People, Politics, And Pakistan
Why Should People Elect The People's Party For A Fifth Time?
مجیب خان
وہ
ملک ریاض کے نجی طیارے سے آۓ تھے۔ کراچی ایرپورٹ کے قریب انہوں نے پارٹی کے
کارکنوں سے خطاب کیا اور پھر پرندے کی طرح اپنی پارٹی کے کارکنوں کے سروں پر سے اڑ
گیے تھے۔ پارٹی کے کارکن انہیں دیکھتے رہ گیے۔ اور وہ ہیلی کاپٹر میں اپنے گھونسلے
کی طرف اڑے جا رہے تھے۔ یہ ہیلی کاپٹر بھی شاید کسی دولت مند کا تھا۔ طیارہ ملک
ریاض کا تھا۔ ہیلی کاپٹر کسی دولت مند کا تھا۔ اس میں پرواز کرنے والا غریب عوام
کا لیڈر آصف علی زر داری تھا۔ پارٹی کے یہ کارکن دور دراز سے ٹرکوں اور گاڑیوں میں
ایرپورٹ آۓ تھے۔ گھنٹوں زر داری کی دوبئی سے آمد کا انتظار کیا تھا۔ کاش پارٹی کے
کارکنوں کے بھی ہیلی کاپٹر ہوتے وہ بھی زر داری کے ساتھ اس طرح اڑے جاتے جیسے
پرندوں کے غول اڑے جاتے ہیں۔ لیکن زر داری کے ہیلی کاپٹر کی پرواز اور زمین پر
کھڑے غریب کارکنوں کے درمیان یہ زمین اور آسمان کا فاصلہ تھا۔ آخر انہیں کس کا خوف
تھا کہ وہ کراچی ایرپورٹ سے اپنی رہائش گاہ ہیلی کاپٹر میں گیے تھے۔ حالانکہ کراچی
کے حالات بہت بہتر ہو گیے ہیں۔ کراچی سے ہزاروں ٹن اسلحہ حکومت کی تحویل میں آ گیا
ہے۔ دہشت گردی کے خلاف مہم کی یہ کامیابی ہے کہ اس نے شہریوں میں زندگی کا اعتماد
بحال کیا ہے۔ اور یہ کریڈٹ فوج کو دیا جاۓ گا۔ اس مہم کے دوران بڑے انکشافات بھی
ہوۓ ہیں۔ ہتھیاروں کے ذخیرے پکڑے ہیں۔
صوبائی حکومت کے ایک وزیر کے گھر سے لاکھوں روپے نکلے تھے۔ جن کے بارے میں پتہ چلا تھا کہ یہ وزیر
بھی بھتہ خوری میں ملوث تھے۔ اور روپوش ہو گیے تھے۔ یا دوبئی فرار ہو گیے تھے۔
ایسے انکشافات لیاری میں رینجرز کے آپریشن کے دوران بھی سامنے آۓ تھے۔ اب جو لوگ
رینجرز کے آپریشن سے خوفزدہ ہیں۔ اور روپوش ہیں یا حراست میں ہیں اور ان سے تفتیش ہو
رہی ہے۔ آصف علی زر داری شاید ان سے خوفزدہ ہیں۔
پاکستان کے عوام ذوالفقار علی بھٹو کو ہمیشہ یاد رکھیں گے۔ بے نظیر بھٹو کو
بھی یاد رکھیں گے۔ لیکن آصف علی زرداری کے بدترین دور اقتدار کو کبھی نہیں بھولیں
گے۔ یہ 1971 کے بعد پاکستان کی تاریخ کا ایک سیاہ دور تھا۔ جس میں دہشت گردوں کے
حملہ ہو رہے تھے۔ پاکستان کے سیکورٹی اداروں پر حملے ہو رہے تھے۔ زر داری حکومت نے
بھارت کے ساتھ سرحدیں کھول دی تھیں۔ بجلی بند کر کے ملک کو تاریک کر دیا تھا۔ گیس
بند کر کے فیکٹر یوں اور کار خانوں میں تالے ڈال دئیے تھے۔ اور لوگوں سے کہا جا
رہا تھا کہ وہ اپنا سرمایہ بھارت لے جائیں۔ امریکہ سے سی آئی اے کے ایجنٹوں سے
بھرے طیارے اسلام آباد ایرپورٹ پر کھڑے ہوتے تھے اور پھر آصف علی زر داری کے حکم
پر انہیں ملک میں داخل ہونے کے لئے ویزے دئیے جاتے تھے۔ واشنگٹن میں زر داری کا سفیر
