The Green Zone, No Fly Zone, And Red Line Is A New Middle East?
The Fall of Assad Government, Will It Be The Exodus of Christians From The
Middle East?
مجیب خان
Muslim and Christian Palestinians are fighting against Israeli occupation, but the west do not support violence |
Israel has a right to defend it's people and country from extremist and terrorists, with full force |
In Syria these extremists and terrorists are supported by the west |
Al-Qaeda in Syria is fighting with the ISIS |
“World is a mess” صدر ٹرمپ نے عالمی صورت حال کے بارے میں یہ بالکل درست کہا ہے۔ اور اس بارے میں کوئی دو راۓ نہیں ہو سکتی ہے۔ دنیا میں یہ Mess پیدا کرنے کے دو سابق صدر جارج بش اور برا ک ا و با مہ ذمہ دار ہیں۔ صدر جارج بش کی Mess صاف کرنے کے بجاۓ صدر اوبامہ نے اس میں نیا اضافہ کیا ہے۔ اور اب صدر ٹرمپ کے لئے دعا کی جاۓ کہ خدا انہیں Wisdom دے اور پہلے سے Mess میں دبی دنیا کو مزید Mess نہیں دیں۔ صدر بش افغانستان، عراق، القا عدہ اور ا سا مہ بن لا دن صدر اوبامہ کو دے کر گیے تھے۔ صدر اوبامہ نے آٹھ سال میں صرف ایک مسئلہ حل کیا تھا۔ اور بن لا دن کو دریافت کر لیا تھا۔ لیکن پھر بن لا دن کی جگہ ابوبکر الا بغدای ایجاد کر لیا جو داعش کا سربراہ تھا۔ داعش القا عدہ سے زیادہ بڑی اور خطرناک تنظیم تھی۔ القا عدہ نے نائن الیون کو امریکہ پر حملہ کیا تھا۔ لیکن داعش نے عرب عوام پر حملہ کیے ہیں۔ داعش کے علاوہ لیبیا شام یمن النصرہ الشہاب وغیرہ دنیا کے لئے نئی Mess تھے۔ صدر اوبامہ قانون کے پروفیسر تھے۔ لیکن صدر اوبامہ نے صدر بش کی جو قانون کو نہیں سمجھتے تھے ان کی Regime change پالیسی بھی جاری رکھی تھی۔ اور لیبیا پر نیٹو کے ساتھ Preemptive حملہ کر کے کرنل قدافی کو اقتدار سے ہٹایا تھا۔ اور القا عدہ نے قدافی کو قتل کر دیا تھا۔ عرب ملکوں کو اسلامی ریاست بنانے کا آغاز لیبیا سے ہوا تھا۔ لیبیا پہلی سنی ریاست تھی جسے صدر اوبامہ نے آزاد کرایا تھا۔ صدر بش نے عراق میں ایک سنی- عیسائی حکومت ختم کر کے شیعاؤں کو حکومت دی تھی جو عراق میں اکثریت میں تھے۔
صدا م حسین دنیا سے چلے گیے ہیں۔ لیکن 14 سال ہو
گیے ہیں۔ عراق ابھی تک جرمنی بن سکا ہے اور نہ ہی جاپان بنا ہے۔ جیسا کہ بش انتظامیہ
نے اس کے دعوی کیے تھے۔ مغربی میڈیا میں کبھی یہ نہیں بتایا گیا ہے کہ صدا م حسین
کے بعد عراق میں اب عیسا ئیوں کی کتنی تعداد ہے اور ان کے کتنے Church تباہ ہو گیے ہیں۔ عراق میں Regime change شیعاؤں سنیوں اور عیسا ئیوں کے
لئے Hell
ثابت ہوا ہے۔ اوبامہ انتظامیہ نے لیبیا میں Regime change کیا
تھا۔ اور اسے القا عدہ کو اسلامی ریاست
