Tuesday, March 7, 2017

Henry Kissinger: "Wheeler And Dealer" of World Politics

Henry Kissinger: "Wheeler And Dealer" of World Politics  

مجیب خان
Donald Trump and Henry Kissinger

Henry Kissinger and Russian President Vladimir Putin

Kissinger and Putin

Henry Kissinger in Russia with President Putin

Meeting between Kissinger and Putin

Rex Tillerson, CEO Exxon Mobil and current U.S. Secretary of State, and Russian President Vladimir Putin
     اس خبر کے بعد کہ روس نے امریکہ کے صدارتی انتخاب میں مداخلت کی تھی۔ امریکہ میں جیسے Russo phobia کی وبا پھیل گئی ہے۔ صدر پو تن کا کہنا ہے کہ امریکہ  Banana Republic نہیں ہے۔ لیکن امریکی میڈیا کے ذریعہ یہ تاثر پیدا کیا جا رہا ہے کہ ڈونالڈ ٹرمپ روس کی مداخلت کے نتیجے میں صدر منتخب ہوۓ ہیں۔ اور اب ڈیمو کریٹس اور ری پبلیکن پارٹی کے بعض اراکین بھی انتخاب میں روس کی مداخلت کی تحقیقات کرانے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ اس سلسلے میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ صدر ٹرمپ کی انتخابی ٹیم کے بعض اراکین کے روس کے ساتھ رابطہ تھے۔ صدر ٹرمپ کے بعض قریبی مشیروں کے واشنگٹن میں روس کے سفیر سے ملاقات کرنے کو بھی شبہ سے دیکھا جا رہا ہے۔ صدر ٹرمپ کے قومی سلامتی کے مشیر Michael Flynn  کو تقرری کے صرف 23 روز میں اس لئے استعفا دینا پڑا تھا کہ انہوں نے روس کے سفیر کے ساتھ اپنی گفتگو کے بارے میں نائب صدر سے غلط بیانی کی تھی۔ امریکہ کے انتخابات میں روس کی مداخلت کا یہ معما سمجھ  میں نہیں آ تا ہے۔ کیونکہ کانگرس اور سینیٹ میں ری پبلیکن بھاری اکثریت سے کامیاب ہو ۓ ہیں۔ اور ری پبلیکن کی اکثریت صدر پو تن کے  ساتھ تعلقات استوار کرنے کی حمایت میں نہیں ہے۔ اور یوکرین کے مسئلہ پر صدر پوتن کے ساتھ  سخت موقف اختیار کرنا چاہتے ہیں۔ اور روس کے خلاف جو بندشیں لگائی گئی ہیں انہیں بھی ہٹانا نہیں چاہتے ہیں۔ روس کے بارے میں کانگرس کا اگر یہ رویہ ہے۔ تو پھر صدارتی انتخاب میں روس کی مداخلت اور صد ٹرمپ کو کامیاب کرانے کا مقصد کیا تھا؟ روس کے ساتھ تعلقات استوار کرنے کے لئے صدر ٹرمپ کو پہلے کانگرس میں راۓ عامہ ہموار کرنا ہو گی۔
     صدر اوبامہ نے ٹرمپ کے انتخابی ہیڈ کوارٹر میں شاید فون ٹیپ نہیں کیے ہوں گے۔ لیکن صدارتی انتخاب میں روس کی مداخلت کو ایک بڑا سکینڈل بنا کر گیے ہیں۔ اس الزام میں صدر اوبامہ نے روس کے 35 سفارت کاروں کو بھی امریکہ سے نکال دیا تھا۔ اور روس پر مزید نئی اقتصادی بندشیں لگا دی تھیں۔ صدر اوبامہ روس کے ساتھ  امریکہ کے تعلقات سرد جنگ کے دور میں پہنچا کر گیے ہیں۔ صدارتی انتخاب کے انعقاد کو حالانکہ چار ماہ ہو گیے ہیں۔ لیکن ابھی تک ایسے ثبوت سامنے نہیں آۓ ہیں کہ جسے دیکھ کر یہ کہا جاۓ کہ روس نے واقعی امریکہ کے صدارتی انتخاب میں مداخلت کی تھی۔ ایف بی آئی کے ڈائریکٹر نے اپنی تحقیقات کے بعد کہا ہے کہ ان کے پاس ووٹنگ میں گڑ بڑ کرانے کے ایسے کوئی ثبوت نہیں ہیں۔ لیکن اس کے باوجود صدر پو تن کو امریکہ کے انتخاب میں مداخلت کرنے اور امریکہ کے جمہوری نظام کو تباہ کرنے کا الزام دیا جا رہا ہے۔ جو بالکل ایسے ہی الزام ہیں جو صد ام حسین کو مہلک ہتھیاروں سے امریکہ اور اس کے اتحادیوں کو تباہ کرنے کے بارے میں  تھے۔ امریکہ کی دوسو سال کی جمہوریت Paper Tiger نہیں ہے کہ انتخاب میں روس کی مداخلت سے امریکہ کی جمہوریت تباہ ہو جاۓ گی۔ اہم سوال یہ ہونا چاہیے کہ روس نے اگر امریکہ کے انتخاب میں مداخلت کی ہے تو کیوں کی ہے؟ کیا یہ مداخلت دنیا کے مفاد میں تھی؟
