سے پہلے اسرائیل جاتے ہیں۔ لہذا امریکہ کے انتخاب میں اسرائیلی مداخلت کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا ہے۔ جہاں دو ملین یہودی روسی آباد ہیں۔ یہ اسرائیلی روسی بھی امریکہ کے انتخاب میں  Meddling کر سکتے ہیں۔ اور روس کو یہ  الزام دیا جا سکتا ہے کہ صدر پو تن امریکہ کے جمہوری نظام کو تباہ کرنا چاہتے ہیں۔ یا بن لادن امریکہ کی ترقی اور خوشحالی کو تباہ کرنا چاہتا تھا۔ امریکہ کیا واقعی اتنا Fragile ہے؟
    16 سال سے جنگوں میں امریکہ کی مسلسل ناکامیوں کے نتیجہ میں یہ امریکہ کا Frustration ہے۔ جو اب صدر پو تن پر اتر رہا ہے۔ اور یہ روس کے خلاف ایک نئی سرد جنگ کی مہم بن رہی ہے۔ یوکرین کے مسئلہ پر روس کو تنہا کرنے کی کوشش کی گئی تھی۔ امریکہ کو اس میں کامیابی نہیں ہوئی تھی۔ یورپ یوکرین کے لئے ایک نئی جنگ شروع کرنے کے لئے تیار نہیں تھا۔ اور اب روس کو شام میں مداخلت کرنے کا الزام دیا جا رہا ہے۔ حالانکہ شام میں پانچ سال سے امریکہ اور خلیج کے ملک جارحانہ مداخلت کر رہے تھے۔ اور شام میں انسانیت کے خلاف کرائم کرنے والوں کی پشت پنا ہی کر رہے تھے۔ جبکہ روس نے شام کی خانہ جنگی کے ایک انتہائی خطرناک موڑ پر صرف انسانیت کو بچانے کے لئے یہ مداخلت کی تھی۔ اس خطہ کے بعض ملکوں نے شام میں روس کی مداخلت کا خیر مقدم کیا تھا۔ روس کی اس مداخلت کے نتیجہ میں شام میں بڑی حد تک استحکام کے لئے مثبت حالات نظر آ رہے ہیں۔ شام میں خانہ جنگی دنیا میں دہشت گردی پھیلانے کی جنگ بن گئی تھی۔ روس کی بر وقت مداخلت سے شام میں دہشت گردوں کے گڑھ بھی ختم ہوۓ ہیں۔ امریکہ کے صدارتی انتخاب میں روس کی Hacking  سے زیادہ شام کی خانہ جنگی میں روس کی کاروائیوں کے مثبت فیصلے تھے جس کے امریکہ کے صدارتی انتخاب پر گہرے اثرات ہو رہے تھے۔ اور عرب دنیا میں امریکہ کی احمقانہ جنگوں پر ڈونالڈ ٹرمپ کا موقف عوام کی سمجھ میں آ رہا تھا۔
    نائن الیون کے بعد امریکہ میں چار صدارتی انتخابات ہوئیے ہیں۔ 2004 میں پہلا صدارتی انتخاب صدر بش نے بن لادن القاعدہ اور دہشت گردی کے خلاف خود کو ایک مضبوط لیڈر ثابت کر کے جیت لیا تھا۔ جبکہ صدر اوبامہ نے نائن الیون کے بعد دوسرا صدارتی انتخاب عراق جنگ اور صدر بش کی عرب دنیا میں حکومتیں تبدیل کرنے کی پالیسی کے خلاف ایک ٹھوس موقف اختیار کر کے جیت لیا تھا۔ تاہم بن لادن کو پکڑنے اور دہشت گردوں کا خاتمہ کرنے کا عزم کیا تھا۔ اور نائن الیون کے بعد تیسرے صدارتی انتخاب سے پہلے صدر اوبامہ نے بن لادن کو پکڑ لیا تھا۔ عراق سے امریکی فوجیں واپس بلا لی تھیں۔ اور افغانستان میں بھی امریکی فوجوں میں کمی کرنے اور فوجی آپریشن ختم کرنے کا اعلان کیا تھا۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں اپنے ایک مضبوط لیڈر ہونے کا ثبوت دے کر صدر اوبامہ دوسری مرتبہ بھی منتخب ہو گیے تھے۔ لیکن صدر اوبامہ کا دوسری مدت کا دور صدر جارج بش کے پہلی مدت کے دور سے زیادہ مختلف نہیں تھا۔ دونوں انتظامیہ نے دنیا کو جنگوں میں گھیر دیا تھا۔ اور دنیا کے لئے جیسے ان جنگوں سے نکلنے کے تمام راستے بند ہو گیے تھے۔ امریکہ میں ایک درجن انٹیلی جینس ایجنسیاں دہشت گردی کے خلاف سرگرم تھیں۔ لیکن ان میں سے کسی کو یہ معلوم نہیں تھا کہ ISIS کو کس نے بنایا تھا۔ اور اسے فنڈ کون فراہم کر رہا تھا۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں امریکہ پر سے دنیا کا اعتماد ختم ہو گیا تھا۔
    یہ حالات دیکھ کر صدر پو تن امریکہ میں Regime Change کے لئے جیسے ھوم ورک کر رہے تھے۔ ادھر امریکہ میں ڈونالڈ ٹرمپ بھی صدارتی امیدوار ہونے کا اعلان کرنے سے پہلے اپنا ھوم ورک کر رہے تھے۔ ریپبلیکن پارٹی کے 17 صدارتی امیدواروں میں پیشتر انتہائی Hawkish تھے۔ سب بڑھ چڑھ کر صرف جنگوں کی باتیں کر رہے تھے۔ یوکرین میں امریکی فوجیں بھیجنے کی باتیں کر رہے تھے۔ شام اور عراق میںISIS کے خلاف کارپٹ بمباری کرنا چاہتے تھے۔ ڈونالڈ ٹرمپ سب کی سنتے رہے لیکن جنگوں کی باتوں سے خود کو الگ رکھا تھا۔ جنگوں نے عرب دنیا میں جو تباہیاں پھیلائی ہیں اس کا صرف ذکر کر دیتے تھے۔ لوگ جنگوں سے تنگ آ چکے تھے۔ صرف یہ وجہ تھی کہ ڈونالڈ ٹرمپ ری پبلیکن پارٹی کی پرائم ریز میں بڑی تیزی سے Sweep کرتے چلے گیے۔ جبکہ ڈیموکریٹک پارٹی میں برنی سینڈر بھی جنگوں کی مخالفت کرنے کی وجہ سے مقبول ہو رہے تھے۔ ہلری کلنٹن شام، یوکرین، بحرہ ساؤ تھ چائنا کے مسئلہ پر ذرا Hawkish خیالات رکھتی تھیں۔ لیکن پھر اکثر ہلری کلنٹن برنی سینڈر اور ڈونالڈ ٹرمپ کی عوام میں پوزیشن دیکھ کر اپنے موقف سے پیچھے آ جاتی تھیں۔ یا پھر جنگوں کے موضوع پر کھل کر اظہار کرنے سے گریز کرنے لگتی تھیں۔ لوگ ان کے بارے میں ذرا دواں ڈول ہو رہے تھے۔ جب وہ سیکرٹیری آف اسٹیٹ تھیں لوگوں کے ذہنوں میں ان کے Hawkish خیالات موجود تھے۔
