Friday, January 20, 2017

Donald J. Trump, The 45th President of The United States of America

 

Donald J. Trump, The 45th President of The United States of America




Drain The Swamp Now, Before The Swamp Drains You

مجیب خان

    ڈونالڈ ٹرمپ امریکہ کے 45 ویں صدر بن گیے ہیں۔ امریکہ کی سیاست میں اب ایک نئے دور کا آغاز ہو رہا ہے۔ صدر ٹرمپ کی ایک تاریخی صدارتی مہم تھی۔ ایسی صدارتی مہم امریکہ کی تاریخ میں پہلے کبھی نہیں دیکھی گئی تھی۔ صدر ٹرمپ امریکہ کے پہلے صدر ہیں جن کا کوئی سیاسی پس منظر نہیں ہے۔ امریکہ کی دونوں بڑی سیاسی جماعتوں کی اسٹبلشمینٹ سے کوئی وابستگی ہے اور نہ ہی امریکہ کی خارجہ پالیسی اور ڈیفنس پالیسی اسٹبلشمینٹ سے کوئی تعلق ہے۔ Real estate developer بزنس میں زندگی گزری ہے۔ ایک ایسے شخص نے ری پبلیکن پارٹی کی تاریخ میں پرائم ریز میں سب سے زیادہ ووٹ لئے تھے۔ اور ری پبلیکن پارٹی کی اعلی Hierarchy کی پشت پنا ہی کے بغیر ڈونالڈ ٹرمپ نے صدارتی مہم چلائی تھی۔ اور صدر منتخب ہو گیے تھے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ صدر ٹرمپ ری پبلیکن پارٹی کی اعلی Hierarchy کی حمایت کے بغیر جس طرح صدر منتخب ہو ۓ ہیں۔ کیا ان کی انتظامیہ میں پارٹی کی اعلی Hierarchy کی حمایت کے بغیر فیصلوں اور پالیسیوں پر عملدرامد بھی اسی طرح ہو گا؟ صدر ٹرمپ کو معلوم ہے کہ لوگ ان پر اعتماد کرتے ہیں۔ اور وہ امریکی عوام میں خاصے مقبول ہیں۔ صدر ٹرمپ امریکی میڈ یا پر جب سخت تنقید کرتے ہیں۔ انٹیلی جنس پر زیادہ اعتماد نہیں کر رہے ہیں۔ جواب دینے میں دیر نہیں کرتے ہیں۔ اور Tweet کر دیتے ہیں۔ امریکی عوام اس تبدیلی کو پسند کر رہے ہیں۔ بلکہ امریکی عوام صدر ٹرمپ سے انٹیلی جنس اداروں، اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ اور پینٹاگان میں وسیع پیمانے پر تبدیلیاں کرنے کی توقع بھی کر رہے ہیں۔ ان اداروں کی وجہ سے ادھا امریکہ ابھی تک سرد جنگ میں ہے۔ اور ادھا امریکہ گلو بل ور لڈ  میں ہے۔ سرد جنگ کے بعد امریکہ کی تاریخ میں دہشت گردی کے خلاف سب سے طویل جنگ ہے۔ جو افغانستان سے شروع ہوئی تھی۔ پھر مڈل ایسٹ پہنچ گئی تھی اور اب یورپ میں داخل ہو گئی ہے۔ نیٹو کے 27 ملک افغانستان میں یہ جنگ لڑ رہے تھے۔ اور اس جنگ میں سب ناکام ہو گیے تھے۔ صدر ٹرمپ شاید اس لئے بھی نیٹو کو Obsolete کہتے ہیں۔ نیٹو افغانستان کو امن اور استحکام دینے میں ناکام ہو گیا تھا۔ اور نیٹو اب یورپ کو عدم استحکام کی طرف لے جا رہا ہے۔ روس کے ساتھ ایک Artificial کشیدگی پیدا کر کے یورپ میں ہتھیاروں کی دوڑ شروع کی جا رہی ہے۔ اور اس طرح ہتھیاروں کی کمپنیوں کے لئے نئے موقعہ فراہم کیے جا رہے ہیں۔ روس کو امریکہ کے ساتھ یا یورپ میں اگر محاذ ار آئی کی سیاست کرنا تھی۔ تو روس سرد جنگ کبھی ختم نہیں کرتا۔ سرد جنگ ختم کرنے کا فیصلہ روس نے کیا تھا۔ اور روس کو یہ یقین دلایا گیا تھا کہ نیٹو ممالک روس کی سلامتی کے لئے خطرہ نہیں بنیں گے۔