بنانے کے لئے دے دیا تھا۔ اور پھر لیبیا میں اسلامی ریاست کے خلاف ایک نئی جنگ
شروع کر دی تھی۔ اور یہ جنگ ابھی تک جاری ہے۔ اوبامہ انتظامیہ شام کو Regime change کی
جنگ کے ساتھ پانچ دہشت گروپوں کے خلاف جنگ میں لٹکا کر گیے ہیں۔ شام کی حکومت زندگی
اور موت کی جنگ لڑ رہی ہے۔ امریکہ اسرائیل سعودی عرب ترکی اس حکومت کے دشمن ہیں۔
اور داعش القا عدہ النصرہ دہشت گرد گروپ
اس حکومت کے خون کے پیاسے ہیں۔ اگر ان گروپوں کو موقعہ ملا تو یہ بشار الا اسد کو
بھی اسی طرح قتل کر دیں گے جیسے انہوں نے نیٹو کے واچ میں کرنل معمر قدافی کو قتل کیا تھا۔ بش اور اوبامہ
انتظامیہ کی پالیسیاں بہت Hotchpotch
تھیں۔ دہشت گردوں کے خلاف جنگ بھی جاری تھی۔ اور Regime change کر
کے دہشت گردوں کو نئے موقعہ بھی دئیے تھے۔ امریکہ کی ان پالیسیوں کے نتیجے میں
دنیا میں دہشت گردی کو فروغ ملا ہے۔ اس عرصہ میں اقوام متحدہ اور دوسرے عالمی تھنک
ٹینکس کی جتنی رپورٹیں آئی ہیں ان میں بھی دہشت گردی میں مسلسل اضافہ ہونے کا
بتایا گیا تھا۔
Institute for Economics and Peace کی
ایک رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ 2014 میں دہشت گردی میں 80 فیصد اضافہ ہوا تھا۔
اور یہ ایک ریکارڈ اضافہ تھا۔ رپورٹ کے مطابق 2014 میں دہشت گردی کے نتیجہ میں
ہلاکتوں میں بھی زبردست اضافہ ہوا تھا۔ 2013 میں دہشت گردی سے 18111 ہلاکتیں ہوئی تھیں۔ جو 2014 میں 32685 پر
پہنچ گئی تھیں۔ 2000 کے بعد سے دہشت گردی سے ہلاکتوں میں 9 گنا اضافہ ہوا تھا۔
رپورٹ کے مطابق دہشت گردی کے 57 فیصد حملے اور 78 فیصد ہلاکتیں صرف ان پانچ ملکوں
عراق، نائجیریا، افغانستان، پاکستان اور شام میں ہوئی تھیں۔ IEP کے ایگزیکٹو چیرمین
Steve Kellelea نے
2013 میں بی بی سی کو بتایا تھا کہ دہشت گردی سے ہلاکتوں میں شام میں خانہ جنگی کی
وجہ سے زبردست اضافہ ہوا تھا۔ شام میں یہ خانہ جنگی 2011 میں شروع ہوئی تھی۔ اور
شام میں عدم استحکام کے سیلاب نے عراق کو بھی لپیٹ لیا ہے۔ ایگزیکٹو چیرمین Steve Kellelea نے
کہا ہم یہ سمجھتے ہیں یہاں سے دہشت گردی کو فروغ ملا ہے۔
اگر
اوبامہ انتظامیہ شام کے معاملہ میں اس قدر غیر ذمہ دار ہونے کا ثبوت نہیں دیتی۔ روس
شام میں کبھی نہیں آتا۔ روس شام میں فوجی اڈے قائم کرنے اور امریکہ کے ساتھ نئی
جنگ شروع کرنے نہیں آیا ہے۔ یہ امریکہ کے Warmongers ہیں جو دنیا کو پھر 60s اور
70s کی
دنیا میں لے جانا چاہتے ہیں۔ دنیا کے تقریباً ہر خطہ میں انہوں نے جنگیں اور
کشیدگی پیدا کر دی ہے۔ روس شام میں Christianity کو بچانے آیا ہے۔ اگر اسد حکومت
گرتی ہے۔ تو مڈل ایسٹ سے یہ عیسا ئیوں کا انخلا ہو گا۔ شام میں عیسا ئیوں کی ایک
