Saudi King’s East Asia Visit
China’s Investment In The Saudi’s “Vision 2030” And Saudi Arabia’s Hundred Billion Dollar
Investment In The World's Military Industrial Complex
How Will This Vision Work?
مجیب خان
Saudi King and Japan Prime Minister Shinzo Abe |
President Xi Jinping and Saudi Arabia's King |
Chinese Prime Minister Li Keqiang and Saudi King Salman |
One-fifth of Saudi's live in poverty |
سعودی شاہ سلمان کے دورہ چین سے قبل چین کے وزیر
خارجہ Wang Yi نے
پارلیمنٹ کے سالانہ اجلاس کے وقفہ کے
دوران پریس کانفرنس میں کہا " ہمیں امید ہے کہ سعودی عرب اور ایران کے
درمیان جو مسائل پیدا ہو گیے ہیں۔ انہیں برابری اور افہام و تفہیم سے حل کیا جاۓ۔
چین سعودی عرب اور ایران دونوں کا دوست ہے۔ اگر انہیں ہماری ضرورت ہو گی چین اپنا
اہم رول ادا کرنے کے لئے تیار ہے۔" چین کے وزیر خارجہ کا سعودی عرب کو یہ
مشورہ اسلامی تعلیمات کے مطابق ہے۔ اور اسلام
بھی مسلمانوں کے درمیان اختلاف پیدا ہو جانے کی صورت میں انہیں باہمی
مفاہمت سے حل کرنے کا درس دیتا ہے۔ چین کی تاریخ اسلام کی آمد سے تقریباً تین ہزار سال پرانی ہے۔ اور شاید اسی لئے رسول
اللہ صلعم نے مسلمانوں سے یہ کہا تھا کہ اگر انہیں تعلیم حاصل کرنے کے لئے چین
جانا پڑے تو وہ ضرور چین جائیں۔ شاہ سلمان نے اپنے دورہ چین میں بہت کچھ دیکھا ہو
گا۔ بہت کچھ سیکھا بھی ہو گا کہ قومیں کس طرح ترقی کرتی ہیں۔ اور قوموں کے درمیان
کس طرح اپنا مقام بلند کر تی ہیں۔ چین کے رہنماؤں نے سعودی عرب کے ارد گرد کے
حالات پر بھی اظہار خیال کیا ہو گا۔ شام، عراق، لیبیا، یمن، ایران پر بھی گفتگو ہو
ئی ہو گی۔ چین شام میں بشر السد حکومت کی حمایت کرتا ہے۔ چین نے سلامتی کونسل میں روس
کے ساتھ شام کے مسئلہ پر امریکہ کی چار قراردادوں کو ویٹو کیا تھا۔ سعودی عرب نے
شام میں حکومت کے خلاف باغیوں کی حمایت کی تھی۔ اور امریکہ کے ساتھ اس اتحاد میں
شامل تھا جو باغیوں کی پشت پنا ہی کر رہے تھے۔ اور انہیں اسلحہ اور تربیت دے رہے
تھے۔ یہ پالیسی مشرق وسطی میں جیسے تیل پر ماچس کی تیلیاں پھینک رہی تھی۔ چین روس
ایران لبنان اور مصر شام میں امریکہ کی سرپرستی میں باغیوں کی دہشت گردی کے ذریعہ
حکومت تبدیل کرنے کے خلاف تھے۔ سعودی عرب کو اپنے ہمسایہ میں اسے مثال نہیں بنانا
چاہیے تھا۔ سعودی عرب مشرق وسطی کے تنازعوں میں ہمیشہ غلط فیصلوں کی تاریخ کے ساتھ
رہا ہے۔
سعودی عرب کو اس خطہ بلکہ اسلامی دنیا کی قیادت کرنے کے موقعہ دئیے گیے
تھے۔ لیکن سعودی رہنماؤں نے قیادت کا یہ اعزاز امریکہ کو سونپ دیا تھا۔ اور تین
دہائیوں سے مشرق وسطی کی اور چھ دہائیوں سے اسلامی دنیا کی قیادت امریکہ کر رہا
ہے۔ سعودی اور خلیج کے رہنماؤں نے اس خطہ کے حالات کے بارے میں امریکہ کی کبھی
رہنمائی نہیں کی تھی۔ بلکہ امریکہ ان کے خطہ کے حالات کے بارے میں اپنے مفادات میں
عرب رہنماؤں کی رہنمائی کرتا تھا۔ یہ اس قیادت اور رہنمائی کے نتائج ہیں کہ مشرق
وسطی ہر طرف سے جنگوں کے شعلوں میں ہیں۔ اور اب صدر ٹرمپ کا "اپنی مدد آپ
کرو" پیغام سن کر ان کی آنکھیں کھل رہی ہیں۔ اور انہیں سابق صدر اوبامہ پر
غصہ ہے کہ انہوں نے ان کی کمر میں چھرا گھونپا ہے۔ اور شام میں انہیں شکست ہوئی