   سرد جنگ ختم ہونے کے بعد مشرقی یورپ کے ملک روس کے فوجی معاہدے سے نکل کر نیٹو میں بھرتی ہونے کی قطار میں کھڑے ہو گیے تھے۔ روس جیسے Out of Business ہو گیا تھا۔ اور نیٹو نے انہیں ملازمتیں دینا شروع کر دی تھیں۔ انہیں نیٹو میں بھرتی کر کے پھر افغانستان بھیج دیا تھا۔ مشرقی یورپ کے ملکوں نے نیٹو میں بھرتی ہونے میں جلد بازی کی تھی۔ انہیں یورپی یونین میں شامل ہو کر یورپ میں پہلے اپنی سیاسی اور اقتصادی پوزیشن مستحکم کرنا چاہیے تھی۔ روس میں عدم سیکورٹی کا احساس پیدا کرنے کے فیصلوں اور پالیسیوں سے خود کو الگ رکھنا چاہیے تھا۔ اگر نارتھ امریکہ اور لاطین امریکہ امریکہ کے خلاف ہو جائیں تو امریکہ اپنی سیکورٹی میں کیا کرے گا؟ روس اپنی سیکورٹی کے مفاد میں اپنی سرحدوں پر صرف استحکام اور امن دیکھنا چاہتا ہے۔ اور صدر ٹرمپ روس کے ان تحفظات کو با خوبی سمجھ رہے ہیں۔ لیکن روس کے ساتھ امریکہ کے اچھے تعلقات ہونے کے بارے میں صدر ٹرمپ کا موقف امریکہ کے اسٹبلشمینٹ کو تقسیم کر رہا ہے۔ تاہم صدر ٹرمپ کے موقف کی حمایت میں دھیمی دھیمی آوازیں اٹھ رہی ہیں۔ امریکہ کی خارجہ پالیسی اسٹبلشمینٹ کے گاڈ فادر ہنری کیسنجر نے دسمبر 2014 میں صدر پو تن کے ساتھ 6 گھنٹے عالمی صورت حال پر بات کی تھی۔ اور ہنری کیسنجر صدر پو تن کے تحفظات زیادہ بہتر طور پر سمجھتے ہیں۔ اس لئے وہ بھی صدر ٹرمپ کے روس کے ساتھ اچھے تعلقات بحال کرنے کی حمایت کرتے ہیں۔
   روس کے ساتھ اچھے تعلقات قائم کرنے کے بعد صدر ٹرمپ کی چین کے ساتھ تعلقات کشیدہ کرنے کی صدر ٹرمپ کی پالیسی بری طرح Back Fire ہو گی۔ چین کی دنیا کے ہر خطہ میں ساکھ  بہت اچھی ہے۔ چین سے قریبی تعلقات کے عشق میں برطانیہ نے یورپی یونین سے طلاق لے لی ہے۔ دنیا کے انتہائی کمزور اور چھوٹے ملکوں کے ساتھ جب Rule of Law میں امریکہ Fair نہیں ہے۔ تو Fair Trade کا سوال کیسا ہے؟ صدر ٹرمپ نے انتخابی مہم کے دوران امریکی عوام سے جتنے وعدے کیے ہیں۔ ان کی تکمیل کے لئے صدر ٹرمپ کو چین کے ساتھ تعلقات میں استحکام رکھنا ضروری ہے۔ ری پبلیکن پارٹی کے Hawkish صدر ٹرمپ سے امریکہ کی چین کے ساتھ تعلقات کی 40 سال پرانی پالیسی تبدیل کرنے پر زور دیں گے۔ تاہم چین کے ساتھ امریکہ کے اقتصادی تعلقات کی گہرائی اتنی زیادہ گہری ہے کہ صدر ٹرمپ کے لئے اس پالیسی کو تبدیل کرنا ممکن نہیں ہے۔ امریکہ کی کمپنیوں اور کارپوریشنوں کے لئے چین ایک بلین لوگوں کی مارکیٹ ہے۔ اور یہ امریکہ سے زیادہ چین میں کاروبار کرتی ہیں۔ پھر چین ایشیا افریقہ اور لاطین امریکہ میں Human Development پر کھربوں ڈالر انویسٹ کر رہا ہے۔ طویل المدت میں اس سے تجارت اور اقتصادی سرگرمیوں کو فروغ ملے گا۔ چین کی Human Development سرگرمیوں کی وجہ سے مشرقی ایشیا کے ملک بھی ایک بار پھر اس خطہ کو 50 اور 60 کی دہائیوں میں لے جانے کی اجازت نہیں دیں گے۔ جبکہ مشرقی ایشیا کے ملک مغربی ایشیا میں Human Destruction بھی دیکھ رہے ہیں۔ جس پر امریکہ نے کھربوں ڈالر انویسٹ کیے ہیں۔

