Tuesday, February 21, 2017

America’s Decision To Block Libya Envoy On Israel’s Objection Was Not President Trump’s "America First" Strategy

America’s Decision To Block Libya Envoy On Israel’s Objection Was Not President Trump’s "America First" Strategy     

Israel Is Allergic To The Word “Palestine”

مجیب خان
Israeli Prime Minister and U.S. President meet at the White House

Israel's largest city, Tel Aviv

Palestinian refugees in Syria agree to work with Assad to oust ISIS from refugee camps

Lebanon refugee camp shelters Palestinians, haunted by memories of war, past and present 

     اسرائیل 69 سال کا ہو گیا ہے۔ لیکن امریکہ نے اسرائیل کو جیسے ابھی تک grow up نہیں ہونے دیا ہے۔ امریکہ کی انگلی پکڑ کر چلنے کی اسرائیل کی عادت بن گئی ہے۔ امریکہ کے لا ڈ و پیار نے اسرائیل کو brat بنا دیا ہے۔ اسرائیل جب سے وجود میں آیا ہے۔ اس نے جب بھی امریکہ سے جو مانگا ہے۔ امریکہ نے کبھی نہیں کیا ہے اور اسرائیل کو وہ فراہم کر دیا ہے۔ اقوام متحدہ کے 192 رکن ملکوں میں اسرائیل ابھی تک امریکہ کے سہارے پر ہے۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں اسرائیل کے خلاف یا اس کی مذمت میں قراردادوں کو امریکہ نے ہمیشہ ویٹو کیا ہے۔ اور اسرائیل کو خود ان قراردادوں کا سامنا کرنے کے قابل نہیں بنایا ہے۔ گزشتہ سال  اوبامہ انتظامیہ نے مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں نئی یہودی بستیاں آباد کرنے کی اسرائیلی پالیسی کے خلاف سلامتی کونسل میں ‍قرارداد کو جسے کونسل کے 14 اراکین نے متفقہ طور پر منظور کیا تھا۔ لیکن امریکہ نے قرارداد کو ویٹو نہیں کیا تھا صرف ووٹنگ میں حصہ  نہیں لیا تھا۔ جس پر اسرائیل نے خاصا واویلا کیا تھا کہ اوبامہ انتظامیہ نے اس قرارداد کو ویٹو کیوں نہیں کیا تھا؟ اسرائیل کا behavior بالکل brat بچے جیسا تھا۔ اوبامہ انتظامیہ کو اسرائیل کے اس Behavior پر اسے  38 بلین ڈالر کی امداد یاد دلا کر خاموش کرنا پڑا تھا۔
    ٹرمپ انتظامیہ نے اسرائیل کی حمایت میں سلامتی کونسل میں پہلا ویٹو  کیا ہے۔ جس سے بہت سے ذہنوں میں یہ سوال پیدا ہو رہا ہے کہ سلامتی کونسل میں یہ ویٹو کیا America first تھا یا Israel first تھا۔ صدر ٹرمپ نے یہ بھی کہا تھا کہ امریکہ کو دنیا میں اب کوئی استعمال نہیں کرے گا۔ لیکن امریکہ صدر ٹرمپ کے اقتدار میں آنے کے بعد پہلے تیس دن میں استعمال ہو گیا ہے۔ اقوام متحدہ کے سیکرٹیری جنرل Antonio Guterres نے فلسطینی اتھارٹی کے سابق وزیر اعظم سلام فیائد (Salam Fayyad) کو لیبیا کے لئے اقوام متحدہ کا خصوصی نمائندہ نامزد کیا تھا۔ لیبیا میں وزیر اعظم فیاض سراج کی حکومت کو اقوام متحدہ کی حمایت حاصل ہے۔ اور یہ حکومت ملیشیا اور اسلامی انتہا پسندوں کے خطرے کا سامنا کر رہی ہے۔ سلام فیائد اقوام متحدہ کے خصوصی نمائندہ کی حیثیت سے وزیر اعظم فیاض سراج کی حکومت کو کامیاب بنانے میں معاونت کرتے اور حکومت اور مختلف گروپوں میں مصالحت کرانے کوششیں کرتے۔ 