ہے۔ ادھر مشرق وسطی میں ایران کا اثر و رسوخ بڑھ گیا ہے۔ یہ سوال انہیں اپنے آپ سے
کرنا چاہیے۔
ایران
کا اثر و رسوخ 1997 میں کیوں نہیں بڑھا تھا۔ جب تہران میں اسلامی سربراہ کانفرنس
ہوئی تھی۔ جس میں 55 اسلامی ملکوں کے سربراہوں نے شرکت کی تھی۔ ایران نے عراق کو
بھی اس کانفرنس میں شرکت کی دعوت دی تھی۔ عراق ایران جنگ کے بعد دونوں ملکوں کے
درمیان یہ پہلا رابطہ تھا۔ ایک اعلی عراقی وفد اسلامی سربراہ کانفرنس میں شرکت
کرنے تہران آیا تھا۔ تہران میں یہ اسلامی یکجہتی اور اتحاد کا مظاہرہ تھا۔ اس وقت
شیعہ سنی سعودی عرب اور خلیج کی ریاستوں میں تنازعہ نہیں تھا۔ 1997 سے 2007 تک
مشرق وسطی میں ایران کا اثر و رسوخ کسی کا موضوع نہیں تھا۔ اس وقت صرف امریکہ کا
اثر و رسوخ تھا۔ اور امریکہ پر اسرائیل کا اثر و رسوخ تھا۔ مشرق وسطی میں امریکہ
کے Preemptive attack اورRegime change اس
خطہ کو عدم استحکام کر رہے تھے۔ اور سعودی عرب اور خلیج کی حکومتوں کو جو امریکہ
کے قریبی اتحادی تھے انہیں کمزور کیا جا رہا تھا۔ Regime change کے
نتیجہ میں جو سیاسی خلا پیدا ہو رہا تھا۔ بادشاہوں نے خود کو اس سے دور رکھا تھا۔ اور
امریکہ کو مشرق وسطی کے سیاسی خلا میں دھنس کر بیٹھنے کا موقعہ دے دیا تھا۔ سیاسی
خلا میں دھنس کر بیٹھنے سے امریکہ کی مشرق وسطی میں سیاسی اور سفارتی ساکھ بری طرح
متاثر ہوئی تھی۔ عرب حکمران اتنے احمق تھے کہ عراق میں Regime change کے
خوفناک نتائج ان کے سامنے تھے اور وہ شام میں Regime change کے
مطالبے کرنے لگے تھے۔ ان کے اس مطالبہ نے مشرق وسطی میں سیاسی خلا کو اور زیادہ
خطرناک بنا دیا تھا۔
روس
اور ایران مشرق وسطی کو اس سیاسی خلا سے آزاد کرانے آ گے آ ۓ ہیں۔ مشرق وسطی میں
ایران کی سیاسی ساکھ ہے۔ فلسطین اسرائیل تنازعہ میں ایران کا ایک مثبت رول تھا۔
لبنان کو استحکام دینے میں بھی ایران کا انتہائی اہم رول تھا۔ ایران کا اگر عراق
میں کوئی اثر و رسوخ ہوتا تو عراق میں بھی لبنان کی طرح ضرور استحکام آ جاتا۔ عراق
میں بھی شیعہ سنی اور عیسائی تھے۔ اور یہ مل جل کر ایک قوم بن جاتے۔ لیکن عراق میں
شیعہ سنی انتشار اسرائیل امریکہ کے اسٹرٹیجک مقاصد تھے۔ اور سنی عرب حکمران بھی ان
کے ساتھ شامل ہو گیے تھے۔ ترکی کی قیادت نے عراق پر اینگلو امریکہ کے حملہ کی
مخالفت کی تھی۔ اس لئے مشرق وسطی میں ترکی کی ساکھ تھی۔ لیکن پھر صدر طیب اردو گان
کے دور میں ترکی نے سعودی عرب امریکہ کے ساتھ شام میں Regime change کی
حمایت شروع کر دی تھی۔ جو ترکی کے عراق موقف کے بالکل برعکس تھا۔ ترکی نے سعودی
عرب کے ساتھ شام کی داخلی خانہ جنگی میں ملوث ہو کر اپنی ساکھ کو زبردست نقصان
پہنچایا تھا۔ ترکی دہشت گردوں کے دھماکوں کی لپیٹ میں آ گیا تھا۔ شام کی خانہ جنگی
ترکی کو عدم استحکام کر رہی تھی۔ ایران نے ترکی کی صورت حال سے کوئی فائدہ اٹھانے
کی کوشش کی تھی۔ نہ ہی عراق میں سیاسی عدم استحکام سے فائدہ اٹھایا تھا۔ سعودی عرب
اور اسرائیل کو مشرق وسطی میں ایران کا جو اثر و رسوخ نظر آ رہا تھا وہ دراصل مشرق
وسطی کو عدم استحکام سے نکالنے کی ایرانی کوششیں تھیں۔ ایران کے بارے میں سعودی
عرب کا Judgement غلط
