Sunday, April 9, 2017

Civilized Nations' Uncivilized Politics of "Gotcha"

Civilized Nations' Uncivilized Politics of "Gotcha"   

Since The 1990's, Every American President Has Used Bombs And Missiles In The Arab-Islamic Middle
East

Peace Will Come In The Middle East, When Commonsense Will Prevail Over The Nonsense

Why would Mr. Assad use chemical weapons when his army was 
winning and advancing in rebel-controlled areas? No army in the world would use unconventional weapons when they are winning the war with conventional weapons. When America was not winning in Japan, they used the Atom Bomb. And in Vietnam, America used Agent Orange.

مجیب خان
 American Ambassador in U.N Security Council

Israel's war on Gaza, Children killed by Israeli missile strike on Gaza  

Bloodshed in the Middle East

Children killed in Yemen
Iraq War Pollutants to blame for birth defects after using depleted Uranium

Children killed by U.S Drone in Afghanistan

    کیمیکل ہتھیاروں کا یہ حملہ اگر عراق میں ہوتا تو داعش ISIS کو اس کا الزام دیا جاتا۔ لیکن کیمیکل ہتھیار شام میں استعمال ہوۓ ہیں۔ لہذا فوری الزام اسد حکومت کو دیا گیا ہے۔ اور 48 گھنٹوں کے اندر شام پر حملہ کر دیا ہے ۔ شام پر 59  Tomahawkمیزائلوں کی بو چھار کر دی۔ اتنے تیز فیصلہ تیسری دنیا کے آمرانہ نظام میں ہوتے ہیں۔ جہاں سزائیں پہلے دی جاتی ہیں اور جرم بعد میں ثابت کیے جاتے ہیں۔ ایسے حالات میں جہاں 90 فیصد دہشت گردی 6 سال سے ہو رہی ہے۔ اسلامی انتہا پسندی ہر طرف چھائی ہوئی ہے۔ وہاں کیمیکل ہتھیاروں کے استعمال پر سو فیصد اسد حکومت کو ذمہ دار ٹھہرانا دراصل اسلامی انتہا پسندوں کی حوصلہ افزائی کرنا ہے۔ یہ بڑے حیرت کی بات ہے کہ امریکہ اور مغربی ملکوں نے القا عدہ  اور داعش پر ان ہتھیاروں کے استعمال پر شبہ تک نہیں کیا ہے۔ ساری دنیا سے القا عدہ اور داعش کے خلاف لڑنے کا شور مچا ہوا ہے۔ لیکن  امریکہ کو ان گروپوں پر اس قدر اعتماد ہے۔ بہرحال امریکہ اور یورپ  الزام تراشیوں کی عادت ترک کر کے اپنے مہذب ہونے کا ثبوت دیتے اور پہلے اس واقعہ کی تحقیقات کرائی جاتی کہ یہ ہتھیار کس نے استعمال کیے ہیں۔ شام میں 6 سال سے صرف دہشت گردی ہو رہی ہے۔ ہر طرف سے شام کی سرحدیں کھلی ہوئی ہیں۔ دنیا بھر سے اسلامی دہشت گرد شام میں داعش میں شامل ہونے آ رہے تھے۔ اسرائیل اور سعودی عرب بھی شام میں مداخلت کر رہے تھے۔ اور یہ صدر اسد کے Staunch Enemy ہیں۔ اسرائیل اور سعودی عرب شام میں اسلامی انتہا پسندوں کو قبول کر لیں گے لیکن ایران اور حزب اللہ کی شام میں موجودگی انہیں برداشت نہیں ہے۔