2011 میں امریکہ اور نیٹو کی فوجی مداخلت کے نتیجہ میں صدر قدافی کی حکومت کا زوال ہوا تھا۔ جس کے بعد لیبیا خانہ جنگی کا سامنا کر رہا ہے۔ داعش اور دوسرے اسلامی انتہا پسند گروپ لیبیا میں قدم جمانے کے لئے لڑ رہے ہیں۔ سابق فلسطینی وزیر اعظم سلام فیائد کی اقوام متحدہ کے خصوصی نمائندہ براۓ لیبیا کا اسرائیل سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ ٹرمپ انتظامیہ نے اسرائیل کو خوش کرنے کے لئے اس نامزدگی کو ویٹو کر کے دراصل اقوام متحدہ کی لیبیا میں استحکام اور امن کی کوششوں کو سبوتاژ کیا ہے۔ حالانکہ سابق فلسطینی وزیر اعظم کی اقوام متحدہ کے لیبیا کے لئے خصوصی نمائندے کی نامزدگی سے اسرائیل کا کوئی تعلق بھی نہیں تھا۔ کیونکہ اسرائیل کو فلسطینیوں سے نفرت ہے۔ اس لئے اسرائیل نے سابق فلسطینی وزیر اعظم سلام فیائد کی نامزدگی کی مخالفت کی ہے۔ اور ٹرمپ انتظامیہ نے اسرائیل سے Obsession میں سلامتی کونسل میں اس نامزدگی کو ویٹو کر دیا۔ مشرق وسطی میں 80 فیصد مسائل امریکہ کی ان پالیسیوں کی وجہ سے پیدا ہو رہے ہیں۔ اس نامزدگی کو ویٹو کرنے کی کوئی ضرورت نہیں تھی۔ اقوام متحدہ کے سیکرٹیری جنرل Antonio Guterres کو 190 ملکوں نے اس عہدے کے لئے منتخب کیا ہے۔ اور یہ ویٹو سیکرٹیری جنرل اور 190 ملکوں کی توہین تھا۔
    سلام فیائد نے مغرب میں تعلیم حامل کی تھی۔ 2007 سے 2013 تک فلسطینی اتھارٹی کے وزیر اعظم تھے۔ سلام فیائد نے اپنے دور میں جو اصلاحات کی تھیں۔ بش انتظامیہ نے انہیں خاصا سراہا یا تھا۔ سابق وزیر اعظم سلام فیائد کے لیبیا میں قدافی دور سے پرانے تعلقات تھے۔ اور وہ لیبیا میں سیاسی استحکام کے لئے بہتر کردار کر سکتے تھے۔ سلام فیائد لیبیا میں مختلف سیاسی کرداروں کو جانتے تھے۔ اور عربی بھی بولتے تھے۔ اقوام متحدہ کے سیکرٹیری جنرل کا یہ ایک اچھا انتخاب تھا۔ لیبیا میں داعش، القا عدہ اور اسلامی انتہا پسندی کے خاتمہ کی سیاسی کوشش میں سلام فیائد ایک اہم رول ادا کر سکتے تھے۔ لیکن اسرائیل کی سیاست میں امریکہ نے ویٹو کر کے  اپنی سیاست کے لئے ہمیشہ مشکلات پیدا کی ہیں۔ اور دنیا کے لئے Miserable حالات پیدا کیے ہیں۔  صدر ٹرمپ نے اپنے اس انتخابی وعدہ کو پورا نہیں کیا ہے کہ امریکہ کو ہمیشہ سب نے استعمال کیا ہے۔ لیکن جب وہ صدر ہوں گے تو امریکہ کو کوئی استعمال نہیں کرے گا۔ لیکن سلامتی کونسل میں سیکرٹیری جنرل کے لیبیا کے لئے خصوصی نمائندہ کی نامزدگی کی اسرائیل کی مخالفت پر ویٹو کر نے کا فیصلہ دراصل اسرائیل نے امریکہ کو استعمال کیا ہے۔ حالانکہ مڈل ایسٹ میں امن اور استحکام کی سیاسی کوششوں میں اقوام متحدہ سے تعاون کرنے میں امریکہ کا مفاد تھا۔