سینٹ میں پاکستان کا سودا کر رہا تھا۔ اور اب آصف علی زر داری گلے پھاڑ کر کہتے
ہیں ہمیں نہیں چھیڑو ہمیں تنگ نہیں کرو "بی بی کے نام پر با با کے نام پر
ہمیں اقتدار دے دو" انہیں پہلے احتساب کے لئے عوام کی عدالت میں پیش ہونا چاہیے۔
اپنے اقتدار کی ہوس میں بلاول زر داری کو بھی اپنی غلیظ سیاست میں گھسیٹ رہے ہیں۔
اپنی اس سیاست سے یہ بلاول زر داری کی Political Virginity ختم کر دیں گے۔
بہتر ہو گا انہیں اپنی غلیظ سیاست سے دور
رہنے رکھیں۔
گزشتہ سال بلاول زر داری نے پیپلز پارٹی کی بیٹری چارج کرنے کا آغاز لاہور
میں پارٹی کے کارکنوں سے خطاب کرنے سے کیا تھا۔ اور پھر وہ سندھ گیے تھے۔ اور
پارٹی کے کارکنوں سے خطاب میں بلاول زر داری بہت جذباتی ہو گیے تھے۔ اور اپنی
والدہ کو انصاف نہ ملنے پر پارٹی کے کارکنوں سے انتقام کے لئے عہد کا اصرار کر رہے
تھے۔ انتقام لینے کی یہ 70 کے عشرہ کی سیاست تھی۔ اور اس سیاست نے پاکستان میں
مذہبی Radicals
پیدا کیے تھے۔ بلاول زر داری کو اکیسویں صدی کے لئے پاکستان کی سیاست Shape دینے کی بات کرنا چاہیے۔ نئے
سیاسی Ideas
عوام بالخصوص نوجوانوں کو دینا چاہیے۔ انتقام لینے کی باتیں 70 اور 80 کی دہائی کی
سیاست تھی۔ اور یہ سیاست اب out
dated ہو چکی ہے۔ بلاول زر داری اس وقت
28 سال کے ہیں۔ اور اگر وہ اس راستہ پر جاتے ہیں۔ تو پھر ان کی سیاست کا سورج بھی
جلد غروب ہو جاۓ گا۔ اور جب بلاول زر داری 40 اور 45 سال کے ہوں گے تو ان کی سیاسی
زندگی بھی شاید ختم ہو چکی ہو گی۔ انہیں سیاست کے اکھاڑے میں کشتیاں کرنے کے بجاۓ
پہلے پاکستان کی سیاست کا گہرائی سے مطالعہ کرنے اور اسے سمجھنے کی ضرورت ہے۔
بلاول زر داری کی پرورش برطانیہ میں ہوئی ہے۔ اور برطانیہ میں تعلیم حاصل کی ہے۔
انہوں نے برطانیہ کا جمہوری شاہی نظام بھی دیکھا ہے کہ کس طرح کام کرتا ہے۔ شہزادہ
William اور
شہزادہ Harry بھی ایک دن برطانیہ کے بادشاہ ہوں گے۔ لیکن شہزادہ William اور
شہزادہ Harry
تعلیم حاصل کرنے کے بعد فوج میں گیے تھے۔ فوجی تربیت لی تھی اور انہوں نے ایک سال
افغانستان اور ایک سال عراق میں فوجی ڈیوٹی دی تھی۔ بلاول زر داری کو سیاست میں
آنے سے پہلے ملک ریاض کے بحریہ ٹاؤن کے تعمیراتی پروجیکٹ میں مزدوروں کے ساتھ کم
از کم چھ ماہ کام کرنا چاہیے تھا۔ تاکہ انہیں مزدوروں کی سوچ اور ان کے مسائل کا
علم ہو جاتا کہ یہ اشرفیہ کے طبقہ سے کتنا مختلف طبقہ ہے۔ ایک طبقہ آسمان پر ہے
اور دوسرا طبقہ زمین پر ہے۔ اور پھر بلاول زر داری کو سندھ میں کسی چانڈیو وڈیرے
کی زمین پر ہار یوں کے ساتھ چھ ماہ کام کرنا چاہیے تھا۔ تاکہ انہیں پھر وڈیروں کا
ہاریوں کے ساتھ Caste
سسٹم کو سمجھنے میں مدد ملتی۔ بلاول زر داری کی یہ تربیت انہیں اکیسویں صدی کا