    دوسرے ملکوں کے انتخابات میں مداخلت سی آئی اے کا قدیم کلچر ہے۔ سرد جنگ کے دور میں مغربی یورپ میں برطانیہ فرانس اٹلی اور مغربی جرمنی وغیرہ میں انتخابات میں سی آئی اے مداخلت کرتی تھی۔ اور اکثر ان ملکوں میں لیبر پارٹی اورڈیمو کریٹک سوشلسٹ پارٹی کے امیدواروں کو اقتدار میں آنے سے روکنے کے لئے مداخلت کی جاتی تھی۔ اور کنز ر ویٹو پارٹی کے امیدواروں کو انتخابات میں کامیاب کرایا جاتا تھا۔ صدر پو تن اس وقت مغربی جرمنی میں KGB اسٹیشن چیف تھے۔ سرد جنگ روس نے ختم کر دی تھی۔ اور صدر پو تن مڑ کر اس دور کو نہیں دیکھتے تھے۔ صدر پو تن 17 سال سے روس میں اقتدار میں ہیں۔ لیکن انہوں نے امریکہ یا یورپ کے کسی ملک کے انتخابات میں کبھی مداخلت نہیں کی تھی۔ لیکن 2016 میں امریکہ کے انتخاب میں صدر پو تن کو مداخلت کا الزام اس لئے بھی دیا جا رہا ہے کہ وہ KGB کے سابق ایجنٹ تھے۔
    اگر ہلری کلنٹن ڈیموکریٹک پارٹی کی صدارتی امیدوار نہیں ہوتی تو شاید روس کو انتخاب میں مداخلت کرنے کا الزام بھی نہیں جاتا۔ اب اگر یہ فرض کر لیا جاۓ کہ روس نے مداخلت کی تھی۔ تو پھر روس کی مداخلت اور ری پبلیکن پارٹی کی سینٹ اور کانگرس میں اعلی قیادت کے ان بیانات میں کہ ہلری کلنٹن کو کسی صورت میں اقتدار میں نہیں آنے دیا جاۓ گا ایک بڑا Correlation کیوں نہیں ہے؟ ری پبلیکن پارٹی کی اس مخالفت سے ہٹ کر ہلری کلنٹن کی صدارتی انتخاب میں شکست کا جائزہ لیا جاۓ تو اس میں ان کی اپنی غلطیوں اور کمزوریوں کا ایک بڑا رول تھا۔ بش اور اوبامہ انتظامیہ کی جنگوں میں مسلسل ناکامیاں بھی ہلری کلنٹن کی صدارتی انتخاب میں ناکامی کا سبب تھا۔ ہلری کلنٹن نے ہر جنگ کی حمایت کی تھی۔ اور پھر جب سیکرٹیری آف اسٹیٹ تھیں۔ انہوں نے لیبیا میں حکومت تبدیل کرنے کے لئے فوجی حملہ کی حمایت تھی۔ شام میں ایک خوفناک خانہ جنگی کی حمایت کی تھی۔ شام کے مسئلہ کے سیاسی حل کی کبھی بات نہیں کی تھی۔ اور یوکرین کے مسئلہ پر بھی ہلری کلنٹن کا موقف بڑا Hawkish تھا۔ صدارتی مہم میں ہلری کلنٹن نے اپنے اس Hawkish کردار کی صفائی میں کچھ نہیں کہا تھا۔ نہ ہی بش اور اوبامہ کی جنگوں سے فاصلے ر کھے تھے۔ روس کو شاید یہ خدشہ تھا کہ امریکہ اور نیٹو کی یہ چھوٹی چھوٹی جنگیں کہیں بڑی جنگ بن سکتی ہیں۔ یہ امریکہ اور نیٹو تھے جنہوں نے یوکرین کا بحران پیدا کیا تھا۔ اور پھر روس کو اس بحران میں ملوث کر دیا تھا۔ روس کی جنگوں میں کوئی دلچسپی نہیں تھی۔ روس نے سرد جنگ ختم کر دی تھی۔ وا رسا ملٹری پیکٹ ختم کر دیا تھا۔ جو سرد جنگ میں نیٹو کے مقابلے پر بنایا گیا تھا۔ صدر پو تن تقریباً سترہ سال سے اقتدار میں ہیں۔ لیکن ان کی قیادت میں روس نے دنیا میں کسی ملک پر Preemptive حملہ نہیں کیا ہے۔ نہ ہی علاقائی جنگوں میں گروپ بناۓ ہیں۔
