America’s New Korean War With The Grandson of Kim Il-Sung
“.All options are on the table”
But Palestinians Have Only One Option, Dialogue With Israel Forever
مجیب خان
The American aircraft carrier Carl Vinson during an exercise in South China sea |
U.S aircraft carrier USS Nimitz East Asia |
East Asia military build up |
"Kim Jong-un "we are ready for war |
North Korea |
مشرق
وسطی، شمالی افریقہ اور جنوبی ایشیا میں افغانستان کے حالات دیکھنے کے بعد یہ کیسے
یقین کیا جاۓ کہ شمالی کوریا دنیا کے امن اور سلامتی کے لئے ایک بڑا خطرہ ہے؟ بلکہ
یہ کیوں نہیں کہا جاۓ کہ مشرق وسطی، شمالی افریقہ اور جنوبی ایشیا کے حالات میں
شمالی کوریا کو بھی گھسیٹا جا سکتا ہے۔ عراق، لیبیا اور افغانستان میں طالبان کو
جن لفظوں میں کہ “All
options are on the Table” دھمکیاں دی
جاتی تھیں۔ اب ان ہی لفظوں میں یہ دھمکیاں شمالی کوریا کی قیادت کو دی جا رہی ہیں۔
بلکہ صدر ٹرمپ نے بڑے زور دار لہجہ میں کہا ہے کہ "شمالی کوریا کا مسئلہ حل
کیا جاۓ ورنہ امریکہ اسے حل کرے گا۔" ایسے ہی لفظ 15 پندرہ سال قبل صدر جارج
بش نے بھی عراق میں مہلک ہتھیاروں کا مسئلہ کرنے کے بارے میں استعمال کیے تھے۔
لیکن ایسی دھمکیوں سے مسئلے حل نہیں ہوتے ہیں۔ بلکہ مسئلے اور زیادہ پیچیدہ ہو گیے
ہیں۔ تاہم شمالی کوریا عراق نہیں ہے۔ اور ایسٹ ایشیا مڈل ایسٹ نہیں ہے۔ ایسٹ ایشیا
کے ان ملکوں نے امریکہ سے بڑی جنگیں لڑی ہیں۔ ان ملکوں کے لاکھوں شہری ان جنگوں
میں مارے گیے تھے۔ انہوں نے یہاں بڑی تباہی دیکھی تھی۔ ان کے ذہنوں میں ان جنگوں
کے زخم ابھی تک تازہ ہیں۔ یہاں شاید امریکہ سے اتنی نفرت نہیں ہو گی کہ جتنی جنگوں
سے یہاں لوگ نفرت کرتے ہوں گے۔ ایسٹ ایشیا میں جب جنگوں کے لئے حالات پیدا کیے جا
رہے ہیں۔ شمالی کوریا کے سیکورٹی انتظامات کو تباہ کرنے کی باتیں کی جا رہی ہیں۔
ایسٹ ایشیا میں امریکہ کی فوجی سرگرمیوں میں گرمی آ رہی ہے۔ بحر ساؤ تھ چائنا میں فوجی کشیدگی بڑھ رہی ہے۔
امریکہ کے بحری بیڑے ایسٹ ایشیا کے گرد حلقہ بنا رہے ہیں۔ اور جاپان کو اب فوجی
طاقت بننے کی شہ دی جا رہی ہے۔ مشرقی ایشیا میں نئے فوجی اتحاد بن رہے ہیں۔ مشرقی
ایشیائی ملکوں کے درمیان کشیدگی بڑھ رہی
ہے۔ اور مشرق وسطی کے بعد اب مشرقی ایشیا کا نمبر آ گیا ہے۔ شمالی کوریا کی قیادت
یہ حالات دیکھ کر اپنے ملک کی سلامتی میں اقدام کرے گی۔
مشرق وسطی میں تباہیاں لانے کے لئے عراق کو Epic center
بنایا گیا تھا۔ اور مشرقی ایشیا میں شمالی کوریا کو اس مقصد میں ٹارگٹ کیا جاۓ گا۔
امریکہ کی 30 ہزار فوجیں جنوبی کوریا میں شمالی کوریا کی سرحدوں کے قریب بیٹھی
ہوئی ہیں۔ جن کے پاس انتہائی خطرناک ہتھیار ہیں۔ یہاں امریکی فوجوں کی موجودگی کو
شمالی کوریا اپنی سلامتی کے لئے ایک بڑا خطرہ سمجھتا ہے۔ جبکہ واشنگٹن سے شمالی
کوریا کو دھمکیاں بھی مل رہی ہیں۔ اسے ہراس کیا جا رہا ہے۔ 20 سال سے شمالی کوریا
پر اقتصادی بندشیں لگی ہوئی ہیں۔ شمالی کوریا کے جو خدشات ہیں انہیں دور کرنے پر
کوئی توجہ نہیں دی جا رہی ہے۔ اقوام متحدہ چھوٹے اور کمزور ملکوں کی سلامتی اور
اقتدار اعلی کا تحفظ کرنے میں ناکام ہو گیا ہے۔ امریکہ کو جب یہ علم ہو گیا تھا کہ
عراق میں اب مہلک ہتھیار نہیں ہیں۔ امریکی فوجیں اسی روز عراق میں گھستی چلی گئی
تھیں۔ لیبیا میں صدر قدافی نے پرامن طور سے اپنے مہلک ہتھیاروں سے دستبردار ہونے
کا فیصلہ کیا تھا۔ اور اپنے مہلک ہتھیار بش انتظامیہ کے حوالے کر دئیے تھے۔ لیکن
