Sunday, February 26, 2017

Terrorism In Pakistan: Target Those Countries And Individuals Who Are Funding Terrorists

Terrorism In Pakistan: Target Those Countries And Individuals Who Are Funding Terrorists

In This Regard, Trump Administration Should Help Pakistan     
Pakistan’s Neighbors Are Uncooperative 

مجیب خان
Lahore terrorist attack on February 23, 2017

Pakistan Army General Bajwa

Retired Army General Raheel Sharif
     بڑے عرصہ بعد پاکستان کے بارے میں عالمی میڈیا میں کچھ اچھی خبریں آ رہی تھیں۔ پاکستان کی معاشی صحت بہتر ہونے کی خبریں آ رہی تھیں۔ پاکستان میں چین کے ساتھ  CPEC منصوبوں پر بڑی تیزی سے عملدرامد ہونے کی خبریں بھی آ رہی تھیں۔ گوادر کی بندر گاہ پر تجارتی بحری جہازوں کی آمد و رفت شروع ہونے کی خبریں بھی آ رہی تھیں۔ پاکستان میں گزشتہ دنوں غیر ملکی کمپنیوں کے اعلی حکام کی کانفرنس کا انعقاد ہوا تھا۔ یہ کمپنیاں پاکستان میں انویسٹ کرنے میں دلچسپی لے رہی تھیں۔ پھر اس دوران 37 ملکوں کی پاکستان کے ساتھ بحر عرب میں مشترکہ نیول مشقوں کی خبر بھی آئی تھی۔ امریکہ، روس، چین کی بحریہ نے ان مشقوں میں حصہ لیا تھا۔ ان کے علاوہ آسٹریلیا، جاپان، انڈونیشیا، ترکی، برطانیہ اور ملیشیا کی بحریہ بھی ان مشقوں میں شریک تھیں۔ ان اچھی خبروں سے پاکستان کے اندر، پاکستان کے باہر، پاکستان کے ہمسایہ میں ان لوگوں کو دھچکا پہنچا تھا جو پاکستان کو دہشت گرد ملک قرار دینے کی مہم چلا رہے تھے۔ اور جو بھارت کی یوم جمہوریہ کی تقریب میں ابو دہا  بی کے ولی عہد شہزادہ شیخ محمد بن زید النہان کی خصوصی شرکت اور مودی حکومت کے ساتھ 75 بلین ڈالر انویسٹمینٹ کے معاہدہ پر "ہاۓ ہاۓ پاکستان تنہا ہو گیا" کی بانسریاں بجا رہے تھے۔ انہیں پاکستان کے بارے میں اچھی خبروں سے مایوسی ہوئی تھی۔ اور پھر پاکستان کے بارے میں دنیا کو بری خبریں دینے کے لئے انہوں نے اپنی چھریاں تیز کرنا شروع کر دی تھیں۔ گزشتہ 15 روز میں دہشت گردی کے آگے پیچھے کئی دھماکہ کر کے انہوں نے دنیا کو یہ بری خبریں دی ہیں کہ دہشت گرد پاکستان میں ابھی زندہ ہیں۔ یہ بے گناہ لوگوں کے مسلمان قاتل ہیں۔ جنہیں اللہ نے اسلام سے خارج کرنے کا فیصلہ کر لیا ہو گا۔ اور ان پر اللہ اور اس کے نبی صلعم کے قریب آنے کے تمام دروازے بند کرنے کا حکم صادر کر دیا ہو گا۔ رسول اللہ صلعم کے دور میں اسلام قبول کرنے والوں کے ساتھ جو سلوک ہوتا تھا۔ آج وہ بر تاؤ مسلمان مسلمانوں کے ساتھ کر رہے ہیں۔ اور اس برتاؤ سے تنگ آ کر مسلمان خاندان آج غیر مسلم ملکوں میں پناہ لینے کے لئے عیسائی ہو رہے ہیں۔ اللہ کے اسلام پر یہ برا وقت اسلامی جماعتیں اور ان کے قائدین کی وجہ سے آیا ہے۔ اسلام پر اتنے برے وقت میں بھی یہ فرقہ پرستی کی نفرتیں پھیلا رہے ہیں۔ یہ فحاشی کو بے غیر تی کہتے ہیں۔ لیکن ان کی بے غیر تی فحاشی سے کم نہیں ہے۔
