Sunday, February 12, 2017

Since The End of The Cold War The Islamic World Has Become The Battle Ground War of The Holocaust

Since The End of The Cold War The Islamic World Has Become The Battle Ground War of The Holocaust

The Leaders of The Arab-Islamic World Are Allies of America’s War Machine, And They Are
 Producing “Radical Islamic Terrorists”

مجیب خان


     ڈونالڈ ٹرمپ نے صدر کے عہدے کا حلف اٹھانے کے بعد اپنے افتتاحی خطاب میں جو اہم بات کی ہے اور عالمی میڈیا میں جیسے اہمیت نہیں دی گئی ہے، وہ یہ تھی کہ عالم اقوام کو اب اپنے مفاد کا تعین خود کرنے کا  اختیار ہوگا۔ اور امریکہ اپنے مفاد کا خود تعین کرے گا۔ اور اس کی بنیاد America first” ہو گی۔ صدر ٹرمپ کا یہ پیغام دنیا کے ہر ملک کے لئے تھا۔ جس میں عرب اسلامی دنیا کے ملک بھی شامل ہیں۔ لیکن عرب اسلامی ملکوں نے صدر ٹرمپ کے اس پیغام کو اس طرح سمجھا ہے کہ یہ عالمی سیاست میں امریکہ کے سرگرم رول سے گوشہ نشینی اختیار کرنے کا پیغام ہے۔ تاہم صدر ٹرمپ نے امریکہ کے تجارتی اور معاشی امور سے متعلق معاملات کو خارجہ پالیسی کی ترجیحات میں رکھا ہے۔ اور اس پالیسی کی ابتدا “Made in America”  اور “Buy America” کے قوم پرستی کے نعروں سے کیا ہے۔ اور یہ ٹرمپ انتظامیہ کی ٹریڈ اور اکنامک قوم پرست Doctrine ہے۔ اس Doctrine کی بنیاد پر ایک نئی ٹریڈ اور معاشی جنگ ہو گی۔ جبکہ پہلی جنگ صدر ٹرمپ کو ورثہ میں ملی ہے۔ “Radical Islamic Terrorism” ٹرمپ انتظامیہ کی خارجہ پالیسی پر چھائی رہے گی۔ عرب اسلامی ملکوں کو اس جنگ میں مصروف رکھا جاۓ گا۔ اور “Radical Islamic Terrorism” سابقہ انتظامیہ کی طرح ٹرمپ انتظامیہ کو بھی ان کے ساتھ جنگ میں مصروف ر کھے گی۔ یہ ایک Premeditated war ہے۔ جس میں نقصانات سے زیادہ فائدے اٹھانے کو فوقیت دی جا رہی ہے۔ اس لئے دہشت گردی ختم کرنے میں مسلسل ناکامی ہونا کسی کا موضوع نہیں ہے۔
    با ظاہر نظر ایسا آتا ہے کہ عرب اسلامی ملکوں کو نائن الیون کے بعد بش چینی انتظامیہ نے اسلامی دہشت گردی کے خلاف جنگ کی منصوبہ بندی کے سلسلے میں جیسے یہ Assignment دیا تھا کہ اسلامی ملکوں کی حکومتیں امریکہ کے ساتھ اسلامی دہشت گردی کے خلاف جنگ میں حصہ لیں گی۔ اور اس جنگ کو ختم نہیں کیا جاۓ گا۔ اس جنگ کو جاری رکھا جاۓ گا۔ اور اسلامی دہشت گردی کے خلاف جنگ بالکل اس منصوبے کے مطابق جاری رکھا جا رہا ہے۔ اسلامی دہشت گردی کے خلاف جنگ کو سرد جنگ کا substitute بنایا گیا ہے۔  صدر اوبامہ جنگوں کے خلاف تھے۔ اور امن کے لئے کام کرنے کے عزم کے ساتھ اقتدار میں آۓ تھے۔ صدر اوبامہ کو صرف ان کے اس عزم پر امن کا نوبل انعام دیا گیا تھا۔ جو بعد میں نوبل جنگوں کا انعام ثابت ہوا تھا۔ 16 سال میں 1600 نئے اسلامی دہشت گرد گروپ دنیا کے ہر Avenue پر نظر آ رہے ہیں۔ اور اسلامی ملکوں کے حکمران بالخصوص عرب حکمران اسلامی دہشت گردی کے خلاف جنگ میں امریکہ کے ہاتھوں میں کھیل رہے ہیں۔ اپنے عوام کو ذلیل کر رہے ہیں۔ اپنے مذہب کی تذلیل کر رہے ہیں۔ اور یہ سب وہ صرف اپنے شاہانہ عیش و عشرت کے مفاد میں کر رہے ہیں۔ انہیں اسلامی دنیا کے کروڑوں بچوں کے مستقبل کی پروہ نہیں ہے۔ اسلامی دہشت گردی میں مسلمان سب سے زیادہ مارے جا رہے ہیں۔ لیکن شور امریکہ میں ہو رہا ہے۔ صدر ٹرمپ نے انتخابی مہم میں امریکی عوام کو بتایا تھا کہ داعش اوبامہ انتظامیہ نے ایجاد کی ہے۔ اور اب صدر ٹرمپ داعش کا ہمیشہ کے لئے خاتمہ کرنے کی جنگ کی تیاری کر رہے ہیں۔ صدر بش 8 سال تک القا عدہ کے خلاف جنگ لڑتے رہے تھے۔  صدر اوبامہ پہلے صدر بش کی القا عدہ کے خلاف اور پھر داعش کے خلاف اپنی جنگ لڑتے رہے تھے۔ اور اب صدر ٹرمپ  ان اسلامی دہشت گردوں کے خلاف اپنی جنگ شروع کریں گے۔ اور عرب اسلامی حکمران امریکہ کے نئے کمانڈر انچیف کے ساتھ اسلامی دہشت گردی ختم کرنے کی جنگ آئندہ چار سال بھی اسی طرح  لڑیں گے۔
    اس جنگ میں اصل مجرم عرب اسلامی ملکوں کے حکمران ہیں۔ جنہوں نے سرد جنگ میں کمیونزم کے خلاف اسلام کو ہتھیار بنایا تھا۔ اور پھر اپنے نوجوانوں کے کندھوں پر گنیں رکھ کر سوویت فوجوں کو نشانہ بنایا تھا۔ اور امریکہ اور مغرب کو سرد جنگ جیت کر دی تھی۔ سوویت یونین کی شکست سے اسلامی ملکوں کو کیا ملا ہے؟ اسلام آج ایک خطرناک آئيڈیا لوجی ہے جس کے خلاف امریکہ اور مغرب اب جہاد کر رہے ہیں۔ اور عرب اسلامی حکمران اس جہاد میں بھی ان کے اتحادی ہیں۔ سوویت یونین سے دشمنی میں امریکہ اور مغرب نے شیطان اور خدا دونوں کو استعمال کیا تھا۔ اسلامی دنیا کے لئے یہ تباہی اور بربادی اسلامی حکمران لاۓ ہیں۔ جو 60 سال سے امریکہ اور مغرب کی ہر جنگ میں ان کے اتحادی ہیں۔ لیکن اسلامی ملکوں کی سلامتی اور استحکام کے لئے عرب اسلامی حکمرانوں کا کبھی آپس میں ایسا اتحاد نہیں ہوا ہے۔ اور اب نائن الیون کے بعد یہ عرب اسلامی حکمران اسلامی ملکوں کے خلاف صلیبی جنگوں کا رول ادا کر رہے ہیں۔ ایک کے بعد دوسرے اسلامی ملک کو تباہ کرتے جا رہے ہیں۔ اگر یہ اسلامی حکمران اسلامی ملکوں کے داخلی معاملات میں امریکہ کو اتنا زیادہ اندر گھسنے کا اختیار نہیں دیتے۔ اور اپنے معاملات خود طے کر لیتے تو اسلامی دہشت گردی بھی ختم ہو جاتی۔ عرب حکمرانوں میں اپنے تنازعہ اور مسائل خود حل کرنے کی صلاحیتیں ہیں اور نہ ہی یہ اپنے عوام میں پھیلی ہوئی بے چینی کو سمجھتے ہیں۔ اللہ نے ان کو تنازعہ پیدا کرنے کی ذہانت دی ہے۔ اور انہیں اپنے عوام کو جہادی بنانا آتا ہے۔ 60 سال سے یہ امریکہ اور مغرب کی تابعداری کر رہے ہیں۔ اور اپنے عوام کو یہ اپنا تابعدار رکھنا چاہتے ہیں۔ سائنس، ٹیکنالوجی، انجیرنگ، میڈیکل سائنس میں اپنے نوجوانوں کو انہوں نے آگے آنے کا راستہ نہیں دکھایا ہے۔ دہشت گردی کی جنگ نے اسلامی ملکوں کو ترقی میں 30 سے 50 سال پیچھے کر دیا ہے۔ اور اس لئے بھی یہ جنگ  جاری رہے گی ۔ اسلامی حکمران دراصل اسلامی ملکوں کو ترقی میں پیچھے رکھنے میں اسلامی دہشت گردی کی جنگ میں امریکہ کی مدد کر رہے ہیں۔ 

No comments:

Post a Comment