Wednesday, February 15, 2017

In Islam, The Holiest Place Has Become The Warehouse of Western Countries’ Arms

In Islam, The Holiest Place Has Become The Warehouse of Western Countries’ Arms 

Saudi Arabia Should Be "The Vatican" For The Muslim World

مجیب خان
Mecca, Saudi Arabia 

Coordinated military exercises between Arab Nations

Masjid al-Nabi, The Prophet's Mosque, is the Place where he is buried  

Fighter Jets provided by Western Nations

     صدر ٹرمپ کے اقتدار کا یہ چوتھا ہفتہ ہے۔ 25 روز میں صدر ٹرمپ نے ایگزیکٹو آرڈر جاری کرنے کے علاوہ عالمی رہنماؤں کو فون کیے ہیں۔ مڈل ایسٹ میں بادشاہوں، خلیج کے امیروں اور ڈکٹیٹروں کو فون کیے ہیں۔ اور ان سے مڈل ایسٹ کی صورت حال، اسلامی دہشت گردی کے خلاف اقدامات اور دوسرے اہم امور پر گفتگو کی ہے۔ لیکن مڈل ایسٹ کے 300 ملین لوگوں سے صدر ٹرمپ نے ابھی تک براہ راست خطاب نہیں کیا ہے۔ اور نہ ہی انہیں آزادی اور جمہوریت کے بارے میں کوئی پیغام دیا ہے۔ ابھی تک صرف Radical Islamic Terrorism کی بات ہو رہی ہے۔ ان 300 ملین لوگوں کو عرب ڈکٹیٹروں اور Radical Islamic Terrorism کے درمیان Sandwich بنا دیا ہے۔ اس صدی کی دو سابقہ انتظامیہ مڈل ایسٹ کے لوگوں کو آزادی اور جمہوریت دینے اور Radical Islamic Terrorism سے نجات دلانے میں بری طرح ناکام ہوئی ہیں۔ صدر جارج بش کا عراق مشن اور صدر اوبامہ کا لیبیا، یمن اور شام مشن Debacle ثابت ہوۓ ہیں۔ ٹرمپ انتظامیہ نے مڈل ایسٹ کے 300 ملین لوگوں کو سات اسلامی ملکوں کے شہریوں کی امریکہ میں داخلے پر پابندی عائد کرنے کا پیغام دیا ہے۔
   ان سات ملکوں میں سے تین ملک سوڈان، یمن اور صومالیہ پر سرد جنگ میں امریکہ نے اپنی پسند کے ڈکٹیٹر مسلط کیے تھے۔ اور 50 سال انہیں اپنے مفاد میں استعمال کیا تھا۔  ان ڈکٹیٹروں نے اپنے عوام کا خوب Plunder کیا تھا۔ اور انہیں غریب بنا کر رکھا تھا۔ اور اس غربت نے انہیں انارکسٹ بنا دیا تھا۔ جو سرد جنگ ختم ہونے کے بعد انتہا پسند ہو گیے تھے۔ اور دہشت گردی کے خلاف جنگ نے انہیں اسلامی ریڈیکل بنا دیا ہے۔ جبکہ عراق لیبیا اور شام کو امریکہ برطانیہ اور فرانس کی مداخلت اور غیر قانونی فوجی مہم جوئیوں نے پہلے ان ملکوں کو عدم استحکام کیا ہے۔ پھر ان ملکوں میں انتشار پھیلایا ہے۔ اور پھر اسلامی گروپوں کو ان ملکوں میں داخل ہونے اور اسلامی ریڈیکل بننے کے موقعہ دئیے ہیں۔ جبکہ ایران پر پابندیاں دراصل سعودی حکومت اور اسرائیل کو خوش رکھنے کے لئے لگائی گئی ہیں۔ ایران پر پابندیاں “America First” پالیسی کیسے بن گئی ہیں؟ اگر برطانوی شہری لندن میں ہائڈ پارک میں ملکہ برطانیہ یا اپنی حکومت کے خلاف نعرے بازی یا سخت باتیں کرتے ہیں تو اس کا مطلب یہ نہیں ہوتا ہے کہ وہ برطانیہ کے دشمن ہیں۔ ایرانی اگر اپنے شہروں میں امریکی پالیسیوں کے خلاف سخت باتیں کرتے ہیں تو اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ وہ امریکہ دشمن ہیں۔ ایرانی عوام بلاشبہ امریکی عوام کے خلاف نہیں ہیں۔ ایران نے افغانستان میں طالبان کے خلاف فوجی کاروائی کی حمایت کی تھی۔ القا عدہ اور داعش کے خلاف بھی ایران عراق اور شام کی حکومتوں کی مدد کر رہا ہے۔ شام میں جو دہشت گردوں کی مدد کر رہے تھے۔ انہیں تربیت اور اسلحہ دے رہے تھے۔ کیا وہ دہشت گردی کے خلاف تھے؟ ٹرمپ انتظامیہ میں القا عدہ کے خلاف یمن میں پہلی فوجی کاروائی ہوئی تھی۔ لیکن القا عدہ یمن میں سعودی حکومت کی مدد کر رہی ہے اور ہوتیوں سے لڑ رہی ہے۔ شام میں القا عدہ داعش سے لڑ رہی تھی۔ اور داعش اسد حکومت کے خلاف باغیوں کے ساتھ  لڑ رہی ہے۔ جنہیں امریکہ اور خلیج کے ملکوں کی پشت پنا ہی تھی۔
           