تھا۔ عراق میں صد ام حسین کے بارے میں امریکہ اور اسرائیل کا یہ Judgement بھی
غلط تھا کہ صد ام حسین مشرق وسطی پر اپنا کنٹرول قائم کرنا چاہتے تھے۔ یمن کی جنگ
سعودی عرب نے خود اپنے اوپر مسلط کی ہے۔ ایران کا اس جنگ سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
نائن الیون کے بعد امریکہ یمن میں گیارہ سال سے القا عدہ کے خلاف فوجی آپریشن کر
رہا تھا۔ صدر علی عبداللہ صالح دہشت گردی کے خلاف جنگ میں امریکہ کے قریبی اتحادی
تھے۔ عرب اسپرنگ کی تحریک میں صدر صالح کا اقتدار چلا گیا تھا۔ اور امریکہ کو بھی
القا عدہ کے خلاف اپنے فوجی آپریشن چھوڑ کر یمن سے جانا پڑا تھا۔ یمن میں ان سیاسی
تبدیلیوں میں ایران کہیں بھی پکچر میں نہیں تھا۔ سعودی عرب نے یمن میں اپنی پسند
کی حکومت قائم کرنے کے لئے مداخلت کی تھی۔ یہ جنگ اب سعودی عرب کے گلے میں آ گئی
ہے۔ اور اس جنگ کا الزام ایران کے سر آ گیا ہے۔
مشرق
وسطی عدم استحکام کا شکار ہے اور سعودی عرب ہر طرف سے جنگوں میں گھرا ہوا ہے۔ اس
صورت حال میں سعودی عرب 70 بلین ڈالر کا اسلحہ امریکہ سے خرید رہا ہے۔ اس کے علاوہ
فرانس اور برطانیہ بھی تقریباً 30 بلین
ڈالر کا اسلحہ سعودی عرب کو فروخت کر رہے ہیں۔ اس طرح سعودی عرب عالمی ملٹری
انڈسٹریل کمپلیکس میں 100 بلین ڈالر انویسٹ کر رہا ہے۔ جبکہ شاہ سلمان کے چین کے
حالیہ دورے میں چین نے سعودی عرب کے ساتھ 65 بلین ڈالر کے ترقیاتی پروجیکٹ کے
معاہدے کیے ہیں۔ جاپان سے بھی سعودی عرب میں انویسٹ کرنے کے لئے کہا ہے۔ سعودی شاہ سلمان کا مشرقی ایشیا کے ملکوں کا
دورہ “Vision
2030” کے سلسلے
میں تھا۔ 2030 تک سعودی عرب کو جدید
صنعتوں اور ٹیکنالوجی کے شعبوں میں ترقی یافتہ بنایا جاۓ گا۔
خطہ میں جنگوں انتشار اور عدم استحکام کے حالات
میں سعودی عرب کو صنعتی ترقی دینے کا یہ منصوبہ اسرائیلی صنعتی ترقی کا ماڈل ہے۔ اسرائیل
65 سال سے جنگوں کے حالات میں ہے۔ اس کے اطراف ہر طرف دشمن ہیں۔ لیکن اس کے باوجود
اسرائیل نے صنعتی اور ٹیکنالوجی میں حیرت انگیز ترقی کی ہے۔ سعودی عرب کا “Vision 2030” بھی
مشرق وسطی میں انتشار کے حالات میں فروغ دیا جاۓ گا۔ سعودی حکومت “Vision
2030” کو خصوصی اہمیت دے رہی ہے۔ شاہ
سلمان نے مشرقی ایشیا کے تین ہفتہ کے دورے میں انڈونشیا ملیشیا جاپان اور چین سے
سعودی عرب میں انویسٹ کرنے اور صنعتیں لگانے کے معاہدے کیے ہیں۔ اس سے قبل گزشتہ
سال ڈپٹی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے امریکہ کے دورے میں کمپیوٹر کی
ٹیکنالوجی میں بڑی کمپنیوں کے اعلی حکام سے ملاقاتیں کی تھیں اور انہیں سعودی عرب
میں انویسٹ کرنے کی پیشکش کی تھی۔ ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے فرانس اور
جرمنی کے دورے بھی کیے تھے۔
اسرائیل
اور سعودی عرب دو مختلف مذہبی اور ثقافتی ملک ہیں۔ اسرائیل کے اطراف میں جنگ کے
حالات تھے۔ لیکن امریکہ اور یورپ اسرائیل کے لئے قریبی ہمسایہ تھے۔ اس لئے اسرائیل
نے جنگوں کے حالات میں اقتصادی اور ٹیکنالوجی میں حیرت انگیز ترقی کر لی تھی۔ لیکن
سعودی عرب کے لئے شاید یہ مشکل ہو گا۔ سعودی عرب کو “Vision 2030” میں اپنے خطہ
کے تمام ہمسايوں کو شامل کرنا ہو گا۔ اور اپنے خطہ میں استحکام لانا ہوگا۔
No comments:
Post a Comment