 Fair Trade? Is Rule of Law Fair for the small and weaker nations?
China has a huge contribution in the human development, and there are forces and alliances, they have huge investment in the human destruction as we are witnessing in Syria, in Iraq, in Yemen, and in Libya.
Tensions with China would be a tussle between human development and alliances of human destruction
President Vladimir Putin and President Xi Jinping
Construction near Kenya's Capital Nairobi and funded by the Kenyan and Chinese government and the African Development Bank 
Chinese and African workers building a railway track 

     مڈل ایسٹ کے حالات دیکھ کر صدر ٹرمپ ابھی سر کھجائیں گے۔ ان کی سمجھ میں نہیں آ ۓ گا کہ کہاں سے شروع کریں۔ سابقہ دو انتظامیہ میں القاعدہ کے خلاف جنگ، Regime Change’’  ,“Arab Spring” فلسطین اسرائیل تنازعہ کے حل میں ناکامیاں، اور اب شام کی خانہ جنگی میں ہولناک انسانی المیہ اور تباہیوں کے بعد صدر ٹرمپ کو یہ فیصلہ کرنا ہے کہ وہ اس خطہ کا کیا کریں۔ اس خطہ کو اللہ نے جتنی دولت دی ہے۔ اور امریکہ کو سائنس اور ٹیکنالوجی میں جتنی ترقی دی ہے وہ انہوں نے اس خطہ میں Human Destruction پر استعمال کی ہے۔ مڈل ایسٹ میں بادشاہوں اور ڈکٹیٹروں کو شاید امریکہ پر اب بھی اعتماد ہو گا۔ لیکن عوام میں امریکہ کی ساکھ خراب ہے۔ صدر ٹرمپ کو صدر پو تن کے ساتھ مڈل ایسٹ میں استحکام اور امن کے لئے مشترکہ کوششیں کرنا ہوں گی۔ جبکہ فلسطین اسرائیل تنازعہ کو حل کرنے کے لئے صدر ٹرمپ کو اپنی کوششیں کرنا ہوں گی۔ ٹرمپ انتظامیہ کے سامنے یہ بڑے چیلنج ہیں۔
  
Human Destruction in Yemen after Saudi-American led bombing

Syrian Rebels backed by U.S and Saudi Arabia

     یہ صدارتی انتخاب اس لحاظ سے بھی تاریخی تھے کہ پہلی مرتبہ امریکی عوام میں اتنے بڑے پیمانے پر سیاسی بیداری دیکھی گئی تھی۔ صدر ٹرمپ نے 18 ماہ میں اپنی انتخابی مہم میں امریکہ کے کرپٹ نظام کے بارے میں امریکی عوام سے جو باتیں کی تھیں۔ وہ ان کے ذہنوں میں اترتی گئی تھیں۔ اور پھر امریکہ کی ہر ریاست میں ہر شہر میں انہیں بار بار لوگوں کو ذہن نشین کراتے تھے۔ We will drain the swamps” "ہم امریکی کمپنیاں واپس امریکہ میں لائیں گے" "ہم امریکہ میکسیکو سرحد پر دیوار تعمیر کریں گے۔" ہم لوگوں کو صحت عامہ کا صدر اوبامہ کے نظام سے زیادہ اچھا نظام دیں گے۔" "ہم امریکہ کے اندرونی حالات بہتر بنانے پر توجہ دیں گے۔" “We will make America great again” "ہم سڑکیں اور پلوں کی تعمیر نو کریں گے۔" "ہمارے ایرپورٹ تیسری دنیا کے ایرپورٹ بن گیے ہیں۔ ہم  جدید ترین ایرپورٹ بنائیں گے۔" "ہم لوگوں کو Good Pay Job دیں گے۔" وغیرہ وغیرہ ۔ اس مرتبہ امریکی عوام صدارتی امیدوار کی ان باتوں کو بھولیں گے نہیں اور ان پر عملدرامد کا انتظار کریں گے۔
    کانگرس میں ری پبلیکن پارٹی کی اکثریت ہے۔ لیکن صدر ٹرمپ کے ایجنڈے پر عملدرامد میں انہیں کانگرس کا کس حد تک تعاون ہو گا۔ اس کا انحصار صدر ٹرمپ کا اسٹبلشمینٹ کے ساتھ تعلقات پر ہو گا۔ ڈیمو کریٹ اقلیت میں ہیں۔ لیکن سینٹ میں یہ صدر ٹرمپ کے فیصلوں کو بلاک کر سکتے ہیں۔ تاہم دونوں پارٹیوں کی کوشش یہ ہو گی کہ صدر ٹرمپ کی خارجہ اور ڈیفنس پالیسیاں امریکہ کی روایتی اسٹبلشمینٹ پالیسیاں رہیں۔ بالخصوص روس کے ساتھ تعلقات میں محتاط رہا جاۓ۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ صدر ٹرمپ اپنی پالیسیوں پر عملدرامد میں دونوں پارٹیوں سے مزاحمت میں کہاں تک جائیں گے۔
    آئندہ سال نومبر میں کانگرس اور سینٹ کے مڈ ٹرم الیکشن ہوں گے۔ اب جو کانگرس مین اور سینٹر ان کے لئے مسئلہ بنیں گے صدر ٹرمپ ان کے منتخب ہونے میں مسئلہ بن سکتے ہیں۔ لہذا ان کے لئے صدر ٹرمپ کے فیصلوں اور پالیسیوں کے خلاف جانا ذرا مشکل ہو گا۔ صدر ٹرمپ کے لئے نشیب و فراز بھی ہیں لیکن آ گے بڑھنے کے راستے بھی کشادہ ہیں۔ آئندہ چھ ماہ میں یہ واضح ہو جاۓ گا کہ صدر ٹرمپ کدھر جا رہے ہیں؟           

No comments:

Post a Comment