Friday, February 10, 2017

“Government is the Problem”

“Government is the Problem”  
Ronald Reagan

Barack Obama and George W. Bush 
President Donald Trump

“?You Think Our Country’s So Innocent”

مجیب خان

     حکومت میں اکثر سربراہ ایسی منفرد بات کر دیتے ہیں۔ جنہیں تاریخ قلم بند کر لیتی ہے۔ اور انہیں ہمیشہ یاد رکھا جاتا ہے۔ سیاست میں آنے والی نسلیں صدیوں اس کے حوالے دیتی رہتی ہیں۔ جیسے صدر رونالڈ ریگن کا یہ بیان کہ
“Government is not the solution to our problem; Government is the problem.”
امریکہ میں صدر ریگن کے اس بیان کا اکثر حوالہ دیا جاتا ہے۔ اور لوگ یہ کہتے بھی ہیں کہ حکومت ان کے لئے مسئلہ بن گئی ہے۔ صدر ریگن کا یہ بیان صرف امریکہ کی داخلی سیاست تک محدود نہیں ہے۔ بلکہ امریکی حکومت اپنی عالمی پالیسیوں کی وجہ سے دنیا کے لوگوں کے لئے بھی ایک مسئلہ ہے۔ اور امریکی حکومت عالمی مسائل کا حل نہیں ہے۔ نائن الیون کو امریکہ پر حملہ کرنے والے دہشت گردوں کو پکڑنے کے بارے میں صدر جارج بش کا یہ بیان بھی تاریخی بن  گیا ہے کہ  “Dead or alive and bring ‘em on.” نائن الیون کے  دہشت گردوں کے خلاف جب بھی صدر بش کے اقدامات کا ذکر ہو گا۔ اس کی ابتدا صدر بش کے اس بیان سے ہو گی۔ اور اس بیان کا حوالہ ضرور دیا جاۓ گا۔
    صدر ٹرمپ کو اقتدار میں تین ہفتہ ہوۓ ہیں۔ اور ان کی Tweet تاریخی اہمیت بنتی جا رہی ہیں۔ لیکن صدر ٹرمپ کا گزشتہ ہفتہ فاکس ٹی وی  کے Bill O’Reilly سے انٹرویو کا یہ حصہ بالخصوص تاریخی اہمیت رکھتا ہے



