Monday, March 27, 2017

Trump Administration Has Suppressed A U.N. Report Accusing Israel’s Practices' Against Palestinians As An “Apartheid”

Trump Administration Has Suppressed A U.N. Report Accusing Israel’s Practices' Against Palestinians As An “Apartheid”   

This Is A Gross Violation of Free Speech
"Rima Khalaf U.N. official resign after pressure to withdraw report "Israel Apartheid




South African former Justice Richard Goldstone
Former New York State Supreme Court Judge, Mary McGowan, and U.N. officials, develop a report on war crimes committed in Gaza


مجیب خان
   
   اقوام متحدہ  کے اکنامک  اور سوشل کمیشن براۓ مغربی ایشیا کی ایگزیکٹو سیکرٹیری ریما خالف Rima Khalaf کی رپورٹ جو انہوں نے ایک امریکی Richard Falk  کے ساتھ لکھی تھی۔ جو قانون کے پروفیسر تھے اور اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے سابق Investigator تھے۔ جس میں فلسطینیوں کے خلاف اسرائیلی سلوک Apartheid کہنے پر اسرائیل اور ٹرمپ انتظامیہ اقوام متحدہ پر برس پڑے۔ ٹرمپ انتظامیہ نے اس رپورٹ کو شائع کرنے سے روک دیا ہے۔ اور اقوام متحدہ سے یہ رپورٹ واپس لینے کا مطالبہ کیا ہے۔ ٹرمپ انتظامیہ نے اقوام متحدہ کی فنڈنگ میں کمی کرنے کی دھمکی بھی دی ہے کہ اقوام متحدہ میں اسرائیل کی بہت زیادہ مخالفت ہوتی ہے۔ اقوام متحدہ میں امریکی سفیر نکی ہیلے Nikki Haley جو بھارتی نژاد امریکی ہیں۔ اقوام متحدہ میں اسرائیل کی مخالفت میں غالب رجحانات پر خاصی برہم ہیں۔ امریکی سفیر نے کہا اسرائیل کے خلاف پراپگنڈہ ایسے اراکین کی طرف سے ہوتا ہے جو اسرائیل کو تسلیم نہیں کرتے ہیں۔ اور اس پر حیرت نہیں ہے۔ امریکی سفیر اقوام متحدہ کی اسی بلڈنگ میں ایک ماہ قبل کرائمیا Crimea پر روس کے قبضہ پر شدید تنقید کر رہی تھیں۔ اور Crimea یوکرین کو واپس دینے کا مطالبہ کر رہی تھیں۔ جبکہ اسرائیل 65 سال سے فلسطینیوں کے علاقوں پر قابض ہے۔ اور فلسطینی 65 سال سے اسرائیلی فوجی قبضہ میں پیدا ہو رہے ہیں اور مر رہے ہیں۔ اسرائیلی بلڈوزر آتے ہیں اور فلسطینیوں کے گھروں کو گرا دیتے ہیں۔ انہیں گھروں سے بید خل کر دیتے ہیں۔ اور پھر وہاں شاندار یہودی بستیاں تعمیر کی جاتی ہیں۔ فلسطینی بچے عورتیں مرد بوڑھے کھلے آسمان تلے پڑے ہیں۔ انہیں زندگی کی بنیادی ضرورتوں سے بھی محروم کر دیا گیا ہے۔ اور اقوام متحدہ میں امریکی سفیر کا یہ کہنا ہے کہ اقوام متحدہ میں اسرائیل کی مخالفت بہت زیادہ ہے۔ اقوام متحدہ صرف طاقتور ملکوں کے مفادات میں کام کرنے کے لئے وجود میں نہیں لایا گیا تھا۔ اقوام متحدہ محکوم مظلوم اور کمزور انسانیت کے ساتھ انصاف کرنے، ان کے حقوق کا دفاع کرنے، ان کی آزادی اور سلامتی کی ضمانت دیتا ہے۔ اقوام متحدہ میں ان قوموں پر تنقید کی جاتی ہے۔ جو مظلوم اور محکوم انسانیت کے ساتھ غیر انسانی سلوک کرتی ہیں۔ اور انہیں ان کے بنیادی اور آفاقی حقوق سے محروم کر دیتی ہیں۔ جس پر تقریباً ہر امریکی صدر نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے Podium پر کھڑے ہو کر یہ کہا ہے کہ "آزادی ہر فرد کا آفاقی حق ہے۔"