    روس اکنامک پاور بننا چاہتا ہے۔ صدر پو تن روس کو معاشی بربادی سے نکال کر ایک مستحکم اقتصادی راستہ پر لائیں ہیں۔ روس دنیا میں تیل پیدا کرنے والے ملکوں میں اب پہلے نمبر آ گیا ہے۔ روس بہت جلد اقتصادی طاقت بن کر امریکہ کے مقابلہ پر آ سکتا ہے۔ اس لئے امریکہ نے ابھی تک روس پر سے سرد جنگ دور کی اقتصادی بندشیں بھی نہیں ہٹائی ہیں۔ بلکہ نئی اقتصادی بندشیں لگا دی ہیں۔ اور نیٹو نے روس کو گھیر لیا ہے۔ صدر پو تن کو ہلری کلنٹن کے اقتدار میں آنے سے تشویش صرف یہ تھی کہ روس کے لئے نئے مسائل پیدا ہوں گے۔ صدر اوبامہ نے شام روس کے لئے Quagmire ہو گا کہا تھا۔ جنگوں کے خطرات زیادہ تھے۔ جنگیں ختم ہو نے کی روشنی دور دور تک نظر نہیں آ رہی تھی۔ امریکہ میں بھی لوگ جنگوں سے تنگ تھے۔ یہ صدارتی انتخاب دو انتظامیہ کی پالیسیوں پر ریفرینڈم تھے۔ اور امریکی عوام نے دونوں انتظامیہ کی پالیسیوں کو مسترد کر دیا تھا۔ روس نے RT ٹی وی اور سوشل میڈیا کے ذریعہ عوامی راۓ عامہ ڈونالڈ ٹرمپ کی حمایت میں بنانے میں ایک اہم رول ادا کیا تھا۔ امریکہ میں اسٹیبلشمینٹ کو یقین نہیں آ رہا ہے کہ روس کا میڈیا امریکہ میں کیسے اتنا طاقتور ہو گیا تھا۔ کہ انتخاب کا پانسہ پلٹ دیا ہے۔ حکومتوں کے پانسہ پلٹنے کی اجارہ داری اب تک صرف امریکہ اور برطانیہ کے میڈیا کی تھی۔ میڈیا کی آزادی دراصل میڈیا کی Credibility ہے۔ اور امریکہ اور مغربی میڈیا یہ Credibility کھو چکے ہیں۔ ڈونالڈ ٹرمپ جسے Fake اور Phony میڈیا کہتے ہیں۔
    امریکہ کے صدارتی انتخاب میں روس کی مداخلت کو ابھی تک جس طرح شبہات کے رنگ دئیے جا رہے ہیں۔ صدر ٹرمپ کے  قریبی مشیروں اور بعض اعلی انتخابی اسٹاف کی روسی حکام کے ساتھ رابطوں اور ملاقاتوں کو مشکوک بنایا جا رہا ہے۔ واشنگٹن میں روس کے سفیر سے جس نے بھی ہاتھ ملا یا ہے۔ اسے انتخاب میں روس کی مداخلت  ثابت کر دیا ہے۔ حالانکہ ڈونالڈ ٹرمپ کا انتخابی عملہ، مشیر اتنے با اثر شخصیتیں بھی نہیں تھیں کہ جنہیں روس اپنے مقاصد میں استعمال کر سکتا تھا۔ صدارتی انتخاب میں روس کی مداخلت کے ریڈار پر امریکی خارجہ پالیسی اسٹیبلشمینٹ کے Heavy weight ہنری کیسنگر نہیں ہیں۔ جو صدر پو تن سے خاصہ متاثر ہیں۔ اور صدر پو تن بھی انہیں بڑے غور سے سنتے ہیں۔ ہنری کیسنگر 2007 سے صدر پو تن سے ملنے ماسکو جا رہے ہیں۔ صدارتی انتخاب کی دو سال کی مہم کے دوران سابق سیکرٹیری آف اسٹیٹ ہنری کیسنگر نے روس کے تقریباً پندرہ دورے کیے ہیں اور صدر پو تن سے ملاقاتیں کی ہیں۔ 2014 کے خزاں میں ہنری کیسنگر نے پو تن سے 6 گھنٹے ملاقات کی تھی۔ اس وقت پو تن وزیر اعظم تھے۔ ان ملاقاتوں میں ہنری کیسنگر اور صدر پو تن نے اہم عالمی امور، مشرق وسطی کی صورت حال، ہتھیاروں کے کنٹرول اور تخفیف اسلحہ اور عالمی معیشت پر تبادلہ خیال کیا تھا۔ صدر پو تن  سابق سیکرٹیری آف اسٹیٹ ہنری کیسنگر کو "عالمی درجہ کا مفکر" سمجھتے ہیں۔ ہنری کیسنگر نے کہا کہ “Russia’s leader Putin has secured equilibrium in the world.” یوکرین کے مسئلہ پر “Kissinger has urged the West to shoulder part of the blame for the conflict in Ukraine. Crimea was a special case and Russia’s annexation of the peninsula was inappropriate but not a move towards global conquest.”       

                        

No comments:

Post a Comment