Friday, March 31, 2017

Is There Any Similarity Between The Bush Administration’s Meddling In Pakistan’s Internal Politics, And President Putin’s Interference In The American Election?

Is There Any Similarity Between The Bush Administration’s Meddling In Pakistan’s Internal Politics, And President Putin’s Interference In The American Election?         

مجیب خان
Russian President Vladimir Putin

Former Presidents Pakistan's Asif Zardari and George W. Bush

Former Prime Minister of Pakistan Raza Gillani and George W. Bush

Former Presidents Pervez Musharraf and George Bush
     
   اگر روس نے واقعی 2016 کے صدارتی انتخاب میں مداخلت کی ہے۔ تو سوال یہ ہے کہ  مداخلت کیوں کی ہے؟ اس مداخلت کے در پردہ مقاصد کیا ہو سکتے ہیں؟ اگر روسی مداخلت کا مقصد امریکہ کے جمہوری نظام کو تباہ کرنا تھا۔ یا معاشی طور پر امریکہ کو نقصان پہنچانا تھا۔ یہ نقصان امریکہ کو اس کی اپنی جنگوں سے پہنچ رہا ہے۔ اور روس کو مداخلت کرنے کی ضرورت نہیں تھی۔ ان جنگوں میں امریکہ کے تقریباً 6 ٹیریلین ڈالر خرچ ہو چکے ہیں۔ اور ان جنگوں میں امریکہ کو مصروف رکھنا شاید روس کے مفاد میں ہوتا۔ لیکن روس کے با ظاہر یہ مقاصد نہیں تھے۔ امریکہ کو نقصان پہنچانے کے مقصد سے مداخلت بہت مختلف ہوتی۔ 9 سال قبل بش چینی انتظامیہ نے پاکستان کی داخلی سیاست میں مداخلت کی تھی۔ اور بے نظیر بھٹو کا صدر جنرل پرویز مشرف کی حکومت کے ساتھ سمجھوتہ کرایا تھا۔ نواز شریف بھی اس سمجھوتہ میں شامل تھے۔ ڈپٹی سیکرٹیری اف اسٹیٹ John Negroponte اور اسسٹنٹ سیکرٹیری آف اسٹیٹ براۓ جنوبی اور وسط ایشیا امور Richard Boucher نے جنرل پرویز مشرف اور بے نظیر بھٹو کے درمیان مذاکرات میں مدد کی تھی۔ اور ان کی مدد سے سمجھوتہ کا مسودہ  تیار ہوا تھا۔ کیونکہ سمجھوتہ کا یہ مسودہ واشنگٹن میں ٹائپ ہوا تھا۔ لہذا پاکستان میں تمام سیاسی رہنماؤں نے آنکھیں بند کر کے اسے بوسہ دیا تھا۔ کسی لیڈر نے پاکستان کی اندرونی سیاست میں بش چینی انتظامیہ کی اس مداخلت پر اس طرح واویلا نہیں کیا تھا۔ جس طرح  امریکہ میں روس کی صدارتی انتخاب میں مداخلت پر دونوں بڑی جماعتیں شور کر رہی ہیں۔ اور اس مداخلت سے متعلق روزانہ نئے سکینڈل سامنے آ رہے ہیں۔
   روس نے امریکہ کے صدارتی انتخاب میں اگر مداخلت کی ہے تو Intention کیا ہو سکتے ہیں؟ روس کے Intention امریکہ میں عدم استحکام پیدا کرنا نہیں تھا۔ جس طرح 1977 میں پاکستان کے انتخابات میں امریکہ کی مداخلت نے پاکستان کو عدم استحکام کیا تھا۔ لیکن امریکہ دنیا میں جتنا طاقتور ہے اس کا داخلی استحکام بھی اتنا ہی مضبوط ہے۔ ڈونالڈ ٹرمپ نے 18 ماہ اپنی صدارتی مہم کے دوران امریکی عوام سے خطاب میں جو باتیں کی ہیں۔ ان میں صدر پو تن کے امریکہ کے انتخاب میں مداخلت کرنے کے Intentions بڑے واضح نظر آتے ہیں۔ ڈونالڈ ٹرمپ نے انتخابی مہم میں جنگوں کے خلاف Stand لیا تھا۔ عراق لیبیا اور شام میں Military Adventurism کو امریکہ کے لئے تباہ کن بتایا تھا۔ صدر پو تن بھی ان جنگوں کے خلاف تھے۔ اور وہ یہ دیکھنا نہیں چاہتے تھے کہ امریکہ کا تیسرا صدر بھی اسی طرح دنیا میں جنگیں پھیلانے میں اپنے چار یا آٹھ سال گزار دے۔ اور ڈر یہ تھا کہ ہلری کلنٹن اگر صدر منتخب ہو جاتی تو شاید دنیا Destabilize کر دیتیں۔ جس طرح شام اور لیبیا Destabilize کیے ہیں۔ اور یہ یورپ کو Terrorize کر رہے تھے۔ اگر روس نے امریکہ کے انتخاب میں مداخلت کی ہے تو یہ امریکہ  کو صرف جنگوں کے کاروبار سے نکالنے کی غرض سے کی ہے۔ جبکہ پاکستان میں بش چینی انتظامیہ کی مداخلت کا مقصد ایک طویل جنگ کے ذریعہ  پاکستان کو Destabilize  کرنا تھا۔ اور پاکستان کو دہشت گردی کی عالمی جنگ کا Epic Center بنایا جا رہا تھا۔ بش چینی انتظامیہ نے پاکستان کے رہنماؤں کو سیاسی Favor دی تھی۔ انہیں اقتدار میں آنے کا موقعہ دیا تھا۔ اور پھر ان سیاسی رہنماؤں سے دہشت گردی کے خلاف جنگ کو فروغ دینے کا کام لیا گیا تھا۔ حالانکہ بے نظیر بھٹو کا یہ موقف تھا کہ افغانستان کا فوجی حل نہیں ہے اور جب وہ اقتدار میں آئیں گی۔ افغانستان کا سیاسی حل کریں گی۔ بش انتظامیہ افغانستان کے سیاسی حل میں دلچسپی نہیں رکھتی تھی۔ طالبان سے کوئی مذاکرات نہیں ہوں گے اور یہ امریکہ کی پالیسی تھی۔ سیاستدانوں کو امریکہ کی اس پالیسی کے بارے میں غور کرنا چاہیے تھا کہ سیاسی حکومت سے آخر فوجی حکومت کا کام کیوں لیا جا رہا تھا۔
   بے نظیر بھٹو کا قتل پاکستان میں بش انتظامیہ کی اس مداخلت کا ایک سبب تھا۔ بش انتظامیہ نے بے نظیر بھٹو اور صدر جنرل پرویز مشرف کے درمیان جو سمجھوتہ کرایا تھا۔ پاکستان پہنچنے کے بعد بے نظیر بھٹو اس سمجھوتہ سے پھر گئی تھیں۔ اور سمجھوتہ ختم کرنے کا اعلان کر دیا تھا۔ بش انتظامیہ کو بے نظیر بھٹو کے اس فیصلہ پر خاصی تشویش ہوئی تھی۔ نائب صدر ڈک چینی نے اپنی کتاب میں لکھا تھا کہ "بے نظیر بھٹو پر اعتماد نہیں کیا جا سکتا تھا۔" بے نظیر کو راستہ سے ہٹا دیا گیا تھا۔ اور آصف علی زر داری کے لئے قیادت کا راستہ ہموار ہو گیا تھا۔ بش انتظامیہ نے سیاسی جماعتوں کا مشرف حکومت کے ساتھ جو معاہدہ کرایا تھا۔ اس میں آصف علی زر داری کے خلاف کرپشن کے تمام مقدمات بھی ختم کر دئیے گیے تھے۔ سوئس بنکوں میں زر داری کے منجمد 60 ملین ڈالر بھی بحال ہو گیے تھے۔ آصف علی زر داری پاکستان کے صدر بن گیے تھے۔ نائب صدر ڈک چینی سے یہ پوچھا جاۓ کہ کیا روس کی مداخلت سے امریکہ میں کسی کرپٹ شخص کے خلاف اس طرح مقدمات ختم ہو سکتے ہیں اور وہ صدر بن سکتا ہے؟
   عوام نے جس حکومت کو منتخب کیا تھا۔ اس حکومت کے لئے بش انتظامیہ کا پیغام یہ تھا کہ طالبان سے مذاکرات نہیں ہوں گے۔ اور جنگ جاری ر ہے گی۔ یوسف رضا گیلانی وزیر اعظم کا حلف اٹھانے کے بعد پہلی پرواز سے واشنگٹن پہنچے تھے۔ اور وائٹ ہاؤس میں صدر بش اور نائب صدر ڈک چینی نے وزیر اعظم گیلانی سے ملاقات کی تھی۔ وزیر اعظم گیلانی سے یہ عہد لیا تھا کہ وہ صدر پرویز مشرف کی پالیسیوں کو جاری رکھیں گے۔ اور انہیں تبدیل نہیں کریں گے۔ امریکہ میں پاکستان کے مستقبل کے سفیر بھی اس ملاقات میں ان کے ساتھ تھے۔ وزیر اعظم کے بعد آصف علی زر داری صدر کے عہدہ کا حلف اٹھانے کے بعد وائٹ ہاؤس آۓ تھے۔ اور انہیں بھی صدر بش اور نائب صدر چینی سے ملا یا گیا تھا۔ صدر بش نے جو عہد وزیر اعظم سے لیا تھا وہ ہی صدر زر داری سے بھی لیا گیا تھا۔ رحمان ملک اور حسین حقانی بھی صدر زر داری کے ساتھ تھے۔ اور اس ملاقات میں نائب صدر چینی نے صدر زر داری سے حقانی کو امریکہ میں پاکستان کا سفیر بنانے کی سفارش کی تھی۔ اور صدر زر داری نے ان کی یہ سفارش قبول کر لی تھی۔ صدر زر داری کے جانے کے بعد پھر سپریم کورٹ کے چیف جسٹس افتخار محمد چودھری امریکہ آۓ تھے۔ امریکہ میں ان کی بڑی آؤ بھگت ہوئی تھی۔ انہیں نیویارک بار کی طرف سے اعزاز دیا گیا تھا۔