    یہ بڑے دکھ کی بات ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ نے فلسطینیوں کے خلاف اسرائیل کے سلوک پر اقوام متحدہ کے کمیشن کی رپورٹ کو Suppress کیا ہے۔ یہ فیصلہ امریکہ کے Free Speech قدروں کے منافی ہے۔ اقوام متحدہ میں حکومتوں کے جا حارانہ اقدامات کی مذمت کی جاتی ہے۔ ان کی Freedom اور Free speech کو Suppress کرنے کی مذمت کی جاتی ہے۔ صدر جارج بش نے اقوام متحدہ کے سالانہ اجلاس سے خطاب میں ایران، عراق اور شمالی کوریا کو “Axis of Evil” کہا تھا۔ اقوام متحدہ کے کمیشن کی رپورٹ میں فلسطینیوں کے خلاف اسرائیلی سلوک کو Apartheid کہنے پرکیوں واویلا ہے۔ امریکہ ترقی یافتہ جمہوری ملک ہے۔ اور اسے اسرائیلی پالیسیوں پر عالمی تنقید قبول کرنا چاہیے۔ ریما خالف Rima Khalaf پہلی عرب خاتون ہیں۔ جنہوں نے یہ رپورٹ لکھی تھی۔ اردن سے ان کا تعلق ہے۔ سینیئر سفارت کار ہیں۔ اردن نے اسرائیل کو تسلیم کیا ہے۔ اور اسرائیل کے ساتھ اس کے سفارتی تعلقات ہیں۔ Rima Khalaf نے کمیشن کی رپورٹ میں اسرائیل کی ان نا انصافیوں کو بے نقاب کیا ہے جو اس نے کئی دہائیوں سے فلسطینیوں پر مسلط کی ہوئی ہیں۔ اور فلسطینیوں کے خلاف اسرائیل کے اس سلوک کو Apartheid کہا ہے۔ صرف یہ کہنے اور اسرائیل کے Behavior پر شدید تنقید کرنے پر ٹرمپ انتظامیہ کے دباؤ میں اقوام متحدہ نے یہ رپورٹ شائع کرنے سے روک دی ہے۔ اور اقوام متحدہ کی ویب سائیڈ سے بھی یہ رپورٹ ہٹا لی ہے۔ اس دباؤ کے نتیجہ میں Rima Khalaf  کو کمیشن سے استعفا دینا پڑا ہے۔ ایک عرب مسلم خاتون سفارت کار کے ساتھ ٹرمپ انتظامیہ نے یہ سلوک کیا ہے۔ امریکہ عرب دنیا میں عورتوں کو حقوق دینے کی بات کرتا ہے۔ لیکن امریکہ نے اردن کی ایک عرب Rima Khalaf کو فلسطینیوں کے ساتھ اسرائیل کی زیادتیاں بے نقاب کرنے کا حق نہیں دیا ہے۔ اردن میں ایک بہت بڑی آبادی فلسطینی مہاجرین کی ہے۔ وہ فلسطین اسرائیل تنازعہ کو زیادہ قریب سے دیکھ رہی تھیں۔ اس تنازعہ کی صورت حال کے جو اثرات فلسطینیوں کی زندگیوں پر ہو رہے ہیں۔ وہ انہیں بھی سمجھتی تھیں۔ انہیں اس تنازعہ پر اپنے تاثرات اس کمیشن کی رپورٹ میں بیان کرنے کا حق تھا۔ اور یہ Free speech تھا۔ ٹرمپ انتظامیہ کو ایک عرب مسلم سفارت کار خاتون کی اس رپورٹ کو Freedom اور Free speech کی اعلی امریکی روایت کے مطابق فراغ دلی سے قبول کرنا چاہیے تھا۔ لیکن ٹرمپ انتظامیہ نے اس رپورٹ کو Suppress کر کے عرب دنیا میں لوگوں کو غلط پیغام دیا ہے۔ اور اسرائیل کے Guilt کو Defend کرنے کا تاثر دیا ہے۔
    فلسطینیوں کے خلاف اسرائیل کے Apartheid سلوک پر یہ پہلی رپورٹ نہیں تھی۔ اس سے پہلے بھی اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کمیشن کی رپورٹیں آئی ہیں۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل کی رپورٹیں آئی ہیں۔ ان سب میں فلسطینیوں کے خلاف اسرائیلی سلوک پر سخت لفظوں میں تنقید کی گئی تھی۔ یورپی یونین کی اپنی رپورٹیں ہیں۔ جن میں نہ صرف تنقید کی گئی تھی بلکہ اسرائیلی پالیسیوں کی مذمت بھی کی گئی تھی۔ 