Friday, March 3, 2017

Afghanistan’s Dangerous Pre-Existing Condition

Afghanistan’s Dangerous Pre-Existing Condition  

Repeal And Replace The Previous Two Administrations' Failed Afghan Policy

مجیب خان
Abdul Rashid Dostum, Afghan Warlord and Vice President

Pacha Khan Zardan, Warlord from Paktia Province

Afghanistan

Helmand Province Poppy Cultivation

Afghanistan's Ghor Province Warlord's Militia

     16 سال قبل افغانستان میں طالبان کے خلاف جنگ شروع ہوئی تھی۔ صدر جارج بش نے طالبان کو امریکہ کی سلامتی کے لئے خطرہ قرار دیا تھا اور ان کا اقتدار ختم کیا تھا۔ اب 16 سال ہو گیے ہیں۔ لیکن افغانستان ابھی تک خطرہ ہے۔ اور افغانستان میں جنگ بھی جاری ہے۔ طالبان کے رہنما ملا عمر کی وفات ہو گئی ہے۔ طالبان کی صف اول کی قیادت بھی تتر بتر ہو گئی ہے۔ یا وہ بھی ماری گئی ہے۔ لیکن افغانستان سے خطروں کا خاتمہ ہوا ہے اور نہ ہی خطروں میں کمی آئی ہے۔ افغانستان میں خانہ جنگی میں پرانے عناصر کے ساتھ نئے عوامل شامل ہو گیے ہیں۔ اور سوال اب یہ ہے کہ افغان جنگ کا مستقبل کیا ہے؟ امریکہ کے تیسرے صدر کو بھی یہ افغان جنگ اب وراثت میں ملی ہے۔ با ظاہر افغانستان صدر ٹرمپ کی پہلی ترجیح نہیں ہے۔ صدر ٹرمپ نے اپنے کمانڈروں کو عراق اور شام میں داعش کا خاتمہ کرنے کے لئے نئی حکمت عملی تیار کرنے کے لئے کہا ہے۔ حالانکہ عراق اور شام میں استحکام داعش کے خاتمہ کا واحد حل ہے۔ داعش کے خلاف ایک نئی جنگ سے صرف داعش کو فروغ ملے گا۔ غور طلب سوال یہ ہے کہ 16 سال قبل جو جنگ طالبان کے خلاف شروع ہوئی تھی۔ وہ داعش کے خلاف جنگ کیسے بن گئی ہے؟ داعش کا خاتمہ کرنے کی جنگ کا دنیا کو بتانا آسان ہے۔ لیکن دنیا کو یہ بتانا کیوں اتنا مشکل ہے کہ داعش کو کون وجود میں لایا ہے؟ افغانستان میں جنگ القا عدہ کے خلاف شروع ہوئی تھی۔ پھر یہ طالبان کے خلاف جنگ بن گئی تھی۔ اور اب یہ داعش کے خلاف جنگ بن گئی ہے۔ ایک طویل جنگ نے افغانستان کے مسئلہ کو لا علاج بنا دیا ہے۔ افغانستان میں پہلے طالبان اور القا عدہ دنیا کے لئے خطرہ تھے۔ لیکن دنیا کو اب افغانستان میں 36 قسم کے نئے خطروں کا سامنا ہے۔
    صدر ٹرمپ کی انتظامیہ میں فوج کے چار سابق جنرل بھی شامل ہیں۔ جنہیں اہم عہدے دئیے گیے ہیں۔ ان جنرلوں نے افغان جنگ میں حصہ لیا تھا۔ اور انہیں افغانستان کا گہرا تجربہ بھی ہے۔ افغانستان میں فوجی منصوبوں سے با خوبی واقف ہیں۔ یہ سابق جنرل صدر ٹرمپ کو افغانستان کے بارے میں اپنے تجربوں سے آ گاہ کر سکتے ہیں۔ اور افغانستان میں امریکہ اور نیٹو کے کامیاب نہ ہونے کی تفصیل بھی دے سکتے ہیں۔ بلاشبہ افغانستان میں ناکام ہونے کے اسباب میں صدر بش کی غفلت اور ایک غلط سوچ کا بڑا دخل تھا۔ بش انتظامیہ نے طالبان کو اقتدار سے ہٹانے اور ان کا خاتمہ کرنے کا کام افغان وار لارڈ سے لیا تھا۔ سی آئی اے کے ذریعہ انہیں ڈالروں سے بھرے بریف کیس دئیے جاتے تھے۔ یہ افغان وار لارڈ ازبک اور تا جک تھے۔ اور یہ وار لارڈ طالبان سے انتقام لے رہے تھے۔ جنہوں نے اقتدار میں آنے بعد ہزاروں ازبک اور تا جک مار دئیے تھے۔ جبکہ پشتون وار لارڈ صدر حامد کرزئی کے ساتھ تھے۔ بعض پشتون وار لارڈ نے اپنے علاقوں میں طالبان کو Neutral کر لیا تھا۔  انہوں نے ملا عمر کی طالبان تحریک سے کنارہ کشی کر لی تھی۔ اور یہ پشتون وار لارڈ کی ملیشیا بن گیے تھے۔ کچھ افیون لارڈ کے ساتھ مل گیے تھے اور افیون کی اسمگلنگ شروع کر دی تھی۔ افغانستان میں 16 سال میں جمہوری اور آئینی نظام اتنا مستحکم نہیں ہو سکا ہے کہ جتنا کرپشن کا نظام مستحکم ہو گیا ہے۔
    سرد جنگ ختم ہو گئی تھی۔ لیکن امریکہ کی خارجہ اور دفاعی اسٹبلشمینٹ کی سوچ سرد جنگ کی تھی۔ بش انتظامیہ نے افغانستان میں طالبان کے خلاف محاذ آرا ئی بالکل سرد جنگ کے دور میں تیسری دنیا میں دائیں اور بائیں کی لڑائیوں کے طرز پر شروع کی تھی۔ تیسری دنیا کے ملکوں میں ترقی پسند، لبرل اور روشن خیال عناصر سے کوئی بات نہیں کی جاتی تھی۔ اور دائیں بازو کے فوجی وار لارڈ کو ان کا خاتمہ کرنے کے لئے رکھا تھا۔ یہ فوجی وار لارڈ انتہائی کرپٹ اور فاشسٹ تھے۔ لیکن امریکہ نے ان کی پشت پنا ہی کی تھی۔ اسی طرح افغان وار لارڈ کو جن میں ازبک اور تاجک وار لارڈ نمایاں تھے امریکہ نے انہیں طالبان کے خلاف استعمال کیا تھا۔ حالانکہ یہ وار لارڈ افغانستان میں انسانیت کے خلاف کرائم کر رہے تھے۔ لیکن بش انتظامیہ نے ان کے کرائم سے منہ موڑ لیا تھا۔ نہ صرف یہ بلکہ طالبان کا خاتمہ کرنے کی جنگ افغان وار لارڈ کے حوالے کر کے بش انتظامیہ عراق چلی گئی تھی۔ 16 مارچ 2003 کو جس دن امریکہ نے عراق پر حملہ کیا تھا۔ وہ افغانستان میں امریکہ کی شکست کا دن تھا۔
    عراق پر امریکہ کے حملہ نے افغانستان میں طالبان کو منظم ہونے کا موقعہ دیا تھا۔ طالبان ایک نئی حکمت عملی کے ساتھ منظم ہو کر امریکہ اور نیٹو فوجوں سے لڑنے افغان شہروں میں پھیل گیے تھے۔ طالبان کو سوویت یونین کی فوجوں اور کابل میں اس کی حامی حکومت سے لڑنے کا تجربہ تھا۔ اور اب طالبان امریکہ اور نیٹو فوجوں کے ساتھ ازبک اور تاجک وار لارڈ سے  لڑ رہے تھے۔ اور کابل میں کرزئی حکومت سے بھی ان کی محاذ آرا ئی جاری تھی۔ طالبان افغانستان میں تین محاذوں پر لڑ رہے تھے۔ اور ان محاذوں نے طالبان کو نئی توانائی دی تھی۔ بش انتظامیہ کی عراق سے توجہ جب پھر افغانستان کی طرف ہوئی تھی۔ اس وقت تک طالبان بہت مضبوط اور منظم ہو چکے تھے۔ افغان وار لارڈ ایک طاقتور ادارہ بن گیے تھے۔ منشیات مافیا کا کرپشن عروج پر تھا۔ اور کابل میں حامد کرزئی حکومت انتہائی کمزور تھی اور امریکہ اور نیٹو کی بیساکھیوں پر کھڑی تھی۔ یہ افغانستان صدر بش دے کر گیے تھے۔ اور یہ افغانستان اب صدر اوبامہ چھوڑ کر گیے ہیں۔ ان دونوں انتظامیہ میں افغانستان میں کرپشن پر سینکڑوں رپورٹیں آئی تھیں۔ لیکن افغانستان میں کرپشن کے خلاف کچھ نہیں کیا گیا تھ
