Sunday, January 15, 2017

The Champion Of Human Rights Disregards The Twenty-Four Million People Of Syria

The Champion Of Human Rights Disregards The Twenty-Four Million People Of Syria  

Syria Has Become A Graveyard For Human Rights

مجیب خان
New United Nations Secretary General Antonio Guterres

Destruction of Syria

Syria

    اقوام متحدہ کے نئے سیکرٹیری جنرل Antonio Guterres نے سلامتی کونسل میں اپنے خطاب میں کہا ہے ک تنازعوں کے آگے رکاوٹیں کھڑی  کرنے کے بجاۓ انہیں حل کرنے پر زیادہ توجہ دی جاۓ۔ سیکرٹیری جنرل نے کہا "انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں اور بڑے پیمانے پر تباہی سے بچنے کے لئے اسے روکنے کے فوری اقدام ضروری ہیں۔ اور ہم یہ صرف معقول مذاکرات، حقائق کی بنیاد پر اور حق تلاش کر کے حاصل کر سکتے ہیں۔" سیکرٹیری جنرل نے کہا " خود مختار طاقتور ریاستیں اپنے عوام کی بہبود میں اسے روکنے میں بہتر اقدام کر سکتی ہیں۔ انتہائی سنگین خطرے کی صورت میں اقوام متحدہ کے چارٹر کی آرٹیکل 6 کے تحت وسیع اختیار حاصل کرنے کا مطالبہ کیا جا سکتا ہے۔ جس کے تحت عالمی ادارے کو تفتیش کرنے کا اختیار حاصل ہو گا۔ اور تنازعہ کو ختم کرنے کے لئے یہ تجویزیں بھی دے سکے گا۔ اور ہم مصالحت کرانے میں اپنی صلاحیتوں کو وسعت دینے کے اقدام بھی کر سکے گے۔ یہ اقوام متحدہ کے ہیڈ کوارٹر اور تنازعوں کے میدان دونوں جگہوں پر ہوں گے۔ اور علاقائی اور قومی مصالحت کی کوششوں کی حمایت بھی کی جاۓ گی۔ شام کی جنگ میں اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل بالکل مسدود ہو گئی تھی۔ روس اور چین، امریکہ فرانس اور برطانیہ سے اختلاف کرتے تھے۔ سلامتی کونسل جنوبی سوڈان، Burundi یمن اور دوسرے تنازعوں میں بھی تقسیم ہو گئی تھی۔ جس کی وجہ سے انہیں روکنے کے بہت سے موقعہ رکن ملکوں میں ایک دوسرے کے موقف سے عدم اعتماد اور قومی خود مختاری سے گہری وابستگی کی وجہ سے ضائع ہو گیے تھے۔ اقوام متحدہ کے نئے سیکرٹیری جنرل نے قوموں کو متحد کرنے اور ان کے اختلاف ختم کرنے کے عزم کا اظہار کیا ہے۔
  