لیڈر بنا سکتی ہے۔ آصف علی زر داری اور میاں نواز شریف out dated سوچ
کی out dated سیاست کو پیٹے جا رہے ہیں۔ عوام ایک ایسے لیڈر کی تلاش میں ہے جو پاکستان
میں اکیسویں صدی کے تقاضوں کے مطابق تبدیلیاں لانے کی صلاحیت رکھتی ہے۔
میاں
نواز شریف تیسری بار جب وزیر اعظم تھے۔ وہ طالبان کا نظام رائج کرنے جا رہے تھے۔
اور پاکستان کو پتھر کے دور میں لے جانا چاہتے تھے۔ اور اب چوتھی بار وزیر اعظم بن
کر نواز شریف نے پاکستان میں برطانوی نوآبادیات کا اٹھارویں صدی کا ڈپٹی کمشنر کا
نظام بحال کر دیا ہے۔ اور پاکستان کو برطانوی نوآبادیات کے دور میں لے آۓ ہیں۔ اور
یہ پاکستان میں Political Brain
Drain ہونے کے
ثبوت ہیں۔ اگر ان میں تخلیقی سیا سی سوچ ہوتی وہ پاکستان کے اداروں کو نوآبادیاتی
طریقوں سے موثر بنانے کے بجاۓ ایک نئی سیاسی سوچ سے اداروں کو موثر بنانے کے
منصوبے عوام کے سامنے رکھتے۔ لیکن وزیر اعظم نواز شریف نے دیکھا کہ یہ ڈپٹی کمشنر کا
نظام تھا۔ جس نے محترمہ فاطمہ جناح کی انتخابی ناکامی کو یقینی بنایا تھا۔ اور
جنرل ایوب خان بھاری اکثریت سے صدارتی انتخاب جیت گیے تھے۔ اس لئے وزیر اعظم نواز
شریف بھی آئندہ انتخابات میں شاید ڈپٹی کمشنروں میں اپنی بھاری اکثریت سے کامیابی
دیکھ رہے ہیں۔
پیپلز
پارٹی کی قیادت کے سیاسی نااہل ہونے کا یہ بھی ایک ثبوت ہے کہ زر داری حکومت میں
پارلیمنٹ نے متفقہ طور پر سرائیکی صوبہ بنانے کی قرارداد منظور کی تھی۔ ملتان میں
لوگوں کو مٹھائیاں کھلائی گئی تھیں۔ لوگ سڑکوں پر خوشی سے ناچ رہے تھے۔ یوسف رضا
گیلانی بھی لوگوں کے ہر دلعزیز ہو گیے تھے۔ لیکن پھر کیا ہوا؟ سرائیکی صوبہ نہیں
بنا۔ پارلیمنٹ کا کام جیسے لوگوں کو بیوقوف بنانا ہے۔ حالانکہ سرائیکی صوبہ اگر بن جاتا تو پنجاب میں یہ پیپلز پارٹی
کا گڑھ ہوتا۔ اور سندھ کے بعد سرائیکی صوبہ میں بھی پیپلز پارٹی کی حکومت ہوتی۔
لیکن مسئلہ یہ ہے کہ دولت بٹورنے کی سوچ رکھنے والے صرف دولت بٹورنے کے طریقہ
جانتے ہیں۔ پارٹی کے مفاد میں سیاسی طریقہ نہیں جانتے ہیں۔
عمران
خان کے لئے اقتدار کی خواہش اتنی اہم نہیں ہے کہ جتنا کرپشن کے خلاف مشن ان کے لئے
اہمیت رکھتا ہے۔ پاکستان میں یہ دیمک کی طرح ہے۔ جو نسلوں کو، اداروں کو، مذہبی
قدروں کو، مسجدوں کو، مولانا فضل الرحمن جیسے عالم دینوں کو کھاۓ جا رہا ہے۔ پاکستان
کے لوگوں کو سیاست سے بالاتر ہو کر اس نیک مشن میں ان کے ساتھ کھڑا ہونا چاہیے۔
عمران خان کا یہ مشن پانچ وقت کی نمازوں سے بڑی عبادت ہے۔ معاشرہ جب صاف ستھرا ہو
گا۔ پھر نمازیوں کا اللہ اور ان کے درمیان فاصلہ بھی کم نظر آۓ گا۔ کرپشن کے خلاف
مہم اسی طرح ہے کہ جس طرح جمہوریت کی بحالی کی تحریک تھی۔ عمران خان کی یہ Legacy ہو
گی۔
No comments:
Post a Comment