Sunday, March 12, 2017

What Would Be The End of War Games?

What Would Be The End of War Games?  

Saudi King Salman Is In China Talking With Chinese Leaders About Economic Security For His Country   

 Israeli Prime Minister Netanyahu Is In Moscow Talking With President Putin About Security For His Nation

مجیب خان
Saudi King Salman walks with Chinese President Xi Jinping during a welcoming ceremony

Saudi King meets with Chinese President 

Russian President Putin meets with Israeli Prime Minister Netanyahu in Moscow
     امریکہ میں صدر چار سال کے لئے ہوتا ہے۔ اگر چار سال بعد عوام اسے دوبارہ منتخب کر لیتے ہیں۔ تو اسے چار سال اور مل جاتے ہیں۔ لیکن امریکہ کے آئین کے تحت وہ تیسری مرتبہ صدر نہیں ہو سکتا ہے۔ ایک اتنی بڑی دنیا کے لئے جس کی تقریباً 7 بلین کی آبادی ہے۔ امریکی صدر چار یا آٹھ سال کے مختصر عرصہ میں اپنے فیصلوں یا پالیسیوں سے دنیا کو بدل دیتا ہے۔ یا اس کا نقشہ بگاڑ دیتا ہے اور چلا جاتا ہے۔ اس کے اچھے فیصلے  بہت محدود دنیا کے مفاد میں ہوتے ہیں۔ لیکن اس کے برے فیصلوں سے ایک بہت بڑی دنیا بری طرح متاثر ہو جاتی ہے۔ اور دنیا کے لئے اس سے نکلنا مشکل ہو جاتا ہے۔ صدر بش کے دور میں دہشت گردی سیکورٹی کے لئے ایک بڑا مسئلہ تھا۔ افغانستان کو دہشت گردوں کی جنت بتایا گیا تھا۔ جہاں عرب دنیا کے انتہا پسندوں نے القا عدہ کے قائد ا سا مہ بن لادن کے ساتھ پناہ لے لی تھی۔ اور یہاں سے یہ امریکہ اور عالمی سیکورٹی کے لئے خطرے پیدا کر رہے تھے۔ لیکن اس صورت حال کا مقابلہ کرنے کے لئے صدر جارج بش کی تمام تدبیریں الٹی ہو گئی تھیں۔ سیکورٹی کے نام پر جنگیں سیکورٹی فراہم کرنے میں ناکام ثابت ہوئی ہیں۔ افغانستان 16 سال پہلے بھی سیکورٹی کے لئے خطرہ تھا۔ اور آج بھی سیکورٹی کے لئے خطرہ ہے۔ صدر بش کے آٹھ سال افغانستان سے سیکورٹی کے خطروں کا خاتمہ کرنے کی جنگ میں گزر گیے تھے۔ اس جنگ میں 27 نیٹو ملکوں کے ساتھ صدر بش نے پاکستان کو بھی شریک کر لیا تھا۔ پاکستان افغانستان کی سرحد پر تھا۔ اس لئے پاکستان کو سیکورٹی کے خطروں کے خلاف جنگ میں فرنٹ لائن بنایا گیا تھا۔ اس جنگ نے 27 نیٹو ملکوں اور امریکہ کی سیکورٹی کے لئے اتنے مسئلہ پیدا نہیں کیے تھے کہ جتنے خطرے پاکستان کی سیکورٹی لئے پیدا کر دئیے ہیں۔ صدر بش پاکستان کو نئی انتظامیہ کے حوالے کر کے چلے گیے تھے۔ اور پھر پاکستان کی طرف مڑ کر بھی نہیں دیکھا تھا۔
    امریکہ پر نائن الیون  کے حملہ میں تین ہزار لوگ مارے گیے تھے۔ لیکن پاکستان میں دہشت گردی کے خلاف جنگ میں 50 ہزار لوگ مارے گیے ہیں جن میں 5 ہزار فوجی تھے۔ افغانستان میں القا عدہ کے قائد ا سا مہ بن لادن کے خلاف اعلان جنگ کے بعد عراق میں بعث پارٹی کی حکومت کے صدر صد ام حسین بھی سیکورٹی کے لئے ایک بڑا خطرہ قرار دئیے گیے تھے۔ جس کے بعد بش انتظامیہ نے عراق کو بھی اس جنگ کا نیا محاذ بنا دیا تھا۔ اس محاذ پر ایک لاکھ عراقی مارے گیے تھے۔ اور تقریباً دو لاکھ عراقی بے گھر ہو گیے تھے۔ لیبیا کے صدر کرنل قدافی بھی سیکورٹی کے لئے خطرناک قیادتوں کی فہرست میں شامل تھے۔ کیونکہ صدر قدافی کے ملک میں مہلک ہتھیار تھے۔ صدر قدافی نے اپنے عوام اور ملک کو خوفناک تباہی سے بچانے کی غرض سے اپنے تمام کیمیائی، حیاتیاتی اور جوہری ہتھیار امریکہ کے حوالے کر دئیے تھے۔ جس کے بعد بش انتظامیہ نے صدر قدافی کو یہ سرٹیفکیٹ دیا کہ تھا اب وہ  سیکورٹی کے  لئے خطرہ نہیں تھے۔
     عرب اسپرنگ کی جمہوریت اور آزادی کی تحریک لیبیا پہنچ گئی تھی۔ صدر قدافی کے مخالفین سڑکوں پر نکل آۓ تھے۔ جو لیبیا کو جمہوری ملک بنانے سے زیادہ اسلامی ریاست بنانا چاہتے تھے۔ صدر قدافی نے امریکہ اور مغرب کو ان کی حکومت  کے مخالفین کے ان عزائم سے آگاہ بھی کیا تھا۔ لیکن امریکہ اور نیٹو طاقتوں نے اس موقعہ سے فائدہ اٹھاتے ہوۓ صدر قدافی کو اقتدار سے ہٹانے کا فیصلہ کر لیا تھا۔ امریکہ، برطانیہ، فرانس اور اٹلی نے تریپولی پر بمباری شروع کر دی۔ اور دنیا کو اس بمباری کی وجہ یہ بتائی گئی تھی کہ قدافی حکومت اپنے مخالفین کا قتل عام کرنے جا رہے تھے۔ اور لیبیا کو اس Blood Bath سے بچایا ہے۔ لیکن قدافی حکومت ختم ہونے کے بعد پھر ان لوگوں نے جنہیں امریکہ اور نیٹو نے Blood Bath سے بچایا تھا۔ انہوں نے قدافی کے حامیوں کا قتل عام شروع کر دیا تھا۔ اس میں القا عدہ، داعش اور دوسری دہشت گرد تنظیمیں شامل تھیں۔ لیبیا میں تقریباً دس ہزار لوگ مارے گیے تھے۔ اور یہ سلسلہ ابھی تک جاری ہے۔ دوسری طرف شام میں حیرت کی بات یہ تھی کہ اوبامہ انتظامیہ اور مغربی طاقتیں Blood Bath کو فروغ دے  رہی تھیں۔ داعش کے جو Faction اسد کے خلاف لڑ رہے تھے۔ انہیں “US back Rebel” کہا جاتا تھا۔ انہیں سی آئی اے کے کیمپوں میں تربیت دی جا رہی تھی۔ سعودی اور قطر انہیں فنڈ فراہم کر رہے تھے۔ شام کی خانہ جنگی 6 سال سے جاری ہے۔ ایک ملین بے گناہ شامی اس خانہ جنگی میں مارے گیے ہیں۔ اور 2 ملین شامی بے گھر ہو گیے ہیں۔ نائن الیون کو دنیا نے نیویارک میں صرف Twin Towers کا ملبہ دیکھا تھا۔ لیکن شام کو “US back Rebel” نے کھنڈرات بنا دیا ہے۔ صدر بش اور صدر اوبامہ نے سیکورٹی کے مسئلہ حل نہیں کیے تھے۔ بلکہ سیکورٹی کے لئے نئے مسائل پیدا کر کے گیے ہیں۔ سیکورٹی کبھی جنگوں سے نہیں آتی ہے۔ اور یہ ایک ملک یا چند ملکوں کی سیکورٹی کا سوال نہیں ہے۔ یہ Global World کی سیکورٹی کا سوال ہے۔ یہ Sovereignty کی سیکورٹی کا سوال ہے۔ عالمی اداروں کی سیکورٹی کا سوال ہے۔ یہ Rule of Law کی سیکورٹی کا سوال ہے۔
     6 ٹریلین ڈالر امریکہ نے مڈل ایسٹ کی جنگوں میں انویسٹ کیے ہیں۔ لیکن حاصل کچھ نہیں ہوا ہے۔ صدر ٹرمپ نے کانگرس کے مشترکہ اجلاس سے خطاب میں کہا ہے کہ 6 ٹریلین ڈالر سے امریکہ کو تین مرتبہ تعمیر کیا جا سکتا تھا۔ امریکہ کے شہروں میں خستہ حال سڑکیں اور پلوں کی تعمیر نو ہو سکتی تھی۔ امریکہ میں پرانے ایرپورٹ کو نئے اور جدید بنایا جا سکتا تھا۔ لیکن 6 ٹریلین ڈالر سے مڈل ایسٹ کے ملکوں کو تعمیر کیا گیا اور نہ ہی امریکہ کے شہروں میں تعمیر نو کے کام ہوۓ تھے۔ جنگوں کے مقاصد بھی پورے نہیں ہوۓ ہیں۔ عراق کا مسئلہ جنگ سے حل کرنے کے بجاۓ اگر ڈائیلاگ اور سفارتی طریقوں سے حل کیا جا تا تو آج صورت حال سب کے لئے بہت بہتر ہوتی۔ عراق کی تیل کی صنعت میں صد ام حسین مغربی کمپنیوں کو بھی حصہ دینے کے لئے تیار ہو جاتے۔ عراق جنگ کے نتیجہ میں 13 سال میں جو 6 ٹریلین ڈالر خرچ کیے گیے تھے۔ 13 سال میں اس کا نصف عراق کی تیل کی صنعت میں سروس اور تجارت سے بنایا جا سکتا تھا۔ بش اور اوبامہ انتظامیہ کی فوجی مہم جوئیاں اور Regime Change کرنے کی پالیسیاں بری طرح ناکام ثابت ہوئی ہیں۔ مڈل ایسٹ کو تبدیل کرنے کے لئے چین کا ماڈل اختیار کیا جا سکتا ہے۔ 35 سال میں چین نے حیرت انگیز ترقی کی ہے۔ سماجی اور معاشرتی تبدیلیاں آئی ہیں۔ ایجوکیشن اور اقتصادی ترقی سے لوگوں کی سوچیں بدل جاتی ہیں۔ آئیڈیالوجی  کا جنون ذہنوں سے نکل جاتا ہے۔ مڈل ایسٹ کے ڈکٹیٹروں اور حکمرانوں کو بھی چین کا ماڈل دیا جاتا۔ مڈل ایسٹ کو ایجوکیشن اور اقتصادی ترقی کے ذریعہ تبدل کیا جا سکتا ہے۔ چین کے ماڈل کو اگر عراق میں اختیار کیا جاتا تو عراق مڈل ایسٹ کا جنوبی کوریا بن جاتا۔ اور پھر مڈل ایسٹ کے دوسرے ملک بھی اس راستہ پر آ جاتے۔ عالمی ادارے اس میں اہم رول ادا کر سکتے تھے۔ لیکن یہ تبدیلیاں بیرونی فوجی مداخلت سے نہیں آ سکتی ہیں۔ بیرونی فوجی مداخلت سے صرف تباہی ہوتی ہے۔ اور قومیں تہس نہس ہو جاتی ہیں۔ ایک مسئلہ حل کرنے کے لئے جنگ سے دس اور مسائل پیدا ہو جاتے ہیں۔ اس لئے دنیا میں سفارت، سیاست اور جمہوریت کا نظام نافذ کرنے کے لئے عالمی ادارے قائم کیے گیے تھے۔
     مڈل ایسٹ کی جنگوں میں امریکہ کے جو قریبی اتحادی تھے۔ وہ اب تنہائی محسوس کر رہے رہیں۔ اور عراق شام اور یمن کی جنگوں کے شعلوں میں گھرے ہوۓ ہیں۔ بش اور اوبامہ اپنے اقتدار کی میعاد مکمل کر کے چلے گیے ہیں۔ امریکہ میں نئی ٹرمپ انتظامیہ کو مڈل ایسٹ میں حکومتیں تبدیل کرنے میں کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ صدر ٹرمپ کی تمامتر توجہ اس وقت امریکہ کے اندرونی Mess پر ہیں۔ دنیا میں جنگوں کی Mess کی دیکھ بھال پینٹاگان میں جنرل کر رہے ہیں۔ امریکہ میں انتظامیہ 4 سال یا 8 سال کے لئے ہوتی ہیں۔ اور پھر چلی جاتی ہیں۔ ان کی پالیسیوں کے نتائج کا سامنا دنیا کو کرنا پڑتا ہے۔
     امریکہ کے دو قریبی اتحادی سعودی عرب اور اسرائیل اب چو راہوں پر کھڑے ہیں۔ 16 سال کی جنگوں کے نتائج انہیں اب نظر آ رہے ہیں۔ سعودی شاہ محمد سلمان بیجنگ میں تھے۔ اور چین کے رہنماؤں سے اپنے ملک کی اقتصادی سلامتی کے لئے سمجھوتہ کر رہے تھے۔ جبکہ اسرائیلی وزیر اعظم نتھن یا ہو ماسکو میں تھے۔ اور صدر پو تن سے اپنے ملک کی سلامتی کے لئے ضمانتیں مانگ رہے تھے۔ حالانکہ اسرائیل کی سلامتی کے لئے Iron Dome اور Missile Defense Shield بھی ہے۔ لیکن اس کے باوجود جنگوں کی آگ سے خوفزدہ ہو رہے ہیں۔         
                                                                           

             

No comments:

Post a Comment