Syria

Syria

Syria

     حالیہ سالوں میں دنیا میں جنگوں کی لہر آئی ہے۔ اس میں ہر طرف بڑے پیمانے پر صرف انسانی تباہی اور المیہ دیکھے جا رہے ہیں۔ دنیا کے لئے یہ انتہائی تکلیف دہ صورت حال بن گئی ہے۔ جن ملکوں میں بھر پور فوجی طاقت سے حکومتیں تبدیل کی گئی ہیں۔ وہاں آمروں کے دور میں ہونے والی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے مقابلے میں اب انسانی حقوق کی مسلسل خلاف ورزیوں کا ایک سلسلہ شروع ہو گیا ہے۔ اور انہیں روکنے کے لئے نئے فوجی حملہ بھی ناکام ہو گیے ہیں۔ افغانستان میں طالبان کے دور میں انسانی حقوق کو جس طرح پامال کیا جاتا تھا۔ طالبان نے اپنی جیلیں قائم کر لی تھیں۔ جہاں طالبان اپنے مخالفین کو اذیتیں دیتے تھے۔ طالبان کو اقتدار سے ہٹانے کے بعد پھر امریکہ اور نیٹو فوجوں نے افغانستان میں اپنے نظر بندی کیمپ قائم کر لئے تھے۔ بگرام سب سے بڑا نظر بندی  کیمپ تھا۔ یہاں طالبان اور ان کے حامی افغانوں کو رکھا جاتا تھا۔ انہیں یہاں تفتیش کے دوران اذیتیں بھی دی جاتی تھیں۔ افغان وار لارڈ نے بھی اپنے علاقوں میں جیلیں قائم کر لی تھیں۔ اور یہ طالبان کے نام پر اپنے مخالفین کو اپنی جیلوں میں رکھتے تھے۔ اور ان سے بدترین سلوک کرتے تھے۔ جنگیں اور خانہ جنگی انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں ہیں۔ ترقی یافتہ جمہوری قومیں تنازعوں کو پرامن طریقوں سے حل کرتی ہیں۔ اس لئے جمہوری حکومتوں اور آمرانہ حکومتوں میں فرق ہوتا ہے۔ لیکن اب اس کے برعکس دیکھا جا رہا ہے۔ آمرانہ حکومتیں اپنے استحکام میں جنگ سے گریز کرنے لگی ہیں۔ جبکہ ترقی یافتہ جمہوری حکومتیں اپنی سلامتی میں جنگوں پر انحصار کرنے لگی ہیں۔
    ہم پھر یہ دیکھتے ہیں کہ ترقی یافتہ جمہوری حکومتوں نے عراق میں ایک آمر کو اقتدار سے ہٹانے کے لئے پہلے غیر قانونی حملہ کیا تھا۔ پھر عراق میں انتشار پھیلایا تھا۔ عراق میں مذہبی فرقہ پرستی کی سیاست کو شہ دی تھی۔ عراقیوں کو ایک طرف غیر ملکی فوجوں کی سرگرمیوں کا سامنا تھا۔ اور دوسری طرف داخلی خانہ جنگی کا سامنا تھا۔ غیرملکی فوجیں عراق میں نظم و ضبط پر توجہ دینے کے بجاۓ داخلی خانہ جنگی اور قبائلی لڑائیوں کو Manage کرنے میں مصروف ہو گئی تھیں۔ ہزاروں بے گناہ عراقی اس جنگ اور ان لڑائیوں میں مارے گیے تھے۔ یہ جنگ ان کی تھی اور نہ ہی یہ لڑائیاں ان کی تھیں۔ یہ ان پر مسلط کی گئی تھیں۔ امریکی حملہ کے 13 سال بعد صرف گزشتہ سال اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق عراق میں 16 ہزار عراقی مارے گیے تھے۔ صدام حسین کی آمریت میں بھی ایک سال میں 16 ہزار عراقی کبھی نہیں مارے گیے تھے۔ عراق میں اب انسانی حقوق ہیں اور نہ ہی مذہبی حقوق ہیں۔
    شام اکیسویں صدی کا ایک خوفناک انسانی المیہ ہے۔ ایک شخص واحد کو اقتدار سے ہٹانے کے لئے Bunch of Countries نے سارا ملک تباہ کر دیا ہے۔ ان میں وہ ممالک بھی شامل تھے جن کی جمہوری قدریں تھیں۔ اور یہ انسانی حقوق کے بہت بڑے علمبر دار تھے۔ اور دنیا میں قانون کی حکمرانی کے دعویدار تھے۔ اور ایسے ممالک بھی تھے جن کا جمہوریت سے کوئی تعلق تھا۔ اور نہ ہی وہ انسانی حقوق میں یقین رکھتے تھے۔ ان کے اس اتحاد نے شام کے 24 ملین لوگوں کو بالکل نظر انداز کر دیا تھا جیسے یہ لوگ ان کے لئے انسانوں میں شمار نہیں ہوتے تھے۔ اور ایک شخص کے خلاف اپنی جنگ ان پر مسلط کر دی تھی۔ اور د مشق حکومت کے خلاف یہ دہشت گردوں کی پرورش کر رہے تھے۔ 6 سال میں انہوں نے شام کو انسانی حقوق کا قبرستان بنا دیا ہے۔ شام کے 24 ملین لوگوں کے ساتھ یہ ظلم ان کے آمر کے ظلم سے بھی کہیں بڑا ظلم ہے۔ تاریخ ان قوموں کو شاید کبھی معاف نہیں کرے گی جو 5 سال سے شام کو تباہ کرنے  میں معاونت کر رہے تھے۔
    انسانی حقوق ایک ایسا ہتھیار بن گیا ہے۔ جسے مختلف ملکوں کے خلاف مختلف سیاسی مقاصد میں استعمال کیا جاتا ہے۔ سرد جنگ میں انسانی حقوق کو اشتراکی ملکوں کے خلاف امریکہ کی خارجہ پالیسی کا ایک کار نر اسٹون بتایا گیا تھا۔ لیکن ایشیا افریقہ اور لاطین امریکہ میں آمرانہ فوجی حکومتیں جو انسانی حقوق کو اپنا دشمن سمجھتی تھیں۔ سرد جنگ میں امریکہ کی خارجہ پالیسی میں انہیں اہم اتحادی کا مقام دیا گیا تھا۔ طالبان مجاہدین جو انسانی حقوق میں ایمان نہیں رکھتے تھے۔ وہ بھی سوویت یونین کے خلاف جنگ میں امریکہ کے اتحادی بن گیے تھے۔ امریکہ کی یہ پالیسی بدلی نہیں ہے۔ شام میں ان ہی جہادیوں کے ساتھ جو مختلف شکلوں میں تھے۔ د مشق حکومت کے خلاف امریکہ کا ان کے ساتھ اتحاد تھا۔ لیکن حماس کے ساتھ امریکہ کا کبھی اتحاد نہیں ہو گا۔ جو د مشق حکومت کے مقابلے میں اسرائیلی فوجی قبضہ میں انتہائی بدترین حالات میں ہیں۔ اور انسانی حقوق کے تمام بنیادی حقوق سے محروم ہیں۔ غازہ انسانوں کا Slaughter house ہے۔ غازہ کے حالات دیکھ کر صد ام حسین کے دور میں عراق زیادہ جمہوری نظر آتا تھا۔ لیکن مغربی دنیا اسرائیل کو مشرق وسطی میں جمہوریت کا جزیرہ کہتی ہے۔ جمہوریت میں ریاست کو مسلسل حالات جنگ میں نہیں رکھا جاتا ہے۔