2006 میں اسی موضوع پر صدر جمی  کارٹر کی کتاب Palestine Peace Not Apartheid   شائع ہوئی تھی۔ جس میں فلسطینیوں کے خلاف اسرائیلی حکومت کی پالیسیوں کا Apartheid سے موازنہ کیا گیا تھا۔ اس وقت اسرائیلی حکومت نے اس پر کوئی احتجاج کیا تھا اور نہ ہی امریکی حکومت نے اس کتاب کی فروخت کو روکا تھا۔ صدر کارٹر کی اس کتاب کو 11 سال ہو گیے ہیں۔ لیکن ان 11 سالوں میں فلسطینیوں کی زندگیوں میں کیا تبدیلی آئی ہے؟ اسرائیل کی پالیسیاں بدستور جارحانہ ہیں۔
    2014 کی غازہ جنگ کے دوران جنگی جرائم ہونے کے بارے میں اقوام متحدہ کے ایک Independent Commission کی رپورٹ میں اسرائیل اور حماس دونوں کو جنگی جرائم کرنے کا ذمہ دار ٹھہرایا گیا تھا۔ اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل نے اپنی میں رپورٹ میں اسرائیل کی اعلی درجہ پر سیاسی قیادت کو جو پالیسیاں بناتی تھی۔ انہیں جنگی جرائم کرنے کا ذمہ دار قرار دیا تھا۔ رپورٹ کے مطابق غازہ میں جنگ کے نتیجہ میں اتنی زیادہ تباہی ہوئی تھی اور لوگ یہاں جن تکلیفوں میں تھے اس کی نظیر نہیں ملتی تھی۔ اور آنے والی نسلوں پر اس کے گہرے اثرات ہوں گے۔ نیویارک سپریم کورٹ کی جج Mary McGowan Davis اس کمیشن کی سربراہ تھیں۔ رپورٹ میں اسرائیل پر شدید تنقید کی گئی تھی۔ اسرائیلی حکام نے اس رپورٹ کو مسترد کرتے ہوۓ اسے تعصب پر مبنی قرار دیا تھا۔ 29 جولائی 2009 میں ایمنسٹی انٹرنیشنل نے اپنی ایک رپورٹ میں غازہ میں اسرائیل کے جنگی جرائم  کے بارے میں ٹھوس ثبوت دئیے تھے۔ 135 شہری اس جنگ میں مارے گیے تھے۔
    جنوری 2009 میں غازہ جنگ کے دوران فلسطینی مقبوضہ علاقوں میں عالمی انسانی حقوق اور عالمی Humanitarian قانون کی خلاف ورزیوں کی تحقیقات اور حقائق جمع کرنے کے لئے اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل (UNHRC) نے ایک ٹیم تشکیل دی تھی۔ جس کے سربراہ رچرڈ گولڈ اسٹون  Richard Goldstone تھے۔ جو ایک یہودی تھے۔ گولڈ اسٹون کی تحقیقاتی ٹیم نے اپنی رپورٹ میں اسرائیل کی ڈیفنس فورسز اور فلسطینی انتہا پسندوں‎ کو غازہ میں جنگی جرائم کا ذمہ دار قرار دیا تھا۔ رپورٹ میں دونوں کو اپنے کردار کی خود تحقیقات کرنے کا مشورہ دیا گیا تھا۔ اور ان الزامات کو عالمی Criminal کورٹ میں لے جایا جاۓ۔ اسرائیلی حکومت نے رپورٹ کو Bias کہہ کر مسترد کر دیا تھا۔ اور یہ الزام بھی مسترد کر دیا تھا کہ شہریوں کو جان بوجھ کر نشانہ بنانے کی اسرائیلی پالیسی تھی۔ حماس نے ابتدا میں رپورٹ کے بعض حقائق تسلیم نہیں کیے تھے۔ لیکن پھر بعد میں عالمی طاقتوں سے اسے تسلیم کرنے  کا کہا تھا۔ گولڈ اسٹون رپورٹ میں اسرائیل کی پالیسیوں کی سخت لفظوں میں تنقید کی گئی تھی۔ ایک یہودی کے قلم سے یہودی ریاست پر تنقید سے اسرائیل برہم تھا۔
Mary Robinson آئرلینڈ کی سابق صدر تھیں۔ 1997 میں انہیں اقوام متحدہ کا کمشنر براۓ انسانی حقوق نامزد کیا گیا تھا۔ اور یہ بھی فلسطینیوں کے خلاف اسرائیل کی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر تنقید کرتی رہتی تھیں۔                               

No comments:

Post a Comment