   امریکہ کے سیکرٹیری آف اسٹیٹ Rex Tillerson اور یورپی یونین کی خارجہ امور کی چیف Federica Mogherini کے اس بیان کے بعد کہ "صدر اسد کے اقتدار میں رہنے یا نہ رہنے کا فیصلہ شام کے عوام کریں گے۔" یہ کیمیکل ہتھیار استعمال کیے گیے ہیں۔ اب ذرا سوچنے کی بات ہے کہ اسد کی فوجوں کو جنگ میں جب کامیابی ہو رہی تھی۔ اور اسلامی دہشت گردوں کے قبضہ سے شام کی فوج نے ایک بڑے حصہ کو آزاد کرا لیا تھا۔ پھر اسد حکومت کیمیکل ہتھیار کیوں استعمال کرے گی؟ جنہیں  محاذ جنگ پر جب کامیابی نہیں ہو رہی ہوتی تو وہ Desperate ہو کر پھر Unconventional ہتھیار استعمال کرنے سے بھی گریز نہیں کرتے ہیں۔ جیسے امریکہ کو جاپان کے خلاف جنگ میں جب کامیابی نہیں ہو رہی تھی۔ تو امریکہ نے ایٹم بم استعمال کیے تھے۔ اور امریکہ یہ جنگ جیت گیا تھا۔ اب داعش ISIS اور القاعدہ کو عراق اور شام میں شکست ہو رہی تھی۔ اور ان پر کیمیکل ہتھیار استعمال کرنے کا شبہ کیا جا سکتا ہے۔  ٹرمپ انتظامیہ برطانیہ اور فرانس کا صرف اسد حکومت کو ذمہ دار ٹھہرانے کا موقف دراصل داعش اور القا عدہ کی حمایت میں ہے۔
Israeli Defense Minister Avigdor Lieberman said that “Assad ordered the chemical attack”. Lieberman said that “Syrian planes carried out the two chemical attacks which were directly ordered and planned by Syrian President Bashar Assad.” He stressed he was “100 percent certain.” The defense minister said he did not know if Russia was involved in the attack.
   شايد صدر ٹرمپ نے اسرائیلی وزیر دفاع کے اس بیان کو ایک ٹھوس ثبوت سمجھا تھا۔ اور اس بنیاد پر اسد حکومت کے خلاف فوری فوجی کاروائی کی ہے۔ جس طرح اسرائیلی وزیر دفاع کو یہ سو فیصد  یقین تھا کہ اسد حکومت نے کیمیکل ہتھیار استعمال کیے تھے۔ اسی طرح یہ بھی یقین سے کہا جا سکتا ہے داعش ISIS سعودی عرب اسرائیل خلیج کے ملکوں، امریکہ برطانیہ اور فرانس کا Joint Venture ہے۔ جس میں ترکی بھی شامل ہو گیا تھا۔ اسرائیلی وزیر دفاع کے اس بیان کے بعد امریکی میڈیا سے داعش ISIS  القا عدہ غائب ہو گیے ہیں۔ اور صرف بشر السد کو ٹارگٹ کیا جا رہا ہے۔ جس طرح صدام حسین کو ٹارگٹ کیا گیا تھا۔ ٹی وی چینلز پر گفتگو کی اسکرپٹ بھی بالکل وہ ہی ہے۔ بلاشبہ شام میں صدر اسد کی مخالفت ہے لیکن حمایت بھی ہو گی۔ جب ہی فوج ان کے ساتھ کھڑی ہے اور بہادری سے حکومت اور مملکت کا دفاع کر رہی ہے۔ مڈل ایسٹ میں کوئی ایسی حکومت نہیں ہے جس نے انسانیت کے خلاف کرائم نہیں کیے ہیں۔ 80 کی دہائی میں اسرائیلی جنرل ایرئیل شرون نے لبنان میں صابرہ اور شتیلا کے فلسطینی مہاجر کیمپوں پر بلڈوزر چلا دئیے تھے۔ ہزاروں بچوں عورتوں اور مردوں کی لاشیں کئی روز تک پڑی ہوئی تھیں۔ اور گدھ انہیں کھا رہے تھے۔ صدر جارج بش نے ایرئیل شرون کو Men of Peace کہا تھا۔ سعودی حکومت نے 150 شیعاؤں کو جن میں ایک شیعہ عالم دین بھی تھے۔ صرف سیاسی بنیاد پر انہیں موت کی ‎سزائیں دی تھیں۔ اور ان کے سر قلم کر دئیے تھے۔ امریکی میڈیا میں صرف صد ام حسین، کرنل قدافی اور اب بشر اسد بہت ظالم حکومتیں تھیں۔ اور یہ  حکومتیں انسانیت کے خلاف کرائم کرتی تھیں۔ صدر اسد کو اقتدار سے  ہٹانے کے بعد شام عراق سے زیادہ بدتر ہو گا۔ اور یہ طالبان کا افغانستان ہو گا۔ شام میں بھی سارے گروپ ہتھیاروں سے مسلح ہیں اور سی آئی اے کے تربیت یافتہ ہیں۔
