Sunday, February 12, 2017

The Hodgepodge Trump Administration And America’s Warmongers

        
  The Hodgepodge Trump Administration And America’s Warmongers

Who Can Fix A Politically Incorrect America?

مجیب خان

.Once upon a time, Islamic extremists were welcomed in the White House. Now Islam is not welcome in America
    
     صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے حلف وفا داری کی تقریب میں امریکی عوام سے خطاب میں کہا کہ "آج یہ تقریب بہت خصوصی اہمیت رکھتی ہے۔ کیونکہ آج ہم اقتدار صرف ایک انتظامیہ سے دوسری انتظامیہ کو یا ایک پارٹی سے دوسری پارٹی کو منتقل نہیں کر رہے ہیں۔ بلکہ ہم اقتدار واشنگٹن ڈی سی سے منتقل کر کے آپ، عوام کو واپس دے رہے ہیں۔ یہ آپ کا دن ہے۔ یہ آپ کا جشن منانے کا دن ہے۔ اور یہ متحدہ ریاست ہاۓ امریکہ آپ کا ملک ہے۔ ہمارے ملک کے مردوں اور عورتوں جنہیں فراموش کر دیا گیا تھا۔ اب انہیں زیادہ فراموش نہیں کیا جاۓ گا۔ اب ہر کوئی آپ کو سن رہا ہے۔ آپ لاکھوں کی تعداد میں آۓ تھے۔ اور اس تاریخی تحریک کا حصہ بن گیے تھے۔ دنیا نے ایسا پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا۔ اس تحریک کا مرکز ایک پختہ عزم ہے کہ قوم کا وجود اس کے شہریوں کی خدمت میں ہوتا ہے۔" ایسا پیغام دراصل مڈل ایسٹ کے تین سو ملین لوگوں کے لئے ہونا چاہیے تھا۔ مڈل ایسٹ میں بھی نصف صدی سے زیر سطح لوگوں کی ایک تحریک ہے۔ اور امریکہ نے مڈل ایسٹ کے لوگوں کو بالکل فراموش کر دیا ہے۔ 90 کے عشر ے سے مڈل ایسٹ میں صرف امریکہ کے فیصلے اور پالیسیاں لوگوں کی زندگیوں پر بری طرح اثر انداز ہو رہے ہیں۔ مڈل ایسٹ میں ملک بادشاہوں، حکمرانوں اور ڈکٹیٹروں کے ہیں۔ عام لوگ صرف ان کی رعایا ہیں۔ اور لوگوں کو "یہ ملک ان کا ہے"  کا احساس دلانے والا کوئی نہیں ہے۔ مڈل ایسٹ میں قوم کا وجود شہریوں کا بادشاہوں، حکمرانوں اور ڈکٹیٹروں کی خدمت کرنے میں سمجھا جاتا ہے۔ مڈل ایسٹ میں لوگوں کی زیر سطح تحریک کا لاوا ابل کر باہر آگیا ہے۔ 90 کے عشر ے  سے امریکہ کے 41 ویں صدر سے 44 ویں صدر تک امریکہ نے اپنے فیصلوں اور پالیسیوں میں مڈل ایسٹ کے لوگوں کو بالکل فراموش کر دیا تھا۔ اور اپنے پسندیدہ  بادشاہوں، حکمرانوں اور ڈکٹیٹروں کے ساتھ مڈل ایسٹ میں استحکام رکھا تھا۔ جبکہ دوسری طرف جو ڈکٹیٹر امریکہ کی Good Book میں نہیں تھے۔ ان کے خلاف کاروائیوں سے مڈل ایسٹ کو عدم استحکام کیا تھا۔ اور اب امریکہ کے 45 ویں صدر ڈونالڈ ٹرمپ عرب شہریوں کو مڈل ایسٹ کے حالات کا ذمہ دار ٹھہرا  رہے ہیں۔
    مارچ 2003 میں عراق پر اینگلو امریکہ کے Preemptive حملہ نے مڈل ایسٹ کا سیاسی نقشہ بدل دیا ہے۔ مڈل ایسٹ کے کونے کونے میں اسلامی انتہا پسندوں کو Unleash کر دیا ہے۔ ایران نے عراق میں شیعاؤں کی اکثریت ہونے کے بات کبھی نہیں کی تھی۔ اور نہ ہی عراق میں شیعاؤں کی حکومت ہونے کا مطالبہ کیا تھا۔ یہ صدر جارج ڈبلیو بش کی انتظامیہ تھی جس نے صد ام حسین کو اقتدار سے ہٹانے کے بعد عراق کے شیعاؤں کو یہ خوشخبری دی تھی کہ عراق کی تاریخ میں پہلی بار شیعاؤں کو حکومت ملی ہے۔ جو عراق میں اکثریت میں تھے۔ صدر بش کی شیعاؤں کے لئے یہ خوشخبری سنیوں کے لئے بری خبر تھی۔ جس کے بعد سے عراق میں شیعہ سنی فسادات کا سلسلہ شروع ہو گیا تھا۔ اور فسادات ابھی تک جاری ہیں۔ ان فسادات میں پھر عرب عیسائی بھی ٹارگٹ بننے لگے تھے۔ اور اب صدر ٹرمپ یہ کہتے ہیں کہ مڈل ایسٹ میں مسلمان عیسائوں کے گلے کاٹ رہے ہیں۔ حالانکہ مڈل ایسٹ میں مسلمان مسلمانوں کے گلے بھی کاٹ رہے ہیں۔ یہ امریکہ کی مڈل ایسٹ پالیسی کے نتائج ہیں۔ عراق، شام اور لیبیا میں عرب عیسائی اور عرب مسلمان صدیوں سے اس طرح رہتے تھے کہ صدر بش، صدر اوبامہ اور ڈونالڈ ٹرمپ بھی ان کی مذہب کی بنیاد پر کبھی شناخت نہیں کر سکتے تھے۔ اور اینگلو امریکی فوجوں نے جب عراق پر حملہ کیا تھا تو انہوں نے عراقی عیسائوں، شیعاؤں اور سنیوں کے ساتھ یکساں بر تاؤ کیا تھا۔ اس فوجی حملہ میں ایک لاکھ عراقی مارے گیے تھے۔ اور ان میں سنیوں کے ساتھ شیعہ اور عیسائی بھی شامل تھے۔ امریکہ میں ہر انتظامیہ کی سوچ یہ ہوتی ہے کہ ان کی انتظامیہ میں جو کچھ ہوا تھا۔ کچھ عرصہ بعد لوگ اسے بھول جاتے ہیں۔ اور شاید صدر ٹرمپ بھی اسے بھول گیے ہیں۔ اس لیے صدر ٹرمپ نے عراقیوں کے امریکہ میں داخل ہونے پر پابندی لگا دی ہے۔
   