    امریکی قیادت کے فیصلے جب دنیا بھر میں قوموں پر اثر انداز ہوں گے۔ اور ان کے امن اور استحکام کے لئے مسائل پیدا کریں گے۔ تو پھر یہ ملک امریکہ کے صدارتی انتخاب میں مداخلت بھی کریں گے۔ اور ایک ایسے امیدوار کو کامیاب بنانے کی کوشش کریں گے۔ جو ان کے امن اور استحکام کے مفاد میں ہو گا۔ سرد جنگ ختم ہو نے کے بعد روس کے اطراف میں امریکہ کی جو جنگجو نہ پالیسیاں ہیں اگر روس کی جگہ امریکہ ہوتا تو کیا کرتا؟ لیکن صدر پو تن نے انتہائی ڈھنڈے دماغ اور بڑے تحمل سے امریکہ کی ان اشتعال انگیز یوں کا سامنا کیا ہے۔ اور روس کو جنگوں سے دور رکھا ہے۔ ڈیموکریٹک اور ری پبلیکن پارٹی کی صدارتی انتخاب میں ناکامی روس کے لئے شاید 6 ٹیریلین ڈالر کی کامیابی تھی۔ ان کا امیدوار صدر منتخب ہو گیا تھا۔ صدر پو تن اور ڈونالڈ ٹرمپ دونوں Economic Development  میں گہری دلچسپی رکھتے ہیں۔ محاذ آرا ئی کی سیاست میں یقین نہیں رکھتے ہیں۔ اور استحکام کو فروغ دینا چاہتے ہیں۔ نو منتخب صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے ExxonMobil کے CEO کو سیکرٹیری آف اسٹیٹ نامزد کیا ہے۔ صدر پو تن کے ساتھ ان کی خاصی دوستی ہے۔ ExxonMobil نے روس کے ساتھ آئل کے 500 بلین ڈالر کے معاہدے کیے ہیں۔ اس معاہدے کے عوض صدر پو تن بھی اس سے کچھ چاہتے ہیں۔ کاروبار ہمیشہ کچھ لو اور کچھ دو کے اصولوں پر ہوتا ہے۔ عربوں کی طرح کاروبار نہیں کیا جاتا ہے کہ سب کچھ دینے کے بعد جنگیں انتشار اموات اور عدم استحکام  اپنے عوام کے لئے لے لیا ہے۔
    سیاست یہاں ختم نہیں ہوئی ہے بلکہ اس سے آگے بھی ہے۔ نو منتخب صدر ٹرمپ کے روس کے ساتھ اچھے تعلقات کے پیچھے اسرائیلی روسیوں کی سیاست کا بڑا دخل ہے۔ جو اسرائیل میں بہت جلد نئی قیادت کی ذمہ داریاں سنبھالیں گے ۔ اسرائیل کے روس کے ساتھ تعلقات بہت اچھے ہو گیے ہیں۔ دونوں ملکوں میں تجارتی تعلقات کو فروغ دیا جا رہا ہے۔ اور اب سارا زور امریکہ اور روس کے تعلقات بہتر بنانے پر ہے۔ نو منتخب صدر ڈونالڈ ٹرمپ انتظامیہ کی یہ پہلی ترجیح ہو گی۔ ری پبلیکن پارٹی میں روس کے ساتھ تعلقات استوار  کرنے کی حمایت بڑھتی جا رہی ہے۔ جبکہ روس کی مخالفت کرنے والے کار نر ہوتے جا رہے ہیں۔ اور یہ نمایاں تبدیلی واضح نظر آ رہی ہے۔
    حیرت کی بات ہے کہ امریکی میڈیا میں صدارتی انتخاب میں صدر پو تن کی Meddling کے خلاف خاصا شور ہے۔ لیکن FBI کے ڈائریکٹر کی انتخابات سے صرف چند روز قبل Meddling کو بالکل بلیک آؤٹ کر دیا ہے۔ ہلری کلنٹن کی شکست کو روس کی Hacking نے نہیں، حکومت کے اس تحقیقاتی ادارے کے ڈائریکٹر کی ‏Meddling کے نتیجہ میں شکست ہوئی ہے۔ اور یہ حقیقت ہے۔                                                                

No comments:

Post a Comment