بہت بڑی آبادی ہے۔ ان کی قدیم مذہبی عبادت گاہیں ہیں۔ ان کی یہاں ایک قدیم تاریخ
ہے۔ روس نے دیکھا تھا کہ عراق میں عیسا ئیوں کے ساتھ کیا سلوک ہوا تھا اور مصر میں
ان کے ساتھ کیا ہو رہا ہے۔ پھر امریکہ نے بھی پوپ کی ان اپیلوں کو کوئی اہمیت نہیں
دی تھی کہ مسلمانوں کو عیسا ئیوں سے لڑایا جا رہا تھا۔ اور پھر پوپ کی یہ اپیلیں
کہ عیسا ئیوں کو مڈل ایسٹ سے نہیں نکالا جاۓ۔ شام میں تقریباً تین ملین عیسائی
رہتے ہیں۔ اور یہ صدر بشار الا اسد کی حمایت کرتے ہیں۔ امریکہ نے مڈل ایسٹ میں
عیسا ئیوں کے ساتھ جو سلوک ہو رہا اس کی صرف مذمت کی ہے۔ لیکن اس سے زیادہ ان کے
لئے کچھ نہیں کیا ہے۔ عراق، شام، لیبیا اور یمن کو امن سے دور اور عدم استحکام میں
رکھا ہے۔ اور دہشت گردوں کو دہشت گردی کرنے کی
پالیسی اختیار کی ہے۔
حیرت انگیز جہالت یہ ہے کہ لبنا ن میں حزب اللہ
عیسا ئیوں کے ساتھ حکومت میں ہے۔ اور اس نے لبنا ن میں سیاسی استحکام رکھا ہے۔ لیکن
اسرائیل اور سعودی عرب نے حزب اللہ کو دہشت گرد تنظیم قرار دیا ہے۔ یہ وہ ملک ہیں
جو عوام کی راۓ عامہ میں کبھی ایمان نہیں رکھتے ہیں۔ لبنا ن کے سنیوں اور عیسا
ئیوں کے لئے حزب اللہ کوئی مسئلہ نہیں ہے۔
اسی طرح ایران سے بھی اسرائیل کو تکلیف ہے۔ حالانکہ ایران کا لبنا ن کے امن اور
استحکام میں ایک اہم رول ہے۔ ایران اور حزب اللہ شام کے امن استحکام اور اس کی یکجہتی
کو بہت زیادہ اہمیت دیتے ہیں۔ لیکن امریکہ کا اتحاد ان ملکوں کے ساتھ ہے جو مڈل
ایسٹ کو عدم استحکام میں دیکھنا چاہتے ہیں۔ اور شام کے بعد صدر ٹرمپ کے ایجنڈہ میں
ایران میں Regime change اور
حزب اللہ کا خاتمہ کرنا ہے۔ اور اس کے بعد حما س کا نمبر ہو گا۔ حالانکہ حما س اور
فلسطینی عیسائی دونوں اسرائیلی فوجی قبضہ کے قیدی ہیں۔ اور دونوں اسرائیل کی فوجی جارحیت
کے خلاف مزاحمت کر رہے ہیں۔ لیکن یہ مغرب کا قانون انصاف ہے۔ یہ عیسائی اور اسلامی
فلسطینیوں کی اسرائیل کے خلاف Violence کی حمایت نہیں کرتے ہیں۔ لیکن دوسری
طرف اسرائیل کے ہمسایہ میں امریکہ اور یورپ شام میں حکومت کے خلاف Violence کی 6 سال سے حمایت کر رہے ہیں۔ اور انہیں ہتھیار دے رہے ہیں۔ اور انہیں
ہتھیاروں سے اپنے تنازعہ حل کرنے کی تربیت دے رہے ہیں۔ یہ پالیسیاں صورت حال کو aggravate
کرتی ہیں۔ حکومتیں چلی جاتی ہیں۔ جارج بش اور بارک اوبامہ بھی چلے گیے ہیں۔ لیکن
دنیا کو Violence میں
چھوڑ کر گیے ہیں۔ اسد حکومت کے جانے سے کیا دنیا میں یہ Violence ختم ہو جاۓ گا؟ عراق میں صد ام حسین
کے جانے کے بعد دنیا خوبصورت بننے کے بارے میں بھی بڑی Bullshit دی گئی تھی۔ لیکن
آج ہر طرف دنیا سرخ خون میں ڈوبی نظر آ رہا ہے۔
No comments:
Post a Comment