  
Syria

Syria

Syria

Syrian Child, Aylan Kurdi, dies while trying to escape Syria by crossing the Mediterranean 
    اقتصادی بندشیں مفادات کی سیاست کا نیوکلیر ہتھیار ہے۔ انسانیت کے لئے اقتصادی بندشیں اتنی ہی خطرناک ہیں کہ جیسے نیوکلیر ہتھیار ہیں۔ اقتصادی بندشوں سے لوگوں کی زندگیاں بری طرح متاثر ہوتی ہیں۔ لوگوں کو بنیادی انسانی ضرورتوں سے محروم کر دیا جاتا ہے۔ نوے کے عشرہ میں عراق پر اقتصادی بندشوں کے لوگوں پر انتہائی خوفناک اثرات ہوۓ تھے۔ ہزاروں لوگ ان بندشوں کے نتیجہ میں ہلاک ہو گیے تھے۔ اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق عراق میں اقتصادی بندشوں سے پانچ لاکھ معصوم بچے پیدائش کے ابتدائی مہینوں میں مر گیے تھے۔ عراق کے خلاف یہ اقتصادی بندشیں انتہائی آمرانہ تھیں۔ جس میں مہلک ہتھیاروں کے استعمال سے نہیں بلکہ اقتصادی بندشوں کے ذریعہ انسانیت کے خلاف کرائم کیے گیے تھے۔ لیکن انتہائی خطرناک تنازعوں میں امریکہ اور مغربی ملکوں نے ہتھیاروں کی فراہمی پر ایسی بندشیں کبھی نہیں لگائی تھیں۔ یہ ایسے اہم ایشو ہیں۔ جو عالمی امن اور استحکام پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ اقوام متحدہ کے نئے سیکرٹیری جنرل Antonio Guterres کو ان پر خصوصی توجہ دینا ہو گی۔ دنیا کا امن اور استحکام بحال کرنے کو پہلے ترجیح دینا ہو گی۔                            

No comments:

Post a Comment