   پاکستان میں جمہوری حکومت کا نقشہ اس طرح تھا کہ وزیر اعظم گیلانی تھے۔ صدر آصف علی زر داری تھے۔ پارلیمنٹ کا وجود بغیر وجود کا تھا۔ فوج کو دہشت گردوں سے لڑنے کی جنگ دی گئی تھی۔ چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کو صدر زر داری کے سر پر تلوار بنا کر بیٹھا یا گیا تھا۔ تاکہ صدر زر داری امریکہ کی لائن پر رہیں۔ چیف جسٹس افتخار محمد نے صدر زر داری کے خلاف کرپشن کے مقدمہ دوبارہ کھولنے کے لئے وزیر اعظم گیلانی سے سوئس حکومت کو خط لکھنے کے لئے کہا تھا۔ اس ڈرامہ میں صدر زر داری کے وکیل چودھری اعتزاز احسن تھے۔ جنہوں نے زر داری حکومت کے ساڑھے چار سال سپریم کورٹ میں یہ دلیلیں دینے میں گزار دئیے تھے کہ یہ خط نہیں لکھا جا سکتا ہے۔ اور پھر سپریم کورٹ کی سیڑھیوں پر ٹی وی کیمروں کے سامنے یہ کہتے رہے کہ خط لکھنے میں کوئی ہرج نہیں تھا۔ صدر زر داری اپنے محل میں Big Screen پر یہ ڈرامہ دیکھ رہے تھے۔ جس میں دہشت گردوں کے مار دھاڑ کے خوفناک سین بھی تھے۔ پاکستانی نوجوانوں کے قیمتی پانچ سال اس حکومت نے اس طرح برباد کیے تھے۔ 60 ملین ڈالر لے کر حکومت کرنے کے یہ نتائج تھے۔
   اول تو روس نے امریکہ کی داخلی سیاست میں کوئی مداخلت نہیں کی ہے۔ اور اگر مداخلت کی ہے تو یہ بش انتظامیہ کی پاکستان کی داخلی سیاست میں مداخلت سے بہت مختلف ہے۔ روس نے صدارتی انتخاب میں صرف امریکی عوام کے فیصلہ کی  حمایت کی ہے۔ امریکی عوام نے 8 سال ری پبلیکن پارٹی کو دئیے تھے۔ اور 8 سال ڈیموکریٹک پارٹی کو دئیے تھے۔ دونوں پارٹیوں نے صرف Security کے مسئلہ پر ایک دوسرے پر بازی لے جانے کے لئے حکومت کی تھی۔ اور امریکی عوام کے دوسرے تمام مسائل انہوں نے نظر انداز کر دئیے تھے۔ امریکی عوام Security کے نام پر جنگوں سے بہت تنگ تھے۔ اور انہیں دونوں پارٹیوں کی 16 سال سے پالیسیوں پر غصہ تھا۔ لہذا ڈونالڈ ٹرمپ امریکی عوام کے Populist بن گیے تھے۔ دونوں پارٹیاں اپنی شکست کے اسباب کا اعتراف کرنے کے بجاۓ صدر پو تن کو امریکہ کے انتخاب میں مداخلت کرنے کا الزام دے رہی ہیں۔ اسامہ بن لادن کے بعد اس فہرست میں صدر پو تن اب پہلے نمبر پر آ گیے ہیں۔ سابق نائب صدر Dick Cheney نے روس کی مداخلت کو ایک Hostile act کہا ہے۔ “Russian President Vladimir Putin  made a serious attempt to interfere in the 2016 election and other democratic processes in America. In some quarters, that would be considered an act of war.”                

Former U.S. Vice President Dick Cheney is right, and World is witnessing that “act of war” in Afghanistan, Iraq, Libya, Syria, Yemen, Somalia, and so many other places.         

No comments:

Post a Comment