    15 دن میں پاکستان میں دہشت گردی کے 6 واقعات ہوۓ ہیں۔ جن میں تقریباً تین سو کے قریب بے گناہ لوگ مارے گیے ہیں۔ دہشت گردوں نے جو خود کو مسلمان کہتے تھے۔ تین سو خاندانوں کی دنیا انہوں نے تاریک کر دی ہے۔ تین سو خاندانوں کے گھروں میں کہرام مچا ہوا ہے۔ لیکن مذہبی جماعتوں کے رہنما بالکل خاموش ہیں۔ جیسے مودی کے انتہا پسند ہندو اور پاکستان کے مذہبی رہنما ایک ہی صفحہ پر ہیں۔ اسلامی جماعتوں کے رہنما پاکستان کو بچانے کی باتیں کرتے ہیں۔ اور مودی کے انتہا پسند ہندو پاکستان کو تباہ کرنے کی بات کرتے ہیں۔ بھارت کے انتہا پسند ہندو جب پاکستان کو تباہ کرنے کی باتیں کرتے ہیں تو یہ سمجھ میں آتا ہے کہ وہ پاکستان کے دشمن ہیں۔ لیکن پاکستان میں اسلامی رہنما 70 سال سے پاکستان کو بچانے کی باتیں کر رہے ہیں۔ اور پھر یہ کہتے ہیں کہ صرف اسلام ہی پاکستان کو بچا سکتا ہے۔ لیکن پاکستان اب اسلام کو بچانے کے لئے مذہبی انتہا پسندوں سے لڑ رہا ہے۔ یہ اسلامی رہنما پاکستان کو دہشت گردوں سے بچانے باہر آۓ ہیں اور نہ ہی سر سے کفن باندھ  کر اسلام کو بچانے سڑکوں پر نکلے ہیں۔ ان کی اسلامی سیاست سے پاکستان کو کیا فائدہ ہوا ہے؟ پاکستان آج جس  mess میں ہے۔ اس کی ذمہ دار یہ مذہبی جماعتیں ہیں۔ جو جنرل ضیا الحق کو اقتدار میں لائی تھیں۔ اور پھر جنرل ضیا الحق سے پاکستان میں اسلامائزیشن کا کام لیا تھا۔ اور افغانستان کے جہاد کو بھی اس اسلامائزیشن کا حصہ بنا لیا تھا۔ مسجدوں کی بھر مار اور مدرسوں کے پھیلاؤ سے پاکستان ایک اچھا معاشرہ بننے کے بجاۓ بدتر معاشرہ بن گیا ہے۔ اور اسلام کے نام پر دہشت گردی تمام برائیوں کی ماں ہے۔
    پاکستان میں دہشت گردی کے خلاف فوجی کاروائیوں کو 13 سال ہو گیے ہیں۔ تین آرمی چیف دہشت گردی کے خلاف جنگ کرتے رٹائرڈ ہو گیے ہیں۔ اور اب  چوتھے آرمی چیف نے بھی اپنا عہدہ سنبھالنے کے بعد دہشت گردوں کا خاتمہ کرنے کا عزم کیا ہے۔ اس جنگ کے تین محاذ ہیں۔ لیکن صرف فوجی محاذ پر جنگ لڑی جا رہی ہے۔ سیاسی محاذ sideline پر ہے۔ مذہبی رہنماؤں کا محاذ اعتکاف میں ہے۔ جبکہ پاکستان کے ہمسایہ uncooperative ہیں۔ فوجی محاذ کے ساتھ اگر یہ تین محاذ بھی سرگرم ہوتے تو دہشت گردی ختم کرنے میں بارہ سال نہیں لگتے اور یہ جنگ ابھی تک جاری ہے۔ دہشت گردی کا مسئلہ بھی کشمیر اور ‌فلسطین کا تنازعہ بنا دیا ہے۔ جس کا شاید کوئی حل نہیں ہے۔ کشمیر میں بھارتی فوج اور فلسطین میں اسرائیلی فوج بے گناہ لوگوں کے خلاف دہشت گردی کر رہی ہیں۔ جبکہ پاکستان اور بعض دوسرے اسلامی ملکوں میں دہشت گرد بے گناہ لوگوں کے خلاف دہشت گردی کرتے رہیں گے۔ عراق کی طرح اب شام میں بھی بموں کے دھماکے ہوتے رہیں گے۔ عراق میں تیرہ سال سے یہ سلسلہ جاری ہے۔ یہ حالات پیدا کرنے کی منصوبہ بندی صدر بل کلنٹن کے دور سے ہو رہی تھی۔ اور نائن الیون اس منصوبہ کا حصہ تھا۔ جس کے بعد اس منصوبہ کو عملی جامہ بنایا گیا ہے۔
    اسلامی رہنما کیونکہ اس دنیا میں یقین نہیں رکھتے ہیں۔ وہ مسلمانوں کو آخرت کو اپنی دنیا بنانے کا درس دیتے ہیں۔ اور اس میں یقین رکھتے ہیں۔ لہذا یہ دنیا مسلمانوں کے لئے جہنم بن گئی ہے۔ حالانکہ اللہ نے فرمایا ہے کہ دنیا میں تمہارے عمال اور کردار سے تمہاری آخرت بنے گی۔ اسلامی رہنما اگر ذرا بھی دور اندیش ہوتے اور ان میں سوجھ بوجھ ہوتی وہ ان کے منصوبوں کو کبھی کامیاب نہیں بناتے۔ مراکش سے لے کر افغانستان تک دہشت گردی بالکل نہیں ہونے دیتے۔ ان کی سازشوں کو بے نقاب کرتے رہتے۔ انہیں ناکام کرنے کی یہ بہترین اسٹرٹیجی تھی۔ لیکن ستم ظریفی یہ تھی کہ اسلامی رہنما ان کی سازشوں کو کامیاب بنانے کی سازشیں کرنے لگے تھے۔ پاکستانی جب یہ تسلیم کرنے کے لئے تیار نہیں ہو رہے  تھے کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ ان کی ہے۔ تو پھر پاکستان کے مختلف شہرو ں میں بموں کے ہونے لگے تھے۔ اور پھر ان سے پوچھا گیا کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ اب بھی تمہاری نہیں ہے۔ پھر اسے سب نے تسلیم کر لیا کہ ہاں یہ ہماری جنگ ہے۔ سیاست میں مذہب کے بہت زیادہ رول نے سازش کو اسلام کا چھٹا ستون بنا دیا ہے۔
    پاکستان کی ستر سال کی تاریخ میں فوج کے کردار پر بہت کچھ لکھا گیا ہے۔ لیکن ستر سال کی تاریخ میں اسلامی جماعتوں کے کردار پر کچھ نہیں لکھا گیا ہے۔ سیاست میں مذہبی جماعتوں کی مداخلت سے پاکستان کو بہت زیادہ نقصان پہنچا ہے۔ ایوب خان کی حکومت کا زوال ہونے کے بعد اسلامی جماعتوں پر عائد پابندیاں بھی ختم ہو گئی تھیں۔ مذہب کے نام پر سیاست ہونے لگی تھی۔ پاکستان ٹوٹ گیا تھا۔ اور مشرقی پاکستان بنگلہ دیش بن گیا تھا۔ 1977 میں اسلامی جماعتوں کی انتخابات میں دھاندلیوں کے نام پر نظام مصطفی کی تحریک کے نتیجہ میں پاکستان  کا جمہوری آئین توڑ دیا اور اسلامی جماعتیں فوج کو اقتدار میں لے آئیں تھیں۔ اور ملک کو پھر مارشل لا کے حوالے کر دیا تھا۔ جماعت اسلامی اقتدار کی اس قدر بھوکی تھی کہ یہ جنرلوں کی حکومت میں شامل ہو گئی تھی۔ عوام سے انہوں نے نئے انتخابات کرانے کا وعدہ کیا تھا اور انہیں اسے پورا کرنا چاہیے تھا۔ لیکن اسلامی جماعتوں نے قوم کو دھوکا دیا تھا۔  جمہوریت کے خلاف انہوں نے سازش کی تھی۔ جماعت اسلامی کی جنرل ضیا الحق کی حکومت میں شمولیت، اسلامی جماعتوں کی جنرل ضیا الحق کے فیصلوں کی حمایت، ایک انتہائی Rigid قبائلی افغانستان میں جہاد کو فروغ دینے کی اسلامی جماعتوں کی نامعقول حمایت کے یہ نتائج ہیں۔ جس کے عذاب میں 36 سال گزرنے کے بعد ابھی تک پاکستان پھنسا ہوا ہے۔ اور یہ اسلامی جماعتیں اپنے اس ماضی کے آئینے میں اپنے چہرے دیکھنا پسند نہیں کرتی ہیں۔ ذوالفقار علی بھٹو کی جمہوریت کو انہوں نے ناکام بنایا تھا۔ جنرل ضیا الحق نے پاکستان کو جو اسلامی نظام دیا تھا اسے بھی انہوں نے ناکام کر دیا تھا۔ لیکن افغانستان میں سوویت فوجوں کے خلاف اسلامی جہاد سے صرف امریکہ کو انہوں نے کامیاب کیا تھا۔ یہ رہنما باتیں بہت کرتے ہیں۔ لیکن کام کی بات کبھی نہیں کرتے ہیں۔ دہشت گردی کا خاتمہ کرنے کے بارے میں ان کے پاس تجویزیں ہیں اور نہ ہی مشورے ہیں۔ اسلام کے لئے یہ المیہ ہیں۔
    پاکستان کو دہشت گردوں کے خلاف اب اور زیادہ Drastic اقدام کرنا ہوں گے۔ اور جو انہیں فنڈنگ کر رہے ہیں۔ انہیں بھی ٹارگٹ کرنا ہو گا۔ دنیا میں پیسوں کے بغیر کوئی کام نہیں ہوتا ہے۔ پیسوں کے بغیر انسان سانس نہیں لے سکتا ہے۔ دہشت گردوں کی فنڈنگ بند کرانا ہو گی۔ سلامتی کونسل کے ذریعہ ان ملکوں اور افراد کے خلاف کاروائی کی درخواست کی جاۓ جو دہشت گردوں کی فنڈنگ کر رہے ہیں۔ صدر ٹرمپ کو بھی اسلامی دہشت گردی کے خلاف اپنی اسٹرٹیجی میں سب سے پہلے دہشت گردوں کی فنڈنگ کو ٹارگٹ کرنا ہو گا۔ خلیج کی حکومتوں کو بھی اس سلسلے میں Blunt Message دینا ہو گا۔ اور Sanction بھی کیا جاۓ۔                                      

No comments:

Post a Comment