     صدر ٹرمپ کے اس Blunt جواب سے ری پبلیکن پارٹی کے اسٹبلشمینٹ کو حیرت ہوئی تھی۔ امریکہ کی تاریخ میں کسی امریکی صدر نے اتنی صاف گوئی سے شاید یہ سوال نہیں کیا تھا کہ "ہمارا ملک اتنا معصوم ہے۔" صدر ٹرمپ کی اس صاف گوئی سے خاصے لوگ متاثر ہوۓ تھے۔ اور جنہوں نے صدر ٹرمپ کو ووٹ نہیں دئیے تھے۔ وہ بھی صدر ٹرمپ کی اس صاف گوئی کو سراہا رہے تھے۔ جاپان کے ساتھ جنگ میں ہیرو شیما اور ناگا ساکی میں ایٹمی ہتھیار استعمال کرنے پر کسی امریکی صدر نے کبھی اس غلطی کو غلطی تسلیم نہیں کیا تھا۔ حالانکہ ایٹمی ہتھیاروں کے استعمال کے اثرات ابھی تک ہیرو شیما اور ناگا ساکی میں موجود ہیں۔ صدر ٹرمپ کے انٹرویو کا یہ حصہ جس میں انہوں نے امریکہ کے معصوم ہونے پر شبہ ظاہر کیا ہے۔ امریکہ کی صدارتی تاریخ کا اب ایک حصہ بن گیا ہے۔
    فاکس ٹی وی سے انٹرویو میں صدر پو تن کو قاتل کہنے کے سوال سے بھی صدر ٹرمپ نے اتفاق نہیں کیا ہے۔ جس پر صدر ٹرمپ نے یہ کہا کہ "ہمارا ملک اتنا معصوم ہے؟ کیا تم یہ سمجھتے ہو کہ ہمارا ملک اتنا معصوم ہے؟ ہم نے بھی بڑی غلطیاں کی ہیں۔ میں (صدر ٹرمپ) ابتدا ہی سے عراق جنگ کے خلاف تھا۔ ہماری غلطیوں کی وجہ سے بے شمار لوگ مارے گیے ہیں۔" صدر ٹرمپ کے اس بیان سے ری پبلیکن پارٹی کے سینیٹر اور کانگرس مین خاصہ برہم ہوۓ ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ روس کے ساتھ امریکہ کی اخلاقی قدروں کا کوئی موازنہ نہیں ہے۔ عراق پر ایک غلط حملہ کے نتیجہ میں 7 ہزار امریکی فوجی مارے گیے ہیں۔ جن کی عمریں 19 سال سے 35 سال کی تھیں۔ 30 ہزار فوجی ساری زندگی عراق جنگ کے زخموں کے ساتھ زندہ رہیں گے۔ جبکہ 2 لاکھ بے گناہ عراقی شہری اس غلط جنگ میں مارے گیے ہیں۔ اس جنگ کی تباہیوں کے باوجود امریکہ نے شام میں نئی غلطیاں کی ہیں۔ شام کو تباہ کرنے میں اوبامہ انتظامیہ نے خلیج کی ان ریاستوں کے ساتھ اتحاد بنایا تھا۔ جن کے ساتھ امریکہ کی اخلاقی قدروں کا کوئی موازنہ نہیں تھا۔ امریکہ کی جمہوری قدریں ہیں۔ لیکن اوبامہ انتظامیہ نے شام کے 24 ملین شہریوں سے یہ پوچھنا پسند نہیں کیا تھا کہ وہ کیا چاہتے تھے۔ لیکن اوبامہ انتظامیہ نے خلیج کے بادشاہوں اور ڈکٹیٹروں سے یہ مشورہ کیا تھا کہ شام کو جمہوری ملک کیسے بنایا جاۓ۔ شام کو تباہ کرنے کے بعد سعود یوں کا اب یہ کہنا ہے کہ ایران اور حزب اللہ کی مداخلت کی وجہ سے شام میں حالات خراب ہوۓ تھے۔ جبکہ امریکہ روس کی Aleppo پر بمباری میں شہریوں کے ہلاک ہونے کو انسانیت کے خلاف کرائم قرار دے رہا ہے۔ حالانکہ شام میں 1825 دن سے حکومت کے خلاف نام نہاد باغی بے گناہ شہریوں کو ہلاک کر رہے تھے۔ شام میں سو فیصد دہشت گردی ہو رہی تھی۔ اور اوبامہ انتظامیہ ان کی پشت پناہی کر رہی تھی۔ لیکن یہ انسانیت کے خلاف کرائم نہیں تھے؟
President Vladimir Putin, from American poodle, to thug and killer, murderer
      This is not effecting the health of Mr. Putin, but this is effecting the health of civility. 