“Keep America Safe.” How? When America’s eight-hundred military bases in the world can’t keep the world safe. America has the largest military presence in the Persian Gulf but the Persian Gulf has become unsafe and the most dangerous region in the world.

    امریکہ میں کسی کو یہ بھی معلوم نہیں تھا کہ فلسطین میں مسلمانوں کے ساتھ عیسائی فلسطینی بھی تھے۔ جو اسرائیلی فوجی قبضہ میں بربریت اور ظلم کا سامنا مسلمان فلسطینیوں کے ساتھ  کر رہے تھے۔ عیسائی فلسطینی بھی مسلمانوں کے ساتھ مہاجر کیمپوں میں تھے۔ اور عیسائی اور مسلمان فلسطینی اسرائیلی فوجی قبضہ کے خلاف شانہ بشانہ لڑ رہے تھے۔ جبکہ عرب اسرائیل تنازعہ کو میڈیا میں مسلمانوں اور یہودیوں کی لڑائی بتایا جاتا تھا۔ حالانکہ مصر کی فوج میں مصری عیسائی بھی تھے۔ شام کی فوج میں شامی عیسائی تھے۔ عراق کی فوج میں عراقی عیسائی تھے۔ اردن کی فوج میں اردنی عیسائی تھے۔ اور ان ملکوں کی فوجوں نے اسرائیل سے 1967 اور 1973 کی جنگیں لڑی تھیں۔ انٹرنیٹ آنے کے بعد اب امریکیوں کو یہ پتہ چلا ہے کہ فلسطین میں عیسائی فلسطینی بھی ہیں۔ امریکہ میں یہ بیداری آنے کے بعد اسرائیل کی پالیسیوں کے بارے میں انتظامیہ پر امریکی راۓ عامہ کا دباؤ آیا ہے۔
    صدر جارج بش کو خدا نے عراق پر حملہ کرنے اور صد ام حسین کو اقتدار سے ہٹانے کا کہا تھا۔ لیکن صدر اوبامہ سے شام میں اسلامی انتہا پسندوں کی مدد کرنے اور بشر الا اسد کو اقتدار سے ہٹانے کا کن خداؤں نے کہا تھا؟ جبکہ عراق میں شیعہ سنی فسادات جاری تھے۔ عیسائوں کو عراق چھوڑنے پر مجبور کیا جا رہا تھا۔ داعش کا زور بڑھ رہا تھا۔ یہ حالات دیکھنے کے باوجود صدر اوبامہ نے شام میں شیعہ سنی اور عیسائوں کے درمیان فسادات کے نئے محاذ کھول دئیے تھے۔ حیرت کی بات تھی کہ اوبامہ انتظامیہ نے شام کے ارد گرد کی صورت حال کو بالکل نظر انداز کر دیا تھا۔ اوبامہ انتظامیہ کے اس Blunder کے نتیجہ میں ایک ملک تباہ ہو گیا، آبادی تہس نہس ہو گئی  تقریباً ایک ملین بے گناہ لوگ مارے گیے ہیں۔ حاصل کیا ہوا؟ کچھ نہیں۔ پھر پانچ سال سے شام میں دہشت گردوں اور انسانی ہلاکتوں کا یہ میلہ کیوں لگایا تھا؟
    دنیا میں مہاجرین کا بحران صد ام حسین پیدا کر کے نہیں گیے ہیں۔ اور نہ ہی بشر الا السد حکومت نے اپنے شہریوں کو ملک بدر کیا ہے۔ مہاجرین کا بحران بش اور اوبامہ انتظامیہ کی مڈل ایسٹ کو عدم استحکام کرنے کی پالیسیوں نے پیدا کیا ہے۔ مڈل ایسٹ میں امریکہ کے تیل کے مفادات کی اہمیت اب ختم ہو گئی ہے۔ مڈل ایسٹ میں ہتھیاروں کو فروخت کرنے کی اہمیت بڑھ گئی ہے۔ مڈل ایسٹ سے اتنا تیل امریکہ امپورٹ نہیں کیا جا رہا ہے کہ جتنے بڑی تعداد میں ہتھیار مڈل ایسٹ میں ایکسپورٹ کیے جا رہے ہیں۔ مڈل ایسٹ کے ان حالات کے بارے میں آسان پالیسی یہ ہے کے دوسروں کو الزام دیا جاۓ۔ جیسے ٹرمپ انتظامیہ کے قومی سلامتی امور کے مشیر Michael Flynn نے کہا ہے کہ ایران مڈل ایسٹ کو عدم استحکام کر رہا ہے۔ دوسروں کو الزام دینا بہت آسان ہوتا ہے۔ لیکن کیا دنیا یہ یقین کرتی ہے۔ کیا ایرانی اتنے احمق ہیں کہ جس خطہ میں وہ رہتے ہیں اس خطہ کو عدم استحکام کر کے وہ محفوظ ہو جائیں گے۔ ٹرمپ انتظامیہ نے اقتدار میں آنے کے بعد دو ہفتہ کے اندر ایران کو دھمکی دی ہے۔ اور دوسری دھمکی شمالی کوریا کو دی ہے۔ ٹرمپ انتظامیہ بھی جنگ کے موڈ میں نظر آ رہی ہے۔
    امریکہ دنیا کا انتہائی طاقتور اور دولت مند ملک ہے۔ اس کی انسانی حقوق، قانون کی بالا دستی اور اخلاقی قدریں بھی بہت Rich ہیں۔ لیکن اس کے باوجود چھوٹے اور کمزور ملکوں کے قدرتی وسائل اور کارپوریٹ  Greed  تیل کے چند کنوؤں پر قبضہ کرنے  کے لئے غیر قانونی سرگرمیاں امریکہ کی اعلی قدروں کو داغدار کر رہی ہیں۔                                                                                                                   

No comments:

Post a Comment