Rise of A New India
End of Nehru’s Secularism And Rise of Modi’s Extreme Hinduism
مجیب خان
Prime Minister Narendra Modi, Leader of BJP Party |
Indian Christians, Muslims, and Sikhs are under attack by the extremist Hindu parties |
Protests in India |
بھارت کی چار ریاستوں اتر پردیش، اترا کھنڈ، گوا
(Goa) اور
منی پور کے انتخابات میں جنتا پارٹی کی غالب اکثریت سے کامیابی نے وزیر اعظم نر
یندر مودی کو مرکز میں نئی توانا ئی دی ہے۔ جبکہ ان ریاستوں کے انتخابات میں
کانگرس کا جیسے بالکل صفایا ہو گیا ہے۔ کانگرس صرف پنجاب میں کامیاب ہوئی ہے۔ ان
ریاستوں کے انتخابات میں ہندو انتہا پسند سیوا سینگ اور ہندو قوم پرست جنتا پارٹی
ایک دوسرے کے قریب آ گیے ہیں۔ بھارت کے سیکولر جمہوری نظام کے لئے ہندو قوم پرست
اور ہندو انتہا پسند ایک بڑا خطرہ بن رہے ہیں۔ اتر پردیش بھارت کی ایک بڑی ریاست
ہے۔ ریاست کی اسمبلی کی 403 نشستوں میں سے 312 نشستیں جنتا پارٹی نے حاصل کی ہیں۔
اتر پردیش کی 220 ملین کی آبادی ہے جس میں 40 ملین مسلمان ہیں۔ بھارت میں سب سے
زیادہ مسلمان اس ریاست میں صدیوں سے آباد ہیں۔ لیکن مودی کی جنتا پارٹی نے اتر
پردیش میں ایک مسلمان بھی اسمبلی کی نشست کے لئے نامزد نہیں کیا تھا۔ بھارت میں
مسلمانوں کے مستقبل کے بارے میں مودی کی جنتا پارٹی کا یہ فیصلہ کیا پیغام دیتا
ہے؟ ریاست کی اسمبلی کی نشستوں کے لئے ان ہندوؤں کو کھڑا کیا تھا جو سیوا سینگ کے
کٹر ہندو نظریات سے اتفاق کرتے تھے اور یا جنتا پارٹی کے ہندو قوم پرست تھے۔ بھارت
کی مشرقی ریاست منی پور میں قوم پرست ہندوؤں کو اسمبلی کی نشست پر کبھی کامیابی
نہیں ہوئی تھی۔ لیکن اب منی پور میں پہلی مرتبہ جنتا پارٹی بھاری اکثریت سے کامیاب
ہوئی ہے۔ وزیر اعظم نریندر مودی نے ان ریاستوں کے انتخابات میں جنتا پارٹی کی غالب
اکثریت سے کامیابی پر Tweet میں
کہا ہے کہ "ایک نیا بھارت ابھر رہا ہے۔"
اور
یہ نیا بھارت Rashtriya
Swayamsevak Sangh انتہا پسند ہندوؤں
کا بھارت ہے۔ جس کے ساتھ وزیر اعظم نریندر مودی کی کئی دہائیوں سے وابستگی تھی۔ ان
کا بھارت کو کٹر انتہا پسند ہندوؤں کا ملک بنانے کا جو خواب تھا۔ آزادی کے 70 سال
بعد اب یہ پورا ہوتا نظر آ رہا ہے۔ اس لئے نریندر مودی بھارت کے ہندوؤں میں بہت
مقبول ہیں۔ گزشتہ نومبر میں وزیر اعظم مودی کے ایک ہزار اور پانچ سو روپے کے نوٹ
منسوخ کرنے کے فیصلے سے عام لوگ اور تاجر برادری بالکل خوش نہیں تھے۔ اور وزیر
