Wednesday, April 5, 2017

Middle East: The World’s Most Famous Region For Intrigue

Middle East: The World’s Most Famous Region For Intrigue    

مجیب خان  
Iraq after Saddam Hussein

Iraqis are running from wars

Syrian people are running from war

Syrians fleeing Aleppo

Once a thriving hub of Syria's oil industry, Deir Ezzour

    "صدر اسد کے مقدر کا فیصلہ شام کے عوام کریں گے" انقرہ میں سیکرٹیری آف اسٹیٹ Rex Tillerson کے اس اعلان کے بعد ٹرمپ انتظامیہ کی شام کے مسئلہ پر اب یہ نئی پالیسی ہے۔ وائٹ ہاؤس کے ترجمان نے صدر اسد کے بارے میں کہا "یہ ایک سیاسی حقیقت ہے۔ اور ہمیں اسے تسلیم کرنا چاہیے۔" یورپین یونین کی خارجہ امور کی چیف Federica Mogherini نے کہا "شام میں تنازعہ کے بعد صدر بشر السد کا مستقبل نہیں ہے۔ لیکن ان کے مقدر کا فیصلہ بالآخر شام کے عوام کو کرنا ہے۔" اس صدی کی خوفناک انسانی تباہی ہونے کے بعد اب یہ سیاسی حقیقت تسلیم کی جا رہی ہے کہ صدر اسد کے مقدر کا فیصلہ شام کے عوام کریں گے۔ اس سیاسی حقیقت کو 6 سال پہلے صدر اوبامہ کو تسلیم کرنا چاہیے تھا۔ اور انسانیت کو ایک بڑی تباہی سے بچانا چاہیے تھا۔ صدر اوبامہ کو صرف اس مقصد سے امن کا نوبل انعام بھی دیا گیا تھا۔ لیکن صدر اوبامہ عرب بادشاہوں کے کلب میں شامل ہو گیے تھے۔ جنہیں اپنے ہمسایہ میں صدر اسد سے دشمنی ہو گئی تھی۔ اور اسے اقتدار سے ہٹانے کے لئے عرب بادشاہوں نے اپنی عرب اسپرنگ مہم شروع کر دی تھی۔ ان کا یہ Adventurism انتہائی احمقانہ تھا۔ اس کا Endgame صرف انسانی تباہی میں نظر آ رہا تھا۔
    اسد حکومت کے باغیوں کی تحریک جن کی پشت پر مالدار عرب بادشاہتیں اور مغربی طاقتیں  تھیں۔ اگر ایک سال میں شام میں کوئی نمایاں کامیابی نہیں ہو سکی تھی۔ اس کا مطلب تھا کہ شام کے عوام، فوج اور بیوروکریسی میں اسد حکومت کی جڑیں بہت گہری تھیں۔ اسد حکومت کے باغی صرف شاخیں کاٹ رہے تھے۔ ان باغیوں کی سرپرستی کرنے والوں کا خیال تھا کہ جب تمام شاخیں کٹ جائیں گی تو اسد حکومت گر جاۓ گی۔ اس انتظار میں 6 سال گزر گیے۔ اور جب آنکھیں کھولیں تو شام  کھنڈرات بن چکا تھا۔ شام کے شہریوں کی لاشیں بحر روم میں تیر رہی تھیں۔ مغربی ملکوں کی سرحدوں پر لوگوں کا اژدہام تھا۔ جو شام میں خانہ جنگی سے اپنی جانیں بچا کر یہاں پناہ لینے آۓ تھے۔ دنیا نے بڑے انسانی بحران دیکھے تھے۔ لیکن ایسا انسانی بحران کبھی نہیں دیکھا تھا۔ جو مغربی ملکوں کے غیر ذمہ دار ہونے  کا نتیجہ تھا۔ تشدد اور تخریبی تحریکوں سے معاشرے جمہوری نہیں بنتے ہیں۔ عرب دنیا میں آزادی اور جمہوریت کو فروغ دینے کے لئے امریکہ نے 500 ملین ڈالر خرچ کیے تھے۔ پھر عرب اسپرنگ کی تحریک اٹھی تھی۔ جس کے نتیجہ میں مصر کی تاریخ میں پہلی مرتبہ جمہوریت آئی تھی۔ مصر کے عوام نے جنہیں بھاری اکثریت سے منتخب کیا تھا۔ یہ اخوان المسلمون  تھے۔ ان کے جمہوری عمل میں شامل ہونے سے اسرائیل اور خلیج کے حکمران خوفزدہ ہو گیے تھے۔ مصر میں جمہوریت کا فروغ عرب دنیا میں سیاسی انقلاب برپا کر دیتا۔ اور آج عرب دنیا کا سیاسی نقشہ بھی بہت مختلف ہوتا۔