    مشرق وسطی میں امریکہ کی پالیسیاں اب امریکہ کو Dead End پر لے آئی ہیں۔ اور اسرائیل کی ساٹھ سال کی پالیسیاں اب Back Fire ہو رہی ہیں۔ اسرائیل باکس میں بند ہو گیا ہے۔ صدر ٹرمپ نے یہ کہہ کر کہ امریکہ فلسطین اسرائیل تنازعہ میں   Two States حل پر زور نہیں دے گا، اس تنازعہ سے کنارہ کشی اختیار کی ہے۔ اور اسرائیل سے یہ کہا ہے کہ اگر وہ Two States چاہتا ہے یا One States دونوں پارٹیاں اگر اس فیصلے سے خوش ہیں تو امریکہ کو بھی یہ قبول ہو گا۔ اور یہ گیند اب اسرائیل کے کورٹ میں آ گئی ہے۔ یورپ میں اسرائیل تنہا ہوتا جا رہا ہے اور امریکہ میں راۓ عامہ اسرائیلی پالیسیوں کے خلاف ہوتی جا رہی ہے۔ میڈیا میں جسے Anti-Semitism کہا جا رہا ہے۔ یہ اسرائیل کی پالیسیوں کے خلاف رد عمل ہے۔ اسے Anti-Semitism کہنا غلط ہے۔ سعودی عرب کی پالیسیوں کے خلاف رد عمل کو Anti-Islam نہیں کہا جاۓ گا۔
    عراق اور شام کو تقسیم کرنے میں ناکام ہونے کے بعد اب مشرق وسطی کو نئے سیاسی اتحاد میں تقسیم کرنے کی سازش ہو رہی ہے۔ سنی عربوں اور اسرائیل کا اتحاد بنانے کی بھی ایک تحریک زیر غور ہے۔ اور ایران، شام، عراق اور لبنان کو اپنا ایک علیحدہ اتحاد بنانے کی طرف دھکیلا جا رہا ہے۔ جبکہ روس کا جھکاؤ شاید اس اتحاد کی طرف ہو گا۔ ترکی ایران کا ہمسایہ ہے۔ شام اور عراق بھی ترکی کے ہمسایہ ہیں۔ لہذا ترکی کے لئے سنی عربوں کے اتحاد میں شامل ہو کر اپنے قریبی ہمسائیوں کے خلاف محاذ بنانا ممکن نہیں ہو گا۔ مشرق وسطی کا جو بھی سیاسی نقشہ بنتا ہے۔ عربوں کے مقبوضہ علاقہ اور مہاجر کیمپوں میں فلسطینیوں کا تنازعہ پھر بھی رہے گا۔ سنی عرب اور اسرائیل اس کو کس طرح حل کرتے ہیں۔ یہ سوال پھر بھی کشیدگی کا سبب بنا رہے گا۔
    سنی عربوں نے اگر اسرائیل کو تسلیم کر لیا اور اس کے ساتھ تعلقات بحال ہو گیے تو پھر فلسطین کے تنازعہ کا حل اور مشکل ہو جاۓ گا۔ خلیج کی عرب ریاستوں نے اسرائیل کے ساتھ ابھی صرف رابطہ بحال کیے ہیں۔ اسرائیل کے ساتھ محدود تجارت شروع کی ہے۔ سعودی عرب نے بھی اسرائیل کے ساتھ بات چیت کے دروازے کھولیں ہیں۔ ایران کے مسئلہ پر سعودی عرب اور اسرائیل ایک page پر آ گیے  ہیں۔ اسرائیل کے ساتھ سنی عربوں کی ان سرگرمیوں کا نتیجہ یہ دیکھا جا رہا ہے کہ اسرائیل نے آزاد فلسطینی ریاست کا قیام ترک کر دیا ہے۔ اور مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں نئی یہودی بستیاں تعمیر کرنے کا کام تیز کر دیا ہے۔ مصر نے اسرائیل کو اس شرط پر تسلیم کیا تھا کہ اسرائیل فلسطین کا تنازعہ حل کرے گا۔ اور عربوں کے مقبوضہ علاقوں سے اسرائیلی فوجیں واپس جائیں گی۔ امریکہ نے بھی اس معاہدے پر دستخط کیے تھے۔ لیکن مصر اسرائیل کیمپ ڈیوڈ معاہدے کو 38 سال ہو گیے ہیں۔ اور اس پر ابھی تک مکمل عمل درآمد نہیں ہوا ہے۔ اسرائیل نے فلسطینیوں کے ساتھ 1993 میں اوسلو معاہدہ کیا تھا۔ اس معاہدے کو 23 سال ہو گیے ہیں اور اس پر بھی عمل درآمد نہیں ہوا ہے۔ اسرائیل نے آج تک اقوام متحدہ کی کسی ایک قرارداد پر عمل نہیں کیا ہے۔ امریکہ سلامتی کونسل میں اسرائیل کی ہر غیر قانونی کاروائیوں کے خلاف اٹھنے والی آوازوں کو ویٹو کر کے انہیں قانونی کرتا رہا ہے۔ لوگوں کے ساتھ جب ناانصافیاں  ہونے لگتی ہیں۔ انہیں انصاف دینے کے تمام راست بند ہو جاتے ہیں۔ تو لوگ پھر ہتھیار اٹھانے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔                                                     

         

No comments:

Post a Comment