اعظم مودی کی مخالفت بڑھ رہی تھی۔ جس سے یہ تاثر پیدا ہو رہا تھا کہ ان چار
ریاستوں کے انتخابات میں لوگ بھاری اکثریت سے مودی کی پارٹی کے خلاف فیصلہ دیں گے۔
لیکن وزیر اعظم مودی نے ان ریاستوں کے انتخابات میں ہندو انتہا پسندوں اور ہندو
قوم پرستوں کے کارڈ بڑی خوبصورتی سے استعمال کیے ہیں۔ اور شاید یہ ہی وجہ تھی کہ
اتر پردیش میں جنتا پارٹی نے کسی مسلمان کو اپنا امیدوار نامزد نہیں کیا تھا۔
حالانکہ اتر پردیش میں آبادی کے لحاظ سے مسلمان ریاست کے اندر ریاست کا درجہ رکھتے
تھے۔ بہرحال یہ نریندر مودی کا نیا بھارت ہے۔ جواہر لال نہرو کا سکیولر بھارت اب
بھارتی سیاست کی تاریخ کی کتابوں میں ملے گا۔
یہ
جواہر لال نہرو کی قیادت میں جمہوری سکیولر نظام تھا۔ جس نے دنیا میں بھارت کو ایک
نمایاں مقام دیا تھا۔ نہرو نے قدیم ہندو روایتی قانون کی جگہ بھارت کے دستور میں
جدید مغربی قوانین شامل کیے تھے۔ نہرو نے
سامراجی اور نوآبادیاتی طاقتوں کی عالمی محاذ آرا ئیوں سے بھارت کو دور رکھا تھا۔
اور بھارت غیرجانبدار ملکوں کے بلاک میں شامل ہو گیا تھا۔ لیکن وزیر اعظم مودی نے
اقتدار میں آنے کے بعد پہلے ہی سال میں بھارت کی اس روایتی خارجہ پالیسی کو بدل
دیا ہے۔ اور اب مودی کی قیادت میں بھارت کی امریکہ کے ساتھ فوجی سرگرمیاں بڑھ گئی
ہیں۔ اور اسے بھارت کا امریکہ کے ساتھ چین کے خلاف محاذ بنتا دیکھا جا رہا ہے۔ اور
یہ مودی کی قیادت میں ہمسایہ ملکوں کے خلاف بھارت کا نیا رول ہے۔ یہ ہندو انتہا
پسندی بھارت کے خار جی امور میں بھی بڑھتی جا رہی ہے۔
جبکہ
داخلی امور میں اقلیتی عقیدتوں کے ساتھ ہندو انتہا پسندوں کا رویہ خاصہ جارحانہ
ہے۔ اور مودی کے دور میں یہ اور زیادہ بڑھ گیا ہے۔ امریکہ کے اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کی
سالانہ رپورٹ میں بھی بھارت میں اقلیتوں کے ساتھ سلوک پر شدید تنقید کی گئی تھی۔
لیکن اس کے باوجود وزیر اعظم مودی کے دور حکومت میں اس میں کوئی تبدیلی نہیں ہوئی
ہے۔ کشمیری مسلمانوں کو جس طرح کچلا جا رہا ہے۔ یہ بھی ہندو انتہا پسندی ہے۔ جبکہ
عیسائوں کو ہراس کرنے اور ان کے گرجے آگ لانے
کی رپورٹیں بھی ہیں۔ کرسچین مشنری کے چند امریکی گزشتہ ماہ بھارت کے تین ہفتہ کے
دورے سے واپس آۓ ہیں۔ مغربی بنگال اور شمالی بھارت گیے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ
بھارت میں غربت حد سے زیادہ ہے۔ فوجی اخراجات پر بھارت بہت زیادہ خرچ کر رہا ہے۔
ہندو انتہا پسندی بڑھتی جا رہی ہے۔ عیسائوں کو مارتے ہیں۔ گرجوں کو آگ لگا دیتے