    گزشتہ ماہ امریکی حکومت کے خصوصی انسپکڑ جنرل براۓ افغان تعمیر نو کی 269 صفحات کی رپورٹ آئی ہے۔ ٹرمپ انتظامیہ میں یہ پہلی سہ ماہی رپورٹ ہے۔ اس رپورٹ میں نئی امریکی انتظامیہ کو یہ دیکھنے کا موقعہ ملے گا کہ 2002 کے بعد سے امریکہ نے افغانستان میں مختلف ترقیاتی پروجیکٹس میں 117 بلین ڈالر انویسٹ کیے ہیں۔ لیکن کرپشن اور حکومت کی بد انتظامی کی وجہ سے یہ پروجیکٹس ابھی تک مکمل نہیں ہو سکے ہیں۔ امریکہ اور نیٹو کی دس ہزار فوج افغان سیکورٹی فورس کو تربیت دینے کے لئے افغانستان میں رکھنے کا فیصلہ کیا تھا۔ لیکن افغانستان میں سیکورٹی کی صورت حال ابھی تک بدتر ہے۔ افغان پولیس اور سیکورٹی فورس کے ہزاروں اہل کار باغیوں کے حملوں میں مارے گیے ہیں۔ یا اپنے ہتھیار پھینک کر چلے گیے ہیں۔ اوبامہ انتظامیہ نے افغانستان میں امریکی فوجوں کی تعداد 80 ہزار سے ایک لاکھ  چالیس ہزار کر دی تھی۔ لیکن حالات  پھر بھی بہتر نہیں ہوۓ تھے۔ صدر اوبامہ نے پھر افغانستان سے تمام فوجیں واپس بلا لی تھیں۔ اور آپریشن ختم کر دئیے تھے۔ صرف آٹھ ہزار امریکی فوجیں افغانستان میں صرف افغان فورس کی تربیت کے لئے تھیں۔ جبکہ نیٹو کی پانچ ہزار فوجیں  افغانستان میں تھیں۔ لیکن اب افغانستان کے 57 فیصد ضلعوں پر کابل حکومت کا کنٹرول ہے۔ اور 43 فیصد پر طالبان اور وار لارڈ کا قبضہ ہے۔ افغانستان میں اتحادی فوج کے امریکی کمانڈر جنرل جان نکولسن نے اب دو ہزار مزید امریکی فوجوں کے لئے ٹرمپ انتظامیہ سے درخواست کی ہے۔ حالانکہ 16 سال سے افغانستان میں فوجی تجربوں میں ناکامی سے یہ ثابت ہو گیا ہے کہ افغانستان کا فوجی حل نہیں ہے۔ بش انتظامیہ کو افغان وار لارڈ کی طاقت کو کبھی بحال نہیں کرنا چاہیے تھا۔ اور افیون کی پیداوار کی افغانستان میں اجازت نہیں ہونی چاہیے تھی۔ طالبان کو Permanent Enemy” قرار دینے کا بش انتظامیہ کا فیصلہ نا معقول تھا۔
    طالبان امریکہ کے پرانے اتحادی تھے۔ جو امریکہ کے ساتھ سوویت فوجوں سے لڑے تھے۔ افغانستان سے القا عدہ کا خاتمہ سمجھ میں آتا تھا۔ لیکن افغانستان سے طالبان کا خاتمہ سمجھ میں نہیں آتا ہے۔ طالبان افغانستان کے شہری ہیں۔ انہیں وہاں رہنا اور مرنا ہے۔ افغان وار لارڈ اور افیون مافیا کے مقابلے میں یہ شاید پھر بھی بہتر ہو سکتے تھے۔ طالبان کو اقتدار سے ہٹانے کے بعد بش انتظامیہ کو طالبان سے رابطہ قائم کرنا چاہیے تھے۔ کیونکہ افغانستان کو جمہوری سیاست دینے کے لئے سیاسی عمل ہی اس کا واحد راستہ تھا۔ اب ٹرمپ انتظامیہ کو 16 سال میں دو امریکی انتظامیہ کی افغان پالیسیوں کا تفصیل سے جائزہ لینا ہو گا۔ اور ان غلطیوں کو دور کرنا ہو گا جن کی وجہ سے بش اور اوبامہ انتظامیہ افغانستان میں صرف ناکامیاں چھوڑ کر گئی ہیں۔                      


                

No comments:

Post a Comment