    دنیا کے کسی دوسرے خطہ  میں حکمران شاید ایسی سازشیں نہیں کرتے ہیں کہ جیسے مشرق وسطی میں حکمران سازشیں کرتے ہیں۔ ان کی سازشوں سے جس میں اسرائیل بھی شریک تھا، مصر میں جمہوریت کا خاتمہ ہو گیا تھا۔ اخوان المسلمون کی  حکومت کو ناکام کرنے کے لئے سلا فسٹ نے گرجا گھروں پر حملہ شروع کر دئیے تھے۔ سیاحت کے مقامات پر دہشت گرد حملہ ہونے لگے تھے۔ سینا ئی میں بھی سلا فسٹ کی سرگرمیاں بڑھ گئی تھیں۔ پھر اخوان المسلمون حکومت کے حما س اور ایران کے ساتھ  رابطہ بڑھ رہے تھے۔ اسرائیل سینا ئی میں سلا فسٹ کی دہشت گردی کے خلاف اگر کاروائی کرتا تو اس پر اخوان المسلمون حکومت کا رد عمل ہوتا۔ اور یہ حکومت اسرائیل کے ساتھ مصر کا معاہدہ کالعدم کر دیتی۔ اور یہ اسرائیل کے مفاد میں نہیں ہوتا۔ اسرائیل مصر کے ساتھ محاذ آ رائی  کے دروازے دوبارہ کھولنا نہیں چاہتا تھا۔ لہذا اس صورت سے بچنے کے لئے مصر میں فوجی راج بحال کیا گیا تھا۔
  امریکہ اپنے خلیج کے اتحادیوں جن میں اسرائیل بھی شامل ہے۔ سب سے زیادہ با صلاحیت انتہائی قابل، عالمی امور پر اس کی مکمل گرفت تھی۔ دنیا میں آزادی اور جمہوریت کا محافظ تھا۔ لیکن پھر یہ کیسا معمہ تھا کہ مصر میں فوجی آمروں کو خاموشی سے قبول کرنے کے بعد جنہوں نے 900 مصریوں کو پھانسیاں دینے کا اعلان کیا تھا۔ جن کا سابق حکومت سے تعلق تھا۔ ان کے علاوہ فوجی حکومت کے ہزاروں مخالفین جیلوں میں تھے۔ جنہیں اذیتیں دی جا رہی تھیں۔ بے شمار مصری ان اذیتوں کے نتیجہ میں مر گیے تھے۔ آزادی پریس پر بندشیں تھیں۔ لیکن دوسری طرف صدر اوبامہ شام میں ڈکٹیٹر کو اقتدار سے ہٹانے کے اتحاد کے قائد تھے۔ اس اتحاد میں زیادہ تر عرب بادشاہ تھے۔ جو خود بھی ڈکٹیٹر تھے۔ حالانکہ عرب اسپرنگ بحرین میں پہنچ گیا تھا۔ امیر بحرین کے خلاف ہزاروں لوگ سڑکوں پر آ گیے تھے۔ امیر بحرین کی سیکورٹی فورس مظاہرین کا قلع قمع کرنے سڑکوں پر آ گئی تھی۔ سینکڑوں کی تعداد میں لوگوں کو حراست میں لے لیا گیا تھا۔ سیکورٹی فورس کی فائرنگ سے بہت سے لوگ مارے گیے تھے۔ سعودی عرب نے امیر بحرین کی مدد کرنے کے لئے اپنی فوجیں بھیجی تھیں۔ سعودی فوجوں اور امیر بحرین کی سیکورٹی  فورس نے حکومت کے باغیوں کو کچل دیا تھا۔ جس طرح بحرین کے امیر اور سعودی فوجیں حکومت کے باغیوں کے خلاف بھر پور طاقت کا استعمال کر رہے تھے۔ اسی طرح شام میں اسد حکومت اپنے باغیوں کے خلاف طاقت کا مظاہرہ کر رہی تھی۔ لیکن مغربی ملکوں اور اوبامہ انتظامیہ نے بحرین کے سیاسی حالات سے منہ موڑ لیا تھا۔ بحرین کے امیر شام میں اسد حکومت کے خلاف باغیوں کی حمایت میں صدر اوبامہ کی قیادت میں دوسرے عرب بادشاہوں کے ساتھ اتحاد میں شامل ہو گیے تھے۔ صدر اوبامہ مسلسل یہ اپیلیں کرتے رہے کہ “Assad must go” جبکہ سیکرٹیری آف اسٹیٹ ہلری کلنٹن یہ بیان دیتی رہی کہ "شام میں جمہوریت کا عمل شروع ہو چکا ہے۔ اور اسد کے لئے راستہ سے ہٹنے کا وقت آ گیا ہے۔" لیکن چھ سال گزرنے کے بعد حالات یہ گواہی دے رہے ہیں کہ شام میں جمہوری عمل اسلامی انتہا پسندوں، دہشت گردوں اور ہتھیاروں کے استعمال نے Hijacked کر لیا تھا۔
    صدر اوبامہ اب چلے گیے تھے۔ اور نئی ٹرمپ انتظامیہ عراق اور شام میں اسلامی انتہا پسندوں کا خاتمہ کرنے کو خصوصی اہمیت دے رہی ہے۔ میرے خیال میں شام کو اسلامی انتہا پسندوں کو ختم کرنے کے لئے محاذ بنایا گیا تھا۔ اور یہ خلیج کے ملکوں، اسرائیل اور امریکہ کا مشترکہ منصوبہ تھا۔ اسلامی انتہا پسندوں کے خلاف مختلف ملکوں میں کاروائیاں کرنے کے بجاۓ انہیں شام میں جمع کیا گیا تھا۔ اسد حکومت کی فوج سے لڑنے کے لئے ہتھیار دئیے گیے تھے۔ سی آئی اے ان گروپوں کے ساتھ ملوث تھی۔ ان میں بعض گروپوں کو ماڈریٹ بتایا جا رہا تھا۔ لیکن یہ ماڈریٹ گروپ اسلامی انتہا پسند گروپوں کے ساتھ  لڑ رہے تھے۔ پھر یہ گروپ آپس میں لڑنے لگے تھے۔ ان گروپوں کے اندر نئے گروپ بن گیے تھے۔ اور ان کے اندر خونریزی ہونے لگی تھی۔ متعدد اسلامی انتہا پسند اس خونریزی میں مارے گیے تھے۔ سعودی شاہ عبداللہ مرحوم نے مصر میں اخوان المسلمون کی حکومت کا خاتمہ ہونے پر کہا تھا "یہ سب دہشت گرد ہیں اور ان کا خاتمہ کیا جاۓ۔"
    شام کی خانہ جنگی کے پس پردہ ایک خیال یہ بھی تھا کہ بش انتظامیہ نے عراق سنیوں سے آزاد کرایا تھا۔ اور شیعاؤں کی حکومت قائم کی تھی۔ جن کی عراق میں اکثریت تھی۔ خلیج کی سنی عرب حکومتوں کا اوبامہ انتظامیہ سے اب یہ اصرار تھا کہ شام میں سنیوں کی اکثریت ہے اور شام میں اب سنیوں کو دیا جاۓ۔ لیکن 6 سال میں خانہ جنگی اسد حکومت کو گرانے میں ناکام ہو گئی تھی۔ اور اس کا مطلب یہ تھا کہ شام میں سنیوں کی اکثریت اسد حکومت کے ساتھ تھی۔ اور یہ سیکولر اور قوم پرست سنی تھے۔ جو شام کو اسلامی ریاست بنانے کے حق میں نہیں تھے۔
    خلیج کی حکومتیں عرب اسپرنگ کو ناکام بنانے میں کامیاب ہو گئی  تھیں۔ لیکن شام میں عرب اسپرنگ کو کامیاب کرنے کی جنگ وہ ہار گیے ہیں۔ اور یہ عرب دنیا میں حکومتوں اور مغربی طاقتوں کی Hypocrisy اور Duplicity ہے۔ جو تمام سیاسی بیماریوں اور لڑائیوں کی ماں ہے۔                                                                                                             

No comments:

Post a Comment