ہیں۔ اپنے ہر مسئلہ کا الزام پاکستان کو دینے لگتے ہیں۔ اگر انہیں پانی نہیں ملتا
ہے تو اس کا الزام بھی پاکستان کو دیتے ہیں۔ بجلی نہیں ہوتی ہے تو اس کا الزام بھی
پاکستان کو دینے لگتے ہیں کہ پاکستان ان کے پاور پلانٹ سبوتاژ کر رہا ہے۔ یہ انہیں
واشنگٹن میں اپنی حکومت کو بتانا چاہیے جو بھارت کو عالمی قیادت کا درجہ دینا
چاہتے ہیں اور بھارت کو اقوام متحدہ میں ایک اہم کرسی پر بیٹھنا چاہتے ہیں۔ اب
دیکھنا یہ ہے کہ بھارت کی چار ریاستوں میں ہندو انتہا پسندوں اور ہندو قوم پرست
جنتا پارٹی کی بھاری اکثریت سے کامیابی کا مقبوضہ کشمیر میں محصور مسلمانوں پر جو
حقوق اور آزادی مانگ رہے ہیں ان کی تحریک پر اس کے کیا اثرات ہوں گے؟
بھارت
کی ریاستوں میں انتخابات سے صرف چار روز قبل مودی حکومت نے ہندو انتہا پسندوں کو
خوش کرنے کے لئے سب سے بڑی Christian
Charity تنظیموں کے بھارت میں مشن بند
کرنے کا حکم دیا تھا۔ بھارتی حکومت کے اس فیصلہ کا سانحہ Colorado based Christian Charity
تھا۔ جو بھارت میں ایک بڑا خیراتی ادارہ تھا۔ اور 48 سال سے بھارت میں کام کر رہا
تھا۔ اور اب 48 سال بعد حکومت نے اسے بھارت میں اپنے دروازے بند کرنے کا حکم دیا ہے۔ یہ ادارہ ہر سال
تقریباً 45 ملین ڈالر خیرات تقسیم کرتا تھا۔ ایک اخباری اطلاع کے مطابق مودی حکومت
نے اقتدار میں آنے کے بعد تقریباً گیارہ سو سے زیادہ غیر سرکاری تنظیموں کے غیرملکی
فنڈ وصول کرنے کے لائیسنس منسوخ کیے ہیں۔ مودی حکومت کے یہ فیصلے دراصل ہندو انتہا
پسندوں کے مفاد میں ہیں۔
15 سال
پہلے امریکہ کو یہ تشویش تھی کہ پاکستان کے نیو کلیر ہتھیار اسلامی انتہا پسندوں کے
ہاتھوں میں آ جائیں گے۔ لیکن ان 15 سالوں میں پاکستان میں اسلامی انتہا پسندی کو
کمزور کر دیا گیا ہے۔ اور آنے والے سالوں میں پاکستان کو ان سے نجات مل جاۓ گی۔
لیکن دنیا کو اب بھارت میں جس تیزی سے ہندو انتہا پسندی کو فروغ دیا جا رہا ہے۔ اس
کی فکر کرنا چاہیے۔ ہندو انتہا پسندی اسلامی انتہا پسندی سے کسی طرح کم خطرناک
نہیں ہے۔ امریکہ کو اب بھارت کے لئے اپنی نیو کلیر ایٹمی ٹیکنالوجی فراہم کرنے کی
پالیسی کا جائزہ لینا چاہیے۔ بالخصوص بھارت کی سیاست میں جس طرح کی تبدیلیاں آ رہی
ہیں۔ ہندو انتہا پسندوں کی بھارت کے جمہوری اداروں پر گرفت بڑھتی جا رہی ہے۔ بھارت
کا سکیولرازم ختم ہوتا جا رہا ہے۔ ایک نیو کلیر بھارت میں ہندو انتہا پسندی کا
فروغ بھی دنیا کے لئے خطرے کی گھنٹی ہے۔
No comments:
Post a Comment