پھر دوسری انتظامیہ جب اقتدار میں آئی اس نے لیبیا پر بمباری کر کے صدر قدافی کا اقتدار
ختم کر دیا ۔ اور صدر قدافی کو القا عدہ کے حوالے کر دیا تھا۔ اور انہوں نے صدر
قدافی کو قتل کر دیا تھا۔
اوبامہ
انتظامیہ نے روس، چین، برطانیہ، جرمنی اور یورپی یونین کے ساتھ شامل ہو کر ایران
کا نیوکلیر پروگرام ختم کرنے کا سمجھوتہ کیا تھا۔ اس سمجھوتہ کے تحت ایران نے اپنا
نیوکلیر پروگرام منجمد کر دیا تھا۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے اس سمجھوتہ کی
توثیق کی تھی۔ اور ایران اس سمجھوتہ پر عملدرامد
کر رہا ہے۔ لیکن امریکہ نے اس سمجھوتہ کے مطابق ابھی تک ایران پر سے پابندیاں ختم
نہیں کی ہیں۔ اور نئی ٹرمپ انتظامیہ اس سمجھوتہ کو ختم کرنے کا تہیہ کیے ہوۓ ہے۔
ٹرمپ انتظامیہ ایران کے ساتھ اس سمجھوتہ کو انتہائی خراب سمجھوتہ قرار دیتی ہے۔
لیکن اس سمجھوتہ میں خرابیاں کیا ہیں۔ اس کی کبھی نشاندہی نہیں کی ہے۔ حالانکہ روس
اور چین کے علاوہ امریکہ کے یورپی اتحادیوں جرمنی برطانیہ فرانس نے اسے ایک اچھا
سمجھوتہ کہا ہے۔ جس نے ایران کے ایٹمی پروگرام پر بریک لگا دئیے ہیں۔ لیکن دوسری
طرف بش انتظامیہ کو عراق پر حملہ کرنے کے بعد جب وہاں مہلک ہتھیار نہیں ملے تھے۔
تو بش انتظامیہ نے یہ کہا تھا کہ برطانیہ فرانس جرمنی روس اور دوسرے ملکوں کی
انٹیلی جنس کا بھی یہ ہی کہنا تھا کہ عراق میں مہلک ہتھیار تھے۔ امریکہ کی یہ
پالیسیاں اور فیصلے دراصل دنیا کے مسئلوں میں اضافہ کر رہے ہیں۔ اور دوسری حکومتوں
کے لئے مشکلات پیدا کر دی ہیں۔
Kim Jong Un اب
30 برس کا ہے۔ کوریا کی جنگ ختم ہونے کے تقریباً 34 سال بعد پیدا ہوا تھا۔ Kim کے Grand Father اور
Great Grand Father نے
50 کی دہائی میں کوریا میں امریکہ سے جنگ لڑی تھی۔ اور ٹرمپ انتظامیہ اب ان کے Grand Child سے
جنگ کرنے کی تیاری کر رہی ہے۔ Kim Jong Un نے 50 کی دہائی میں کوریا جنگ کی
فلم دیکھی تھی۔ اور اسے بتایا گیا تھا کہ کوریا جنگ میں 5 ملین لوگ کس طرح مارے
گیے تھے۔ جن میں کوریا کے فوجیوں اور شہریوں کی ایک بہت بڑی تعداد تھی۔ دوسری جنگ
عظیم سے زیادہ لوگ کوریا کی جنگ میں مارے گیے تھے۔ Kim کو یہ بھی
بتایا گیا ہے کہ آج امریکہ کے پاس زیادہ مہلک ہتھیار ہیں۔ اور وہ شمالی کوریا کو
قبرستان میں بدل سکتا ہے۔ پھر Kim کے سامنے عراق اور لیبیا کی مثال
بھی ہے کہ کس طرح امریکہ نے ان ملکوں کو اپنی بھر پور فوجی طاقت سے تباہ کیا ہے۔ اور
صد ام حسین اور کرنل قدافی کا کیا حشر ہوا تھا۔ یہ حقائق ہیں جو شمالی کوریا کی
قیادت کو صرف نیوکلیر ہتھیاروں میں محفوظ پناہ
دیکھا رہے ہیں۔ شمالی کوریا کی قیادت کو اب شاید کسی پر بھرو سہ نہیں ہے۔ صرف نیوکلیر ہتھیاروں پر بھرو سہ ہے۔
ٹرمپ
انتظامیہ کو ہراس اور دھمکیاں دینے کے بجاۓ شمالی کوریا کی قیادت میں Trust
بحال کرنے لئے اقدام کرنا ہوں گے۔ اس سلسلے میں جنوبی کوریا کے ساتھ دفاعی معاہدہ ختم کرنے کی پیشکش اور جنوبی
کوریا سے امریکی فوجیں واپس بلانے کا اعلان کرنا ہو گا۔ جنوبی کوریا کو براہ راست
شمالی کوریا سے مذاکرات کرنا ہوں گے۔ اور اس کے ساتھ تعلقات قائم کرنا ہوں گے۔
جنوبی کوریا امریکی فوجیں اپنی سرزمین پر رکھنے کے لئے امریکہ کو 800 ملین ڈالر
دیتا ہے۔ لیکن اس کے باوجود جنوبی کوریا اور خطہ کی سلامتی کو خطروں کا سامنا ہے۔
اگر جنوبی کوریا یہ 800 ملین ڈالر شمالی کوریا کی ترقی میں انویسٹ کرے تو اس کے
زیادہ مثبت نتائج امن کے مفاد میں ہوں گے۔
No comments:
Post a Comment