    Human destruction is the serious problem for the Nation-State’s Security
Saudi airstrike against Houthi rebels near Sanaa Airport on March 26, 2015, which killed at least 13 civilians
   
   ایک ایسے خطہ میں جہاں اسلامی انتہا پسندی کی جڑیں بہت گہری تھیں۔ امریکہ برطانیہ اور فرانس کی پالیسیاں اس خطہ کو مسلسل عدم استحکام کر رہی ہیں۔ اس خطہ میں نصف درجن جنگیں ہو رہی ہیں۔ اسلحہ فروخت کیا جا رہا ہے۔ اسلحہ انتہا پسندوں میں تقسیم کیا جا رہا ہے۔ ایسا نظر آ رہا ہے کہ یہ جنگیں جیسے القا عدہ کو زندہ رکھنے اور دہشت گردوں کو پیدا کرنے کی فیکٹری ہیں۔ داعش، النصرہ، الشہاب اور شمالی افریقہ میں بعض دوسرے گروپ اس فیکٹری سے پیدا ہوۓ ہیں۔ خلیج کی ریاستیں ان جنگوں میں ایک کلیدی رول ادا کر رہی ہیں۔ ان جنگوں نے عرب اسپرنگ کو شکست دی ہے۔ جو القا عدہ کی بڑی فتح تھی۔ اور عرب حکمران ان جنگوں میں کھربوں ڈالر انویسٹ کرتے رہیں گے۔ امریکہ اور نیٹو کا مفاد Militarism اور Armament Industry کو ان جنگوں کے ذریعہ زندہ رکھنا ہے۔ سعودی عرب اور خلیج کی حکومتوں کو ایک جنگ یمن میں دی گئی ہے۔ دوسری شام میں اسد حکومت کو اقتدار سے ہٹانے کی جنگ ہے۔ اور تیسری جنگ القا عدہ اور داعش کے خلاف ہے۔ اور ایران کے ساتھ جنگ Waiting List میں ہے۔ القا عدہ کا خاتمہ کرنے کی جنگ کو 16 سال ہو گیے ہیں۔ امریکہ کی دو اور برطانیہ کی تین حکومتیں القا عدہ کا خاتمہ کرنے میں ناکام ہو کر چلی گئی ہیں۔ عراق میں 13 سال سے عدم استحکام ہے۔ اور شیعہ سنی خانہ جنگی جاری ہے۔ شام میں خانہ جنگی کو 6 سال ہو گیے ہیں۔ اور یمن کی جنگ کو تقریباً 3 سال ہو گیے ہیں۔ پرانی جنگیں ختم نہیں ہو رہی ہیں۔ لیکن نئی جنگوں کا ان میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ سعودی عرب اور خلیج کی ریاستیں عرب اسپرنگ کی کامیابی سے شاید اتنی Vulnerable نہیں ہوتی کہ جتنی ان جنگوں میں ناکامیوں سے یہ ریاستیں Vulnerable ہوتی جا رہی ہیں۔
    سعودی عرب اور خلیج کی حکومتوں کو ان حالات سے خوفزدہ  کرکے امریکہ برطانیہ اور فرانس کا ان عرب ملکوں کو ہتھیاروں کی فروخت میں مسلسل اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ ایک دور تھا جب خلیج کے ملک مغربی ملکوں کی صنعتی ترقی کی Life Line تھے۔ اور اب خلیجی ملک مغربی ملکوں کی ہتھیاروں کی صنعت کے لئے Life Line بن گیے ہیں۔ ٹرمپ انتظامیہ نے مڈل ایسٹ کی صورت حال کا ابھی پوری طرح جائزہ نہیں لیا ہے۔ لیکن ٹرمپ انتظامیہ پہلے سعودی عرب اور بحرین کو بڑے پیمانے پر ہتھیار فروخت کرنے کی توثیق کرنے جا رہی ہے۔ سعودی عرب کو 300 ملین ڈالر کی میزائل ٹیکنالوجی فروخت کی جاۓ گی۔ اور بحرین کے لئے کھربوں ڈالر کے جنگی طیاروں کی فروخت کے معاہدے شامل ہیں۔ گزشتہ سال ستمبر میں سینیٹ نے سعودی عرب کے لئے 1.15 بلین ڈالر کی مالیت کے ٹینکوں اور دوسرا فوجی سامان فروخت کرنے کی اجازت دے دی تھی۔ جبکہ اسی سال اگست میں پینٹاگان نے اعلان کیا تھا کہ اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ نے سعودی عرب کو 130 Abrams ٹینکوں، 20 Armored recovery vehicles اور دوسرا فوجی ساز و سامان فروخت کرنے کی اجازت دے دی ہے۔ اور ان ہتھیاروں کی فروخت کا سب سے بڑا Contract بھی General Dynamics Corp کو دیا گیا تھا۔ اکتوبر 2010 میں اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ نے سعودی عرب کو 60 بلین ڈالر کی مالیت کے ملٹری ائرکرفٹ فروخت کرنے کا اعلان کیا تھا۔ جس میں 84 نئے بوئنگ، F-15 ائرکرفٹ اور سعودی عرب کے پاس پہلے سے 70 F-15 طیاروں کو Upgrade کرنے کا کہا تھا۔ اس کے علاوہ بوئنگ کے 70 Apache    helicopters بھی شامل تھے۔ امریکہ نے سعودی عرب کی نیوی کو جدید بنانے کی ڈیل کا بھی عندیہ دیا ہے جس کی مالیت 30 بلین ڈالر ہوگی۔
   امریکہ کے علاوہ برطانیہ نے 2015 میں سعودی عرب کو2.9 بلین پونڈ کا اسلحہ فروخت کیا تھا۔ سعودی عرب برطانیہ کے ہتھیاروں کا بھی ایک اہم گاہک ہے۔ مارچ 2015 میں سعودی عرب کی قیادت میں مڈل ایسٹ ملکوں کا اتحاد جب ہوتی باغیوں سے یمن کا دارالحکومت خالی کرانے کی کوشش کر رہا تھا اس موقعہ پر برطانیہ نے سعودی عرب کو 3.3 بلین پونڈ کا اسلحہ فروخت کرنے کا معاہدہ کیا تھا۔ امریکہ اور برطانیہ کے بعد فرانس نے بھی سعودی عرب کو کھربوں ڈالر کا اسلحہ فروخت کیا تھا۔ 2015 میں یمن جنگ کے دوران فرانس نے  18.8 بلین ڈالر کا اسلحہ سعودی عرب کو فروخت کیا تھا۔
    سعودی عرب اور خلیج کے ملکوں کے ساتھ کھربوں ڈالر کی ہتھیاروں کی تجارت نے اس خطہ کو ہتھیار فروخت کرنے والے ملکوں کے لئے جنگوں کی جنت بنا دیا ہے۔ جس دن خلیج کے ملکوں کی دولت ختم ہو جاۓ گی۔ یہ جنگیں بھی اسی وقت ختم ہو جائیں گی۔ حالانکہ اس خطہ میں انتہا پسندی سے زیادہ ہتھیار عرب حکمرانوں کی سلامتی کے لئے خطرہ بن رہے ہیں۔ یہ ہتھیار شاہ ایران کو نہیں بچا سکے تھے۔ شاہ ایران کو بھی ان ہی ملکوں نے کھربوں ڈالر کے ہتھیار فروخت کیے تھے۔ امریکہ نے شاہ کے دور میں ایران میں تین نیو کلیر پاور پلانٹ بھی لگاۓ تھے۔ صد ام حسین اور کرنل قدافی کو امریکہ برطانیہ فرانس اور (مغربی) جرمنی کی کمپنیوں نے ہر طرح کے مہلک ہتھیار فروخت کیے تھے۔ اور ان ملکوں کو ہتھیاروں کی فروخت سے کھربوں ڈالر بناۓ تھے۔ لیکن ان کی خفیہ ایجنسیاں صد ام حسین اور کرنل قدافی پر نظر ر کھے ہوۓ تھیں۔ اور پھر پہلی فرصت میں عراق اور لیبیا میں ان ہتھیاروں کو تباہ کرایا تھا۔ صد ام حسین اور کرنل قدافی کے ساتھ جو بر تاؤ ہوا تھا وہ سب کے لئے ایک خوفناک مثال ہے۔ صد ام حسین نے ایران سے جنگ لڑی تھی۔ کرنل قدافی نے اپنی فوجیں چڈ اور افریقہ کے بعض دوسرے ملکوں میں بھیجی تھی۔ سعودی عرب اب یمن سے جنگ لڑ رہا ہے۔ خلیج کے ملکوں کی ایران سے سرد جنگ جاری ہے۔ سعودی عرب اور خلیج کے ملکوں کے شہری شام میں باغیوں کے ساتھ لڑ رہے تھے۔ Human Destruction سعودی عرب اور خلیج کی ریاستوں کی سلامتی  کا مسئلہ بنتا جا رہا ہے۔ یہ ہتھیاروں پر جو کھربوں ڈالر خرچ کر رہے ہیں۔ اگر سعودی عرب اور خلیج کے ملک  یہ کھربوں ڈالر اپنے خطہ میں Human Development پر خرچ کریں تو یہ ان کی سلامتی کے مفاد میں ہو گا۔                                                                                                                                                                                               

No comments:

Post a Comment