   صدر ٹرمپ پانچویں صدر ہیں۔ جنہوں نے عرب اسلامی دنیا کے ایک اور ملک شام پر حملہ کیا ہے۔ عرب اسلامی دنیا میں امریکہ کے حملوں کا یہ سلسلہ 90 کی دہائی سے جاری ہے۔ صدر جارج   بش پہلے صدر تھے۔ جنہوں نے عرب اسلامی دنیا میں جنگ کی بنیاد رکھی تھی۔ اور عراق پر حملہ کیا تھا۔ کویت کو صد ام حسین کی فوجوں سے آزاد کرایا تھا۔ اقوام متحدہ نے عراق پر سخت ترین اقتصادی بندشیں لگائیں تھیں۔ اور عراق میں مہلک ہتھیاروں کو ختم کرنے کا حکم دیا تھا۔ پھر صدر بل کلنٹن کے دور میں 8 سال تک  اقوام متحدہ کی قراردادوں پر عملدرامد کرانے کے لئے عراق پر بمباری ہوتی رہی۔ 1997 میں صدر صد ام حسین نے جب اقوام متحدہ کے انسپکٹروں کو عراق میں داخل ہونے کی اجازت دینے سے انکار کر دیا تھا۔ صدر کلنٹن نے وزیر اعظم ٹونی بلیر کے ساتھ عراق پر حملہ کر دیا۔ اور تقریباً ایک ماہ تک روزانہ بمباری ہوتی رہی۔ صدر کلنٹن کے بعد صدر جارج بش نے 2003 میں عراق پر Preemptive حملہ کر دیا۔ صدر صد ام حسین کو اقتدار سے معزول کر دیا۔ صدام حسین قبر میں چلے گیے تھے۔ لیکن عراق پر بمباری کا سلسلہ پھر بھی جاری تھا۔ صدر بش کی عراق جنگ میں تقریباً ایک لاکھ بے گناہ عراقی مارے گیے تھے۔ جبکہ دو لاکھ عراقی بے گھر ہو گیے تھے۔ پھر صدر بش چلے گیے اور صدر اوبامہ آ گیے تھے۔ صدر  اوبامہ کے دور میں بھی عراق میں فوجی کاروائیاں ہوتی رہیں۔ اس کے علاوہ صدر اوبامہ نے کرنل قدافی کو اقتدار سے ہٹانے کے لئے نیٹو ملکوں کے ساتھ لیبیا پر بمباری کی تھی۔ یمن میں ڈر ون حملوں کے علاوہ فضائی طیاروں سے بمباری بھی کی تھی۔ جبکہ شام میں پراکسی جنگ شروع کی تھی۔ اور شام میں حکومت کے باغیوں کو اسد حکومت سے لڑنے کی شہ دی تھی۔ اس جنگ میں 4 لاکھ  بے گناہ شہری مارے گیے ہیں۔ جن میں ایک بڑی تعداد میں بچوں عورتوں اور مردوں کی ہے۔ اور اب صدر ٹرمپ نے اقتدار میں آنے کے صرف 77 دن میں شام پر میزائلوں سے حملہ کیا ہے۔ اور عراق میں موصل کو داعش سے آزاد کرانے کی جنگ میں امریکی طیاروں کی بمباری سے 300 عراقی مارے گیے ہیں۔ جن میں ایک بڑی تعداد میں بچے اور عورتیں تھے۔ 27 سال سے عرب اسلامی سر زمین پر صرف بم اور میزائل برس رہے ہیں۔ جس نے سیاسی عمل کو Bankrupt کر دیا ہے۔                                                 

                                                                                                                                                                                                                   

No comments:

Post a Comment