    لیکن عراق شام اور افغانستان میں جو کچھ ہو رہا ہے۔ اس کے اصل قاتل صدر پو تن کو ٹھہرایا جا رہا ہے۔ یہ بڑے افسوس کی بات ہے کہ امریکہ کی سیاست میں Civility ختم ہوتی جا رہی ہے۔ صدر پو تن روس کے صدر ہیں۔ اور روس ایک ایٹمی طاقت ہے۔ قدرتی وسائل سے مالا مال ہے۔ صدر ٹرمپ نے یہ درست کہا ہے کہ صدر پو تن روس کے صدر ہیں اور وہ ان کا احترام  کرتے ہیں۔ لیکن کانگرس میں ری پبلیکن پارٹی کی Hierarchy صدر پو تن کو Killer, Murderer, Thug جیسے ناموں سے خطاب کرتے ہیں۔ صدر پو تن کی صحت پر اس کا کوئی اثر نہیں ہو رہا ہے۔ لیکن امریکہ کی Civility اس سے بیمار نظر آ رہی ہے۔ اس طرح کی زبان استعمال کر کے وہ اپنی نئی نسلوں کو کیا پیغام دے رہے ہیں۔ جو ایک دن کانگرس اور سینیٹ میں ان کی جگہ لیں گے۔ صدر صد ام حسین سے نفرت میں بھی ایسا ہی لب و لہجہ اختیار کیا گیا تھا۔ انہیں بھی مختلف ناموں سے خطاب کیا جاتا تھا۔ صد ام حسین اب دنیا میں نہیں ہیں۔ لیکن ان سے نفرت اور حقارت نے دنیا کی سیاست Polluted کر دی ہے۔
    امریکہ پر نائن الیون حملہ کے بعد صدر پو تن پہلے غیرملکی رہنما تھے۔ جنہوں نے صدر بش کو فون کیا تھا۔ اور امریکہ کے ساتھ روس کی مکمل یکجہتی کا یقین دلایا تھا۔ صدر پو تن دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ میں صدر بش کے ساتھ کھڑے تھے۔ لیکن امریکہ کیا کر رہا تھا۔ روس کے گرد نیٹو کا جال پھیلایا جا رہا تھا۔ روس کے ہمسایہ ملکوں کو نیٹو کی رکنیت دی جا رہی تھی۔ اور ان سے اپنی فوجی صلاحیتیں جدید معیار پر لانے کے لئے کہا جا رہا تھا۔ روس کے گرد نیٹو کے فوجی اڈے قائم ہو رہے تھے۔ صدر پو تن کی اس صورت حال پر خاموشی اور امریکہ کے ساتھ مسلسل تعاون کی پالیسی پر روس کے عوام، سیاسی اور فوجی لیڈر اسے صدر پو تن کی کمزوری سمجھتے تھے۔ صدر پو تن کو امریکہ کا Poodle کہا جاتا تھا۔ روس نیٹو فوجوں میں گھرتا جا رہا تھا۔ اور پو تن اس کے خلاف کچھ نہیں کر رہے تھے۔ صدر پو تن کو اس دباؤ میں روس کی سلامتی کے مفاد میں پھر ایک سخت موقف اختیار کرنا پڑا تھا۔ اور واشنگٹن کو صدر پو تن کے اس موقف سے اختلاف تھا۔
    دوسری طرف امریکہ کی دنیا کے مختلف خطوں میں فوجی مہم جوئیوں اور عرب اسلامی دنیا میں حکومتیں تبدیل کرنے کے جنون میں ناکامیوں سے روس کے خلاف امریکہ کا موقف سخت ہونے لگا تھا۔ امریکہ کی فوجی مہم جوئیوں میں ناکامیاں روس کے لئے کامیابیوں کے راستہ ہموار کر رہی تھیں۔ اگر روس کی جگہ امریکہ ہوتا تو وہ بھی ان حالات سے اسی طرح فائدہ اٹھا تا۔ روس کے راستہ میں اب یوکرین کو عراق بنا کر کھڑا کر دیا ہے۔ جہاں روسی یو کر ین سے خود مختاری کے لئے لڑ رہے ہیں۔ یہ روسی یو کر ین میں برسوں سے آباد ہیں۔ سرد جنگ میں روس اور یو کر ین ایک ملک تھا۔ اور یو کر ینین روس کے صدر تھے۔ حکومت اور کمیونسٹ پارٹی کے اہم عہدوں پر تھے۔ روس اور یوکرین کا ایک مضبوط اتحاد تھا۔ لیکن اب دونوں کی توپیں ایک دوسرے کی طرف ہیں۔                                                                                    

No comments:

Post a Comment